گنج ہائے گرانمایہ… آخری حصہ
سندھ یونیورسٹی کا قیام کہیں عملاً سندھیوں کی ایک مسلم یونیورسٹی کا قیام ثابت نہ ہوا۔
انھی دنوں بھائی پرتاب دیال داس نے اس اندیشے کے پیشِ نظر کہ سندھ یونیورسٹی کا قیام کہیں عملاً سندھیوں کی ایک مسلم یونیورسٹی کا قیام ثابت نہ ہو اور سندھ کی ہندو اقلیت حصولِ علم سے محروم نہ رہ جائے، سندھ میں ایک ہندو یونیورسٹی کے قیام کی تحریک شروع کی لیکن یہ تحریک پنپ نہ سکی اور نہایت قلیل مدت میں قیامِ پاکستان کی تحریک کی تیز ہوائوں میں تحلیل ہو گئی۔ مذہبی تعصب کی یہ سوچ سندھ اسمبلی میں اس بل پر ہونے والی بحث میں بھی حاوی رہی لیکن پیر الٰہی بخش صاحب نے ہر ایسے منفی استدلال کا بھرپور جواب دیا۔ دیگر مخالفوں نے اس کوشش کو صرف تنقید کا ہی نہیں بلکہ بھرپور طنز کا بھی نشانہ بنایا اور پیر الٰہی بخش مرحوم کے پاس یہ سوال اٹھایا کہ اگر سندھ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آ بھی جائے اور آپ کو کچھ بچے پڑھنے کو بھی مل جائیں تو بھی اس کی فیکلٹی یعنی اساتذہ کہاں سے لائیں گے۔ پیر صاحب نے جواب دیا یہ کام میرا ہے اور میں ایسے اساتذہ لے کر آئوں گا جن پر کسی کو انگلی اٹھانے کی جرأت بھی نہیں ہوگی۔
پیر صاحب نے اپنے قول کو سچ کر دکھایا اور سندھ یونیورسٹی کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پروفیسر اے بی اے حلیم کو سندھ یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر کا عہدہ قبول کرنے پر آمادہ کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے پیر الٰہی بخش کی اس کوشش کو بھرپور انداز میں سراہا کیونکہ اس دوران میں پیرالٰہی بخش نے قائد اعظم ؒسے کچھ خط و کتابت بھی کی تھی جس میں قائد اعظم نے انھیں اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا تھا۔ یہاں اس بات کی ایک تاریخی حیثیت کا تذکرہ ضروری ہے کہ اگرچہ 1937ء کے سندھ اسمبلی کے انتخابات میں مسلم لیگ سندھ میں ایک نشست بھی حاصل نہیں کر سکی تھی لیکن قائد اعظم کی بھرپور توجہ اور سندھ سے ان کے والہانہ لگائو اور پیر الٰہی بخش مرحوم جیسے معتمد ساتھیوں کی وجہ سے پہلی قانون ساز اسمبلی کے اختتام تک مسلم لیگ سندھ میں بے پناہ اثر رسوخ حاصل کر چکی تھی ۔ مارچ 1946ء میں حلف اٹھانے والی سندھ کی دوسری صوبائی اسمبلی کے اکثریتی ارکان کی مسلم لیگ سے وابستگی واشگاف تھی۔ سندھ اسمبلی کو پاکستان کے قیام کے حق میں ایک باقاعدہ قرارداد منظور کرنے کا منفرد اعزاز حاصل ہوا۔ پیر الٰہی بخش مرحوم کو قائد اعظمؒ سے خاص عقیدت اور والہانہ محبت تھی ۔
قیام پاکستان کے بعد پیر الٰہی بخش سندھ کے دوسرے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے جس کی میعادِ عہدہ صرف ایک سال رہی جو 3 مئی 1948ء سے لے کر 4 فروری 1949ء پر ختم ہو گئی۔ ان کی تقرری کی سب سے اہم اور خاص بات یہ تھی جس کو خود پیر الٰہی بخش اپنے لیے ایک بڑا اعزاز قرار دیتے تھے کہ اُن کی بطور وزیر اعلیٰ تقرری براہ راست قائد اعظم کی جانب سے نامزدگی پر عمل میں آئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب سندھ، قیام پاکستان کے بعد ہندستان سے ہجرت کر کے آنے والے مسلمانوں کی بحالی اور آبادکاری کے ایک بڑے بحران سے دوچار تھا۔ پیر الٰہی بخش نے اس بحالی اور آبادکاری کے عمل کو صرف اپنا منصبی فریضہ ہی نہیں جانا بلکہ ایک ذاتی اور دینی خدمت کے طور پر اس عمل میں بھرپور توجہ، خلوص اور عزم راسخ کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے کراچی میںمتاثرینِ قیامِ پاکستان کی آبادکاری کے لیے پیر الٰہی بخش کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی قائم کی جس کے نتیجے میں متاثرین ہجرت کی ایک بہت بڑی کالونی کا قیام عمل میں آیا جو آج کراچی کے دل میںواقع پیر الٰہی بخش کالونی کے نام سے جانی جاتی ہے۔
اسی زمانے میں ہندوؤں کی متروکہ املاک کو ہندستان سے آنے والے مسلمانوں کو منتقل کیے جانے کی کوششوں میں قانونی پیچیدگیوں اور رخنہ اندازیوں سے کام لیا گیا جس کو پیر الٰہی بخش نے اپنی ذاتی کوششوں سے سہل بنایا۔ انھوں نے ہندوستان سے آنے والے مہاجروں کو نہ مہاجر سمجھا نہ نیا سندھی بلکہ انھوں نے اُن کو اپنے ہی جیسا مساوی حقوق کا حامل پاکستانی تصور کیا۔ سندھ میں لازمی پرائمری تعلیم کے قانون کے نفاذ اور بعد ازاں سندھ یونیورسٹی کے قیام تک ہی پیر الٰہی بخش کا علمی خدمات کا سفر محدود نہ رہا۔ ایک طرف انھوں نے سندھ مدرسہ بورڈ کی سرپرستی کے ساتھ ساتھ ایس ایم کالج کی بنیاد ڈالنے میں کلیدی کردار ادا کیا جب کہ ہندوستان سے آنے والے مسلمانوں کے اردو زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے مسئلہ کو اس کی تمام تر ہمہ گیریت سے سمجھتے ہوئے اور اس کا بھرپور ادراک اور احساس کرتے ہوئے نہ صرف کراچی میں واقع اردوکالج کے قیام میں ایک فعال کردار ادا کیا بلکہ کراچی یونیورسٹی کے قیام میںبھی انھوں نے اپنی بھرپور خدمات پیش کیں۔ آج وہی اردو کالج ایک وفاقی اردو یونیورسٹی کی حیثیت میں پورے پاکستان میں اپنا ایک تشخص رکھتا ہے جب کہ کراچی یونیورسٹی کو بھی ایک ایسا بلند، انتہائی نمایاں اور منفرد مقام حاصل ہے جس کے لیے الفاظ کی ضرورت نہیں۔
آج پیر الٰہی بخش ہمارے درمیان موجود نہیں۔ ان کی یادوں کے اس سفر میں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ حکومت پاکستان نے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں ان کی خدمات کا اعتراف کیا اور ان کی یاد میں ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔ پیر الٰہی بخش مرحوم کی اس جہانِ فانی سے رخصت نے اپنے پیچھے ان کی ذات کے حوالے سے ایک ایسی شخصیت کا اٹل اور انمٹ نقش چھوڑا جس نے ساری زندگی ہر طرح کے علاقائی لسانی اور مذہبی تعصب سے بالاتر ہو کر گزاری اور ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے آنکھیں بچھا دیں اور دل کے دروازے کھول دیے۔ اختتامِ عمر کے قریب 1970ء کی دہائی کے اوائل میں سندھ بھر میں ہونے والے سندھی مہاجر فسادات پر وہ بہت زیادہ رنجیدہ خاطر اور ملول رہے جس نے انھیں شدید غم و اندوہ سے دو چار کیا ۔ کچھ ہی عرصے بعد 8اکتوبر 1975ء کو وہ ہستی جس نے ساری زندگی لوگوں کے آنسو پونچھے اور اُن کے درد سمیٹے، اپنی ڈبڈباتی انکھوں اور درد سے لبریز اور بوجھل دل کے ساتھ اس جہان فانی سے کوچ کر گئی۔ آج ان کا جسدِ خاکی پیر الٰہی بخش کالونی میں منوں مٹی تلے استراحت پذیر ہے اور ان کا مزار اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود مرجعِ خلائق ہے۔ شاید ایسی ہی ناقابل فراموش اور عظیم شخصیات کے لیے مرزا غالب نے کہا تھا:
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لعیں
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے