عقلمند عورتیں
عقلمند عورتیں کون؟ یہ بڑا نازک اور دلچسپ سوال ہے۔ شاید ہی کوئی خاتون ہو جو اس سوال کا جواب نہ جاننا چاہے۔
عقلمند عورتیں کون؟ یہ بڑا نازک اور دلچسپ سوال ہے۔ شاید ہی کوئی خاتون ہو جو اس سوال کا جواب نہ جاننا چاہے۔ گویا تمام عورتیں اس سوال کا جواب بڑے تجسس سے جاننا چاہیں گی۔ مردوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ہم ان کی عقلمندی کے بارے میں نہیں پوچھ رہے۔ اس سوال کے بارے میں مردوں کی کتنی دلچسپی ہو گی کہ وہ یہ جان سکیں کہ عقلمند عورت کون ہوتی ہے؟ حیرت نہ کریں اگر یہ کہا جائے کہ مرد اس جواب کی کھوج میں عورتوں سے زیادہ بے چین ہوں گے۔ جب ہم عورت کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد کوئی لڑکی یا دوشیزہ نہیں۔ ہماری مراد شادی شدہ خواتین سے ہے۔ آئیے! اب ہم طبقہ نسواں کو دانش کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔
شادی شدہ خواتین کی عقلمندی کی جب ہم بات کر رہے ہیں تو یہ جاننا لازمی ہے کہ ہمارے ہاں خاندانی نظام بڑا مضبوط ہے۔ اسے آپ عالم اسلام کہہ لیں، مشرق کہہ لیں یا برصغیر پاک و ہند۔ مغرب اپنی تمام تر ترقی کے باوجود گھر کے ٹوٹنے اور بکھرنے کے صدمے سے دوچار ہے۔ اب مشرق سے جو لوگ ترقی کے لیے مغرب جاتے ہیں تو وہ دونوں چیزوں کو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یورپ کی ترقی کا سکھ بھی اور گھر کی راحت بھی۔ وہ اس کوشش میں کس حد تک کامیاب رہتے ہیں؟ یہ بالکل ایک الگ سوال ہے۔ حیرت انگیز طور پر گورے اب ایک ضد کرنے لگے ہیں۔ وہ ہمیں اپنی خوبیوں اور خامیوں کا مکمل پیکیج دے رہے ہیں۔ اب گھر کے اندر کی راحت اور باہر کی ترقی یافتہ یورپی دنیا کا سکھ ایک ساتھ بیچنا انھیں گوارا نہیں۔ نہ صرف اپنی دنیا میں بلکہ ہماری اپنی دنیا کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ان کے لبرل معاشرے کی خوبیوں کے ساتھ خاندانی نظام کے بھونچال کو اہل مشرق کو قبول کرنا ہو گا۔ پورا پیکیج ''لے لیں یا چھوڑ دیں'' کی شرط نے ہمارے معاشروں میں ہلکے پھلکے زلزلوں کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ گورے صرف زبانی کلامی بات نہیں کرتے بلکہ انھوں نے ہمارے اپنے اندر سے دباؤ ڈالنے کے لیے این جی اوز کی شکل میں ایک وبا ایجاد کی ہے۔
یہ عورتوں کو ورغلا کر ان کی دانشمندی کو چیلنج کرتی ہیں۔ ''بی جمالو'' کے سے انداز میں بنے بنائے اور بسے بسائے گھروں کو بگاڑنا ان کا شیوہ ہے۔ ان کی گفتگو کچھ اس طنزیہ انداز میں ہوتی ہے۔ ''عورت اگر پٹتی ہے تو ضرور اس نے زبان چلائی ہو گی، کھانے میں نمک کم ہو گا یا ناشتہ دینے میں دیر ہو گئی ہو گی۔ عورت تو محض لونڈی اور خدمت گار ہے۔ اس کی مجال ہے کہ وہ آقا کو چیلنج کرے۔ مرد اپنی پارسا بیوی کو چھوڑ کر بازار حسن جا سکتا ہے۔ جس پر دل آ جائے اس سے عشق اور پھر شادی کر سکتا ہے''۔ عورتوں کو ورغلانے والی صنف نازک کے حقوق کی علم بردار بن کر سامنے آتی ہیں۔ ہمارے خاندانی نظام کو برباد کر کے معاشرے سے شرم و حیا کو رخصت کرنا ان کا مقصد ہے۔ آزادی کے نام پر آوارگی کا دروازہ کھولنا ان کا منشا ہے۔ اب یہ عقلمند پاکستانی عورتوں کا کام ہے کہ وہ اس دستک پر دروازہ کھولتی ہیں یا نہیں؟ اس راستے فحاشی کے سیلاب کو ہمارے گھروں میں داخل کر کے ہمیں بھی مغرب کے لرزتے خاندانی نظام سے دوچار کرنا ان کا عزم ہے۔
