تصوف اور ادب کا باہمی رشتہ

تخلیقی زندگی محض شعر و ادب نہیں بلکہ وہ زندگی ہے جس میں عقل وحسن، انصاف و محبت کی مثبت اقدار ہوں۔


Rafiuzzaman Zuberi October 17, 2019

ڈاکٹر نفیس اقبال فرماتی ہیں کہ کچھ لوگ تصوف کو ادب کا موضوع نہیں سمجھتے۔ ان کے خیال میں ادب کا تعلق جمالیات اور تخلیق سے ہے اور تصوف کا صرف مذہب اور دین سے ہے۔ حالانکہ تصوف اخلاقیات کا حامل ہے اور اخلاق جمال ہی کا روپ ہے اور جمال تخلیق کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ مثبت اقدار جمال کی ایک شکل ہیں اور ان کو فروغ دینا جمالیات کو فروغ دینا ہے۔

تخلیقی زندگی محض شعر و ادب نہیں بلکہ وہ زندگی ہے جس میں عقل وحسن، انصاف و محبت کی مثبت اقدار ہوں۔ مثبت اقدار زندگی کی خوبصورتی کی ضامن ہیں اور یہ اقدار تصوف میں تعلیم و تربیت کا حصہ ہیں۔ کائنات کا وصف خیر ہے اور خیر کے ادراک کے بغیر زندگی بدشکل اور بنجر بن جاتی ہے۔ تصوف اسی خیر کی طرف متوجہ کرتا ہے۔

ڈاکٹر نفیس اقبال اپنی کتاب ''تصوف اور ادب کا باہمی رشتہ'' میں صوفی اور شاعر کو زندگی کی ہما ہمی میں شریک قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان دونوں کے یہاں اشیا علامتی حقیقتیں بن جاتی ہیں اور باہمی رشتوں کی وجہ سے ایک باطنی وحدت حاصل کرلیتی ہیں۔

وہ لکھتی ہیں '' تخلیقی زندگی محض ادب و شعر نہیں بلکہ وہ زندگی ہے جس میں عشق اور حسن، انصاف و محبت کی اقدار ہوں۔ زندگی میں خیر اور نیکی بہت ضروری ہے۔ تصوف اسی کی تعلیم دیتا ہے۔''

ڈاکٹر نفیس اقبال لکھتی ہیں کہ اردو شاعری روز اول سے ہی تصوف سے ہم آغوش رہی ہے۔ فارسی شاعری کی واردات و حقائق اور اصطلاحات اردو شاعری میں رچ بس گئیں۔ قصائد کی تشبیہوں تک میں معرفت کے مضامین نفاست سے باندھے گئے۔ اردو کی اصناف سخن میں خصوصاً غزل میں تصوف کے مسائل اس کثرت سے ادا کیے گئے ہیں کہ اگر صوفیانہ اشعارکو خارج کر دیا جائے اردو کا نصف سے زیادہ سرمایہ شاعری باقی نہ رہے۔

تصوف نے نئے الفاظ اصطلاحات اور تلمیحات شاعری میں داخل کر کے شاعری کو وسعت بخشی، تصوف کی آمیزش نے عاشقانہ شاعری کے مزاج کی اصلاح کر کے تصور محبت کو بلند کیا، اظہار محبت میں ادب، شائستگی اور وقار و متانت کے پہلو نکالے، صوفی شعرا نے قصیدہ گوئی کو خوشامد سے پاک کیا۔ تصوف کی بدولت فلسفہ بھی شاعری میں داخل ہوا۔ شاعری میں انسان کی عزت نفس کا خیال پیدا کیا اور انسان کو بتایا کہ وہ کون و مکاں تسخیر کر سکتا ہے۔ اردو شاعری کی جسارت اور بے باکی صوفیہ کی شطحیات کی بدولت ہے اور یہ باغیانہ بے ادبی نہیں بلکہ نازِ عبودیت ہے۔

صوفیائے کرام کی لسانی خدمات کے عنوان سے ڈاکٹر نفیس اقبال کا کہنا ہے کہ ''صوفی صرف اشیا کے تعلق کو ہی نہیں جانتا بلکہ ان کی فطرت کو بھی جانتا ہے۔ وہ عوام کے دلوں کی نگہبانی ہی نہیں کرتا بلکہ ان کے دلوں تک رسائی بھی حاصل کرتا ہے اور عوام کی زبان میں ان کو کائناتی شعور دے کر روحانی صداقتوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر رہنا سکھاتا ہے۔

صوفی انسان کے خود آگہی ادراک کا شعور رکھتا ہے لہٰذا وہ انھیں روحانی توازن کے حصول کے لیے بصارت کی تہذیب کے ساتھ ساتھ سماعت کی تہذیب کا درس بھی دیتا ہے۔ دلوں کو گرفت میں لینے کے لیے چونکہ ہم زبانی لازمی ہوتی ہے کہ ہم زبانی کے بعد ہی ہم خیالی پیدا ہوتی ہے، صوفیہ نے تلقین کے لیے ان کی زبان سیکھی۔ زبان کو سیکھنے کے ساتھ زبان کے ارتقا میں بھی مدد دی۔ لہٰذا اردو زبان کے سلسلے میں صوفیہ کی لسانی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔''

ظاہر ہے کہ ہمارے ابتدائی صوفیائے چشت یا ان کے خلفا نے جو صرف عربی اور فارسی پڑھے ہوئے تھے جب تک اپنے علاقے کے مخاطبین کی زبان سے واقفیت نہ پیدا کر لی ہو گی مقامی لوگوں تک اسلام اور اس کے اصولوں کا ابلاغ نہ کر سکے ہوں گے۔

ڈاکٹر نفیس اقبال نے تاریخ تصوف کے تین ادوار کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں ''پہلے دور میں تصوف کی سادہ اور عملی صورت تھی۔ اس نے کوئی علمی شکل اختیار نہیں کی تھی۔ ابتدائی دور کے صوفیہ کا راستہ ترک دنیا، نفس کشی اور ریاضت کا راستہ تھا۔ خوف ان کے راستے کا رہبر تھا اور محبت ان کی دوست تھی جو خوف کو عبور کر کے ذات الٰہی کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ تصور کرتی تھی۔

دور اول کے صوفیہ کی زندگی فقر و فاقہ کے ساتھ تمام تر توکل و صبر اور عشق و محبت کا ایک تسلسل تھی۔ دوسرے دور کے صوفیا نے عشق اور علم باطن پر زور دیا۔ حضرت سری سقطیؒ اور حضرت معروف کرنیؒ کا فلسفہ توحید اختیار کیا گیا جس نے آگے چل کر وحدت الوجود کی شکل اختیار کر لی۔ اس دور کے صوفیہ نے عقل کے اندھیروں میں عشق الٰہی کا چراغ روشن کر کے انسانوں کو یقین و ایمان کی طاقت عطا کی اور اسلامی عقائد و فکر کو مستحکم کیا۔ تیسرے دور میں سلسلے اور خانقاہیں قائم ہوئیں اور رشد و ہدایت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دور میں تصوف کے ادب میں بھی اضافہ ہوا۔ ابن عربیؒ نے اسی دور میں وحدت الوجود کی تعلیم دی۔ اس دور کے صوفیہ نے انسانیت اور سلامتی کا درس دیا۔ ایران میں صوفیانہ شاعری کو فروغ ہوا اور برصغیر پاک و ہند کے صوفیہ نے شریعت اور طریقت کو ہم آہنگ کیا۔''

حضرت میاں میر کا تعلق اسی تیسرے دور سے ہے۔ وہ وحدت الوجود کے قائل تھے مگر اس عقیدے میں انتہا پسندی ان کے نزدیک مناسب فعل نہ تھا۔ ڈاکٹر نفیس اقبال صاحبہ لکھتی ہیں '' وہ جانتے تھے کہ فلسفہ وحدت الوجود پر شدت سے اصرار شریعت اور طریقت میں توازن قائم نہیں رکھ سکتا۔ انھوں نے اس فلسفے کی موشگافیوں کو پوشیدہ رکھا اور شریعت اور طریقت کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی اور فرد کی روحانی تکمیل کے عمل کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا۔ پہلا مرحلہ شریعت کا ہے۔ اس کا تعلق نفس سے ہے۔ روحانی کمال کے متلاشی کو اولین اصلاح نفس کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ اصلاح شرعی احکامات پر عمل کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ دوسرا مرحلہ دل کی اصلاح کا ہے۔ اس کے لیے طریقت کے اصولوں کی پابندی ضروری ہے۔ یہ مرحلہ طے ہوجائے تو فرد کی آنکھوں سے بشریت کا پردہ ہٹ جاتا ہے۔ وہ حقیقت کے نور کو پا لیتا ہے۔ یہ روحانی ارتقا کا آخری اور اعلیٰ ترین درجہ ہے جس کا تعلق روح سے ہے۔''

ڈاکٹر نفیس اقبال مولانا اشرف علی تھانویؒ کا یہ قول دہراتی ہیں کہ اعمال باطنی سے متعلق شریعت کا جزو تصوف و سلوک کہلاتا ہے۔ اس لیے تصوف اور طریقت دین اور شریعت کے قطعاً منافی نہیں بلکہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ صوفی بنے کہ اس کے بغیر مسلمان پورا مسلمان کہلانے کا مستحق ہی نہیں رہتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں