نوابزادہ لیاقت علی خان کی دفاعی حکمتِ عملی
شہیدملت نے ملک کی سرحدوں کو محفوظ و مستحکم اور افواجِ پاکستان کو منظم و لیس کیا
شہید ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کا شمار تحریکِ پاکستان کے اُن راہ نماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے ہر عالم میں قومی فرائض کی ادائیگی کو اوّلیت اور اہمیت دی۔ یہی وجہ ہے پاکستان اور تحریکِ پاکستان کے تاریخ میں قائداعظم محمدعلی جناح کے بعد وہ سب سے قدآور راہ نما کی حیثیت رکھتے ہیں۔ درحقیقت اُن کی زندگی ایک مجاہد کی زندگی تھی۔ ایک ایسے مجاہد کی زندگی جس کا مقدر شہادت ہوتی ہے۔
تحریکِ پاکستان کے دوران انہوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے اُن کے بیان کے لیے دفتر درکار ہیں۔ انہوں نے جس طرح نامساعد حالات میں قائداعظم کے شانہ بشانہ آل انڈیامسلم لیگ کی تنظیم نو، مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور تحریکِ پاکستان کی کام یابی کے لیے اپنے روزوشب وقف کردیے اُس کی مثال کم ہی راہ نماؤں کی زندگی میں ملتی ہے۔ مقصد سے وابستگی، اصولوں پر استقامت اور بے لوث جدو جہد اُن کی شخصیت کے غالب پہلو تھے۔
قائداعظم محمدعلی جناح ایک جوہرشناس قائد تھے، چناںچہ آپ نے نوابزادہ لیاقت علی خان پر نہ صرف سب سے زیادہ اعتماد کیا بلکہ اُن کی صلاحیتوں کو قومی مقاصد کے لیے زیادہ سے زیادہ بروئے کار لانے کی کوشش کی۔ یہی وجہ تھی کہ قیامِ پاکستان کے اعلان فوراً بعد آپ نے نوابزادہ لیاقت علی خان کو نومولود مملکت کا نہ صرف وزیرِاعظم نامزد کیا بلکہ وزارتِ دفاع اور امورخارجہ کا قلمدان بھی اُن کے ہی سپرد کیا۔
پاکستان اپنے قیام کے فوراً بعد سے ہی مختلف قسم کے مسائل و خطرات سے دوچار ہوگیا تھا۔ اِن مسائل میں سب سے بڑا اور اہم مسئلہ سرحدوں کے دفاع کا تھا جس کی جانب سے قائداعظم بھی اپنی آخری سانس تک تشویش میں مبتلا رہے۔
نوابزادہ لیاقت علی خان نے بحیثیت وزیرِدفاع نومولود مملکتِ پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لئے نہ صرف موثر عملی اقدامات کئے بلکہ عوام کو ہر مرحلہ پر اعتماد میں لیا تاکہ اُن کے حوصلے بلند رہیں اور وہ اپنی ذمہ داریوں سے احسن طریقے پر عہدہ برآ ہوسکیں۔
نوابزادہ لیاقت علی خان نے دفاعی نقطۂ نگاہ سے سب سے پہلے افواجِ پاکستان کو منظم کرنے کی جانب توجہ دی۔ تقسیم ہندوستان کے مرحلے پر مشترکہ دفاعی کونسل کے فیصلے کے مطابق پاکستان کو دفاعی افواج اور فوجی ساز و سامان کا یک تہائی حصّہ ملنا تھا لیکن یہ فیصلہ کاغذ تک ہی محدود رہا۔ تقسیم کے وقت کوئی خالص مسلمان رجمنٹ نہیں تھی۔
مزید یہ کہ جو افواج پاکستان کودی گئیں وہ پورے برصغیر میں پھیلی ہوئی تھیں۔ فوجی ساز و سامان کا ایک بڑا حصّہ جو پاکستان کو دیا گیا تھا۔ اُس کی ترسیل بھی اُس وقت روک لی گئی جب کشمیر کا مسئلہ کھڑا ہوا۔ نتیجہ یہ کہ جس وقت پاکستان قائم ہو تو اُسے نہایت غیرمنظم فوج اور نہایت ناکافی فوجی سازوسامان ترکے میں ملا۔ اگرچہ اِس مرحلے پر بحیثیت گورنرجنرل قائداعظم محمدعلی جناح بذاتِ خود نہایت اہم امور کی انجام دہی میں مصروف تھے لیکن آپ نے نوابزادہ لیاقت علی خان کی راہ نمائی اور حوصلہ افزائی کی تاکہ وہ مسائل کو بخوبی حل کرسکیں۔
نوابزادہ لیاقت علی خان نے ۳؍فروری ۱۹۴۸ کو سیالکوٹ میں ۱۰۳ ویں پیدل فوج کی پریڈ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی افواج کو زیادہ سے زیادہ طاقتور ہونا چاہیے کیوںکہ اِس وقت مسلمانانِ عالم کا مشتقبل پاکستان کے تحفظ پر منحصر ہے۔''۹؍اپریل ۱۹۴۸ کو ۱۱۴ بریگیڈ کی پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم کسی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے لیکن احتیاط، غیر جانب داری اور امن پڑوسی ممالک سے تعلقات کے ضمن میں ہمارے بنیادی اصول ہیں۔
کسی بھی قوم کی ترقی و تعمیر کے لیے امن بنیادی اہمیت رکھتا ہے قوم آپ پر مکمل اعتماد و بھروسا کرتی ہے اور مجھے یقین ہے کہ آپ بھی قوم کے اعتماد پر پورے اتریں گے۔ ہماری حتی المقدور کوشش یہی ہے کہ پاکستان کی افواج کو دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک بنادیں۔۱۵؍ اپریل ۱۹۴۸ کو ایچ ایم پی ایس ''قاسم'' کے افسران و عملہ سے کراچی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ نے اخراجات کا پچھتر فیصد مسلح افواج اور دفاعِ پاکستان پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ آپ بخوبی آگا ہیں کہ پاکستان کی سلامتی اور دفاع سب سے اہم مسئلہ ہے۔
۴؍مئی ۱۹۴۸ کو پاکستان کی مسلح افواج کے ایک دستہ سے ملیر کنٹونمنٹ کراچی میں خطاب کرتے ہوئے نوابزادہ لیاقت علی خان نے کہا کہ''ہم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن و آتشی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور ہم ہر ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے خواہش مند ہیں لیکن اگر کوئی ملک چاہے وہ دنیا کی بڑی طاقتوں میں سے ہی کیوں نہ ہو ہم پر حملہ کرے گا تو ہم اپنے حتمی وسائل اور اپنی پوری قوت کے ساتھ اپنا مکمل دفاع کریں گے۔
دو سو سال کے بعد ہم پہلی مرتبہ اِس برصغیر میں آزاد ہوئے ہیں۔ تاریخ میں ایسی قربانیوں کی کوئی مثال نہیں ملتی جو ہم نے اپنی آزادی کے حصول کے لیے دی ہیں۔ لاکھوں مسلمانوں نے پاکستان حاصل کرنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے لہذا اب ہمارا یہ اوّلین فرض ہے کہ ہم پاکستان کو ایک طاقت ور اور مضبوط مملکت بنادیں۔ یہ میری اور میری حکومت کی آرزو ہے کہ ہم اپنی مسلح افواج کو ممکنہ حد تک طاقت ور اور مضبوط بنادیں۔ اِس مقصد کے لئے ہم دفاع پر کثیر رقم خرچ کررہے ہیں۔ میں آپ سے بہت واضح طور پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب تک میں وزیراعظم اور وزیرِدفاع کے عہدہ پر موجود ہوں میں اپنی پوری کوشش کروں گا کہ اپنی مسلح افواج کو ناقابلِ تسخیر بنادوں۔
۱۴؍اگست ۱۹۴۸ کو پاکستان کی پہلی سال گرہ کے موقع پر ریڈیو پاکستان سے قوم سے خطاب کرتے ہوئے نوابزادہ لیاقت علی خان نے ملک کی سرحدوں کو لاحق خطرات کی نشان دہی کی اور کہا،''پاکستان کو ختم کرنے کی متعدد کوششیں کی گئیں لیکن پاکستان ہر طوفان کے مقابل سینہ سپر رہا۔ بلاشبہہ ایسا اُس حیران کن اعلیٰ جرأت اور شجاعت کے نتیجہ میں ہو ا جس کا مظاہرہ پاکستان کے عوام نے کیا ۔ اگر ہر پاکستانی کے ذہن میں صرف ایک خیال موجود رہے کہ پاکستان کے تحفّظ اور فلاح کے لیے ہر قسم کی قربانی دی جائے گی تو پاکستان باقی رہے گا اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جائے گا۔
بابائے قوم قائداعظم محمدعلی جناح کی رحلت پر ۱۲؍ ستمبر ۱۹۴۸ کو نوابزادہ لیاقت علی خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے جہاں اِس سانحہ عظیم کو صبرو سکون کے ساتھ برداشت کرنے کی تلقین کی وہاں اِس امر پر بھی زور دیا کہ اِس سوگوار لمحہ میں عہد کریں کے وہ پاکستان کی سلامتی، استحکام ، دفاع اور ترقی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیں گے۔
قائداعظم کے رحلت پا جانے سے پاکستان کی قیادت میں بڑا خلاء پیدا ہوگیا تھا۔ ایسے نازک اور پُرآشوب دور میں نوابزادہ لیاقت علی خان نے قوم کی راہ نمائی کی، اُس میں جوش و جذبہ پیدا کیا۔ اُن کے دلوں میں جُرأت اور استقامت کا فولاد پگھلادیا تاکہ وہ دشمن کی جارحیت کے خلاف سینہ سپر ہوسکیں اور پاکستان کے وجود پر کوئی حرف نہ آسکے۔
قائداعظم کے انتقال کے بعد نوابزادہ لیاقت علی خان تقریباً تین سال ایک ماہ اور پانچ دن زندہ رہے۔ یہ دور اُن کی زندگی کا سب سے زیادہ اہم دور ہے۔ اِس دور میں وہ بحیثیت وزیراعظم جہاں ایک بہترین منظم اور مدبّر دکھائی دیتے ہیں وہاں بحیثیت وزیرِدفاع ایک مجاہد بھی نظر آتے ہیں۔
ایک ایسے مجاہد جنہوں نے اگر ایک طرف پاکستان کی سرحدوں کو محفوظ و مستحکم کیا تو دوسری طرف افواجِ پاکستان کو منظم و لیس کیا۔ انہوں نے اگر ایک طرف دشمن کے جارحانہ عزائم کو خاک میں ملایا تو دوسری طرف پاکستان کے عوام کو ہر قسم کی آزمائش میں ثابت قدم رہنے کا سبق سکھایا اور اسی جدوجہد میں وہ شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے۔ اُن کے کارنامے ہماری ملّی و قومی تاریخ کا روشن باب ہیں۔
تحریکِ پاکستان کے دوران انہوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے اُن کے بیان کے لیے دفتر درکار ہیں۔ انہوں نے جس طرح نامساعد حالات میں قائداعظم کے شانہ بشانہ آل انڈیامسلم لیگ کی تنظیم نو، مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور تحریکِ پاکستان کی کام یابی کے لیے اپنے روزوشب وقف کردیے اُس کی مثال کم ہی راہ نماؤں کی زندگی میں ملتی ہے۔ مقصد سے وابستگی، اصولوں پر استقامت اور بے لوث جدو جہد اُن کی شخصیت کے غالب پہلو تھے۔
قائداعظم محمدعلی جناح ایک جوہرشناس قائد تھے، چناںچہ آپ نے نوابزادہ لیاقت علی خان پر نہ صرف سب سے زیادہ اعتماد کیا بلکہ اُن کی صلاحیتوں کو قومی مقاصد کے لیے زیادہ سے زیادہ بروئے کار لانے کی کوشش کی۔ یہی وجہ تھی کہ قیامِ پاکستان کے اعلان فوراً بعد آپ نے نوابزادہ لیاقت علی خان کو نومولود مملکت کا نہ صرف وزیرِاعظم نامزد کیا بلکہ وزارتِ دفاع اور امورخارجہ کا قلمدان بھی اُن کے ہی سپرد کیا۔
پاکستان اپنے قیام کے فوراً بعد سے ہی مختلف قسم کے مسائل و خطرات سے دوچار ہوگیا تھا۔ اِن مسائل میں سب سے بڑا اور اہم مسئلہ سرحدوں کے دفاع کا تھا جس کی جانب سے قائداعظم بھی اپنی آخری سانس تک تشویش میں مبتلا رہے۔
نوابزادہ لیاقت علی خان نے بحیثیت وزیرِدفاع نومولود مملکتِ پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لئے نہ صرف موثر عملی اقدامات کئے بلکہ عوام کو ہر مرحلہ پر اعتماد میں لیا تاکہ اُن کے حوصلے بلند رہیں اور وہ اپنی ذمہ داریوں سے احسن طریقے پر عہدہ برآ ہوسکیں۔
نوابزادہ لیاقت علی خان نے دفاعی نقطۂ نگاہ سے سب سے پہلے افواجِ پاکستان کو منظم کرنے کی جانب توجہ دی۔ تقسیم ہندوستان کے مرحلے پر مشترکہ دفاعی کونسل کے فیصلے کے مطابق پاکستان کو دفاعی افواج اور فوجی ساز و سامان کا یک تہائی حصّہ ملنا تھا لیکن یہ فیصلہ کاغذ تک ہی محدود رہا۔ تقسیم کے وقت کوئی خالص مسلمان رجمنٹ نہیں تھی۔
مزید یہ کہ جو افواج پاکستان کودی گئیں وہ پورے برصغیر میں پھیلی ہوئی تھیں۔ فوجی ساز و سامان کا ایک بڑا حصّہ جو پاکستان کو دیا گیا تھا۔ اُس کی ترسیل بھی اُس وقت روک لی گئی جب کشمیر کا مسئلہ کھڑا ہوا۔ نتیجہ یہ کہ جس وقت پاکستان قائم ہو تو اُسے نہایت غیرمنظم فوج اور نہایت ناکافی فوجی سازوسامان ترکے میں ملا۔ اگرچہ اِس مرحلے پر بحیثیت گورنرجنرل قائداعظم محمدعلی جناح بذاتِ خود نہایت اہم امور کی انجام دہی میں مصروف تھے لیکن آپ نے نوابزادہ لیاقت علی خان کی راہ نمائی اور حوصلہ افزائی کی تاکہ وہ مسائل کو بخوبی حل کرسکیں۔
نوابزادہ لیاقت علی خان نے ۳؍فروری ۱۹۴۸ کو سیالکوٹ میں ۱۰۳ ویں پیدل فوج کی پریڈ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی افواج کو زیادہ سے زیادہ طاقتور ہونا چاہیے کیوںکہ اِس وقت مسلمانانِ عالم کا مشتقبل پاکستان کے تحفظ پر منحصر ہے۔''۹؍اپریل ۱۹۴۸ کو ۱۱۴ بریگیڈ کی پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم کسی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے لیکن احتیاط، غیر جانب داری اور امن پڑوسی ممالک سے تعلقات کے ضمن میں ہمارے بنیادی اصول ہیں۔
کسی بھی قوم کی ترقی و تعمیر کے لیے امن بنیادی اہمیت رکھتا ہے قوم آپ پر مکمل اعتماد و بھروسا کرتی ہے اور مجھے یقین ہے کہ آپ بھی قوم کے اعتماد پر پورے اتریں گے۔ ہماری حتی المقدور کوشش یہی ہے کہ پاکستان کی افواج کو دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک بنادیں۔۱۵؍ اپریل ۱۹۴۸ کو ایچ ایم پی ایس ''قاسم'' کے افسران و عملہ سے کراچی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ نے اخراجات کا پچھتر فیصد مسلح افواج اور دفاعِ پاکستان پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ آپ بخوبی آگا ہیں کہ پاکستان کی سلامتی اور دفاع سب سے اہم مسئلہ ہے۔
۴؍مئی ۱۹۴۸ کو پاکستان کی مسلح افواج کے ایک دستہ سے ملیر کنٹونمنٹ کراچی میں خطاب کرتے ہوئے نوابزادہ لیاقت علی خان نے کہا کہ''ہم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن و آتشی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور ہم ہر ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے خواہش مند ہیں لیکن اگر کوئی ملک چاہے وہ دنیا کی بڑی طاقتوں میں سے ہی کیوں نہ ہو ہم پر حملہ کرے گا تو ہم اپنے حتمی وسائل اور اپنی پوری قوت کے ساتھ اپنا مکمل دفاع کریں گے۔
