عدالت نے ڈی ایچ اے کے منصوبوں پر کام کی اجازت دیدی

کریک ٹیرسز اور کریک ویو کی تعمیر کے خلاف جاری حکم امتناع میں ترمیم کردی گئی ہے۔


Staff Reporter October 10, 2013
پلاٹ بلڈر کو شفاف نیلامی میں دیے، اتنی بڑی زمین رفاہی مقاصد کیلیے نہیں ہوتی. فوٹو؛ فائل

عدالت عالیہ نے ڈی ایچ اے فیز8 میں جاری اے کے ڈی کیپٹل لمیٹڈ کے 2 بڑے تعمیراتی منصوبوں''کریک ٹیرسز'' اور ''کریک ویو''کی تعمیر کے خلاف حکم امتناع واپس لیکر تعمیرات کی اجازت دیدی ہے۔

جسٹس سید حسن اظہررضوی پر مشتمل سنگل بینچ نے یہ اجازت ڈی ایچ اے کے وکیل کی جانب سے دیے گئے اس بیان کے بعد دی جس میں کہا گیا ہے کہ کریک ٹیرسز اور کریک ویو کے منصوبے رفاعی پلاٹ پر نہیں، ڈی ایچ اے کے وکیل بیرسٹر عابد زبیری نے بینچ کو بتایا کہ ''کریک ٹیرسز''اور ''کریک ویو'' کے تعمیراتی منصوبے ڈی ایچ اے کریک سٹی کا حصہ ہیں جس کے لیے90 ایکڑ زمین مختص کی گئی تھی،جس میں سے مذکورہ منصوبوں کیلیے25 ایکڑ اور 18ایکڑ کے 2 پلاٹ بلڈر کو کھلی نیلامی میں زیادہ بولی دینے پر دیے گئے،کسی ایک جگہ پر اتنی بڑی زمین کا ٹکڑا رفاہی مقاصد کے لیے نہیں ہوتا۔



اے کے ڈی کیپٹل لمیٹڈ، میسرز کریک ڈویلپرز کے وکلابیرسٹر فروغ نسیم اور بیرسٹر مرتضی وہاب کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ بلڈر نے یہ زمین کھلی نیلامی کیلیے شفاف طریقے سے حاصل کی ہے ، عدالت میں غلط بیانی کرکے حکم امتناع حاصل کیا گیا ہے کیونکہ جو نقشہ پیش کیا گیا ہے وہ اسٹیٹ ایجنٹ سے حاصل کردہ مینوئل بنایا گیا ہے، انھوں نے پیشکش کی کہ وہ عدالت کے اطمینان تک اس پراجیکٹ میں کسی اور فریق کی دلچسپی پیدا نہیں ہونے دیں گے۔

اے کے ڈی کیپٹل کی جانب سے موقف اختیارکیا گیا کہ دعویٰ بد نیتی کی بنیاد پر دائر کیا گیا ہے اور وہ پیشکش کرتے ہیں کہ اگر عدالت تعمیرات روکنے کے حکم امتناع میں ترمیم کرے تو عدالت کے مطمئن ہونے کی صورت میں اپنے نقصان کے خود ذمے دار ہونگے لیکن انھیں تعمیرات کی اجازت دی جائے جس سے نہ صرف منصوبے جلد مکمل ہونگے بلکہ شہر میں سرمایہ کاری کی وجہ سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہونگے جو کہ آج کی معیشت کے لیے ضروری ہیں، عدالت نے انکے اس موقف کو عدالتی کارروائی کا حصہ بناتے ہوئے اپنے پہلے حکم میں ترمیم کردی اور انھیں اپنی ذمہ داری پر تعمیرات شروع کرنے کی اجازت دیتے ہوئے سماعت 12نومبر تک ملتوی کردی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں