گورنال سوات کا چھپا ہوا حسن

گورنال سوات کے مرکزی بازار بحرین سے محض چار کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے سوات کی مشرقی پہاڑی کی بلندی پر واقع ہے

گورنال کی وادی قدرت کی تمام تر رعنائیوں کو اپنے اندر سمیٹ کر سیاحوں کی راہ تک رہی ہے۔ (فوٹو: فائل)

سوات کی وادیاں اپنے حسن و جمال کی بدولت عالمی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لاتی ہیں، جن میں زیادہ تر سوات کوہستان کی سرسبز و شاداب فلک بوس پہاڑی علاقوں کی وادیاں بحرین، کالام، اشو مٹلتان، اتروڑ اور گبرال کے نام زبان زد عام ہیں۔ لیکن کوہستان میں بے پناہ حسن سے مالامال ایسی وادیاں اور درے بھی موجود ہیں جو حکومت کی جانب سے یکسر نظرانداز کیے جانے کے باعث عالمی سیاح تو دور مقامی سیاحوں کی نظروں سے بھی اوجھل ہیں۔ ایسی وادیوں میں سے ایک حسین وادی گورنال بھی ہے۔



گورنال سوات کے مرکزی بازار بحرین سے محض چار کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے سوات کی مشرقی پہاڑی کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ وادی قدرت کی تمام تر رعنائیوں کو اپنے اندر سمیٹ کر سیاحوں کی راہ تک رہی ہے، مگر شومیٔ قسمت کہ اب تک کسی حکمران کی نظر التفات اس طرف نہیں پڑی کہ اس وادی تک رسائی کےلیے کم از کم جیپ ٹریک تو بہتر بنایا جاسکے۔

چھ ہزار سے زائد آبادی والی اس گمنام وادی کی پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ سڑک تو کجا، اس وادی میں بنیادی صحت کا کوئی ایک مرکز تک تعمیر نہ ہوسکا۔ ایم ایم اے دور حکومت سے لے کر اب تک جتنے بھی نمائندے منتخب ہوئے ہیں، انہوں نے کبھی اس وادی کو اپنے حلقہ نیابت میں بھی شمار نہیں کیا۔ علاقے میں سرکاری صحت کا کوئی ایک مرکز تک موجود نہیں اور پوری وادی اتائیوں اور نیم حکیموں کے رحم و کرم پر ہے۔ ڈیلیوری کیسز اور دیگر ایمرجنسی مریضوں کو دشوار گزار راستوں پر بیس کلومیٹر دور مدین یا پھر ساٹھ کلومیٹر دور سیدو شریف اسپتال منتقل کرنا پڑتا ہے۔

ایک طرف صوبائی حکومت دہشت گردی اور سیلاب سے متاثرہ سوات کی سیاحت کو پروان چڑھانے کےلیے نت نئے منصوبے تیار کررہی ہے، لیکن دوسری طرف انھیں گورنال جیسے سیاحتی مقامات نظر ہی نہیں آرہے کہ وہ ان چھپے ہوئے پرکیف نظاروں تک سیاحوں کی رسائی کو ممکن بناسکے۔




گورنئی ایک بڑا گاؤں ہے۔ اس کی پہاڑیوں پر چند کلومیٹر کی مسافت پر بہترین سیاحتی مقامات موجود ہیں، جن میں بیر بانڈہ، بگوشئی، اساگئی، باکسر، خانکئی، پناشئی اور بڈال خوڑ ایسے مقامات ہیں جو دنیا کے سرفہرست سیاحتی ممالک میں بھی ڈھونڈے سے نہیں مل سکتے۔ لیکن "جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا" کے مصداق مواصلاتی دشواریوں کے باعث ان علاقوں کا حسن وجمال دیکھنے کےلیے مقامی سیاحوں کا آنا بھی ممکن نہیں۔ اگر گورنئی وادی اور اس کے سیاحتی مقامات تک سیاحوں کی رسائی ممکن بنائی جائے تو خیبرپختونخوا حکومت کو سیاحت کی مد میں بڑا زرمبادلہ مل سکتا ہے۔ مگر ہمارے منتخب نمائندوں کو یہ بات سمجھانا بہت دور کی سوجھنے والی بات ہے۔ انہوں نے آج تک مقامی لوگوں کو اپنے ووٹرز تک میں شمار نہیں کیا۔

گورنال سڑک موت کا کنواں بن چکی ہے۔ خستہ حال سڑک کے باعث کئی گھر اجڑ گئے، مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ تین سال قبل گورنال سڑک پر جیپ حادثے میں چھ افراد جاں بحق جبکہ چار شدید زخمی ہوئے، مگر دو مرتبہ حلقے کے ایم پی اے رہنے والے نے ان حادثات کے باوجود بھی اس سڑک کی تعمیر گوارا نہیں کی۔ اسی طرح ایک اور افسوسناک واقعہ دو ہفتے قبل پیش آیا جس میں مسافر جیب گرنے کے باعث ایک بچی جاں بحق جبکہ تین افراد شدید زخمی ہوئے، مگر نو منتخب ایم پی اے بھی حسب روایت خاموشی پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔



صوبائی حکومت سیاحت کے معاملے پر ترجیحی بنیادوں پر کام کررہی ہے اور اس مقصد کےلیے عمران خان نے صوبائی وزیر سیاحت عاطف خان کو سیاحتی مقامات کی بہتری کےلیے پلان تیار کرنے کا ٹاسک دیا ہے۔ اس حکم کی پیروی کرتے ہوئے عاطف خان سوات کوہستان اور کمراٹ کے دورے بھی کرچکے ہیں اور سیاحتی مقامات کو سہولیات دینے کےلیے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ مگر گورنال جیسی وادیوں کے حسن کو پسماندگی کے نقاب میں چھپاکر ایکسپلور شدہ حسن پر جتنا میک اپ کیا جائے، بے سود ہی ثابت ہوگا۔

یہاں سوال صرف سیاحت کا نہیں کہ ان وادیوں کو حسیناؤں کی گلی سمجھ کر چکر کاٹنے تک محدود رکھیں، بلکہ پاکستانی شہری ہونے کے ناتے مقامی لوگوں کو مواصلات، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ امید ہے ہمارے حکمران خواب غفلت سے بیدار ہوں گے اور گورنال اور اس جیسی دیگر وادیوں کی طرف بھی نظر کرم ڈالیں گے۔



نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story