کیا نئی ریاست کا کوئی جواز ہے
بظاہر کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی نے کابینہ کے رسمی فیصلے یعنی ریاست تلنگانہ کے قیام کی منظوری دیدی ہے۔
ISLAMABAD:
بظاہر کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی نے کابینہ کے رسمی فیصلے یعنی ریاست تلنگانہ کے قیام کی منظوری تو دیدی لیکن بقیہ آندھرا جسے سمیندھرا بھی کہا جاتا ہے کے عوامی غیض و غضب کی پیش بینی نہ کر سکیں۔ بجلی کی بندش۔ پانی کی قلت' ذرایع نقل و حمل اور ایندھن کی عدم دستیابی یا موبائل فونز کے منقطع (آف) ہونے کی صورت میں سمیندھرا کا عوامی موڈ اس قدر بگڑ جاتا ہے کہ اگر ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ مرکزی حکومت آئینی راستہ اختیار کرتے ہوئے عوام کے جذبات کا اندازہ لگا سکتی تھی۔ آئین میں یہ کہا گیا ہے کہ ریاستی قانون ساز اسمبلی سے مشاورت کی جانی چاہیے۔
یہ بات درست ہے کہ ایوان کے 294 ارکان میں سے سمیندھرا کے 179 ارکان بآسانی ریاست تلنگانہ کے قیام پر ایک قرارداد لا سکتے تھے لیکن آئین کہتا ہے کہ مشاورت کی جائے نہ کہ یکطرفہ کارروائی۔ مشاورت کی راہ اختیار کرنے سے ممکنہ جارحانہ عزائم اور کارروائیوں کی پیش بینی کی جا سکتی تھی جس کی اطلاع دینے میں انٹیلی جنس کے ادارے بھی ناکام رہے۔ تلگانہ میں تو مظاہرے اس وقت زیادہ شدت اختیار کر گئے جب اسلحہ کا استعمال بھی شروع ہو گیا۔ وفاق نے پھر بھی ریاستی تقسیم کی مزاحمت کی اگرچہ ریاست کے وزیر اعلیٰ چینا ریڈی کے دور میں احتجاجی تحریک انتہائی آتش خیز ہو چکی تھی۔ تب کانگریس کے صدر کامراج کو، جو ایک وقت میں ریاست کے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے تھے، زمینی حقائق تسلیم کرنا پڑے۔ سونیا گاندھی جو نئی دہلی میں بیٹھی ہیں ریاست کے اصل حالات سے قطعی طور پر نابلد ہیں۔
کیا یہ ضروری تھا کہ آندھرا پردیش کو تقسیم کر دیا جاتا؟ لسانی بنیادوں پر بننے والی یہ پہلی ریاست تھی۔ ریاستوں کی تشکیل نو کے کمیشن جس نے آندھرا پردیش کی تقسیم کی نگرانی کی تھی اس نے تلنگانہ کے قیام کی سفارش بھی کی تھی۔ تاہم وفاق نے وسیع تر مفاد کے پیش نظر متحدہ آندھرا پردیش کے فیصلے کو سختی سے برقرار رکھا۔ تیلگو باشندوں نے اس وقت بھی آندھرا پردیش کے قیام کو بڑے جوش و خروش سے قبول کیا تھا کیونکہ تیلگو زبان بولنے والے علاقوں کو مدراس پریذیڈنسی سے واپس لے کر دوبارہ آندھرا پردیش میں ضم کر دیا گیا تھا۔ تاہم یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ تلنگانہ کے قیام پر اس قدر شدت سے عداوت کیوں شروع ہو گئی۔
بہر حال یہ ریاست بھارت ہی کا حصہ ہو گی۔ اصل میں اپنے ذاتی مفادات کی پیروی کرنے والے سیاستدان ہی معاندانہ جذبات کی آبیاری کرتے ہیں۔ شاید انھیں یہ خوف لاحق ہو کہ تلنگانہ کہیں پرانے وقتوں کی نظام حیدر آباد کی ریاست کی طرز پر نہ چلائی جائے جہاں حکومتی انتظام و انصرام کی ذمے داری مسلح رضا کاروں کے سپرد کر دی جائے جن کی ریاست پر اصل حکمرانی تھی۔ لیکن یہ ریاست اتنی مضبوط تو ضرور ہے کہ اس قسم کے رجحانات کا قلع قمع کر سکے۔ نظاموں نے رضا کاروں کی اس بنا پر حوصلہ افزائی کی تھی کیونکہ وہ پاکستان میں شامل ہونے کے خواب دیکھنے لگے تھے۔
