بابری مسجد ملکیت کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا

بابری مسجد کی ملکیت کیلیے پہلا دعویٰ سنی وقف بورڈ نے1961 میں دائر کیا جس میں رام للا اور نرموہی اکھاڑہ بھی شامل ہوگئے


ویب ڈیسک October 16, 2019
بی جے پی کے جنونی ہندوؤں نے 1992 میں بابری مسجد کو مسمار کردیا تھا۔ فوٹو : فائل

COLOMBO: بھارتی سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بینچ نے بابری مسجد ملکیت مقدمے کی سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق چیف جسٹس رانجن گوگوئی کی سربراہی میں جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس دی وائی چندرچور، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس اے نذیر پر مشتمل بینچ نے بابری مسجد کی ملکیت کے لیے فریقین کے دہائیوں سے دائر دعوؤں پر 39 روز کی مسلسل سماعت کے بعد آج فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔

آج کی سماعت میں ہندو فریق مہا سبھا کی جانب سے دلائل پیش کرنے کے لیے مزید وقت دینے کی درخواست کی گئی جس پر چیف جسٹس رانجن گوگوئی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ہی بہت وقت دیا جا چکا ہے اب بس اس کیس کا فیصلہ سنانا ہے جس نے جتنی بات کرنی تھی وہ مکمل ہوگئی۔

دریں اثناء سپریم کورٹ کے بینچ نے ایودھیا کی مقدس مقام کی ملکیت پر ایک اور ثالثی کی مزید درخواست کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ مقدمے کی اس سطح پر اب ثالثی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے فریقین نے اپنے دلائل مکمل کیے تھے اس موقع پر مسلمان وکلاء نے یہ سوال بھی اُٹھایا تھا کہ اس مقدمے میں سارے سوالات مسلمانوں سے ہی کیے جارہے ہیں۔

پہلی بار بابری مسجد کی 277 ایکڑ زمین کی ملکیت کے لیے مقدمہ 1961 میں سنی وقف بورڈ نے دائر کیا تھا تاہم رام کی جنم بھومی قرار دیکر 6 دسمبر 1992 کو ہندو جنونیوں نے بابری مسجد کو مسمار کردیا تھا اور ایک عارضی مندر تعمیر کیا گیا تھا جس کی مزید تعمیر کو سپریم کورٹ نے روک دیا تھا۔

بابری مسجد کی زمین کی ملکیت کا مقدمہ سیشن کورٹ سے ہوتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ پہنچا تھا جہاں 2010 میں تینوں فریقین سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام للا کے درمیان برابر زمین تقسیم کرنے کا متنازع فیصلہ سنایا گیا تھا۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے خلاف تینوں فریقین نے بھارتی سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس نے ایک ثالثی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی تاہم وہ بھی کسی نتیجے پر پہنچ نہیں سکی تھی جس کے بعد اس مقدمے کو 16 اکتوبر تک مکمل کرنے کے لیے 40 دن مسلسل سماعت ہوئی جب کہ مقدمے کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایودھیا میں کل ہی سے دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں