حکیم اللہ محسود کا انٹرویو

تحریک طالبان پاکستان کےسربراہ حکیم اللہ محسود نےحکومت کیساتھ مذاکرات کیحوالےسے اپنی ترجیحات کو بالکل واضح کر دیا ہے۔


Editorial October 10, 2013
حکیم اللہ محسود نے بی بی سی کو انٹر ویو میں مذاکرات کے حوالے سے کھل کر بات کی۔ فوٹو: فائل

تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود نے بدھ کو بی بی سی کو جو خصوصی انٹرویو دیا' اس میں انھوں نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اپنی ترجیحات و نظریات کو بالکل واضح کر دیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا انٹرویو ہے جس میں حکیم اللہ محسود نے مذاکرات کے حوالے سے کھل کر بات کی ہے۔ انھوں نے اپنے بیان میں پہلی بات تو یہ کی ہے کہ حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لیے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا اور آل پارٹیز کانفرنس کے بعد حکومت نے مذاکرات میڈیا کے حوالے کر دیے ہیں۔ حکیم اﷲ محسود نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت کی جانب سے مذاکرات کا رسمی اعلان ہوتا اور مذاکرات کے لیے رسمی جرگہ بھجوا دیتے۔ انھوں نے کہا کہ وہ میڈیا کے ذریعے مذاکرات نہیں کریں گے۔ ہم میڈیا کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے ہیں نہ ہی حکومتی شرائط میڈیا سے سننا چاہتے ہیں اور نہ اپنی شرائط میڈیا کو دینا چاہتے ہیں۔ طالبان سنجیدہ مذاکرات کے قائل ہیں اور اگر مذاکرات کی سنجیدہ کوشش ہوئی تو وہ مذاکرات کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی حکومتی جرگہ طالبان سے مذاکرات کے لیے آئیگا تو وہ اسے مکمل تحفظ فراہم کریں گے۔

تحریک طالبان کے سربراہ کے مندرجہ بالا استدلال میں کسی حد تک وزن موجود ہے تاہم اس میں کئی سوالات بھی ہیں۔یہ بات درست ہے کہ وفاقی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کوئی فریم ورک نہیں دیا۔ حکومت اگر اے پی سی کے اعلامیے کے فوراً بعد کوئی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے دیتی 'اس کمیٹی کا مینڈیٹ بھی واضح کر دیا جاتا تو پھر کہا جا سکتا تھا کہ حکومت اس معاملے میں خاصی سنجیدہ ہے' لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی موجود ہے' تحریک طالبان کو بھی یہ ماننا پڑے گا کہ انھوں نے اے پی سی کے علامیے کے بعد اپنی جارحانہ کارروائیوں میں وقفہ نہیں دیا' طالبان نے حکومت اور پاکستان کے عوام کو ایک لمحے کے لیے بھی ایسا تاثر نہیںدیا کہ وہ اپنی کارروائیاں بند کر رہے ہیں حالانکہ سیکیورٹی فورسز اس دوران اپنی معمول کی پوزیشنوں پر رہیں لیکن طالبان نے لچک کا مظاہرہ نہیں کیا' جہاں تک میڈیا کا معاملہ ہے تو یہ یکطرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہے' طالبان بھی اپنی بات یا مطالبات میڈیا کے ذریعے ہی سامنے لاتے رہے ہیں۔

طالبان نے بھی تاحال حکومتی مذاکرات کی پیشکش کے جواب میں کوئی فیصلہ کن قدم نہیں اٹھایا' دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں کے بعد کئی گروپوں کے نام سامنے آئے' یوں ابہام کی صورت حال پیدا ہوئی اور یہ تاثر پیدا ہوا کہ شاید طالبان مختلف گروپوں میں تقسیم ہیں اور ان میں مرکزیت نہیں ہے۔ ایسی صورت میں حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہوئیں'دہشت گردی کی وارداتوں کے باعث اس پر عوامی دبائو میں اضافہ ہوا۔ حکیم اللہ محسود کے حالیہ انٹرویو کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں بھی انھوں نے اپنے رویے یا پالیسی میں لچک کا مظاہرہ نہیں کیا' انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ 2014 میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد تحریک طالبان پاکستان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے خلاف دو باتوں کی وجہ سے جہاد کرتے ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے پاکستان کی امریکا سے دوستی ہے اور امریکا کے کہنے پر پاکستان میں علماء کو قتل کیاگیا اور دینی مدارس کو تباہ کیا گیا۔ حکیم اﷲ نے کہا کہ پاکستان کے خلاف جہاد کی دوسری وجہ پاکستان کا کافرانہ نظام ہے۔