دو سو سال کے بعد ہم پہلی مرتبہ اِس برصغیر میں آزاد ہوئے ہیں۔ تاریخ میں ایسی قربانیوں کی کوئی مثال نہیں ملتی جو ہم نے اپنی آزادی کے حصول کے لیے دی ہیں۔ لاکھوں مسلمانوں نے پاکستان حاصل کرنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے لہذا اب ہمارا یہ اوّلین فرض ہے کہ ہم پاکستان کو ایک طاقت ور اور مضبوط مملکت بنادیں۔ یہ میری اور میری حکومت کی آرزو ہے کہ ہم اپنی مسلح افواج کو ممکنہ حد تک طاقت ور اور مضبوط بنادیں۔ اِس مقصد کے لئے ہم دفاع پر کثیر رقم خرچ کررہے ہیں۔ میں آپ سے بہت واضح طور پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب تک میں وزیراعظم اور وزیرِدفاع کے عہدہ پر موجود ہوں میں اپنی پوری کوشش کروں گا کہ اپنی مسلح افواج کو ناقابلِ تسخیر بنادوں۔
۱۴؍اگست ۱۹۴۸ کو پاکستان کی پہلی سال گرہ کے موقع پر ریڈیو پاکستان سے قوم سے خطاب کرتے ہوئے نوابزادہ لیاقت علی خان نے ملک کی سرحدوں کو لاحق خطرات کی نشان دہی کی اور کہا،''پاکستان کو ختم کرنے کی متعدد کوششیں کی گئیں لیکن پاکستان ہر طوفان کے مقابل سینہ سپر رہا۔ بلاشبہہ ایسا اُس حیران کن اعلیٰ جرأت اور شجاعت کے نتیجہ میں ہو ا جس کا مظاہرہ پاکستان کے عوام نے کیا ۔ اگر ہر پاکستانی کے ذہن میں صرف ایک خیال موجود رہے کہ پاکستان کے تحفّظ اور فلاح کے لیے ہر قسم کی قربانی دی جائے گی تو پاکستان باقی رہے گا اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جائے گا۔
بابائے قوم قائداعظم محمدعلی جناح کی رحلت پر ۱۲؍ ستمبر ۱۹۴۸ کو نوابزادہ لیاقت علی خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے جہاں اِس سانحہ عظیم کو صبرو سکون کے ساتھ برداشت کرنے کی تلقین کی وہاں اِس امر پر بھی زور دیا کہ اِس سوگوار لمحہ میں عہد کریں کے وہ پاکستان کی سلامتی، استحکام ، دفاع اور ترقی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیں گے۔
قائداعظم کے رحلت پا جانے سے پاکستان کی قیادت میں بڑا خلاء پیدا ہوگیا تھا۔ ایسے نازک اور پُرآشوب دور میں نوابزادہ لیاقت علی خان نے قوم کی راہ نمائی کی، اُس میں جوش و جذبہ پیدا کیا۔ اُن کے دلوں میں جُرأت اور استقامت کا فولاد پگھلادیا تاکہ وہ دشمن کی جارحیت کے خلاف سینہ سپر ہوسکیں اور پاکستان کے وجود پر کوئی حرف نہ آسکے۔
قائداعظم کے انتقال کے بعد نوابزادہ لیاقت علی خان تقریباً تین سال ایک ماہ اور پانچ دن زندہ رہے۔ یہ دور اُن کی زندگی کا سب سے زیادہ اہم دور ہے۔ اِس دور میں وہ بحیثیت وزیراعظم جہاں ایک بہترین منظم اور مدبّر دکھائی دیتے ہیں وہاں بحیثیت وزیرِدفاع ایک مجاہد بھی نظر آتے ہیں۔
ایک ایسے مجاہد جنہوں نے اگر ایک طرف پاکستان کی سرحدوں کو محفوظ و مستحکم کیا تو دوسری طرف افواجِ پاکستان کو منظم و لیس کیا۔ انہوں نے اگر ایک طرف دشمن کے جارحانہ عزائم کو خاک میں ملایا تو دوسری طرف پاکستان کے عوام کو ہر قسم کی آزمائش میں ثابت قدم رہنے کا سبق سکھایا اور اسی جدوجہد میں وہ شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے۔ اُن کے کارنامے ہماری ملّی و قومی تاریخ کا روشن باب ہیں۔