البرٹ کامیو کا ناول اورہمارا معاشرہ
ہمارے ملک کو ’’کرپشن سے پاک‘‘ کرنے کی لگن میں مبتلا لوگ تو ہر چیز کو تباہ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔
فرانس کا ایک ادیب ہوا کرتا تھا، البرٹ کامیو اس کا نام تھا۔ مجھے فرانسیسی زبان نہیں آتی مگر جن قریبی دوستوں نے اس زبان کو بڑے شوق سے سیکھا ہے، مجھے بتاتے رہتے ہیں کہ آسان ترین الفاظ میں دُنیا کا شاید ہی کوئی اور ادیب کامیو کی طرح گہری فلسفیانہ باتیں لکھ سکا اور انسانی نفسیات کی چند عجیب و غریب جہتوں کو اس سادگی سے بیان بھی۔
''اجنبی'' اس کا پہلا ناول تھا جس نے چھپتے ہی دُنیا کو حیران کر دیا۔ یہ ایک ایسے بیٹے کی داستان تھی جسے اچانک اپنی ماں کے مر جانے کی خبر ملتی ہے۔ وہ یہ خبر ملنے کے مرحلے سے اپنی ماں کے کفن دفن تک تمام معاملات سے جذباتی طور پر قطعی لاتعلق رہتے ہوئے تدفین سے متعلقہ رسومات میں ایک پتھر ہوئے دل کے ساتھ حصہ لیتا ہے۔ سب سے حیران کن بات اس ناول کی یہ تھی کہ مصنف نے یہ سب کچھ قطعی غیر جذباتی انداز میں بیان کر ڈالا اور ایسا کرتے ہوئے کسی تاسف کا ہر گز کوئی اظہار نہیں کیا۔
کامیو کے اس ناول کو دو عالمی جنگوں کے فوراََ بعد والے یورپ کے لوگوں میں پھیلی انسانی زندگی، معاشرتی رشتوں اور ریاستی معاملات کے بارے میں بے تعلقی کا ایک موثر ترین اظہار ٹھہرایا گیا۔ اس کے حامیوں اور پرستاروں کا مگر یہ اصرار بھی تھا کہ انسان کو محض گوشت سے بنی مشین بنانے والی اس بیگانگی کو اتنی شدت سے بیان کرتے ہوئے البرٹ کامیو دراصل اس انسان کا احیاء چاہتا ہے جو محسوس کرتا ہے۔ کچھ لوگوں کے ساتھ اسے شدید محبت ہو جاتی ہے اور کئی ایک کے ساتھ بڑی شدت کے ساتھ نفرت۔ ایک سوچنے، سمجھنے اور محسوس کرنے والے انسان کو ''بحال'' کرنے کے لیے ضروری تھا کہ پہلے اسے اس لاتعلقی اور پژمردگی کا بھرپور احساس دلایا جائے جو سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے لیے منڈیاں تلاش کرنے کے جنون میں لڑی جنگوں کی وجہ سے اس پر مسلط ہوئی۔ کامیو جیسے ادیبوں کو ان دلائل کے ساتھ جدید دُنیا کے ''انسان دوست ادب'' کا ایک طاقتور نمایندہ قرار دے دیا گیا۔
ان ہی دنوں فرانس میں ژاں پال سارتر نام کا ایک اور ادیب بھی بہت مشہور تھا۔ اس کے دور کے نوجوان تو اسے ایک ''بابے'' کے طور پر لیتے تھے۔ وہ لوگوں کو اس بات پر اُکساتا رہتا کہ انسان صرف محسوس ہی نہ کرے، اپنے اِردگرد پھیلے ظلم اور ناانصافی کا پوری طرح ادراک بھی کرے۔ ناانصافی کا مگر احساس ہی کافی نہیں۔ ایک سچے لکھاری کو بدی کی قوتوں کے خلاف عملی طور پر سپر آزما ہونا چاہیے۔ جو لکھنے والا ظلم اور ناانصافی کے خلاف برپا جدوجہد میں مظلوموں کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا وہ اصل میں ایک بے ایمان اور بزدل شخص ہے۔
البرٹ کامیو بڑے عرصے تک ایک مؤدب جونیئر کی طرح سارتر کی ہاں میں ہاں ملاتا رہا۔ مگر اپنے عروج کے دنوں میں اسے کچھ سوالوں نے گھیر لیا۔ اس نے ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کے لیے پوری دُنیا کی تاریخ کنگھال ڈالی اور سب سے زیادہ توجہ ''انقلابیوں'' کی اس وحشت پر مبذول کر ڈالی جو انقلابِ فرانس کے دنوں میں اس کے ملک کے چپے چپے پر مسلط نظر آئی تھی۔ بہت سوچ بچار اور تحقیق کے بعد اس نے ''باغی'' کے نام سے ایک شاہکار لکھ ڈالا۔ ژاں پال سارتر اور اس کے چیلوں کو یہ کتاب بالکل پسند نہ آئی۔ انھوں نے بلکہ یہ فیصلہ کر ڈالا کہ اپنی زندگی میں تھوڑی خوش حالی اور شہرت پا کر کامیو گمراہ ہو گیا ہے۔ استحصالی طبقات کا غلام بن کر ایسی تحریریں لکھنا شروع ہو گیا ہے جو لوگوں کو کسی ''نیک مقصد'' کے لیے جدوجہد کے عمل سے دور رکھنا چاہتی ہیں۔
میں آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ کامیو سچا تھا یا اس کے مخالف۔ بچپن سے اُردو کے ترقی پسند ادیبوں کو ضرورت سے زیادہ پڑھنے کی وجہ سے البتہ میں اس کے مخالف کیمپ کی باتوں سے زیادہ متاثر رہا۔ چند روز پہلے اچانک خیال آیا کہ کیوں نہ ایک کھلے ذہن کے ساتھ اس کی ''باغی''دوبارہ پڑھ لی جائے۔ کتاب اٹھائی۔ اس کا ابتدائیہ پڑھا اور ذہن گھوم گیا۔ اس سے آگے پڑھنے کی ہمت نہ کر سکا۔
''باغی'' کے آغاز میں انگریزی کے ایک مشہور ناول کا حوالہ دیتے ہوئے کامیو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ جرائم اور سفاکی کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ جرائم کی پہلی قسم کو اس نے Crimes of Passion کہا۔ آسان لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ کوئی فرد کسی شخص کی محبت میں اندھا ہو کر اپنے اور محبوب کے درمیان آنے والی ہر رکاوٹ کو بڑی سفاکی کے ساتھ مٹانے کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ کچھ لوگوں کو وحشیانہ انداز میں قتل بھی کر سکتا ہے۔ مگر ایک بڑے تناظر میں اس کا جرم اور سفاکی ایک فرد اور اس سے قریبی افراد تک محدود رہتی ہے۔ جرائم اور سفاکی کی دوسری قسم کو اس نے Crimes of Reason کا نام دیا۔ اس کی نظر میں سفاکی کی یہ قسم ان لوگوں میں نظر آتی ہے جو بظاہر بڑی سوچ بچار اور ''نیک مقاصد'' کے ساتھ ''سماج سدھارنے'' کے عمل میں مصروف نظر آتے ہیں۔ مگر پارسائی کے خبط میں مبتلا یہ لوگ کسی معاشرے میں انصاف قائم کرنے کے نام پر جو سفاکی اختیار کرتے ہیں وہ پورے معاشروں کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ چند برسوں سے بڑے ہی پارسا بنے چند لوگ اس ملک کو ''ٹھیک'' کرنے کے جنون میں مبتلا نظر آ رہے ہیں۔ میں اکثر ان کی سفاکیاں ذاتی طور پر بھگتتا رہتا ہوں۔ مسئلہ میری ذات تک محدود رہے تو کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ بتدریج مگر مجھے یہ احساس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ ہمارے ملک کو ''کرپشن سے پاک'' کرنے کی لگن میں مبتلا یہ لوگ تو ہر چیز کو تباہ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ نہ وہ کسی آئین کو مانتے ہیں نہ کسی اصول کو۔ انھوں نے اپنے طور پر چند لوگوں کو جو کہ زیادہ تر سیاستدان ہیں اس ملک کی تمام برائیوں کا ذمے دار ٹھہرا رکھا ہے۔ وہ بے چین و بے تاب ہیں کہ جلد از جلد کوئی ایسا نظام بنے جس کی بدولت ہمیں گلی گلی ایسے بدعنوان سیاستدانوں کی لاشیں کھمبوں پر لٹکتی ہوئی نظر آئیں۔ کم از کم اتنا تو ہو کہ جنہوں نے ''قومی دولت کو لوٹا ہے'' وہ الٹے لٹکے ہوں اور ان چیکوں پر آنکھیں بند کر کے دستخط کرتے رہیں جن کے ذریعے ''لوٹی ہوئی قومی دولت'' سرکاری خزانے میں واپس آ جائے۔ پھر ہم بجلی کی وہی قیمت ادا کرتے رہیں جو کئی دنوں سے لاگو تھی۔ پٹرول اور گیس بھی ہمیں سستا ملے۔ ہم ان کا بے دریغ استعمال کرتے رہیں۔ اپنے پلے سے ٹیکس کے نام پر ریاست کو ایک روپیہ بھی نہ دیں۔
چوہدری قمر زمان کی بطور نیب چیئرمین تعیناتی اسی لیے تو ہمارے پارسائوں کو پسند نہیں آ رہی۔ انھیں تو ڈاکٹر شعیب سڈل جیسے ''جی دار اور ایماندار'' افسر درکار تھے جنھیں نوکری تو نواز شریف دے مگر ان کی تعیناتی کے پروانے پر دستخط کے بعد کسی تھانے میں بیٹھ کر ''قوم کی لوٹی ہوئی دولت'' کا حساب دینا شروع کر دے۔ آصف علی زرداری کی مبینہ طور پر سوئس بینکوں میں رکھی رقم تو ویسے بھی ہمیں وطن لانی ہیں۔ اس ضمن میں پہلے ہی بہت دن ضایع ہو گئے ہیں۔