کرتارپورکوریڈورتقریب شرکت کی دعوت پرمنموہن سنگھ کے آبائی گاؤں میں خوشی کی لہر

منموہن سنگھ اگر پاکستان آتے ہیں تووہ اپنا گاؤں بھی دیکھیں، گاؤں والوں کی خواہش

منموہن سنگھ چکوال کے نواحی گاؤں گاہ میں پیداہوئے فوٹو: فائل

پاکستان کی طرف سے بھارت کے سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کو کرتارپور کوریڈورکی افتتاحی تقریب میں شرکت کی دعوت دیئے جانے کے بعد چکوال کے قریب واقع منموہن سنگھ کے آبائی گاؤں گاہ کے مکنیوں میں خوشی کی لہردوڑگئی ہے.

بھارت کے سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کونومبرمیں کرتارپورراہداری کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے، منموہن سنگھ چکوال کے نواحی گاؤں گاہ میں پیداہوئے اورابتدائی تعلیم بھی یہاں حاصل کی تھی ، بھارت کا وزیراعظم بننے کے بعد ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپنے آبائی گاؤں کی مساجداورسکول کے لئے سولرپینل اورکمپیوٹرتحفے کے طورپربھیجے تھے جوآج بھی کام کررہے ہیں۔ گاہ کے رہائشی ایک بزرگ غلام محمدنے بتایا کہ وہ اورمنموہن سنگھ گاؤں کے پرائمری سکول میں اکھٹے پڑھتے اور کھیلتے تھے۔ گاؤں کے پرائمری سکول میں چہارم تک کلاسیں ہوتی تھیں، منموہن سنگھ خاصے ذہین اوراپنی کلاس کے مانیٹر تھے۔



چوتھی جماعت کے بعد منموہن کے والد انہیں مزید تعلیم کے پشاور لے گئے اس کے بعد وہ لوگ واپس نہیں لوٹے تھے کیونکہ اس دوران ملک کا بٹوارہ ہوگیا تھا۔ غلام محمد نے بتایا کہ منموہن سنگھ کے والد حلوائی تھے ، ہم سب لوگ اسے موہنا کہہ کربلاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ منموہن سنگھ اگر پاکستان آتے ہیں تووہ اپنا گاؤں بھی دیکھیں جہاں ان کی بچپن کی یادیں جڑی ہیں۔




گاہ گاؤں کے پرائمری اسکول کے ٹیچر غلام مرتضی نے بتایا کہ من موہن سنگھ 1937 سے 1941 تک اس سکول میں پڑھتے رہے ہیں اس کے بعد وہ پشاور چلے گئے تھے۔ اس سکول میں منموہن سنگھ سمیت کئی اہم شخصیات نے تعلیم حاصل کی ہے۔ گاؤں کا یہ پرائمری اسکول 1922 میں قائم ہواتھا۔انہوں نے کہا کہ جب وہ بھارت کے وزیراعظم بنے تو انہیں خوشی ہوئی کہ اس گاؤں میں پیداہونیوالے ایک بچہ اتنے بڑے ملک کا وزیراعظم بنا ہے ۔ غلام مرتضی کے مطابق جب منموہن سنگھ بھارت کے وزیراعظم بنے انہوں نے اس سکول کے لئے ٹاٹاکمپنی کے دوکمپوٹرتحفے کے طورپربھیجے تھے جوآج بھی چل رہے ہیں اسی طرح گاؤں کی تین مساجدکے لئے سولرپینل اورگرم پانی کے گیزربھیجے تھے۔ اسی گاؤں کے رہائشی محمدنوید،احمدخان سمیت دیگرکا کہنا تھا ان کے بزرگ بتایا کرتے تھے منموہن سنگھ بہت بھلا اورنیک بچہ تھا، اس کی سب سے زیادہ دوستی گاؤں کے ایک بزرگ محمدعلی سے تھی جو فوت ہوچکے ہیں، جب منموہن بھارت کے وزیراعظم بنے توبابامحمدعلی ان سے ملنے بھی گئے تھے وہ یہاں سے ان کے لئے ایک چپل اور چکوال کی مشہورسوغات ریوڑیاں لیکرگئے تھے۔ انہوں نے منموہن سنگھ کو پاکستان آنے کی دعوت دی تھی لیکن اس وقت پاک بھارت حالات کشیدہ تھے جس کی وجہ وہ پاکستان نہیں آسکتے تھے۔



 

سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ضلع چکوال کے چھوٹے سے گاؤں گاہ کو ماڈل ولیج کا درجہ دیا گیا اور چکوال سے گاہ تک کشادہ سڑک تعمیر کی گئی۔اس کے علاوہ حکومت نے کمیونٹی سینٹر، پرائمری اور ہائی سکول تعمیر کیے۔ گاؤں کی گلیوں کو پکا کیا گیا اور پینے کے صاف پانی کے ایک منصوبے سمیت کئی بنیادی سہولتیں فراہم کیں اور ترقیاتی کام کروائے گئے۔

گاؤں کے بزرگوں نے بتایا کہ اس گاؤں میں جتنے بھی سکھ خاندان آباد تھے وہ سب ہنسی خوشی یہاں رہتے تھے۔ جب 1947 میں تقسیم ہوئی تواس وقت سکھ خاندانوں کو اس گاؤں کے مسلمانوں نے ہاتھ تک نہیں لگایا تھا، وہ سب اپنی مرضی سے گاؤں چھوڑ گئے تھے۔ دوسرے علاقوں میں مسلم سکھ فسادات ضرورہوئے تھے لیکن یہاں کسی نے سکھ خاندانوں پر آنچ نہیں آنے دی تھی ۔گاؤں کے مکینوں کی خواہش ہے کہ من موہن سنگھ ایک بار اپنے آبائی گاؤں آئیں وہ ان کا ایسا استقبال کریں گے کہ دنیا یاد رکھے گی، ہم پیاربانٹیں گے،اس سے ہی باہمی نفرتیں کم ہوسکتی ہیں
Load Next Story