سیاستدانوں کی نگاہ تو اقتدار کے ایوانوں پر ہوتی ہے جو ایک نئی ریاست ریاست کا قیام انھیں مہیا کر سکے۔ یہی لالچ ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ ریاست کے وزیر اعلیٰ کرن کمار ریڈی ابھی تک مستعفی نہیں ہوئے حالانکہ وہ متحدہ آندھرا پردیش کی حمایت بھی کر رہے تھے۔ اگر وہ استعفیٰ دے دیتے تو کانگریس کی ہائی کمان کو یقیناً ایک جھٹکا لگتا اور حالات کوئی مختلف صورت اختیار کر لیتے۔
یقیناً کانگریس کی نظر آیندہ انتخابات پر ہے اور اسے توقع ہے کہ وہ ریاست تلنگانہ میں کلین سویپ کر لے گی۔ یہ المناک بات ہے کہ سیاست نے اپنے مفادات کو آندھرا پردیش کے عوام کے مفادات پر مقدم سمجھا ہے۔ یہ تقسیم معرض وجود میں آنے والی ہر دو ریاستوں کے لیے کئی ایک مسائل پیدا کرے گی۔ جیسے کہ پانی کا مسئلہ کیونکہ دریائے کرشنا دونوں مجوزہ ریاستوں میں سے گزرتا ہے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ اس فیصلے کو کالعدم قرار دیدیا جائے۔ ممکن ہے کہ اس مقصد کی خاطر کانگریس کے وائس پریذیڈنٹ راہول گاندھی کی خدمات حاصل کی جا سکیں۔ اگر وہ سزا یافتہ سیاستدانوں کو بچانے کے لیے جاری کیے جانے والے آرڈیننس کو منسوخ کرا سکیں تو ممکن ہے کہ وفاقی کابینہ کے آندھرا پردیش کی تقسیم کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دلوا سکیں۔ پارلیمنٹ میں یہ مسودہ قانون پیش کرنا یقیناً احمقانہ فیصلہ تھا کہ جس میں سپریم کورٹ کے اس حکم کو کالعدم کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر کسی ایم پی اے یا ایم ایل اے کو عدات سے سزا ہو جائے تو وہ فی الفور اپنے متعلقہ ایوانوں سے نا اہل قرار پا جائے گا۔
تلنگانہ اور سیماندھرا میں وجہ تنازع ریاست حیدر آباد ہے۔ اس مجوزہ تقسیم کی صورت میں حیدر آباد ان دونوں ریاستوں کا دس سال کے لیے مشترکہ دارالحکومت ہو گا۔ صرف دس سال کے لیے ہی کیوں، مستقلاً کیوں نہیں؟ جب پنجاب کی تقسیم عمل میں آئی تو اعلان کیا گیا کہ پنجاب اور ہریانہ کے الگ الگ دارالحکومت ہونگے اور چندی گڑھ وفاقی دارالحکومت سے منسلک ہو گا۔ دونوں ریاستوں نے محسوس کیا کہ مشترکہ دارالحکومت زیادہ قابل عمل ہو گا۔ یہانتک کہ دونوں ریاستوں کے وکلاء نے وفاق کی اس تجویز کی شدید مخالفت کی کہ ہریانہ میں ایک علیحدہ ہائی کورٹ قائم کیا جائے بالآخر اس تجویز کو واپس لینا پڑا۔
یہ دلیل کہ سیماندھرا تلنگانہ کی اس سرحد سے دور ہے جہاں حیدر آباد واقع ہے قائل کرتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔ یہ سب بھارتی قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ پھر حیدر آباد کو بطور مشترکہ دارالحکومت رکھنے پر مخالفت کیوں ہے؟ تاہم یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ تلنگانہ کی مجوزہ ریاست کے سرکاری ملازمین نے دھمکی دی ہے کہ سیماندھرا کے سرکاری ملازمین کا حیدر آباد میں اپنا علیحدہ سیٹ اپ ہونا چاہیے۔ اس طرح کے رجحانات کا سختی سے قلع قمع کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ ملکی سالمیت سے متصادم ہوتے ہیں۔
وفاق نے دوسری نئی ریاستوں کے قیام کے بار بار مطالبے پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ریاست تلنگانہ کے قیام کے اعلان کے بعد وداربھا' گورکھا لینڈ اور شمال مشرق کی کئی ایک ریاستوں نے احتجاج شروع کر دیا ہے۔ جب وفاق نے نتائج کی پروا کیے بغیر تلنگانہ کے قیام کا اعلان کر دیا تو دوسری ریاستوں کی حکومتیں بے بس ہوکر رہ گئی ہیں۔
یہ بات قابل فہم نہیں کہ نئی دہلی نے ایک اور مسئلہ کیوں کھڑا کر لیا ہے جب کہ یہ پہلے ہی ایک طرف بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال میں دھنسی جا رہی ہے اور دوسری طرف چین اور پاکستان کی سرحدوں پر نامساعد حالات سے دوچار ہے۔ شاید تلنگانہ کے قیام کا اعلان ملک کے دیگر منہ زور مسائل سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہو جو آج ملک کے دامن گیر ہیں۔ شاید کانگریس کا ان مسائل سے نمٹنے کا یہی طریقہ ہے۔
حکومت نے یہ کام اچھا کیا ہے ریاستوں کی تنظیم و تشکیل نو کے ایک اور کمیشن کے قیام کے مطالبے کو خلاف مدافعت کی ہے۔ ورنہ ایک اور پنڈورا باکس کھل جاتا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ کمیشن کے قیام پر کس طرح کے جذبات سامنے آئے تھے۔ اتنے دعویدار سامنے آئے کہ ان میں جھگڑے ہی جھگڑے تھے۔ کسی ایک فیصلہ پر پہنچنا انتہائی دشوار تھا۔ بالآخر کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کمیشن نے فقط دو نکات پیش کیے جس طرح 1985ء میں اس نے رپورٹ پیش کی تھی۔ دونوں نکات آج بھی ماضی کی طرح مبنی بر صداقت ہیں۔ اول یہ کہ ریاستوں کی تشکیل نو ہوتی ہے یا نہیں وہ بدستور وفاق کا لازمی حصہ رہیں گی جو حقیقی معنوں میں سیاسی ہیئت اور ہماری قومیت کی بنیاد ہے۔ دوسرے یہ کہ آئین انڈیا کے تمام شہریوں کی واحد شہریت کو تسلیم کرتا ہے جہاں شہریوں کو مساوی حقوق اور مواقع فراہم ہوں۔ تلنگانہ کی مجوزہ ریاست کا قیام بلاشبہ ایک غلط فیصلہ ہے تاہم اگر ملک کی اٹھائیسویں ریاست وجود میں آئی تو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ شہری حقوق مساویانہ بنیاد پر ہونگے اور حق شہریت بھی ایک ہو گا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
بظاہر کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی نے کابینہ کے رسمی فیصلے یعنی ریاست تلنگانہ کے قیام کی منظوری تو دیدی لیکن بقیہ آندھرا جسے سمیندھرا بھی کہا جاتا ہے کے عوامی غیض و غضب کی پیش بینی نہ کر سکیں۔ بجلی کی بندش۔ پانی کی قلت' ذرایع نقل و حمل اور ایندھن کی عدم دستیابی یا موبائل فونز کے منقطع (آف) ہونے کی صورت میں سمیندھرا کا عوامی موڈ اس قدر بگڑ جاتا ہے کہ اگر ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ مرکزی حکومت آئینی راستہ اختیار کرتے ہوئے عوام کے جذبات کا اندازہ لگا سکتی تھی۔ آئین میں یہ کہا گیا ہے کہ ریاستی قانون ساز اسمبلی سے مشاورت کی جانی چاہیے۔
یہ بات درست ہے کہ ایوان کے 294 ارکان میں سے سمیندھرا کے 179 ارکان بآسانی ریاست تلنگانہ کے قیام پر ایک قرارداد لا سکتے تھے لیکن آئین کہتا ہے کہ مشاورت کی جائے نہ کہ یکطرفہ کارروائی۔ مشاورت کی راہ اختیار کرنے سے ممکنہ جارحانہ عزائم اور کارروائیوں کی پیش بینی کی جا سکتی تھی جس کی اطلاع دینے میں انٹیلی جنس کے ادارے بھی ناکام رہے۔ تلگانہ میں تو مظاہرے اس وقت زیادہ شدت اختیار کر گئے جب اسلحہ کا استعمال بھی شروع ہو گیا۔ وفاق نے پھر بھی ریاستی تقسیم کی مزاحمت کی اگرچہ ریاست کے وزیر اعلیٰ چینا ریڈی کے دور میں احتجاجی تحریک انتہائی آتش خیز ہو چکی تھی۔ تب کانگریس کے صدر کامراج کو، جو ایک وقت میں ریاست کے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے تھے، زمینی حقائق تسلیم کرنا پڑے۔ سونیا گاندھی جو نئی دہلی میں بیٹھی ہیں ریاست کے اصل حالات سے قطعی طور پر نابلد ہیں۔
