اٹھائو اپنا عظیم پرچم
پاک بھارت مذاکرات کا کافی شوروغوغا تھا، پہلے روز سے جب صدر زرداری کی رخصتی ہوئی تو بس یہی رہ گیا تھا۔
پاک بھارت مذاکرات کا کافی شوروغوغا تھا، پہلے روز سے جب صدر زرداری کی رخصتی ہوئی تو بس یہی رہ گیا تھا کہ جمہوریت کے 5 برس مکمل ہونے پر سابق صدر زرداری اور موجودہ وزیر اعظم نے اس خوبصورتی سے الوداعی تقریب کا اہتمام کیا کہ جانے پاکستان میں کون سا تاریخی معرکہ سر ہوگیا ہے اور لوگ اب ایک نئی ترنگ اور نئی امیدوں کو خوش آمدید کہیں گے وہ وقت جس کا 5 برسوں سے انتظار تھا ۔
مزدور ورکر جو ملوں میں کام کرتے ہیں ان کی تنخواہ کم ازکم 15 ہزار ہونے کو ہے، اناج کی قیمتیں کم ہوں گی، بجلی کی پیداوار بڑھے گی ، نرخ کم ہوں گے، غیرملکی سرمایہ آئے گا۔ قوم کے ساتھ ایک بڑا المیہ ہے۔ جب بھی ملک پر کوئی سیاسی بحران آتا ہے اور عوام میں سیاسی اور معاشی بھونچال آتا ہے تو حکمران عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے یا تو خود چین چلے جاتے ہیں یا وہاں کے رہنماؤں کو دوستی کا واسطہ دلاکر یہاں بلا لیتے ہیں اس طرح ان کو چینی بانسری ہاتھ آجاتی ہے ۔اس طرح سادہ لوح عوام بقول علامہ اقبال کے:
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
اگر آپ انتخابات سے قبل کے نعرے، جلسوں، تقریروں پر غور کریں تو کیا لگتا ہے کہ کیا یہ وہی پارٹی ہے اور جانے والے صدر نے کس قدر آنے والے وزیر اعظم کی قصیدہ خوانی کی جس کو فارسی زبان میں چند جملوں میں یوں ادا کیا گیا ہے ''من تورا حاجی بگویم' تو مرا حاجی بگو'' اتنا بڑا برقی طوفان اور سیاسی پارٹیاں خاموش، مذہبی تنظیموں کو بھی چاہیے تھا کہ وہ عوام کے حقوق کی حفاظت کرتیں، سیاسی پارٹیاں تو عوام میں وقار کھوچکی ہیں جو بچ گئی ہیں ان پر بھی ضعف طاری ہے جب صدر زرداری حکمراں تھے تو وزیر اعظم ان کے تابع تھے مگر اب صدر مملکت کی آواز کو سننے کے لیے قوم کے کان ترس گئے جیسے ان کا اس حکومت میں کوئی علامتی کردار ہے جب کہ انھیں مسند پر بٹھایا گیا تھا تو ان کی زیرکی، دوربینی، سیاسی بصیرت اور غیر وابستگی بتائی گئی تھی، جس میں کوئی شک و شبہ نہیں بلکہ اس کے علاوہ وہ مردم شناس اور موقع شناس شخصیت ہیں جو سیاسی فیصلوں پر طائرانہ نگاہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں مگر کہاں، کب اور کس موقعے پر ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے گا پیپلزپارٹی کا دور صدر کا دور تھا اور اب وزیر اعظم کا ہی دور دورہ ہے۔
چلیے ہم کون ہوتے ہیں راہیں دکھانے والے ۔ ہوتے تو ہم بھی کسی زیرک گاہ میں بیٹھے ہوتے مگر اس بات پر تو افسوس کرنا ہوتا ہے کہ کاروباری اور بڑے تجارتی لوگ حکمرانی کر رہے ہیں اور انرجی کے نرخ میں اضافے کیے جارہے ہیں آخر ملک کے لوگ ڈوبتے ہیں ڈوبنے دیں مگر مشرف کے دور کو اتنا تو یاد کرلیں ڈالر کا ریٹ کیا تھا اور جمہوری دور میں کیا ہے؟ انرجی کا بحران کیوں شروع ہوا سی این جی کٹ کن لوگوں نے امپورٹ کیں؟ سی این جی کی بیش بہا دولت کو کس نے بسوں میں جلادیا، کیوں؟ اب ہماری انڈسٹریل مصنوعات کی قیمتیں کہاں کھڑی ہوں گی؟ بھارت، بنگلہ دیش کس طرح ہماری انڈسٹری کو چلنے دیں گے کیونکہ ایکسپورٹ کے اہداف آدھے بھی نہ ہو پائیں گے ہمارے نرخ عالمی منڈی میں مقابلہ نہ کرسکیں گے جب کہ عالمی طور پر پٹرول سستا ہورہا ہے اس کا آخری انجام یہ ہوگا کہ ملکی صارفین ہی ان کی مارکیٹ رہ جائیں گے۔
وزیر اعظم صاحب انوسٹمنٹ کی باتیں بھی کرتے ہیں ملک کے احوال تو دیکھیے پاکستان میں اغواء برائے تاوان کی وبا نے لوگوں کو اس قدر خوفزدہ کردیا ہے کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے ماں باپ سے ملنے پاکستان نہیں آسکتے تو انوسٹمنٹ دور کی بات ہے البتہ بلڈرز کے مزے ہیں کیونکہ مستقبل کے لیے وہ پاکستان میں بھی زمینیں اور مکانات خرید رہے ہیں کہ جب واپسی ہو تو پھر اپنی تہذیب میں واپس آجائیں بچے جوان ہوں گے تو انگریزی ثقافت ان کو دین سے جدا نہ کردے، مگر غیرملکی سرمایہ کا تصور تو دور کی بات ہے خود گھر کے چراغ گھروں کو آگ لگا رہے ہیں، ابھی حال ہی میں تذکرہ ہورہا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ تیزی سے بلندی کی طرف جارہی ہے غور فرمائیں کہ مجموعی طور پر جب مارکیٹ میں مندی ہو تو اسٹاک مارکیٹ کیسے تیزی کی طرف جاسکتی ہے؟ پاکستان میں کاروباری حلقے میں ایک بازاری لفظ ہے جس کو ''جگاڑ '' کا نام دیا گیا ہے پیسے والے سونا یا ڈالر کی خریداری، اجناس کی ذخیرہ اندوزی میں مصروف ہیں تو پھر اسٹاک مارکیٹ کی یہ تیزی کسی خطرناک مندی کا پیش خیمہ ہے چند ماہ بعد مارکیٹ کی اصل پوزیشن سامنے ہوگی کتنے انوسٹر سر پکڑے اور دماغی توازن کھو کر بیٹھے نظر آئیں گے۔
ملک کا محض سیاسی ڈھانچہ ہی تباہ نہیں ہوا بلکہ پورے کا پورا شعبہ ہائے زندگی پسماندگی کا شکار ہے ملک کی دولت لوٹنے والوں، اور بینکوں کے قرضے لے کر کھانے اور ربیٹ (Rebate) یعنی ایکسپورٹ کے مجموعی منافعے میں کوالٹی کا گھپلا، اے کوالٹی میں بی کوالٹی مکس کرنا، جس کو بعض گارمنٹس ایکسپورٹرز نے اپنایا خصوصاً 90 کی دہائی سے سن 2006 تک معاملہ چلتا رہا بعدازاں اس پر حکومت کی گرفت مضبوط ہوئی، ویسے بینک لون تو ایسی واپسی تھی جس میں زیادہ تر بینک کے ڈی فالٹر اسمبلی میں پہنچ گئے سب صادق وامین بن گئے، اسٹیٹ بینک کی لسٹ کی پرواہ کیے بغیر انتخابات میں حصہ لینے کے اہل بنے حالانکہ علامہ طاہر القادری اس پر اصرار کرتے رہے اور الیکشن کمیشن بے بس رہا، یہ سب کام اعلانیہ ہوتا رہا، بہ بانگ دہل، پھر عوامی خدمت کے نعرے لگتے رہے۔
انتخابات کے ابھی 100 روز ہی مکمل ہوئے تھے کہ ملک کو مہنگائی کے دلدل میں دھکیل دیا گیا گیا اس پر اس قدر ڈھیٹ بن کر حکمرانوں کے نمایندہ الیکٹرانک میڈیا پر اپنی حکمت عملی کے تجزیے پیش کرتے ہیں جن کو سن کر انسان ششدر رہ جائے حکمرانوں کا یہ انداز ہر آنے والے کا جانے والے سے بڑھ کر ہی ہوتا ہے، بار بار حکمران یہ کہہ رہے ہیں کہ انوسٹر آنے والے ہیں ۔ سچ بولنا جو اسلام کا بنیادی اصول ہے وہی ہم سے دور ہوتا جارہا ہے، سچ تو یہ ہے کہ سرمایہ یہاں سے بھاگ رہا ہے ہمارے ادارے نیلام ہورہے ہیں۔ پی آئی اے کا احوال عیاں ہے، آمدنی سے زیادہ اخراجات، پھر دیکھ بھال، جانچ پڑتا، کے لیے رقم ختم ہوتی جارہی ہے ۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے زراعت کا فروغ، بنجر زمینوں کی آبادکاری نوجوانوں اور بے زمین کسانوں کو 20 ایکڑ تک زمینوں کا الاٹ کرنا، ٹریکٹر کی اجتماعی کمیون سسٹم پر تقسیم، نہری نظام اور گاؤں گاؤں تالاب، چھوٹے ڈیم، چین سے کاشتکاری کے ماہرین کو بلاکر پلاننگ مگر ایسا ہر گز نہ ہوگا ۔
بعد میں جالب خود حاکموں کی طرف سے چینی نظام کو دور سے سلام کی باتیں کرتے ہیں اب حکمرانوں نے عوام کو ایک انجانے خوف میں مبتلا کردیا ہے کہ طالبان سے بات کی جائے یا نہ کی جائے نہ کوئی اعلامیہ نہ اعلانیہ پاک بھارت مذاکرات کا کوئی منظر نامہ نہ اندرونی معاملات پر تذکرہ۔
رات دن گردش میں ہیں یہ حکمراں اپنے پنجروں میں پلے میاں مٹھو کی دو پارٹیاں بناکر بولوانا شروع کردیتے ہیں اور کسی بات کو منطقی حل تک نہیں جانے دیتے بس چلتے چلتے شاعر کا یہ پیغام سناتا جاتا ہوں:
تمہیں بچانا ہے اس چمن کو فریب کاروں کی رہزنی سے
تمہیں بچانا ہے عزم انساں کو شب پرستوں کی دوستی سے
تمہیں بچانا ہے صبح فردا کو شام فرداکی تیرگی سے
اٹھاؤ اپنا عظیم پرچم!
مزدور ورکر جو ملوں میں کام کرتے ہیں ان کی تنخواہ کم ازکم 15 ہزار ہونے کو ہے، اناج کی قیمتیں کم ہوں گی، بجلی کی پیداوار بڑھے گی ، نرخ کم ہوں گے، غیرملکی سرمایہ آئے گا۔ قوم کے ساتھ ایک بڑا المیہ ہے۔ جب بھی ملک پر کوئی سیاسی بحران آتا ہے اور عوام میں سیاسی اور معاشی بھونچال آتا ہے تو حکمران عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے یا تو خود چین چلے جاتے ہیں یا وہاں کے رہنماؤں کو دوستی کا واسطہ دلاکر یہاں بلا لیتے ہیں اس طرح ان کو چینی بانسری ہاتھ آجاتی ہے ۔اس طرح سادہ لوح عوام بقول علامہ اقبال کے:
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
اگر آپ انتخابات سے قبل کے نعرے، جلسوں، تقریروں پر غور کریں تو کیا لگتا ہے کہ کیا یہ وہی پارٹی ہے اور جانے والے صدر نے کس قدر آنے والے وزیر اعظم کی قصیدہ خوانی کی جس کو فارسی زبان میں چند جملوں میں یوں ادا کیا گیا ہے ''من تورا حاجی بگویم' تو مرا حاجی بگو'' اتنا بڑا برقی طوفان اور سیاسی پارٹیاں خاموش، مذہبی تنظیموں کو بھی چاہیے تھا کہ وہ عوام کے حقوق کی حفاظت کرتیں، سیاسی پارٹیاں تو عوام میں وقار کھوچکی ہیں جو بچ گئی ہیں ان پر بھی ضعف طاری ہے جب صدر زرداری حکمراں تھے تو وزیر اعظم ان کے تابع تھے مگر اب صدر مملکت کی آواز کو سننے کے لیے قوم کے کان ترس گئے جیسے ان کا اس حکومت میں کوئی علامتی کردار ہے جب کہ انھیں مسند پر بٹھایا گیا تھا تو ان کی زیرکی، دوربینی، سیاسی بصیرت اور غیر وابستگی بتائی گئی تھی، جس میں کوئی شک و شبہ نہیں بلکہ اس کے علاوہ وہ مردم شناس اور موقع شناس شخصیت ہیں جو سیاسی فیصلوں پر طائرانہ نگاہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں مگر کہاں، کب اور کس موقعے پر ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے گا پیپلزپارٹی کا دور صدر کا دور تھا اور اب وزیر اعظم کا ہی دور دورہ ہے۔
چلیے ہم کون ہوتے ہیں راہیں دکھانے والے ۔ ہوتے تو ہم بھی کسی زیرک گاہ میں بیٹھے ہوتے مگر اس بات پر تو افسوس کرنا ہوتا ہے کہ کاروباری اور بڑے تجارتی لوگ حکمرانی کر رہے ہیں اور انرجی کے نرخ میں اضافے کیے جارہے ہیں آخر ملک کے لوگ ڈوبتے ہیں ڈوبنے دیں مگر مشرف کے دور کو اتنا تو یاد کرلیں ڈالر کا ریٹ کیا تھا اور جمہوری دور میں کیا ہے؟ انرجی کا بحران کیوں شروع ہوا سی این جی کٹ کن لوگوں نے امپورٹ کیں؟ سی این جی کی بیش بہا دولت کو کس نے بسوں میں جلادیا، کیوں؟ اب ہماری انڈسٹریل مصنوعات کی قیمتیں کہاں کھڑی ہوں گی؟ بھارت، بنگلہ دیش کس طرح ہماری انڈسٹری کو چلنے دیں گے کیونکہ ایکسپورٹ کے اہداف آدھے بھی نہ ہو پائیں گے ہمارے نرخ عالمی منڈی میں مقابلہ نہ کرسکیں گے جب کہ عالمی طور پر پٹرول سستا ہورہا ہے اس کا آخری انجام یہ ہوگا کہ ملکی صارفین ہی ان کی مارکیٹ رہ جائیں گے۔
وزیر اعظم صاحب انوسٹمنٹ کی باتیں بھی کرتے ہیں ملک کے احوال تو دیکھیے پاکستان میں اغواء برائے تاوان کی وبا نے لوگوں کو اس قدر خوفزدہ کردیا ہے کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے ماں باپ سے ملنے پاکستان نہیں آسکتے تو انوسٹمنٹ دور کی بات ہے البتہ بلڈرز کے مزے ہیں کیونکہ مستقبل کے لیے وہ پاکستان میں بھی زمینیں اور مکانات خرید رہے ہیں کہ جب واپسی ہو تو پھر اپنی تہذیب میں واپس آجائیں بچے جوان ہوں گے تو انگریزی ثقافت ان کو دین سے جدا نہ کردے، مگر غیرملکی سرمایہ کا تصور تو دور کی بات ہے خود گھر کے چراغ گھروں کو آگ لگا رہے ہیں، ابھی حال ہی میں تذکرہ ہورہا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ تیزی سے بلندی کی طرف جارہی ہے غور فرمائیں کہ مجموعی طور پر جب مارکیٹ میں مندی ہو تو اسٹاک مارکیٹ کیسے تیزی کی طرف جاسکتی ہے؟ پاکستان میں کاروباری حلقے میں ایک بازاری لفظ ہے جس کو ''جگاڑ '' کا نام دیا گیا ہے پیسے والے سونا یا ڈالر کی خریداری، اجناس کی ذخیرہ اندوزی میں مصروف ہیں تو پھر اسٹاک مارکیٹ کی یہ تیزی کسی خطرناک مندی کا پیش خیمہ ہے چند ماہ بعد مارکیٹ کی اصل پوزیشن سامنے ہوگی کتنے انوسٹر سر پکڑے اور دماغی توازن کھو کر بیٹھے نظر آئیں گے۔
