نیپا چورنگی پر تعمیرکی گئی عمارت میں اسپتال تاحال فعال نہ ہوسکا

حکومت سندھ 10 سال میں پونے 2 ارب خرچ کر چکی، عمارت کھنڈر میں تبدیل ہونے لگی

سابقہ نیپا جنرل اسپتال سیاسی بنیادوں پر من پسند افراد کو دینے کی تیاریاں شروع کر دی گئیں

حکومت سندھ گزشتہ 10سال میں پونے دوارب روپے خرچ کرنے کے باوجودبھی نیپاچورنگی پر تعمیرکی گئی عمارت کو اسپتال کی شکل دے کراسے فعال نہیں کرسکی ہے۔

اربوں روپے کی سرکاری زمین پر تعمیر یہ کئی منزلہ عمارت اب کھنڈرات میں تبدیل ہوتی جارہی ہے، قوم کے ٹیکسوں کی رقم سے تعمیرکی جانے والی عمارت یہاں کسی سرکاری اسپتال کی فعالیت کی منتظرہے جہاں غریب اورمتوسط طبقے کاعلاج ہوسکے تاہم اس عمارت میں اسپتال تو شروع نہیں ہو سکا البتہ اسپتال کی عمارت کے اطراف چارج پارکنگ کاسلسلہ جاری ہے۔

یارہے کہ نیپا چورنگی اور اردویونیورسٹی کے مابین تعمیر کیے جانے والے اس اسپتال کامنصبوبہ سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نے اپنے دور میں شروع کیا تھا، اس سے قبل 2004میں سابق میئرنعمت اللہ خان کے دورمیں سرکاری کاغذوں پریہ جگہ پبلک لائبریری کے لیے مختص تھی، اس جگہ ایک سرکاری عمارت توبن گئی تاہم اس میں اب لائبریری ہے اورنہ ہی عوام کیلیے کوئی سرکاری اسپتال ہے۔

قابل ذکرامریہ ہے کہ صفوراچورنگی سے شروع ہونے والے یونیورسٹی روڈاوراس کے اطراف لاکھوں نفوس پرمشتمل آبادی کے لیے کوئی سرکاری اسپتال ہی موجود نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس علاقے میں نجی اسپتالوںکی کثیرتعداد موجودہے اورعوام ان نجی اسپتالوں کارخ ہی کرنے پر مجبورہیں جبکہ کراچی میں اورنگی،کورنگی،لیاقت آباد،سعودآباد، ابراہیم حیدری سمیت ضلع جنوبی میں عوام کیلیے سرکاری اسپتال قائم ہیں لیکن گلشن اقبال کے عوام کیلیے کوئی سرکاری اسپتال قائم نہیں کیا جاسکا۔

اہم بات یہ ہے کہ گلشن اقبال کے عوام کے نام پرتعمیرکیے جانے والی اسپتال کی عمارت میں اسپتال توشروع نہیں ہوسکاتاہم سابقہ نیپا جنرل اسپتال سیاسی بنیادوں پرمن پسند افرادکودینے کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔


پیپلزپارٹی کی حکومت نے گلشن اقبال نیپا چورنگی پر ایک ارب 70کروڑ روپے مالیت سے تعمیرکیے جانے والے نیپااسپتال کواپنے موجودہ دورمیں بھی فعال نہیں کرسکی اورجنرل اسپتال کا حلیہ بھی بگاڑدیا اور ایک مخصوص فردکودینے کے لیے اسپتال کا نام خاموشی سے صوبائی کابینہ سے منظوری سے تبدیل کراکر ٹراما آرتھوپیڈک انسٹیٹوٹ وبحالی سینٹر رکھ دیا۔

