بچوں کے خلاف جرائم
بچوں کے خلاف پر تشدد جرائم کی روک تھام کے لیے ہمارے سامنے تین مقاصد ہونے چاہئیں۔
ISLAMABAD:
بچوں کے خلاف پر تشدد جرائم کی روک تھام کے لیے ہمارے سامنے تین مقاصد ہونے چاہئیں: بچوں کو جنسی استحصال کا آسان نشانہ بننے سے بچانا، تکنیکی سہولتیں فراہم کرنا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد میں اضافہ کرنا۔
بچوں کے خلا ف جنسی جرائم کا ارتکاب دراصل ایک بیماری ہے جسے پیڈوفیلیا کہتے ہیں۔اس طرح کے جرم کا ارتکاب کرنے والے کو پیڈوفائل کہتے ہیں۔ یعنی ایسا شخص جو بچوں عام طور پر تیرہ سال یا اس سے کم عمر بچوں کی جانب جنسی رغبت رکھتا ہو۔ ضروری نہیں کہ ہر پیڈو فائل بچوں کے ساتھ ایذا رسانی کا مرتکب ہو یا بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والا ہر شخص پیڈوفائل ہو۔ پیڈو فیلیا ایک ذہنی بیماری ہے۔
جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والے بچوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ بچوں کو ایسے خطرات سے آگاہ کرنا سب سے پہلے والدین کی ذمے داری ہے لیکن تعلیمی نصاب میں بھی بچوں کو اس طرح کی خطرناک صورتحال سے نمٹنا سکھانا چاہیے۔ پاکستان میں حال میں بچوں کے ساتھ پیش آنے والے جنسی زیادتی کے پے در پے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں سنگین اخلاقی اور سماجی خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں ان کا حل ڈھونڈنے کے لیے حکومت اور سول سوسائٹی کو سر جوڑ کے بیٹھنا ہو گا۔
بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور استحصال کرنے والے جنسی درندے بچوں سے ان کی معصومیت اور ان کا بچپن چھین لیتے ہیں۔ یہ صرف قانونی مسئلہ نہیں بلکہ سماجی مسئلہ بھی ہے۔ پاکستان میں یہ مسئلہ ایک حقیقی خطرہ بن چکا ہے۔ مغربی ممالک میں تو انٹرنیٹ پر چائلڈ پورنوگرافی کو اس کا بڑا سبب قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے ماہرین نفسیات و سماجیات کو اس کے اسباب پر تحقیق کرنی چاہیے۔ لوگوں کے رویوں کو تشکیل دینے اور ان پر اثر انداز ہونے پر میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ میڈیا آگاہی بھی پیدا کرتا ہے اور ارباب اختیار کو ان واقعات کی روک تھام کے لیے عملی قدم اٹھانے پر بھی مجبور کرتا ہے۔ ان مسائل کو پبلک ایجنڈا میں شامل کرانے میں ہی میڈیا کی طاقت پوشیدہ ہے۔ میڈیا کا کردار صرف تفریحی نہیں تعلیمی بھی ہوتا ہے۔ میڈیا پر سماجی برائیوں کے خلاف مہم چلانا سود مند رہتا ہے۔ اس طرح کی ہر مہم میں مسئلے کے سارے پہلوئوں کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے۔
بچوں کے ساتھ جسمانی، جنسی، جذباتی زیادتی اور انھیں نظر انداز کرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ تحقیق کے مطابق بچے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بارے میں بہت ایمانداری کے ساتھ بتاتے ہیں اور عام طور پر زیادتی کرنے والے ان کے قریبی یا جاننے والے لوگ ہوتے ہیں۔ تاریخی طور پر بچوں کو بہت کم اہمیت اور بہت کم حقوق دیے گئے ہیں گو کہ پاکستان بچوں کے عالمی کنونشن کا حصہ ہے لیکن ابھی بھی بچوں کی اکثریت مختلف طرح کی زیادتیوں کا شکار ہے۔2012ء میں بچوں پر ہونے والے تشدد کے حوالے سے کولمبو میں ہونے والی مشاورت میں بچوں نے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کیں:
۱۔ مناسب پالیسیوں اور ان پر عمل در آمد کے طریقے کے ذریعے بچوں پر ہونے والے تشدد کی روک تھام کے لیے قانونی اصلاحات کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
۲۔ بچوں کے لیے کام کرنے والے سارے اداروں کو بچوں پر ہونے والے تشدد کے خاتمے کے لیے مربوط کوششیں کرنی چاہئیں۔
۳۔ ہر ملک میں بچوں کے لیے فورم بنائے جائیں اور انھیں باہم مربوط کیا جائے تا کہ بچوں کی آواز سب تک پہنچ سکیں
۴۔ بچوں کے مسائل کے حوالے سے معلومات جمع کرنے اور رپورٹنگ کے طریقے بہتر بنائے جائیں۔
۵۔ بچوں کے تحفظ کے لیے پالیسیاں اور ضابطہ اخلاق بنایا جائے۔
بچے کوئی اشیا نہیں جن کا صحیح یا غلط استعمال کیا جائے نہ ہی وہ کھلونے ہیں جنہیں توڑ کر پھینک دیا جائے۔ بچے ہمارے معاشرے کا مستقبل ہیں اور ہمیں ہر قیمت پر ان کی حفاظت کرنا ہو گی۔ کوئی بھی معاشرہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی برداشت نہیں کر سکتا۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں آگہی کی کمی کی وجہ سے یہ مسئلہ ایک چیلنج بن گیا ہے۔ جنسی معاملات، مذہبی پابندیاں، جھوٹی ساکھ اور سماجی مرتبہ کو غیرت کا معاملہ قرار دے کر اس مسئلے کو سماجی طور پر شجر ممنوعہ بنا دیا گیا ہے۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی قانونی تعریف اور متعلقہ قوانین کی عدم موجودگی کی وجہ سے ابھی تک کوئی موثر پالیسی نہیں بن سکی ہے۔ بچوں کے تحفظ سے مراد ان کے حقوق کا تحفظ ہے، یعنی انھیں ہر طرح کے تشدد سے بچانا خواہ وہ تشدد جسمانی، نفسیاتی، جذباتی، سماجی، ثقافتی یا صنفی بنیاد پر کیا جائے یا ان کے ساتھ زیادتی کی جائے، نظر انداز کیا جائے، امتیازی سلوک کیا جائے یا استحصال کیا جائے۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ بچوں کو ہر طرح کے نقصان، تشدد اور زیادتی سے بچائے۔ محکمہ سماجی بہبود سے منسلک نیشنل کمیشن فار چائلڈ ویلفئیر اینڈ ڈویلپمنٹ کو بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
سول سوسائٹی مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت بچوں کی حفاظت کے لیے سروسز یا خدمات کی فراہمی کا ایک جامع نظام تشکیل دے۔ بچوں کی حفاظت کی خاطر مانیٹرنگ کا ایک جامع نظام اور انفارمیشن ڈیٹا بیس بنایا جائے، متعلقہ موضوعات پر تحقیق کرائی جائے۔ بچوں کے حقوق اور تحفظ کے حوالے سے قانونی اور انتظامی اصلاحات کی جائیں۔ بچوں کی حفاظت کے لیے عوامی آگہی کی مہم چلائی جائے۔ بچوں کے حقوق کے بین الاقوامی کنونشن میں کہا گیا ہے کہ ہر بچے کا حق ہے کہ اس کا نام ہو، قومیت ہو، اور اس کی شناخت کا تحفظ کیا جائے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ یہ نکات فاٹا کی چائلڈ پروٹیکشن پالیسی میں شامل ہیں۔
فاٹا نے تو پالیسی بنا لی مگر ہم کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے ماڈرن شہروں میں رہتے ہوئے بھی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، ریپ اور عصمت دری جیسے الفاظ استعمال کرتے ہوئے گھبراتے ہیں، اسی لیے ہمیں ان کے بارے میں آگاہی پھیلاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ جب کہ ہماری معصوم بچیاں اور بچے آئے دن جنسی درندوں کی درندگی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ حکومت کو، میڈیا کو اور ساری سول سوسائٹی کو ان درندوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے، انھیں فوری طور پر گرفتار کیا جائے اور سخت سے سخت سزائیں دی جائیں۔
والدین اور بچوں دونوں کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے، والدین اپنے بچوں کے معاملے میں کسی پر اندھا دھند اعتماد نہ کریں اور بچوں کو بھی سکھائیں کہ اگر کوئی ان کے جسم کے پوشیدہ حصوں کو چھونے کی کوشش کرتا ہے تو وہ فوری طور پر والدین کو آگاہ کریں۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں تا کہ بچے انھیں سب کچھ بتا سکیں۔ اس ضمن میں ایک غیر سرکاری تنظیم آہنگ کے شایع کردہ مواد سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
ایک اور غیر سرکاری تنظیم ساحل کی رپورٹ کے مطابق 2012ء میں پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 3000 کیسز رپورٹ ہوئے جو 2011ء کے مقابلے میں 21 فی صد زیادہ تھے۔ اوسط نکالا جائے تو ہر روز 8 بچے زیادتی کا شکار ہوئے۔ معروف اینکر طلعت حسین کے بقول مین اسٹریم میڈیا بچوں کے مسائل کو ترجیح نہیں دیتا۔ لیکن حالیہ واقعات کے بعد ہم سب کو ان مسائل پر توجہ دینا ہو گی اور ان کا حل بھی ڈھونڈنا ہو گا ورنہ مستقبل کا مورخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