بے نظیر بھٹو، زیبا بیگم، اداکارہ شبنم، خوش بخت شجاعت، اداکارہ مسرت نذیر اور لیلیٰ زبیری کے حوالے سے ہم گفتگو کریں گے۔ لازمی ہے کہ پہلے دو باتیں سمجھ لی جائیں۔ ہزاروں لاکھوں شادیوں میں دو تین فیصد ہی برے انجام سے دوچار ہوتی ہیں۔ 98 فیصد مرد و خواتین ہمارے معاشرے میں رشتے کو برقرار رکھتے ہیں۔ ایک دو فیصد نالائق مردوں کی بداعمالیوں کی سزا تمام مردوں کو دینا زیادتی ہے۔ یہ پہلی بات ہے۔ دوسری یہ کہ پچھلے دو برسوں کے فیملی مقدمات دیکھے تو کچھ بات سمجھ میں آئی۔ وکلاء کو میاں بیوی کے جھگڑے، بچوں کی تعداد اور خاندانی پس منظر سمیت تمام معلومات ہوتی ہیں۔ جب مقدمات عدالتوں میں پہنچتے ہیں تو اس وقت تک دونوں سے ملاقات بھی ہو چکی ہوتی ہے۔ چاہے ہم لڑکے والے ہوں یا لڑکی والے، عدالت میں دونوں کی پیشی تمام معاملات کو ظاہر کر دیتی ہے۔ جب پرانی فائلوں پر نظر دوڑائی تو اندازہ ہوا کہ خلع لینے والی آدھی خواتین اپنا گھر بچا سکتی تھیں۔ وہ اپنی سمجھداری سے اور کچھ وقت دے کر خود کو بھی اور شوہر کو بھی بچوں کے ساتھ ایک چھت تلے رکھ سکتی تھیں۔ نصف مقدمات ایسے تھے جن میں مردوں کی عادتیں، انداز، رکھ رکھاؤ ایسا تھا کہ واقعی خاتون کو گھر ٹوٹنے کا الزام نہیں دیا جا سکتا۔ ظالم مردوں کی قید سے آزادی ان کا حق تھا۔
چھ مشہور خواتین کی دانشمندی چھ ملین پاکستانی خواتین کے سمجھنے کے لائق ہے۔ شادی شدہ خواتین کے لیے ان کی خوشگوار ازدواجی زندگی میں بہت سے سبق پوشیدہ ہیں، خواتین تو جان پہچان کی یا رشتے دار بھی ہیں لیکن شاید اس سے بات آسانی سے سمجھ میں نہ آئے اس لیے مشہور خواتین کا سہارا لیا جائے۔ بے نظیر کا سیاست میں بھرپور حصہ لینے سے قبل شادی کے رشتے میں بندھ جانا ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا۔ سر پر دوپٹہ لے کر بے مثال شائستگی اور وقار کے مظاہرے کو تاریخ اچھے لفظوں سے یاد رکھے گی۔ پاکستان کو اپنا گھر سمجھ کر اس گھر کے اطوار کو اپنا کر ایک ذہین، مشہور اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون نے اپنی ہم وطن عورتوں کو سبق دیا ہے کہ عورت کو اللہ تعالیٰ نے بہتر سانچے میں ڈھل جانے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ اب یہ اس پر منحصر ہے کہ وہ ان خوبیوں سے فائدہ اٹھا کر اپنی زندگی کو جنت بناتی ہے یا دوزخ؟ زیبا بیگم اور اداکارہ شبنم کے معاملات میں یکسانیت ہے۔ فلمی ہیروئن ہونے اور شادی کے بعد بھی فلموں میں کام جاری رکھنے پر انھیں نہ صرف خوش قسمت بلکہ عقلمند خواتین بھی کہا جا سکتا ہے۔
دونوں نے اپنے مجازی خدا کو اہمیت دی اور ان کی طے کردہ حدود سے آگے نہیں نکلیں۔ بعض مواقعے پر شوہر سے زیادہ کمانے کے باوجود انھوں نے اپنے گھر کے سربراہ کی عزت میں کمی نہیں آنے دی۔ اگر دونوں اپنی شہرت و دولت کے خمار میں محمد علی اور روبن گھوش سے ٹکرا جاتیں تو آج ان کا شمار عقلمند خواتین میں نہ ہوتا۔ آزادی اور پابندی کے خوبصورت امتزاج کو سمجھنے میں ان کی کامیابی پوشیدہ ہے۔ علی دوسری ہیروئنز کے ساتھ کام کرتے جب کہ زیبا صرف محمد علی کی فلموں کی ہیروئن بنتیں۔ ضد اور برابری پر اگر زیبا اڑ جاتیں تو بہت کچھ بگڑ جاتا۔ خوش بخت شجاعت خوش بخت اس لیے ہیں کہ انھوں نے شجاعت کی طے کردہ حدود سے آگے جانا گوارا نہ کیا۔ فاطمہ ثریا بجیا انھیں کسی ڈرامے میں کام کا کہہ رہی تھیں لیکن خوش بخت جانتی تھیں کہ یہاں ان کے ''پر جلتے ہیں''۔ بلیک اینڈ وائٹ دور کی ہیروئن مسرت نذیر اپنے دور عروج پر فلمی دنیا چھوڑ کر بیرون ملک چلی گئیں۔ کیریئر کی ضد ان کا بطور اچھی بیوی اور ذمے دار ماں کے کردار ختم کر دیتا۔ یہی صورت حال خوش شکل، خوش نصیب عقلمند اور ریڈیو پاکستان کے سابق کنٹرولر جمیل زبیری کی صاحبزادی لیلیٰ زبیری کے حوالے سے کہی جا سکتی ہے۔
کسی عورت نے خوب کہا ہے کہ ''فرماں بردار بیوی ہی شوہر کو اپنے تابع رکھ سکتی ہے''۔ بعض اوقات قربانی ہی عورت کو بلند مقام اور عزت و مرتبہ عطا کرتی ہے۔ ضد اور ہٹ دھرمی سب کے لیے نقصان دہ ہے لیکن رشتوں میں یہ مہلک ثابت ہوتی ہے۔ اگر یہ چھ خواتین حقوق نسواں کی دعوے دار اور مساوات مرد و زن کی علم بردار تنظیموں کی باتوں میں آ جاتیں تو ہم کبھی انھیں نہ کہتے کہ یہ ہیں عقلمند عورتیں۔