یکے بعد دیگر ے مہنگائی کے بم
جب ہمارے ملک میں انتخابات کا دور چل رہا تھا ہر طرف انتخابات کی گہما گہمی اپنے عروج پر تھا۔
جب ہمارے ملک میں انتخابات کا دور چل رہا تھا ہر طرف انتخابات کی گہما گہمی اپنے عروج پر تھی ہر ایک کی ان تاریخی انتخابات کے نتائج پر نظر تھی ہر کسی کو اس انتخابات کے بعد اپنے ملک اور اپنی تقدیر بدلنے کی امید تھی ہر پاکستانی پرجوش دکھائی دے رہا تھا ان انتخابات کے بعد ہر پاکستانی پرامید تھا کہ کوئی نیا چہرہ قیادت سنبھالے گا اور ملک ترقی کی طرف گامزن ہو جائے گا۔
شاید جو عوام سوچ رہے تھے ایسا ہو بھی سکتا تھا اگر واقعی عوام کے ووٹ سے نئی قیادت آتی تو انتخابات ہوں یا ہمارے ملک کا کوئی بھی فیصلہ ہم امریکا کی مرضی کے بغیر نہیں کر سکتے ہیں تو پاکستانی عوام کی کیا مجال کہ اپنی مرضی کا وزیر اعظم چن لے۔ خیر عوام تو تبدیلی چاہتے تھے ملک میں جو ان کی زندگی میں سکون لے کر آئے ایسی تبدیلی جو ان کے مال اور جان کا تحفظ فراہم کرے عوام پرانی قیادت کو آزما چکے تھے جو عوام تبدیلی اور انقلاب چاہتے تھے کیا وہ پچھلی آزمائی ہوئی قیادت کو ووٹ دے سکتے ہیں؟ ہمارے سینئر صحافی حضرات عوام کو کوستے نظر آتے ہیں کہ عوام کے ووٹ سے نئی قیادت کے ساتھ ساتھ بھیانک مہنگائی بھی ملی ہے۔ تو کیا واقعی عوام قصور وار ہیں؟ ہر الزام ہم عوام پر نہیں ڈال سکتے ہیں عوام کے علاوہ بھی بہت سارے عوامل ہمارے ملک میں کام کر رہے ہیں۔
قیادت نیا چہرہ سنبھالے یا پرانا چہرہ عوام صرف ایسی تبدیلی چاہتے ہیں جو ان کی زندگی کو آسان اور سکون والی بنا دے ان کو زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کرے عوام کو بھی سہولتیں میسر ہوں۔ مجھ جیسے کئی لوگ چاہتے ہیں کہ ہم اپنی اولاد کو معیاری تعلیم، معیاری خوراک، تمام معیاری سہولتیں فراہم کریں، مگر کیسے؟ اب اس قدر مہنگائی ہو گئی ہے کہ ہم بس سوچ سکتے ہیں خریداری بہت مشکل ہو گئی ہے کیا قصور ہے مجھ جیسے ہر اس پاکستانی کا جو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے کیا ہم یہ سمجھیں کہ ہمارا جرم پاکستانی ہونا ہی ہے جب میں دوسرے ممالک پر نظر ڈالتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ ہر ملک اپنی عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کر رہا ہے امریکا، برطانیہ اپنے عوام کے لیے کیا کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ یہ دونوں ممالک تو بہت زیادہ ترقی یافتہ ہیں پاکستان کا تو اس سے کوئی بھی مقابلہ نہیں۔ چلیے ہم بھارت اور بنگلہ دیش کی ہی مثال لے لیتے ہیں کہ ان کے یہاں کس قدر تیزی سے ملک ترقی کر رہا ہے ان کے یہاں عوام کو بنیادی سہولتیں دی جا رہی ہیں۔ اس کی مثال آپ یہیں سے لے لیجیے کہ بھارت نے پٹرول کی قیمت میں 3.66 روپے فی لیٹر کمی کر کے اپنے عوام کو سہولت فراہم کی اور ہماری حکومت نے اپنی چار ماہ کی مدت اقتدار میں پیٹرول میں چوتھی بار اضافہ کیا ہے۔
عام طور پر یہ جواز بتایا جاتا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور حکومت مہنگا تیل خرید کر سستے داموں نہیں بیچ سکتی ہے مگر افسوس اس مرتبہ یہ بھی جواز نہیں ہے کیونکہ مختلف عوامل کی بنا پر بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کے نرخ 117 ڈالر فی بیرل سے کم ہوکر 113 ڈالر کی سطح پر آ گئے ہیں نرخوں کی کمی کے اس رجحان کی وجہ سے بھارت نے پٹرول کی قیمت میں 3.66 روپے فی لیٹر کمی کر دی ہے۔
پٹرول کی قیمت میں ہمارے ملک میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مزید بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو زبردست مہنگائی میں اضافہ ہو جائے گا ہر چیز عوام کو مہنگی ملے گی۔ مہنگائی میں اضافے کے باعث کئی طرح کے سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں کرائم کی شرح بڑھتی ہے غریب لوگ نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں اکثر لوگ حالات سے تنگ آ کر خودکشی بھی کر چکے ہیں۔
پاکستانی عوام کے لیے ایک اور بری خبر ہے کہ اب وہ اور مزید مہنگائی کی چکی میں پسنے کے لیے تیار ہو جائیں ڈالر کی قدر تیزی سے بڑھ رہی ہے اور پاکستان بے شمار اشیائے خورد و نوش اور ان اشیاء کی پروڈکشن میں استعمال ہونے والی ضروری اشیاء بیرونی ملک سے درآمد کرتا ہے۔ یوں ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد یہ اشیاء مزید مہنگے داموں ملیں گی لیکن پروڈیوسرز اور مینوفیکچررز کو اس سے شاید کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ اپنے امپورٹ بل یا اپنی اشیاء کی تیاری پر بڑھنے والی لاگت کا بوجھ عوام کی جانب منتقل کر دیں گے مثال کے طور پر پاکستانی عوام کی روزمرہ میں استعمال ہونے والی بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جو بیرون ملک سے درآمد کی جاتی ہیں۔ بیرون ملک سے آنے والی ساری اشیاء عوام کو پہلے کی قیمت سے کئی گنا زیادہ مہنگی ملیں گی کیونکہ ڈالر کی قدر میں اضافہ تیزی سے ہو رہا ہے اور پاکستانی روپے کی قدر بے حد گر چکی ہے۔ ڈالر کی قیمت اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو چار پانچ سال میں لوگوں کی بینکوں میں پڑی بچت کی رقم کی قدر خاصی کم ہو جائے گی۔ 2009ء میں ڈالر کی قیمت 80 روپے تھی لہٰذا 2009ء سے لے کر 2013ء تک مجموعی طور پر ڈالر کی قیمت میں بیس پچیس روپے اضافہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی عوام کافی خوف زدہ ہیں کہ ڈالر کی صورت میں ان پر ایک اور مہنگائی کا بم گرایا گیا ہے مہنگائی کی اس لپیٹ میں بے چارے غریب عوام ہی آئیں گے رئیسوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ڈالر مہنگا ہو یا سستا۔
معاشی ماہرین اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اچانک ریکارڈ اضافے سے کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہو گا ڈالر کی قیمت اس وقت پاکستان میں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ یہ ہماری نئی حکومت کا تحفہ ہے عوام کے لیے یہ سب حکومت کے ہاتھ میں ہے اگر حکومت چاہتی تو آئی ایم ایف کے بھرپور دباؤ کے باوجود ڈالر کی قیمت بڑھانے سے انکار کر سکتی تھی کہ پہلے ہی ملکی معیشت کی حالت بدترین ہے۔ ڈالر مہنگا ہونے سے زندگی دشواری کا شکار ہے عوام ایک طرف ڈالر کا بوجھ برداشت کر رہے ہیں تو دوسری طرف عوام وفاقی حکومت نے 2 درجن سے زائد مختلف اشیاء ضروریہ پر 2 فیصد اضافی سیلز ٹیکس عاید کر دیا ہے اخباری اطلاعات کے مطابق حکومت نے یہ اقدام آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے اٹھایا ہے۔ آئی ایم ایف نے جی ڈی پی کے 0.4 فیصد ریونیو اکٹھا کرنے کی شرط عاید کی تھی۔ آئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے کے لیے یہ اضافی ٹیکس عاید کیا گیا ہے۔ ایف بی آر نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ ٹیلی ویژن سیٹ، ٹیلی فون سیٹ، گھریلو استعمال کی گیس اور بجلی آلات سمیت دیگر اشیاء پر صرف مینوفیکچررز کی سطح پر دو فیصد اضافی سیلز ٹیکس ادا کرنا ہو گا حکومت کے اس فیصلے سے بھی یقینی طور پر مہنگائی میں اضافہ ہو گا اور اس سے عوام متاثر ہوں گے۔حکومت کی طرف سے بجلی اور گیس کی قیمتوں کے اضافے کی صورت میں عوام پر ایک اور بم گرایا جا رہا تھا وہ تو شکر یہ سپریم کورٹ کا جس نے یہ بم پھٹنے سے بچایا۔ دنیا میں پٹرول، گیس، ڈیزل کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں یہاں بڑھائی جا رہی ہیں پاکستانی عوام مریں گے نہیں تو کیا کریں گے۔
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم پر بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا۔ حکومت نے گزشتہ دنوں بجلی کے نرخوں میں اضافہ کر دیا تھا اس پر ملک میں شدید ردعمل ظاہر کیا گیا اور سپریم کورٹ نے اس کا از خود نوٹس لیا عوام کے اوپر نئی حکومت نے یکے بعد دیگر بم گرائے ہیں مہنگائی کے۔ شکر ہے کہ ہمارے ملک میں سپریم کورٹ جیسا ادارہ ابھی موجود ہے جس کو عوام کی فکر ہے۔