42 سال کے بعد لاہور کا سفردوسرا اور آخری حصہ
ہم قلعے میں اندر گئے تو اس کے لیے ہم سے فی کس 30 روپے لیے گئے
جب مال روڈ پر آئے توکئی پرانی تاریخی عمارتیں نظرآئیں جنھیں مرمت کرکے اصلی حالت میں لایا گیا ہے جو مزید خوبصورت ہوگئی ہیں۔ ٹریفک میں وہاں کے شہری خود بھی خیال رکھتے ہیں اور قانونی خلاف ورزی کرنیوالوں پر بھاری جرمانے بھی عائد ہوتے ہیں۔ میں نے لاہور میں موٹرسائیکل والوں کو موبائل فون پر بات کرتے نہیں دیکھا جوکہ کراچی میں عام ہے۔ چنگچی بڑی تعداد میں چل رہے ہیں اور وہ تو خاص طور پر واہگہ سرحد پر بھی چلتی ہیں جو شالیمار باغ سے تقریباً 18 کلومیٹر دور ہے۔ وہاں پر رکشے والے، گاڑی والے موبائل کا چلتے ہوئے استعمال نہیں کرتے۔
جب انارکلی گئے تو ہم نے کہا پائے کھاتے ہیں، میں نے چھوٹے کے پائے کی ایک پلیٹ منگوائی جو 380 روپے کی تھی لیکن اس میں کوئی لذت نہیں تھی۔ جہاں بھی گئے سبزی کھانے کو دل نے کہا مگر ہوٹلوں پر صرف آلو گوبھی یا پھر گاجر ہوتی تھی، کہیں بھی کریلا، بینگن، توری یا اور سبزی نہیں ملی۔ سندھی بریانی ہر جگہ موجود تھی۔ کئی جگہوں پر لوگوں کو سندھی اجرک اور سندھی ٹوپی پہنے ہوئے دیکھا جس سے لگتا تھا کہ وہاں پر یہ پہناوا مشہور ہے۔ فلمی دفتروں اور سینما گھروں والا لکشمی چوک جب پہنچا تو وہاں پر سوائے چند سینما گھروں کے باقی ختم ہوچکے ہیں۔ پرنٹنگ پریس، کمپیوٹرز کی دکانیں پلازے اور دوسری بڑی بڑی مارکیٹیں بن چکی ہیں۔
لاہور کی یہ بات اچھی ہے کہ وہاں پر عمارتوں، اسپتالوں اور دوسری تاریخی عمارتوں کا نام اب بھی وہی ہے۔ مال روڈ پر ایک پبلک ٹوائلٹ دیکھا جو بڑا صاف تھا اور اس کی جگہ اچھی اور خوبصورت بنی ہوئی تھی۔ راستے میں چلتے چلتے سامنے لاہور پریس کلب کا بورڈ دیکھ کر گیٹ کے چوکیدار سے کلب کے جنرل سیکریٹری کا پوچھا جو گاڑی میں بیٹھنے والا ہی تھا کہ میں نے زاہد عابد آواز دے کر اسے روکا اور اپنا تعارف کروایا جس نے کلب کے منیجر کو بلاکر مجھے سینئر نائب صدر ذوالفقار علی مہتو کی طرف بھیجا جس نے ہماری بڑی خدمت کی اور ہمیں پورا کلب دکھانے کے لیے منیجر سے کہا۔ لاہور کلب اتنا بڑا اور اچھا تھا کہ وہاں کے ممبران کو یا پھر ان کی فیملیز کو کلب میں ہی تفریحی سہولیات مل جاتی ہیں۔وہاں اکثر و بیشتر فیملی فنکشنز منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ نیچے سے اوپر چڑھتے چڑھتے تھک گئے، ہر جگہ درختوں اور پودوں سے بھری ہوئی تھی آپ جہاں چاہے بیٹھیں یا کھیلیں آپ کو تنہائی کے ساتھ پر رونق بھی لگے گا۔ کلب میں ایک یوٹیلیٹی اسٹور بھی تھا۔وہاں کی کنٹین بھی بہت اچھی تھی جہاں رعایتی مگر معیاری کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔
ہمارے پاس صرف تین دن تھے اور تینوں دن بارش خوب برسی اور خاص طور پر دو دن تو اچھی خاصی تھی مگر بارش کے دوران بجلی کا بریک ٹاؤن نہیں ہوا اور پورے دنوں میں کبھی بھی بجلی کی آنکھ مچولی نہیں ہوئی۔ مصطفیٰ ٹاؤن میں بھی ایک فلٹر کا پلانٹ لگا ہوا تھا جہاں پر عملہ ہر وقت موجود تھا جہاں سے مکین پانی بھرنے آتے تھے اور ہم نے بھی وہاں سے پانی بھرا جو صاف اور شفاف تھا اور پینے میں اس میں مزہ آیا۔ بڑی بڑی کئی ٹوٹیاں لگی ہوئی تھیں جس میں سے ایک ہی وقت میں کئی لوگ پانی بھر سکتے ہیں۔
معمول کے مطابق ایک دن آزادی چوک چلے گئے جہاں سے ہم میٹرو بس سے اتر کر جیسے ہی Basement پہنچے تو وہاں پر پاکستان کی آزادی میں حصہ لینے والے لیڈروں کی تصاویر دیواروں میں لگی ہوئی تھیں۔ میں نے محمد ایوب کھوڑو کی پورٹریٹ کے ساتھ تصویر بنوائی۔ باہر نکل کر مینار پاکستان کی طرف گئے جہاں پر ایک Ferry میں بیٹھے جس نے دو آدمیوں کے 100 روپے وصول کیے اور ہمیں نیشنل ہسٹاریکل میوزم سے گھماتے ہوئے ہمیں بادشاہی مسجد، لال قلعہ اور مندر کی طرف جانے والے گیٹ پر اتار دیا۔ ان آثار قدیمہ پر مرمت کا کام جاری تھا جسے بڑا لیٹ شروع کیا گیا ہے جس سے آثاروں کو کافی نقصان ہوا ہے۔ اس مرمت کی وجہ سے کچھ آثار اچھے ہوگئے ہیں اور ابھی اس طرف جانا منع تھا۔
جب ہم قلعے میں اندر گئے تو اس کے لیے ہم سے فی کس 30 روپے لیے گئے، وہاں پہنچے تو ہر طرف ہرے پارک اور ہرے درخت دکھائی دیے اور کئی جگہوں پر ہرے پودے بھی تھے مگر پھولوں کی کمی شدت سے محسوس ہوئی۔ ایک درخت تو اتنا گھنا اور سایہ دار تھا کہ ہوٹل والے نے وہاں پر کئی گاہکوں کو بٹھایا تھا جس کی چھاؤں سے مزہ آرہا تھا۔ جب ہم شیش محل دیکھنے گئے تو وہاں کا ٹکٹ 100 روپے تھا جسکی وجہ سے کافی فیملیز واپس آ رہی تھیں۔ وہاں سے باہر نکل کر جب مینارِ پاکستان کی طرف آئے تو پانی میں کرائے کی کشتیاں چل رہی تھیں جس میں آنیوالے سیرکر رہے تھے۔ ان سارے آثاروں میں کہیں بھی بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی اور لوگ مجبوراً ہوٹلوں پر بیٹھے رہے تھے۔ موسم اچھا تھا اس لیے پیدل چلنے میں کوئی دشواری نہیں ہو رہی تھی۔ وہاں پر آنیوالی باہر ممالک کی خواتین کے ساتھ لوگ تصویریں بنوا رہے تھے اور وہ ٹوئرسٹ لڑکیاں خوش ہو رہی تھیں۔
ایک دن شالامار باغ دیکھنے گئے جہاں تک جانے کے لیے صرف چنگچی یا پھر رکشے کی سواری تھی اس لیے ہم ایک پرائیویٹ گاڑی سے وہاں آئے جس نے تقریباً 3 کلومیٹر کے 250 روپے وصول کیے۔ اس باغ کے چاروں طرف مکان بن چکے ہیں اور آبادی بڑھتی جا رہی ہے۔ اندر آئے تو وہی ہرے بھرے پودے، درخت اور فاؤنٹین تھے۔ اس باغ کی وسعت بہت بڑی تھی۔ جہاں بھی جارہے تھے ہمارا استقبال ہریالی کرتی تھی۔
کراچی آنے سے پہلے لبرٹی مارکیٹ کی طرف نکل پڑے وہاں پر بڑی رونق تھی مگر لبرٹی چوک کے فوارے نہیں چل رہے تھے جسکی وجہ سے منظرکافی خوبصورت ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ وہاں پر ٹریفک سگنل نہیں تھے اور نہ ہی پیدل چلنے والے پل جسکی وجہ سے ہمیں ایک کلومیٹر پیدل چل کر پیدل چلنے والا پل ملا جس سے ہم دوسری طرف آگئے جہاں سے ہمیں اسپیڈو بس مل گئی۔ گلبرگ کا علاقہ پوش علاقہ ہے اور بہت ساری نئی مارکیٹیں بن گئی ہیں مگر مجھے ان میں کراچی والی رونق اور حسن نہیں دکھائی دیا۔ بسوں میں ایک روایت جو لاہور میں نظر آئی وہ تھی بزرگ لوگوں کا نوجوانوں کی طرف سے احترام جو کراچی سے ختم ہوگیا ہے۔ جہاں کوئی بزرگ عورت یا مرد بس میں سوار ہوا نوجوان انھیں اٹھ کر اپنی جگہ دے دیتے تھے۔
جب میں 1977 کے دوران کراچی سے لاہور آیا تھا اورکافی وقت وہاں گزارا تھا تو اس وقت فلمی اسٹوڈیو، بدمعاشی اور پہلوانی بڑے عروج پر تھے جو مجھے ابھی کہیں بھی نظر نہیں آئے۔ لوگوں کی گفتگو میں ادب، پیار اور علم تھا اور وہ آپ کی مدد کرنے کو ہر دم تیار تھے۔ میں نے لاہور میں سیاسی صورتحال معلوم کرنے کے لیے زندگی کے ہر طبقے سے وابستہ لوگوں سے پوچھا جس میں تقریباً 95 فیصد لوگوں نے نواز شریف اور شہباز شریف کی تعریف اور حمایت کی۔
آنے سے پہلے میرے دل میں خیال آیا کہ لاہور میں تو وفاقی ادارے بھی ہونگے اور اسٹوڈنٹس کالجوں اور یونیورسٹی میں بھی پڑھتے ہونگے اس لیے میں نے کراچی اپنے دوست محمد اسماعیل پنہور کو فون کیا اور انھوں نے ایک انور چانڈیو کا نمبر دیا جو واپڈا میں کام کرتے ہیں اور دوسرے دوست حفیظ چنہ ہیں جو ایک سندھی اخبار کے لیے مارکیٹنگ بھی کرتے ہیں اور رپورٹر کا کام بھی سر انجام دیتے ہیں۔ انھوں نے بڑا اچھا Response دیا اور کہا کہ وہ ہفتہ اور اتوار کی وجہ سے لاہور سے باہر اپنی فیملی کے ساتھ آئے ہوئے ہیں اور میں اگر پیر کو رک جاؤں تو وہاں کافی دوستوں سے ملاقات ہو جائے گی لیکن اتوار کو میری گاڑی میں ریزرویشن تھی اس لیے ان کے ساتھ ملاقات نہ ہوسکی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ لوگ ہر سال دسمبر کے مہینے میں لاہور میں ایک زبردست کلچرل پروگرام کرتے ہیں جس میں شرکت کے لیے لاہور، اسلام آباد، ملتان، فیصل آباد اور دوسرے پنجاب کے علاقوں سے سندھی اور پنجابی شرکت کرتے ہیں۔ اس پروگرام کے لیے پنجاب حکومت کوآپریٹ کرتی ہے اور سندھ کلچر محکمہ سندھی فنکار بغیر معاوضے کے بھیجتے ہیں۔ ہمیں بھی دعوت دی گئی ہے جس کے لیے انشا اللہ دسمبر میں جاکر یہ پروگرام میں شرکت کرینگے۔
آخر میں، میں صرف اتنا کہوں گا کہ کراچی شہر ایک بین الاقوامی شہر ہے جہاں پر پورے پاکستان سے لوگ آکر روزگار کرتے، بزنس میں شرکت کرتے ہیں مگر وہاں کے رہنے والے اور باہر سے آنے والے کراچی کی قدر نہیں کرتے جس میں سب سے بڑی بات قانون کا ڈر نہیں ہے جس کے ہم حکومت سمیت ذمے دار ہیں جس کی وجہ سے کراچی کچرے کا ڈھیر اور گندے پانی کا تالاب بنتا جا رہا ہے۔ خدارا اس شہر سے پیار کرو۔