اس کے باوجود بھی اسپتال کوفعال نہیں کیاجاسکااوراسپتال کوسیاسی بنیادوں پرسرکاری اسپتال سے رٹائرڈ ہونے والے ایک پروفیسرکے حوالے کرنے کی تیاریاں شروع کردی گئیں، ٹراماآرتھوپیڈک انسٹیٹوٹ وبحالی سینٹرکا رقبہ 4 ہزارگز سے زیادہ ہے جبکہ 3 منزلہ عمارت تاحال تعمیرات کے مراحل میں ہے۔

اس کی تعمیرات کا کام گزشتہ7سال سے جاری ہے، صوبائی کابینہ کے اجلاس میں سابقہ نیپا جنرل اسپتال کے نام ٹراما آرتھوپیڈک انسٹیٹوٹ وبحالی سینٹرکوخود مختار اورگورننگ باڈی کے تحت چلانے کی منظوری دی گئی تھی، سابقہ نیپا جنرل اسپتال 10سال قبل گلشن اقبال کے عوام کوطبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے تعمیرکرنے کا اعلان کیاگیا تھاجس کی تعمیرات کا بنیادی ڈھانچہ بھی جنرل اسپتال کی طرز پر تعمیرکیاگیا ہے تاہم حکومت سندھ نے اچانک اپنا فیصلہ تبدیل کردیا اور جناح اسپتال سے ریٹائرڈ ہونے والے ایک آرتھوپیڈک سرجن کواسپتال کا پروجیکٹ ڈائریکٹر مقررکرکے اسپتال کی حیثیت ہی تبدیل کردی گئی اور راتوں رات اسپتال کوجنرل اسپتال سے تبدیل کرکے خود مختارٹراما آرتھوپیڈک انسٹیٹوٹ وبحالی سینٹربنادیاگیا اوریہ تاثردیا گیا کہ مجوزہ انسٹیٹوٹ میں اب صرف ٹوٹی ہوئی ہڈیوںکا علاج اور فزیوتھراپی کاانسٹیٹوٹ بنایاجائے گا۔

اسپتال کی عمارت و تعمیرات اورآلات پر حکومت سندھ نے ایک ارب 73کروڑ 63لاکھ روپے خرچ کیے ہیں جبکہ مجوزہ اسپتال میں 4سوبسترمختص کیے گئے ہیں جس میں امراض نسواں،آرتھوپیڈک سمیت دیگر تمام شعبے جات بھی تعمیرکیے گئے ہیں۔

معلوم ہوا ہے کہ صوبائی حکومت نے گلشن اقبال میں جنرل اسپتال کی تعمیرکیلیے 7سال قبل اے ڈی پی اسکیم کی منظوری دی تھی اورکہاگیاتھاکہ گلشن اقبال میں سرکاری اسپتال نہ ہونے کی وجہ سے یہاںکے مکینوں کوعلاج و معالجے کی فراہمی کیلیے جنرل اسپتال تعمیر کیاجائیگا جس پر محکمہ صحت نے نیپا چورنگی میں 4سو بستروں پرمشتمل اسپتال کی اسکیم کی منظوری دیدی اور2010.11 میں اے ڈی پی اسکیم میں شامل کرلیا اور اسپتال کے لیے نیپا چورنگی پر جگہ مختص کی گئی ،10سال میں بھی اسپتال کی تعمیرات کاکام مکمل نہیںکیاجاسکا اوراب تک اسپتال کی تعمیرات وطبی آلات ومشنریوںکیلیے مجموعی طورپرایک ارب 73کروڑ63لاکھ روپے خرچ کیے جاچکے ہیں۔

واضح رہے کہ گلشن اقبال میں سرکاری اسپتال نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو حصول علاج کیلیے نجی اسپتال کا رخ کرنا پڑرہا ہے لیکن حکومت سندھ نے اپنے اقتدارکے دوران اسپتال کو فعال نہیںکرسکی اسپتال اب بھی تعمیرات کے مراحل میں ہے، دوسری جانب حکومت نے اب تک اسپتال کو فعال بنانے کیلیے فنڈجاری نہیں کیے۔
Load Next Story