ملک کا محض سیاسی ڈھانچہ ہی تباہ نہیں ہوا بلکہ پورے کا پورا شعبہ ہائے زندگی پسماندگی کا شکار ہے ملک کی دولت لوٹنے والوں، اور بینکوں کے قرضے لے کر کھانے اور ربیٹ (Rebate) یعنی ایکسپورٹ کے مجموعی منافعے میں کوالٹی کا گھپلا، اے کوالٹی میں بی کوالٹی مکس کرنا، جس کو بعض گارمنٹس ایکسپورٹرز نے اپنایا خصوصاً 90 کی دہائی سے سن 2006 تک معاملہ چلتا رہا بعدازاں اس پر حکومت کی گرفت مضبوط ہوئی، ویسے بینک لون تو ایسی واپسی تھی جس میں زیادہ تر بینک کے ڈی فالٹر اسمبلی میں پہنچ گئے سب صادق وامین بن گئے، اسٹیٹ بینک کی لسٹ کی پرواہ کیے بغیر انتخابات میں حصہ لینے کے اہل بنے حالانکہ علامہ طاہر القادری اس پر اصرار کرتے رہے اور الیکشن کمیشن بے بس رہا، یہ سب کام اعلانیہ ہوتا رہا، بہ بانگ دہل، پھر عوامی خدمت کے نعرے لگتے رہے۔
انتخابات کے ابھی 100 روز ہی مکمل ہوئے تھے کہ ملک کو مہنگائی کے دلدل میں دھکیل دیا گیا گیا اس پر اس قدر ڈھیٹ بن کر حکمرانوں کے نمایندہ الیکٹرانک میڈیا پر اپنی حکمت عملی کے تجزیے پیش کرتے ہیں جن کو سن کر انسان ششدر رہ جائے حکمرانوں کا یہ انداز ہر آنے والے کا جانے والے سے بڑھ کر ہی ہوتا ہے، بار بار حکمران یہ کہہ رہے ہیں کہ انوسٹر آنے والے ہیں ۔ سچ بولنا جو اسلام کا بنیادی اصول ہے وہی ہم سے دور ہوتا جارہا ہے، سچ تو یہ ہے کہ سرمایہ یہاں سے بھاگ رہا ہے ہمارے ادارے نیلام ہورہے ہیں۔ پی آئی اے کا احوال عیاں ہے، آمدنی سے زیادہ اخراجات، پھر دیکھ بھال، جانچ پڑتا، کے لیے رقم ختم ہوتی جارہی ہے ۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے زراعت کا فروغ، بنجر زمینوں کی آبادکاری نوجوانوں اور بے زمین کسانوں کو 20 ایکڑ تک زمینوں کا الاٹ کرنا، ٹریکٹر کی اجتماعی کمیون سسٹم پر تقسیم، نہری نظام اور گاؤں گاؤں تالاب، چھوٹے ڈیم، چین سے کاشتکاری کے ماہرین کو بلاکر پلاننگ مگر ایسا ہر گز نہ ہوگا ۔
بعد میں جالب خود حاکموں کی طرف سے چینی نظام کو دور سے سلام کی باتیں کرتے ہیں اب حکمرانوں نے عوام کو ایک انجانے خوف میں مبتلا کردیا ہے کہ طالبان سے بات کی جائے یا نہ کی جائے نہ کوئی اعلامیہ نہ اعلانیہ پاک بھارت مذاکرات کا کوئی منظر نامہ نہ اندرونی معاملات پر تذکرہ۔
رات دن گردش میں ہیں یہ حکمراں اپنے پنجروں میں پلے میاں مٹھو کی دو پارٹیاں بناکر بولوانا شروع کردیتے ہیں اور کسی بات کو منطقی حل تک نہیں جانے دیتے بس چلتے چلتے شاعر کا یہ پیغام سناتا جاتا ہوں:
تمہیں بچانا ہے اس چمن کو فریب کاروں کی رہزنی سے
تمہیں بچانا ہے عزم انساں کو شب پرستوں کی دوستی سے
تمہیں بچانا ہے صبح فردا کو شام فرداکی تیرگی سے
اٹھاؤ اپنا عظیم پرچم!