اگر امریکی انخلا ہوتا ہے تو اس کے بعد بھی طالبان شریعت کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔ ان باتوں سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ کے مطالبات محض داخلہ نوعیت نہیں بلکہ عالمی امور سے بھی جڑے ہوئے ہیں' وہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ علما کو قتل اور مدارس کو تباہ امریکا کے کہنے پر کیا گیا' اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغان طالبان امریکا سے کس حیثیت میں درپردہ یا کھلے عام مذاکرات کر رہے ہیں' کسی ملک سے تعلقات رکھنا یا نہ رکھنا ریاست کی ذمے داری ہے' ایک ہتھیار بند گروہ کے کہنے پر کوئی ریاست کسی دوسری ریاست سے تعلقات نہیں ختم کر سکتی۔انھوں نے کہا کہ انھیں بعض علما کی جانب سے جنگ بندی کرنے کی اپیل کا علم ہے لیکن جنگ بندی کی صورت میں ڈورن حملے بند ہونے چاہئیں۔ ا گر امریکا کی طرف سے کیے جانے والے ڈرون حملے بند ہوجاتے ہیں تو ہم جنگ بندی کے لیے تیار ہیں۔

ڈرون حملے بھی خارجہ امور سے جڑے ہوئے ہیں' یہ ایسا معاملہ نہیں کہ چند لمحوں میں طے ہو جائے' حکومت پاکستان اس حوالے سے امریکا سے بات چیت کر رہی ہے' طالبان کو اس معاملے میں انتظار کرنا چاہیے۔ داخلہ معاملات میں وہ پاکستان کے سسٹم کو کافرانہ قرار دے رہے ہیں' یوں دیکھا جائے تو ان کے نظریات و افکار مبہم اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں' تحریک طالبان کے سربراہ سفارتی نزاکتوں کو سمجھتے ہیں اورنہ ہی داخلی حالات کی سنگینی سے آگاہ ہیں ۔وہ بلند مرتبت عالم دین ہیں نہ دانشور کہ عصر حاضر کے تقاضوں کا ادراک کر سکے۔ پاکستان کے نامور اور قابل احترام علماکرام اور مشائخ نے کبھی ایسی غیر ذمے دارانہ باتیں نہیں کیں کہ ملک کا نظام کافرانہ ہے' وہ اس میں اصلاح کی بات کرتے ہیں۔اس مقصد کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل قائم ہیں اور ملک کے انتہائی قابل احترام علماء اس کے رکن ہیں۔ حکیم اﷲ محسود نے پاکستان میں پبلک مقامات پر دھماکوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ان دھماکوں میں خفیہ ادارے ملوث ہیں۔ان دھماکوں کا مقصد لوگوں کو طالبان سے بدظن کرنا ہے اور جو لوگ طالبان کی مدد کرتے ہیں ان کا تعاون ختم ہو جائے۔

پبلک مقامات میں جو دھماکے ہوئے ہیں وہ پہلے بھی ان سے لاتعلقی کا اعلان کر چکے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جو لوگ طاغوت کو ماننے والے ہیں اور امریکا کے دوست ہیں انھیں نشانہ بنایا گیا ہے اور آیندہ بھی بنایا جائے گا۔یہ باتیں بھی ابہام سے پُر ہیں۔ ان کی یکطرفہ نوعیت کی باتوں کو تسلیم کرنا ممکن نہیں ہے۔البتہ یہ امر خوش آیند ہے کہ انھوں نے پبلک مقامات پر ہونے والے بم دھماکوں سے لا تعلقی کا اظہار کیا۔ ماضی میں طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کی ناکامی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے اس کا الزام پاکستان کی سابق حکومتوں پر عائد کیا۔ انھوں نے کہا کہ طالبان خود مختار ہیں جب کہ پاکستانی حکومت امریکی دباؤ میں ہے۔ انھوں نے کہا طالبان کے ساتھ معاہدوں کے بعد ڈرون حملے کیے گئے جس کی ذمے داری حکومت پاکستان نے قبول کی۔ یہ معاہدے حکومت کی وجہ سے ناکام ہوئے ہمارے پاس اس کے ثبوت ہیں۔ ہم یہ ثبوت فراہم کرسکتے ہیں۔

جہاں تک ماضی میں ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ جس قسم کے مطالبات طالبان کی جانب سے پیش کیے جا رہے ہیں انھیں قبول کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔جہاں وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی تو اس کا بہترین پلیٹ فارم بھی مذاکرات کی میز ہے۔طالبان کو اپنے ساتھ ہونے والی بدعہدی کے ثبوت مذاکرات کے دوران پیش کرنے چاہئیں۔ادھر وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اﷲ محسود کی بیان پر ردعمل میں کہا ہے کہ حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کوئی شرط نہیں رکھی، مذاکرات کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہر بات مذاکرات کی میز پر ہو گی۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ مذاکرات سے پہلے مطالبات کا کوئی جواز نہیں۔ حکومت نے بھی مذاکرات کے حوالے سے کوئی شرط نہیں رکھی۔ اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ حکومت اب بھی چاہتی ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوئی راہ نکل آئے۔ملک و قوم کے لیے یہی راستہ بہتر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں