مارخور کی تلاش میں
ہنگول نیشنل پارک میں پاکستان کا قومی اور دنیا کا نایاب ترین جانور مارخور پایا جاتا ہے
کالی سیاہ رات میں سمندر کا ہیبت ناک شور خوفناک منظر پیش کررہا تھا۔ اگرچہ میں ساحل پر تھا لیکن پانی ایسا بپھرا تھا جیسے ابھی آدبوچے گا۔ اچانک بجلی کوندی اور بادل خوفناک انداز میں گرجے، جسے سن کر سٹی گم ہوگئی۔ ہم نے خیمے لپیٹے اور سامان سمیٹ کر گاڑیوں کی طرف دوڑ لگائی۔ پہلے تو دھکا لگاکر ریت میں دھنسی گاڑیوں کو نکالا۔ سامان رکھ کر گاڑی اسٹارٹ کرنے کے کوشش کی تو بیٹری زور لگاتی رہ گئی لیکن ایک گاڑی نے اسٹارٹ ہونے سے انکار کردیا۔ ہمارے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ گھروں سے سیکڑوں کلومیٹر دور کند ملیر میں تھے اور دور دور تک مکینک کا نام و نشان نہ تھا۔ ٹھہریئے میں شروع سے بتاتا ہوں۔ ہم دوستوں نے بلوچستان کے خوبصورت ساحلی مقام کند ملیر کی سیر کا پروگرام بنایا۔
کند ملیر بہت ہی خوبصورت ساحل ہے، جو بلوچستان کے 'ہنگول نیشنل پارک' میں واقع ہے۔ اگرچہ گوگل کے مطابق کراچی سے کند ملیر تک کا راستہ 4 گھنٹے کا ہے لیکن ہمیں وہاں پہنچنے میں 8 گھنٹے لگ گئے۔ میں آپ کو پوری تفصیلات سے بتاؤں گا کہ راستے میں کن مشکلات کی وجہ سے ایسا ہوا۔
کراچی سے باہر نکلیں گے تو بلوچستان کا پہلا شہر حب ہے، پھر وندر آتا ہے جس کے بعد ہنگول نیشنل پارک میں داخل ہوتے ہیں۔ وہاں پہنچنے کےلیے جو شاہراہ ہے اس کا نام مکران کوسٹل ہائی وے ہے۔ راستے میں ایک جگہ 'زیرو پوائنٹ' کے نام سے ہے، جس کے بعد کند ملیر تک راستے میں کوئی ہوٹل اور دکان نہیں۔ اس لیے سفر میں یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے۔
مکران کوسٹل ہائی وے بہت ہی جدید اور خوبصورت شاہراہ ہے، جو کراچی سے گوادر تک جاتی ہے۔ اس کے ایک جانب بلوچستان کے صحرائی و پہاڑی علاقے ہیں اور دوسری جانب بحیرہ عرب کا نیلگوں سمندر ہے۔
ہنگول نیشنل پارک نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے۔ اس علاقے میں بہنے والے دریائے ہنگول کی وجہ سے اس کا نام ہنگول نیشنل پارک رکھا گیا ہے۔ یہ کوئی سرسبز و شاداب نہیں بلکہ خشک علاقہ ہے۔ یہاں پہاڑ، ریت کے ٹیلے، صحرا اور سیلابی میدان ہیں، جو آبی پرندوں اور دلدلی مگرمچھوں کا مسکن ہیں۔
کند ملیر سے اگر مزید آگے جائیں تو ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد اورمارہ کا شہر آتا ہے۔ اس راستے میں بہت خوبصورت مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، جن میں گولڈن بیچ اور بوزی ٹاپ بھی شامل ہیں۔
ہفتے کی شام 4 بجے میں دوستوں کے ساتھ کراچی سے روانہ ہوا تو ماڑی پور روڈ پر شدید ٹریفک جام میں پھنس گیا۔ اگرچہ شہر میں رات 12 بجے سے پہلے ہیوی ٹریفک کے داخل ہونے پر پابندی ہے، لیکن شام سے ہی سڑکوں پر ٹرک اور ٹرالرز کا راج تھا، جس کی وجہ سے ٹریفک جام ہوگیا۔ یہ بھاری ٹرالرز جب کسی مہیب دیو کی طرح یک دم گاڑی کے پیچھے آکر پریشر ہارن بجاتے تو بندہ ویسے ہی پریشان ہوجائے۔
اس ٹریفک جام کی وجہ سے آدھے گھنٹے کا راستہ ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوا اور ہم بمشکل حب چوکی پہنچے، جہاں عصر کی نماز پڑھی۔ حب شہر میں داخل ہوئے تو ایک اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ سڑک پر بڑے بڑے گڑھے پڑے تھے جن میں بارش کا پانی جمع تھا۔ بہت خراب راستہ تھا، جس کی وجہ سے ایک بار پھر ٹریفک جام کا سامنا کیا اور گاڑیاں تقریباً رینگتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھیں۔ کسی نہ کسی طرح وہاں سے نکلے تو مغرب کا وقت ہوگیا۔
ہم 3 گاڑیوں میں 12 افراد تھے۔ جس طرح دوستوں کے ہر گروپس میں ایک دوست ایسا ضرور ہوتا ہے جو سب سے بڑا فن کار ہوتا ہے۔ تو بس ہمارے بھی ایک دوست عامر بھائی ہیں جنہوں نے ماہرانہ رائے دی کہ باربی کیو کےلیے کوئلہ کراچی سے نہیں لینا بلکہ راستے میں حب چوکی سے خریدیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کوئلہ تو آتا ہی بلوچستان سے ہے اس لیے وہاں تو سمجھو مفت ملے گا۔
حب سے ہم نے سلنڈر میں گیس بھروائی اور کوئلہ ڈھونڈا شروع کیا تو وہ سونے کی تلاش سے زیادہ مشکل مہم ثابت ہوئی۔ کوئلہ نہیں ہوا ہیرا ہوگیا۔ ایک ایک سے پوچھ رہے تھے کہ بھائی کوئلہ کہاں ملے گا تو کوئی ہمیں مشرق میں بھیجتا، کوئی جنوب میں بھیجتا۔ پھر کسی نے ہمیں ایک راستہ دکھایا، جس پر چلے تو جنگل میں جانکلے۔ تقریباً 8 کلومیٹر اندر جاکر خانہ بدوشوں کی بستی آئی۔ اس وقت تک اندھیرا چھاگیا تھا۔ وہاں سے اس سے زیادہ قیمت پر کوئلہ خریدا جتنی قیمت پر کراچی میں مل رہا تھا۔ اس چکر میں ہمارا ایک گھنٹہ مزید ضائع ہوگیا۔ اس سے ہمیں یہ تجربہ ہوا کہ کسی بھی سفر کا سامان راستے میں سے خریدنے کا نہ سوچو، بلکہ ہر چیز کا انتظام پہلے سے کرلیا جائے۔
اگرچہ اس سفر میں کافی مشکلات پیش آئیں، لیکن اگر خوش مزاج دوستوں کا ساتھ ہو تو مشکل بھی آسان ہوجاتی ہے، اس کے برعکس بدمزاج چڑچڑے لوگوں کے ساتھ آسانی بھی مشکل میں بدل جاتی ہے۔
حب سے ہم زیرو پوائنٹ پہنچے، جہاں سے ایک راستہ کوئٹہ کو جاتا ہے اور دوسرا راستہ سی پیک کا روٹ ہے، جو ہنگول نیشنل پارک اور گوادر جاتا ہے۔ حب کے بعد سڑک بالکل صاف ستھری سڑک ہے، جس پر بغیر رکے تیز رفتاری سے گاڑی چلا سکتے ہیں۔ یہ سنگل سڑک ہے جس پر دو طرفہ ٹریفک چلتی ہے اور سفر بہت خطرناک ہے۔ کیونکہ درمیان میں کوئی رکاوٹ اور فٹ پاتھ نہیں۔
ہمارے ایک اور انوکھے دوست ابراہیم اپنی ہائی جیٹ لائے تھے اور پہلی بار ہائی وے پر ڈرائیونگ کررہے تھے۔ ان کی خوفناک، غیر محتاط اور ناتجربہ کار ڈرائیونگ کی وجہ سے پیچھے بیٹھے ہم لوگوں کا خون خشک ہورہا تھا۔
رات کے پہر ہنگول نیشنل پارک میں داخل ہوئے تو دائیں بائیں دونوں طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ہماری گاڑی کی ہیڈ لائٹس اندھیرے کو چیر رہی تھیں، جن کی روشنی میں 3 گاڑیوں کا یہ قافلہ رواں دواں تھا۔ میں نے اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بڑی کوشش کی کہ کوئی ہرن یا جنگلی جانور نظر آئے لیکن کوئی غیر معمولی چیز نظر نہیں آئی۔ اس طرح 4 گھنٹے کا سفر 8 گھنٹے میں طے ہوا اور رات گئے ہم لوگ کند ملیر پہنچے تو بھوک کے مارے برا حال تھا۔ گاڑیوں سے سامان نکالنے کے فوراً بعد باربی کیو تیار کیا اور لذیذ کھانا تناول کیا۔
ابھی کھانے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ایک اور نئی افتاد آن پڑی۔ بادلوں کی گڑگراہٹ شروع ہوگئی اور بجلی کوندنے لگی۔ پھر بوندا باندی بھی شروع ہوگئی۔ بجلی اتنی زیادہ چمک رہی تھی کہ طوفان کے آثار دکھائی دینے لگے اور ڈر لگا کہ کہیں ہم گھر سے سیکڑوں کلومیٹر بیابان میں پھنس نہ جائیں۔
سارا سامان لپیٹ کر گاڑیوں میں رکھا اور کسی بھی خطرناک صورتحال میں فوراً نکلنے کا ارادہ کرلیا۔ لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ 'جو گرجتے ہیں، وہ برستے نہیں'۔ بس اسی کے مصداق خوش قسمتی سے طوفان ٹل گیا۔ آسمان بادلوں سے چھٹ گیا اور تارے نکل آئے۔
ہم لوگ بھی اطمینان سے واپس آگئے اور کیمپ لگالیے۔ اس روز ہم نے تاروں بھرے آسمان اور کہکشاں کو دیکھتے ہوئے سمندر کی لہروں کے شور میں ساحل پر رات گزاری، جو یادگار رہے گی۔ صبح ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا نے ہمارا استقبال کیا۔ فجر کی ادائیگی کے فوراً بعد سامان سمیٹا اور آگے بوزی ٹاپ کی طرف روانہ ہوئے جو انتہائی منفرد جگہ ہے۔ کوسٹل ہائی وے پر سمندر ہمارے بائیں جانب ساتھ چل رہا تھا۔ کبھی وہ پہاڑ اور ریت کے ٹیلوں کی اوٹ میں چلا جاتا اور پھر اچانک سے ایک دم سامنے آجاتا۔ پہاڑوں کو کاٹ کر بہت ہموار راستہ بنایا گیا ہے، جس پر سفر کرنا بہت ہی پرلطف تجربہ ہوتا ہے۔
راستے میں ایک جگہ ٹھہرے، جہاں پہاڑ کو سیڑھیوں کے انداز میں کاٹا گیا تھا اور سامنے کھائی میں ریت کے ٹیلے تھے۔
سورج کی کرنیں بادلوں سے چھن چھن کر آرہی تھیں اور نیچے وادی کو منور کرتے ہوئے بہت ہی دلفریب منظر پیش کررہی تھیں۔
مزید آگے روانہ ہوئے تو بوزی ٹاپ کا علاقہ شروع ہوگیا، جو کسی پراسرار تہذیب کا منظر پیش کرتا ہے۔ وہاں ایک پہاڑی کی چوٹی پر اہرام مصر کے فرعونوں کے مانند شیر کا مجسمہ بنا ہے۔ اس سے آگے امید کی شہزادی کا مجسمہ ہے۔ یہ پوری وادی اسرار میں لپٹی ہے۔ اور کسی طوفان کا شکار شہر کا منظر پیش کرتی ہے۔ جہاں بڑے بڑے قلعے ہیں، جن میں برج ہیں، اسٹیڈیمز ہیں۔
بعض لوگ تاویل پیش کرتے ہیں کہ شاید سمندری ہوا نے ریت کے پہاڑوں کو کاٹ کر انہیں ایسی شکل دے دی ہو۔ لیکن دیکھنے میں تو کسی شہر کے آثار اور کھنڈرات ہی لگتے ہیں۔ جہاں ہزاروں سال پہلے کوئی قوم رہتی ہوگی جو حوادث زمانہ، قدرتی آفت یا اللہ کے عذاب سے تباہ ہوگئی ہو۔
بہرحال وہ بوزی ٹاپ دیکھنے کی جگہ ہے۔ یہاں سے ہم نے واپسی کا رخت سفر باندھا اور راستے میں ایک بہت ہی خوبصورت ساحل گولڈن بیچ پر ناشتے کے لیے ٹھہرے۔ آسمان پر بادلوں کے ڈیرے تھے اور دھوپ بہت تیز نہیں تھی۔ بالکل صاف ستھرا ساحل تھا، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ سمندر کی لہریں شور مچاتے ہوئے ساحل پر آکر سر پٹخ رہی تھیں، جبکہ سامنے پہاڑ گہری ٹھنڈی نیلگوں دھند میں لپٹے تھے۔
اس کیفیت کے بارے میں کیا بتاؤں جو اس وقت ہم نے محسوس کی۔ بس ایک سرشاری سی سرشاری تھی۔ وہاں ہم نے ناشتہ کیا۔ واپسی پر ایک جگہ بہت ہی قدیم قبریں ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ محمد بن قاسمؒ کے دور کے مسلمانوں کی قبریں ہیں۔ اسی جگہ سے ایک راستہ ہنگول نیشنل پارک کے اندر جاتا ہے، جہاں پاکستان کا قومی اور دنیا کا نایاب ترین جانور مارخور پایا جاتا ہے۔ ساتھ ہی دریائے ہنگول بہہ رہا ہے جس کی مناسبت سے اسے ہنگول نیشنل پارک کہا جاتا ہے۔ پہاڑ کو کاٹ کر بنائی گئی سڑک پر چلتے جائیں تو آگے جاکر ایک وادی آتی ہے جسے دونوں طرف سے بہت ہی منفرد و عجیب پہاڑوں نے اپنے حصار میں لیا ہوا ہے۔ یہیں ایک قدیم مندر بھی ہے جو ہندوؤں کے نزدیک بہت ہی مقدس ہے۔
ان پہاڑوں میں مارخور پایا جاتا ہے۔ اس وادی میں گرمیوں میں بھی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ ہم سب دوستوں نے مارخور ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہ ملا۔ یہاں ہمارا یہ سفر اختتام پذیر ہوا اور پھر ہم واپس گھروں کو روانہ ہوئے۔
آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ خدارا اپنے محلے اور ملک کی صفائی ستھرائی کا ازحد خیال رکھیں اور کہیں بھی جائیں، کچرا نہ پھیلائیں۔
https://youtu.be/nW2S0E-ypAU
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کند ملیر بہت ہی خوبصورت ساحل ہے، جو بلوچستان کے 'ہنگول نیشنل پارک' میں واقع ہے۔ اگرچہ گوگل کے مطابق کراچی سے کند ملیر تک کا راستہ 4 گھنٹے کا ہے لیکن ہمیں وہاں پہنچنے میں 8 گھنٹے لگ گئے۔ میں آپ کو پوری تفصیلات سے بتاؤں گا کہ راستے میں کن مشکلات کی وجہ سے ایسا ہوا۔
کراچی سے باہر نکلیں گے تو بلوچستان کا پہلا شہر حب ہے، پھر وندر آتا ہے جس کے بعد ہنگول نیشنل پارک میں داخل ہوتے ہیں۔ وہاں پہنچنے کےلیے جو شاہراہ ہے اس کا نام مکران کوسٹل ہائی وے ہے۔ راستے میں ایک جگہ 'زیرو پوائنٹ' کے نام سے ہے، جس کے بعد کند ملیر تک راستے میں کوئی ہوٹل اور دکان نہیں۔ اس لیے سفر میں یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے۔
مکران کوسٹل ہائی وے بہت ہی جدید اور خوبصورت شاہراہ ہے، جو کراچی سے گوادر تک جاتی ہے۔ اس کے ایک جانب بلوچستان کے صحرائی و پہاڑی علاقے ہیں اور دوسری جانب بحیرہ عرب کا نیلگوں سمندر ہے۔
ہنگول نیشنل پارک نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے۔ اس علاقے میں بہنے والے دریائے ہنگول کی وجہ سے اس کا نام ہنگول نیشنل پارک رکھا گیا ہے۔ یہ کوئی سرسبز و شاداب نہیں بلکہ خشک علاقہ ہے۔ یہاں پہاڑ، ریت کے ٹیلے، صحرا اور سیلابی میدان ہیں، جو آبی پرندوں اور دلدلی مگرمچھوں کا مسکن ہیں۔
کند ملیر سے اگر مزید آگے جائیں تو ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد اورمارہ کا شہر آتا ہے۔ اس راستے میں بہت خوبصورت مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، جن میں گولڈن بیچ اور بوزی ٹاپ بھی شامل ہیں۔
ہفتے کی شام 4 بجے میں دوستوں کے ساتھ کراچی سے روانہ ہوا تو ماڑی پور روڈ پر شدید ٹریفک جام میں پھنس گیا۔ اگرچہ شہر میں رات 12 بجے سے پہلے ہیوی ٹریفک کے داخل ہونے پر پابندی ہے، لیکن شام سے ہی سڑکوں پر ٹرک اور ٹرالرز کا راج تھا، جس کی وجہ سے ٹریفک جام ہوگیا۔ یہ بھاری ٹرالرز جب کسی مہیب دیو کی طرح یک دم گاڑی کے پیچھے آکر پریشر ہارن بجاتے تو بندہ ویسے ہی پریشان ہوجائے۔
اس ٹریفک جام کی وجہ سے آدھے گھنٹے کا راستہ ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوا اور ہم بمشکل حب چوکی پہنچے، جہاں عصر کی نماز پڑھی۔ حب شہر میں داخل ہوئے تو ایک اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ سڑک پر بڑے بڑے گڑھے پڑے تھے جن میں بارش کا پانی جمع تھا۔ بہت خراب راستہ تھا، جس کی وجہ سے ایک بار پھر ٹریفک جام کا سامنا کیا اور گاڑیاں تقریباً رینگتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھیں۔ کسی نہ کسی طرح وہاں سے نکلے تو مغرب کا وقت ہوگیا۔
ہم 3 گاڑیوں میں 12 افراد تھے۔ جس طرح دوستوں کے ہر گروپس میں ایک دوست ایسا ضرور ہوتا ہے جو سب سے بڑا فن کار ہوتا ہے۔ تو بس ہمارے بھی ایک دوست عامر بھائی ہیں جنہوں نے ماہرانہ رائے دی کہ باربی کیو کےلیے کوئلہ کراچی سے نہیں لینا بلکہ راستے میں حب چوکی سے خریدیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کوئلہ تو آتا ہی بلوچستان سے ہے اس لیے وہاں تو سمجھو مفت ملے گا۔
حب سے ہم نے سلنڈر میں گیس بھروائی اور کوئلہ ڈھونڈا شروع کیا تو وہ سونے کی تلاش سے زیادہ مشکل مہم ثابت ہوئی۔ کوئلہ نہیں ہوا ہیرا ہوگیا۔ ایک ایک سے پوچھ رہے تھے کہ بھائی کوئلہ کہاں ملے گا تو کوئی ہمیں مشرق میں بھیجتا، کوئی جنوب میں بھیجتا۔ پھر کسی نے ہمیں ایک راستہ دکھایا، جس پر چلے تو جنگل میں جانکلے۔ تقریباً 8 کلومیٹر اندر جاکر خانہ بدوشوں کی بستی آئی۔ اس وقت تک اندھیرا چھاگیا تھا۔ وہاں سے اس سے زیادہ قیمت پر کوئلہ خریدا جتنی قیمت پر کراچی میں مل رہا تھا۔ اس چکر میں ہمارا ایک گھنٹہ مزید ضائع ہوگیا۔ اس سے ہمیں یہ تجربہ ہوا کہ کسی بھی سفر کا سامان راستے میں سے خریدنے کا نہ سوچو، بلکہ ہر چیز کا انتظام پہلے سے کرلیا جائے۔
اگرچہ اس سفر میں کافی مشکلات پیش آئیں، لیکن اگر خوش مزاج دوستوں کا ساتھ ہو تو مشکل بھی آسان ہوجاتی ہے، اس کے برعکس بدمزاج چڑچڑے لوگوں کے ساتھ آسانی بھی مشکل میں بدل جاتی ہے۔
حب سے ہم زیرو پوائنٹ پہنچے، جہاں سے ایک راستہ کوئٹہ کو جاتا ہے اور دوسرا راستہ سی پیک کا روٹ ہے، جو ہنگول نیشنل پارک اور گوادر جاتا ہے۔ حب کے بعد سڑک بالکل صاف ستھری سڑک ہے، جس پر بغیر رکے تیز رفتاری سے گاڑی چلا سکتے ہیں۔ یہ سنگل سڑک ہے جس پر دو طرفہ ٹریفک چلتی ہے اور سفر بہت خطرناک ہے۔ کیونکہ درمیان میں کوئی رکاوٹ اور فٹ پاتھ نہیں۔
ہمارے ایک اور انوکھے دوست ابراہیم اپنی ہائی جیٹ لائے تھے اور پہلی بار ہائی وے پر ڈرائیونگ کررہے تھے۔ ان کی خوفناک، غیر محتاط اور ناتجربہ کار ڈرائیونگ کی وجہ سے پیچھے بیٹھے ہم لوگوں کا خون خشک ہورہا تھا۔
رات کے پہر ہنگول نیشنل پارک میں داخل ہوئے تو دائیں بائیں دونوں طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ہماری گاڑی کی ہیڈ لائٹس اندھیرے کو چیر رہی تھیں، جن کی روشنی میں 3 گاڑیوں کا یہ قافلہ رواں دواں تھا۔ میں نے اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بڑی کوشش کی کہ کوئی ہرن یا جنگلی جانور نظر آئے لیکن کوئی غیر معمولی چیز نظر نہیں آئی۔ اس طرح 4 گھنٹے کا سفر 8 گھنٹے میں طے ہوا اور رات گئے ہم لوگ کند ملیر پہنچے تو بھوک کے مارے برا حال تھا۔ گاڑیوں سے سامان نکالنے کے فوراً بعد باربی کیو تیار کیا اور لذیذ کھانا تناول کیا۔
ابھی کھانے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ایک اور نئی افتاد آن پڑی۔ بادلوں کی گڑگراہٹ شروع ہوگئی اور بجلی کوندنے لگی۔ پھر بوندا باندی بھی شروع ہوگئی۔ بجلی اتنی زیادہ چمک رہی تھی کہ طوفان کے آثار دکھائی دینے لگے اور ڈر لگا کہ کہیں ہم گھر سے سیکڑوں کلومیٹر بیابان میں پھنس نہ جائیں۔
سارا سامان لپیٹ کر گاڑیوں میں رکھا اور کسی بھی خطرناک صورتحال میں فوراً نکلنے کا ارادہ کرلیا۔ لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ 'جو گرجتے ہیں، وہ برستے نہیں'۔ بس اسی کے مصداق خوش قسمتی سے طوفان ٹل گیا۔ آسمان بادلوں سے چھٹ گیا اور تارے نکل آئے۔
ہم لوگ بھی اطمینان سے واپس آگئے اور کیمپ لگالیے۔ اس روز ہم نے تاروں بھرے آسمان اور کہکشاں کو دیکھتے ہوئے سمندر کی لہروں کے شور میں ساحل پر رات گزاری، جو یادگار رہے گی۔ صبح ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا نے ہمارا استقبال کیا۔ فجر کی ادائیگی کے فوراً بعد سامان سمیٹا اور آگے بوزی ٹاپ کی طرف روانہ ہوئے جو انتہائی منفرد جگہ ہے۔ کوسٹل ہائی وے پر سمندر ہمارے بائیں جانب ساتھ چل رہا تھا۔ کبھی وہ پہاڑ اور ریت کے ٹیلوں کی اوٹ میں چلا جاتا اور پھر اچانک سے ایک دم سامنے آجاتا۔ پہاڑوں کو کاٹ کر بہت ہموار راستہ بنایا گیا ہے، جس پر سفر کرنا بہت ہی پرلطف تجربہ ہوتا ہے۔
راستے میں ایک جگہ ٹھہرے، جہاں پہاڑ کو سیڑھیوں کے انداز میں کاٹا گیا تھا اور سامنے کھائی میں ریت کے ٹیلے تھے۔
سورج کی کرنیں بادلوں سے چھن چھن کر آرہی تھیں اور نیچے وادی کو منور کرتے ہوئے بہت ہی دلفریب منظر پیش کررہی تھیں۔
مزید آگے روانہ ہوئے تو بوزی ٹاپ کا علاقہ شروع ہوگیا، جو کسی پراسرار تہذیب کا منظر پیش کرتا ہے۔ وہاں ایک پہاڑی کی چوٹی پر اہرام مصر کے فرعونوں کے مانند شیر کا مجسمہ بنا ہے۔ اس سے آگے امید کی شہزادی کا مجسمہ ہے۔ یہ پوری وادی اسرار میں لپٹی ہے۔ اور کسی طوفان کا شکار شہر کا منظر پیش کرتی ہے۔ جہاں بڑے بڑے قلعے ہیں، جن میں برج ہیں، اسٹیڈیمز ہیں۔
بعض لوگ تاویل پیش کرتے ہیں کہ شاید سمندری ہوا نے ریت کے پہاڑوں کو کاٹ کر انہیں ایسی شکل دے دی ہو۔ لیکن دیکھنے میں تو کسی شہر کے آثار اور کھنڈرات ہی لگتے ہیں۔ جہاں ہزاروں سال پہلے کوئی قوم رہتی ہوگی جو حوادث زمانہ، قدرتی آفت یا اللہ کے عذاب سے تباہ ہوگئی ہو۔
بہرحال وہ بوزی ٹاپ دیکھنے کی جگہ ہے۔ یہاں سے ہم نے واپسی کا رخت سفر باندھا اور راستے میں ایک بہت ہی خوبصورت ساحل گولڈن بیچ پر ناشتے کے لیے ٹھہرے۔ آسمان پر بادلوں کے ڈیرے تھے اور دھوپ بہت تیز نہیں تھی۔ بالکل صاف ستھرا ساحل تھا، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ سمندر کی لہریں شور مچاتے ہوئے ساحل پر آکر سر پٹخ رہی تھیں، جبکہ سامنے پہاڑ گہری ٹھنڈی نیلگوں دھند میں لپٹے تھے۔
اس کیفیت کے بارے میں کیا بتاؤں جو اس وقت ہم نے محسوس کی۔ بس ایک سرشاری سی سرشاری تھی۔ وہاں ہم نے ناشتہ کیا۔ واپسی پر ایک جگہ بہت ہی قدیم قبریں ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ محمد بن قاسمؒ کے دور کے مسلمانوں کی قبریں ہیں۔ اسی جگہ سے ایک راستہ ہنگول نیشنل پارک کے اندر جاتا ہے، جہاں پاکستان کا قومی اور دنیا کا نایاب ترین جانور مارخور پایا جاتا ہے۔ ساتھ ہی دریائے ہنگول بہہ رہا ہے جس کی مناسبت سے اسے ہنگول نیشنل پارک کہا جاتا ہے۔ پہاڑ کو کاٹ کر بنائی گئی سڑک پر چلتے جائیں تو آگے جاکر ایک وادی آتی ہے جسے دونوں طرف سے بہت ہی منفرد و عجیب پہاڑوں نے اپنے حصار میں لیا ہوا ہے۔ یہیں ایک قدیم مندر بھی ہے جو ہندوؤں کے نزدیک بہت ہی مقدس ہے۔
ان پہاڑوں میں مارخور پایا جاتا ہے۔ اس وادی میں گرمیوں میں بھی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ ہم سب دوستوں نے مارخور ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہ ملا۔ یہاں ہمارا یہ سفر اختتام پذیر ہوا اور پھر ہم واپس گھروں کو روانہ ہوئے۔
آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ خدارا اپنے محلے اور ملک کی صفائی ستھرائی کا ازحد خیال رکھیں اور کہیں بھی جائیں، کچرا نہ پھیلائیں۔
https://youtu.be/nW2S0E-ypAU
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