کیا یہ ضروری تھا کہ آندھرا پردیش کو تقسیم کر دیا جاتا؟ لسانی بنیادوں پر بننے والی یہ پہلی ریاست تھی۔ ریاستوں کی تشکیل نو کے کمیشن جس نے آندھرا پردیش کی تقسیم کی نگرانی کی تھی اس نے تلنگانہ کے قیام کی سفارش بھی کی تھی۔ تاہم وفاق نے وسیع تر مفاد کے پیش نظر متحدہ آندھرا پردیش کے فیصلے کو سختی سے برقرار رکھا۔ تیلگو باشندوں نے اس وقت بھی آندھرا پردیش کے قیام کو بڑے جوش و خروش سے قبول کیا تھا کیونکہ تیلگو زبان بولنے والے علاقوں کو مدراس پریذیڈنسی سے واپس لے کر دوبارہ آندھرا پردیش میں ضم کر دیا گیا تھا۔ تاہم یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ تلنگانہ کے قیام پر اس قدر شدت سے عداوت کیوں شروع ہو گئی۔
بہر حال یہ ریاست بھارت ہی کا حصہ ہو گی۔ اصل میں اپنے ذاتی مفادات کی پیروی کرنے والے سیاستدان ہی معاندانہ جذبات کی آبیاری کرتے ہیں۔ شاید انھیں یہ خوف لاحق ہو کہ تلنگانہ کہیں پرانے وقتوں کی نظام حیدر آباد کی ریاست کی طرز پر نہ چلائی جائے جہاں حکومتی انتظام و انصرام کی ذمے داری مسلح رضا کاروں کے سپرد کر دی جائے جن کی ریاست پر اصل حکمرانی تھی۔ لیکن یہ ریاست اتنی مضبوط تو ضرور ہے کہ اس قسم کے رجحانات کا قلع قمع کر سکے۔ نظاموں نے رضا کاروں کی اس بنا پر حوصلہ افزائی کی تھی کیونکہ وہ پاکستان میں شامل ہونے کے خواب دیکھنے لگے تھے۔
سیاستدانوں کی نگاہ تو اقتدار کے ایوانوں پر ہوتی ہے جو ایک نئی ریاست ریاست کا قیام انھیں مہیا کر سکے۔ یہی لالچ ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ ریاست کے وزیر اعلیٰ کرن کمار ریڈی ابھی تک مستعفی نہیں ہوئے حالانکہ وہ متحدہ آندھرا پردیش کی حمایت بھی کر رہے تھے۔ اگر وہ استعفیٰ دے دیتے تو کانگریس کی ہائی کمان کو یقیناً ایک جھٹکا لگتا اور حالات کوئی مختلف صورت اختیار کر لیتے۔
یقیناً کانگریس کی نظر آیندہ انتخابات پر ہے اور اسے توقع ہے کہ وہ ریاست تلنگانہ میں کلین سویپ کر لے گی۔ یہ المناک بات ہے کہ سیاست نے اپنے مفادات کو آندھرا پردیش کے عوام کے مفادات پر مقدم سمجھا ہے۔ یہ تقسیم معرض وجود میں آنے والی ہر دو ریاستوں کے لیے کئی ایک مسائل پیدا کرے گی۔ جیسے کہ پانی کا مسئلہ کیونکہ دریائے کرشنا دونوں مجوزہ ریاستوں میں سے گزرتا ہے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ اس فیصلے کو کالعدم قرار دیدیا جائے۔ ممکن ہے کہ اس مقصد کی خاطر کانگریس کے وائس پریذیڈنٹ راہول گاندھی کی خدمات حاصل کی جا سکیں۔ اگر وہ سزا یافتہ سیاستدانوں کو بچانے کے لیے جاری کیے جانے والے آرڈیننس کو منسوخ کرا سکیں تو ممکن ہے کہ وفاقی کابینہ کے آندھرا پردیش کی تقسیم کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دلوا سکیں۔ پارلیمنٹ میں یہ مسودہ قانون پیش کرنا یقیناً احمقانہ فیصلہ تھا کہ جس میں سپریم کورٹ کے اس حکم کو کالعدم کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر کسی ایم پی اے یا ایم ایل اے کو عدات سے سزا ہو جائے تو وہ فی الفور اپنے متعلقہ ایوانوں سے نا اہل قرار پا جائے گا۔
تلنگانہ اور سیماندھرا میں وجہ تنازع ریاست حیدر آباد ہے۔ اس مجوزہ تقسیم کی صورت میں حیدر آباد ان دونوں ریاستوں کا دس سال کے لیے مشترکہ دارالحکومت ہو گا۔ صرف دس سال کے لیے ہی کیوں، مستقلاً کیوں نہیں؟ جب پنجاب کی تقسیم عمل میں آئی تو اعلان کیا گیا کہ پنجاب اور ہریانہ کے الگ الگ دارالحکومت ہونگے اور چندی گڑھ وفاقی دارالحکومت سے منسلک ہو گا۔ دونوں ریاستوں نے محسوس کیا کہ مشترکہ دارالحکومت زیادہ قابل عمل ہو گا۔ یہانتک کہ دونوں ریاستوں کے وکلاء نے وفاق کی اس تجویز کی شدید مخالفت کی کہ ہریانہ میں ایک علیحدہ ہائی کورٹ قائم کیا جائے بالآخر اس تجویز کو واپس لینا پڑا۔
یہ دلیل کہ سیماندھرا تلنگانہ کی اس سرحد سے دور ہے جہاں حیدر آباد واقع ہے قائل کرتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔ یہ سب بھارتی قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ پھر حیدر آباد کو بطور مشترکہ دارالحکومت رکھنے پر مخالفت کیوں ہے؟ تاہم یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ تلنگانہ کی مجوزہ ریاست کے سرکاری ملازمین نے دھمکی دی ہے کہ سیماندھرا کے سرکاری ملازمین کا حیدر آباد میں اپنا علیحدہ سیٹ اپ ہونا چاہیے۔ اس طرح کے رجحانات کا سختی سے قلع قمع کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ ملکی سالمیت سے متصادم ہوتے ہیں۔
وفاق نے دوسری نئی ریاستوں کے قیام کے بار بار مطالبے پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ریاست تلنگانہ کے قیام کے اعلان کے بعد وداربھا' گورکھا لینڈ اور شمال مشرق کی کئی ایک ریاستوں نے احتجاج شروع کر دیا ہے۔ جب وفاق نے نتائج کی پروا کیے بغیر تلنگانہ کے قیام کا اعلان کر دیا تو دوسری ریاستوں کی حکومتیں بے بس ہوکر رہ گئی ہیں۔
یہ بات قابل فہم نہیں کہ نئی دہلی نے ایک اور مسئلہ کیوں کھڑا کر لیا ہے جب کہ یہ پہلے ہی ایک طرف بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال میں دھنسی جا رہی ہے اور دوسری طرف چین اور پاکستان کی سرحدوں پر نامساعد حالات سے دوچار ہے۔ شاید تلنگانہ کے قیام کا اعلان ملک کے دیگر منہ زور مسائل سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہو جو آج ملک کے دامن گیر ہیں۔ شاید کانگریس کا ان مسائل سے نمٹنے کا یہی طریقہ ہے۔
حکومت نے یہ کام اچھا کیا ہے ریاستوں کی تنظیم و تشکیل نو کے ایک اور کمیشن کے قیام کے مطالبے کو خلاف مدافعت کی ہے۔ ورنہ ایک اور پنڈورا باکس کھل جاتا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ کمیشن کے قیام پر کس طرح کے جذبات سامنے آئے تھے۔ اتنے دعویدار سامنے آئے کہ ان میں جھگڑے ہی جھگڑے تھے۔ کسی ایک فیصلہ پر پہنچنا انتہائی دشوار تھا۔ بالآخر کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کمیشن نے فقط دو نکات پیش کیے جس طرح 1985ء میں اس نے رپورٹ پیش کی تھی۔ دونوں نکات آج بھی ماضی کی طرح مبنی بر صداقت ہیں۔ اول یہ کہ ریاستوں کی تشکیل نو ہوتی ہے یا نہیں وہ بدستور وفاق کا لازمی حصہ رہیں گی جو حقیقی معنوں میں سیاسی ہیئت اور ہماری قومیت کی بنیاد ہے۔ دوسرے یہ کہ آئین انڈیا کے تمام شہریوں کی واحد شہریت کو تسلیم کرتا ہے جہاں شہریوں کو مساوی حقوق اور مواقع فراہم ہوں۔ تلنگانہ کی مجوزہ ریاست کا قیام بلاشبہ ایک غلط فیصلہ ہے تاہم اگر ملک کی اٹھائیسویں ریاست وجود میں آئی تو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ شہری حقوق مساویانہ بنیاد پر ہونگے اور حق شہریت بھی ایک ہو گا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)