نریندر مودی کی کوتاہ نظری
مودی میں علم کا فقدان ہے، اس لیے وہ خود کو مہاتما گاندھی سے بھی بڑا لیڈر سمجھ رہے ہیں۔
کوئی بہت عرصہ نہیں ہوا ۔ محض ہزار سال کے لگ بھگ ہوئے جب تیغ و تفنگ کی جنگ ہوتی تھی تو مقابل فوجوں کے سپہ سالار آگے آتے تھے اور دونوں ایک دوسرے کو رجز سنا کر مرعوب کرتے تھے۔ جن میں ان کے آبا و اجداد کی دلیری کی جنگجویانہ خصوصیات،خاندانی مراتب اور بعض اوقات علم و سخن کی بھی باتیں ہوتی تھیں، مگر جب جمہوریت کا دور آیا تو روبرو تلوار زنی نہ سہی مگر الفاظ کی جنگ کا سخن آج بھی جاری ہے جس میں ہر رہنما اپنے علم و فضل کی بنیاد پر منطق اور تاریخ کا سہارا لے کر گفتگوکرتا ہے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت جس کی بنیاد گاندھی جی اور جواہر لال نہرو نے رکھی آج اس پر ایسے رہنماؤں کی حکومت ہے جو بھارت ماتا کے بانی گاندھی جی کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ وہ ٹولہ جو 1948ء میں جن سنگھ کے نام سے جانا جاتا تھا ، اسی کے بدلے ہوئے نام نے جمہوریت کا راگ الاپ رکھا ہے۔
کہاں جواہر لال جو بالغ نظری کی بنیاد پرکشمیرکو آنے والی نسلوں پر چھوڑگئے ان کوکیا پتہ تھا کہ ایک دور ایسا بھی آئے گا جب بھارت کا سرمایہ دار متعصب طبقہ گجرات کے ایک نامور انتہاپسند کو وزیر اعظم بنانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ یہ ماننا پڑے گا کہ نریندر مودی جو بھارت کے ان داتا بنے ہوئے ہیں کافی چتر ہیں مگر بالغ نظری اور دور بینی ان کے وہم وگمان سے کوسوں دور ہے۔ ان کے فیصلوں میں ہر چیز کا جائزہ لینا شامل نہیں۔ بس وہ فوری عمل اور ردعمل کی سیاست سے واقف ہیں، مگر سیاست کے گرد دور بینی کی بنیاد پر فیصلے کرنے کی ان میں سکت نہیں ہے۔ ان کے فیصلوں میں بس اتنی ہی حکمت ہے جتنی اسٹاک ایکسچینج میں بیٹھے ہوئے ایک بروکر کی۔
لوگ کہتے ہیں کہ پنڈت جواہر لال نہرو جب اتنے ہی بڑے دانشور اور حاکم تھے تو کشمیر کو بے دست و پا کیوں چھوڑ گئے تو ان کی بالغ نظری کا جائزہ لیتے ہوئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ وہ شیخ عبداللہ جو ان دنوں کشمیرکے وزیر اعلیٰ تھے ان پر فیصلے چھوڑ گئے۔ مگر شیخ عبداللہ اپنی خاندانی تنگ نظری اور قوم پرست ہندو لیڈروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فیصلہ کرنے کے بجائے مصلحت کی راہ پر چل پڑے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بھارت ایک کٹر پنتھی دائیں ہاتھ کا لیڈر کشمیر کا فیصلہ ساز خود ساختہ مرد آہن بن بیٹھا جو نریندر مودی کے نام سے موسوم ہے۔
ان کے حالیہ فیصلوں میں بھارتی آئین کی شق 370 کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھارت میں کشمیر کو شامل کر لیا۔ یہ فیصلہ محض نریندر مودی کا نہیں بلکہ بھارت کے کٹر پنتھی قوم پرست سرمایہ داروں کا ہے۔ جنھوں نے نریندر مودی کو گجرات کے اسٹیشنوں سے اٹھا کر ملک کی مسند پر بٹھا دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ بھارت کے عوام پر اس فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ناگالینڈ سے ملحقہ سات ریاستوں میں خوف و ہراس، غم و غصے کی لہر دوڑ گئی کہ یہ ایک منفی طریقہ ہے۔ اس کا اظہار ناگالینڈ کے پچاسی سالہ کمیونسٹ نواز رہنما آئزک مائیوا نے الجزیرہ کے چینل پر برملا کیا۔
یہ اسی لاکھ ناگا لوگوں کا لیڈر ہے جس نے کئی مرتبہ بھارتی فوج سے تصادم کیا اور کہا جاتا ہے کہ اس لیڈر کے اثرات ریاست آسام تک موجود ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اطلاع اور بھی ہے کہ ناگا قوم پرستوں کا ایک پلاٹون سن انیس سو ساٹھ کی دہائی میں پیپلز لبریشن آرمی آف چین سے بھی مدد لے چکا ہے۔ یہ بھی خبر گرم ہے کہ کشمیر سے ملحق لداخ جہاں کی آبادی تیس پینتیس لاکھ کے قریب ہے وہاں بھی غم و غصے کی لہر دوڑ چکی ہے۔ مانا کہ پاکستان میں اس مسئلے پر مظاہرے ہو رہے ہیں اور شوروغل برپا ہے مگر بھارت میں صورتحال کہیں بدتر ہے۔ وہاں کے سرحدی علاقوں میں صف بندی کی کیفیت ہے۔ آسام تریپورہ سے لے کر نانگا پربت کی وادیوں تک اضطراری خون حرکت میں ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی سرمایہ داروں نے ایک کم علم شخص کو مسند پر بٹھا کر جو کھیل شروع کیا ہے وہ زیادہ عرصہ قائم نہیں رہے گا اور پاکستان سے قبل ہی بھارت میں ایسی کیفیت پیدا ہوگی جس میں کاروباری حالات پستی کی طرف جانے کا اندیشہ ہے۔ دراصل بظاہر تو یہ کوتاہ نظری نریندر مودی کی ہے مگر وہ تو دائیں بازو کے ہاتھوں کا ایک کھلونا ہے جس سے دوسری قومیتوں اور مذہب کے خلاف نعرے لگوائے جاتے ہیں۔
یہ نعرے نریندر مودی کے نہیں بھارتی سرمایہ داروں کی ماضی کی پستی کا ردعمل ہے۔ کیونکہ انھوں نے تو یہ ضرور پڑھا ہوگا کہ بھارت میں انگریزوں سے پہلے کس کی حکومت تھی؟ یہ حضرات اب گائے کی پیٹھ پر بندوق رکھ کے حکومت چلا رہے ہیں۔ اس طرح وہ دنیا میں اس طرح کا تاثر دے کر اپنی اشیا فروخت کر رہے ہیں کہ ان کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور وہ کٹرپنتھی حکومت تو فرد واحد کی ہے۔ اس سے بھارتی کاروباری حضرات کا کوئی لینا دینا نہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ بھارت کی آزادی کے ابتدائی دور میں پنڈت نہرو نے جو حکومت قائم کی تھی وہ قوم پرست اورکسی حد تک روس نواز بائیں بازو کی حکومت تھی۔ اسی دور میں روس نے بھارت میں بنیادی انڈسٹریز کے قیام میں مدد کی اور بھارت خودکفالت کی راہ پر چل پڑا۔ مزیدبرآں کانگریس کی اگلی حکومتوں نے ملک کو معاشی طور پر مستحکم اور صنعتی اعتبار سے ایک مضبوط سرمایہ دار ملک میں بدل دیا۔ جس کو بعد میں سرمایہ داروں نے حکومت کا رخ بدل کر اپنے ہاتھ میں لے لیا اور یہاں ایک مذہب پرست حکومت قائم کی۔ جس میں کم علم اور جاہل طبقے کو مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے خلاف کھڑا کردیا۔
ایک زمانہ تھا کہ دہلی میں فلسطینی لیڈر یاسر عرفات کی نمایندگی کا دفتر بھی ہوا کرتا تھا۔ مگر اب نریندر مودی بھارت کے سیاسی معاملات میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے رائے مشورے لیتے رہتے ہیں اور اسرائیلی فوج کے بعض بڑے افسران بھارت میں ان علاقوں میں بطور مشیر کام کرتے ہیں جہاں کہیں تھوڑی بہت بھی سول نافرمانی کی لہر دوڑ رہی ہو۔ کل کے بھارت اور آج کے بھارت کا یہی فرق ہے۔
گزشتہ دنوں میرے ایک سینئر دوست ڈاکٹر باقر عسکری جو ایک زمانے میں این ایس ایف کے صدر تھے جنھوں نے ذوالفقار علی بھٹوکا پہلا جلسہ ڈاؤ میڈیکل کالج میں منعقد کیا۔ ان سے میری بات ہوئی کہ نریندر مودی نے اتنا طویل کرفیو کیوں لگا رکھا ہے۔ اس پر انھوں نے جواب دیا کہ یہ کشمیری عوام پر ایک نفسیاتی حملہ ہے کہ لوگ اتنے تنگ آجائیں کہ اپنی آزاد زندگی کے لیے وہ سرحدی علاقوں کا رخ کریں۔ یہ وہی طریقہ ہے جس طرح افغان مہاجرین کو پاکستان میں دھکیلا گیا۔
بعینہ کشمیریوں کو پاکستان میں دھکیلنے کی سازش تیار ہو رہی ہے، تاکہ کم ازکم پچیس تیس لاکھ مہاجرین گھر چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں اور اپنے ان چھوڑے ہوئے گھروں کو یا تو خالی چھوڑ کر آجائیں یا بہت کم داموں میں فروخت کرکے۔ جس میں جموں کے رہنے والے اور نریندر مودی کے خیالات سے ہم آہنگ لوگ آباد ہوجائیں۔
یہ راستہ نیتن یاہو کا بتایا ہوا ہے۔ پاکستان کے سیاسی لوگوں کی نگاہیں معلوم نہیں کسی قدر باریک بیں ہیں یا نہیں کہ بنیے کی اصل منزل کو وہ دیکھ بھی رہے ہیں یا نہیں؟ یا محض ایٹم بم اور جنگ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جے کے ایل ایف کے مارچ میں یہ پہلو زیر غور نہیں کہ بغیر جنگ کے سری نگر اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں کو خالی کروانے کا یہ حربہ نریندر مودی استعمال کر رہے ہیں۔
1947 میں تقسیم ہند کے وقت بعض علاقوں میں جن سنگھ نے ایسے حالات پیدا کر دیے تھے کہ مسلم پناہ گزینوں کی ٹولیاں سرحد کی طرف آتی تھیں۔ کرفیو اٹھا کر نریندر مودی سرحدی علاقوں میں پیراملٹری فورس کا آنا جانا کم کر دیں گے اس طرح سری نگر کے لوگ پاکستان کے بارڈر کے قریب رہائش پذیر ہوجائیں گے جس کو مجبوراً پاکستانی عوام اور جے کے ایل ایف کے نمایندگان خوش آمدید کہنے پر مجبور ہوجائیں گے اور بغیر جنگ کے پاکستانی معیشت پر ان پچیس تیس لاکھ افراد کا بوجھ بھی بڑھ جائے گا۔
ان حالات میں اسرائیلی صہیونی مشیروں کا پاکستان دشمن مشورہ مودی اور اس کے ساتھیوں کو بہت پسند آرہا ہوگا۔ مگر یہ بھولنے کی ضرورت نہیں کہ مودی کے نئے فیصلوں اور سازشوں کی وجہ سے بھارت کے وہ علاقے جو مرکز سے دور نہیں وہاں کے عوام میں نریندر مودی کی حکومت کے خلاف شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔
جہاں تک ہماری اطلاع ہے۔ لداخ میں کشمیر کے انضمام پر عوام میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔ کیونکہ وہاں شیعہ اور سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے اور ان کا کشمیری لوگوں سے گہرا تعلق ہے۔
لہٰذا یہ سمجھنا کہ نریندر مودی نے بھارت کی تاریخ میں کوئی اہم قدم اٹھایا ہے ایسا ہرگز نہیں بلکہ بھارت ماتا کے سینے پر گہری ضرب لگائی ہے جس سے وہاں کی سرزمین پر دراڑ پڑگئی ہے۔ مودی جی نیتن یاہو کے اور بھارتی سیٹھوں کے مشوروں پر عمل پیرا ہیں جو تاریخ کے ردعمل کا مظہر ہیں۔
چونکہ مودی میں علم کا فقدان ہے، اس لیے وہ خود کو مہاتما گاندھی سے بھی بڑا لیڈر سمجھ رہے ہیں۔ اسی لیے مودی جی کی عالمی لیڈروں میں پذیرائی کا عنصر موجود نہیں اور دنیا خصوصاً جدید دنیا کے لوگ ان کی کوتاہ نظری سے واقف ہوگئے ہیں ، جس کے اثرات سیاسی طور پر بھارت کے لیے نامناسب ہوتے جائیں گے اور بالآخر بھارتی سرمایہ داروں کو اپنی غلطی کا احساس ہوجائے گا۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت جس کی بنیاد گاندھی جی اور جواہر لال نہرو نے رکھی آج اس پر ایسے رہنماؤں کی حکومت ہے جو بھارت ماتا کے بانی گاندھی جی کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ وہ ٹولہ جو 1948ء میں جن سنگھ کے نام سے جانا جاتا تھا ، اسی کے بدلے ہوئے نام نے جمہوریت کا راگ الاپ رکھا ہے۔
کہاں جواہر لال جو بالغ نظری کی بنیاد پرکشمیرکو آنے والی نسلوں پر چھوڑگئے ان کوکیا پتہ تھا کہ ایک دور ایسا بھی آئے گا جب بھارت کا سرمایہ دار متعصب طبقہ گجرات کے ایک نامور انتہاپسند کو وزیر اعظم بنانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ یہ ماننا پڑے گا کہ نریندر مودی جو بھارت کے ان داتا بنے ہوئے ہیں کافی چتر ہیں مگر بالغ نظری اور دور بینی ان کے وہم وگمان سے کوسوں دور ہے۔ ان کے فیصلوں میں ہر چیز کا جائزہ لینا شامل نہیں۔ بس وہ فوری عمل اور ردعمل کی سیاست سے واقف ہیں، مگر سیاست کے گرد دور بینی کی بنیاد پر فیصلے کرنے کی ان میں سکت نہیں ہے۔ ان کے فیصلوں میں بس اتنی ہی حکمت ہے جتنی اسٹاک ایکسچینج میں بیٹھے ہوئے ایک بروکر کی۔
لوگ کہتے ہیں کہ پنڈت جواہر لال نہرو جب اتنے ہی بڑے دانشور اور حاکم تھے تو کشمیر کو بے دست و پا کیوں چھوڑ گئے تو ان کی بالغ نظری کا جائزہ لیتے ہوئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ وہ شیخ عبداللہ جو ان دنوں کشمیرکے وزیر اعلیٰ تھے ان پر فیصلے چھوڑ گئے۔ مگر شیخ عبداللہ اپنی خاندانی تنگ نظری اور قوم پرست ہندو لیڈروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فیصلہ کرنے کے بجائے مصلحت کی راہ پر چل پڑے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بھارت ایک کٹر پنتھی دائیں ہاتھ کا لیڈر کشمیر کا فیصلہ ساز خود ساختہ مرد آہن بن بیٹھا جو نریندر مودی کے نام سے موسوم ہے۔
ان کے حالیہ فیصلوں میں بھارتی آئین کی شق 370 کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھارت میں کشمیر کو شامل کر لیا۔ یہ فیصلہ محض نریندر مودی کا نہیں بلکہ بھارت کے کٹر پنتھی قوم پرست سرمایہ داروں کا ہے۔ جنھوں نے نریندر مودی کو گجرات کے اسٹیشنوں سے اٹھا کر ملک کی مسند پر بٹھا دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ بھارت کے عوام پر اس فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ناگالینڈ سے ملحقہ سات ریاستوں میں خوف و ہراس، غم و غصے کی لہر دوڑ گئی کہ یہ ایک منفی طریقہ ہے۔ اس کا اظہار ناگالینڈ کے پچاسی سالہ کمیونسٹ نواز رہنما آئزک مائیوا نے الجزیرہ کے چینل پر برملا کیا۔
یہ اسی لاکھ ناگا لوگوں کا لیڈر ہے جس نے کئی مرتبہ بھارتی فوج سے تصادم کیا اور کہا جاتا ہے کہ اس لیڈر کے اثرات ریاست آسام تک موجود ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اطلاع اور بھی ہے کہ ناگا قوم پرستوں کا ایک پلاٹون سن انیس سو ساٹھ کی دہائی میں پیپلز لبریشن آرمی آف چین سے بھی مدد لے چکا ہے۔ یہ بھی خبر گرم ہے کہ کشمیر سے ملحق لداخ جہاں کی آبادی تیس پینتیس لاکھ کے قریب ہے وہاں بھی غم و غصے کی لہر دوڑ چکی ہے۔ مانا کہ پاکستان میں اس مسئلے پر مظاہرے ہو رہے ہیں اور شوروغل برپا ہے مگر بھارت میں صورتحال کہیں بدتر ہے۔ وہاں کے سرحدی علاقوں میں صف بندی کی کیفیت ہے۔ آسام تریپورہ سے لے کر نانگا پربت کی وادیوں تک اضطراری خون حرکت میں ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی سرمایہ داروں نے ایک کم علم شخص کو مسند پر بٹھا کر جو کھیل شروع کیا ہے وہ زیادہ عرصہ قائم نہیں رہے گا اور پاکستان سے قبل ہی بھارت میں ایسی کیفیت پیدا ہوگی جس میں کاروباری حالات پستی کی طرف جانے کا اندیشہ ہے۔ دراصل بظاہر تو یہ کوتاہ نظری نریندر مودی کی ہے مگر وہ تو دائیں بازو کے ہاتھوں کا ایک کھلونا ہے جس سے دوسری قومیتوں اور مذہب کے خلاف نعرے لگوائے جاتے ہیں۔
یہ نعرے نریندر مودی کے نہیں بھارتی سرمایہ داروں کی ماضی کی پستی کا ردعمل ہے۔ کیونکہ انھوں نے تو یہ ضرور پڑھا ہوگا کہ بھارت میں انگریزوں سے پہلے کس کی حکومت تھی؟ یہ حضرات اب گائے کی پیٹھ پر بندوق رکھ کے حکومت چلا رہے ہیں۔ اس طرح وہ دنیا میں اس طرح کا تاثر دے کر اپنی اشیا فروخت کر رہے ہیں کہ ان کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور وہ کٹرپنتھی حکومت تو فرد واحد کی ہے۔ اس سے بھارتی کاروباری حضرات کا کوئی لینا دینا نہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ بھارت کی آزادی کے ابتدائی دور میں پنڈت نہرو نے جو حکومت قائم کی تھی وہ قوم پرست اورکسی حد تک روس نواز بائیں بازو کی حکومت تھی۔ اسی دور میں روس نے بھارت میں بنیادی انڈسٹریز کے قیام میں مدد کی اور بھارت خودکفالت کی راہ پر چل پڑا۔ مزیدبرآں کانگریس کی اگلی حکومتوں نے ملک کو معاشی طور پر مستحکم اور صنعتی اعتبار سے ایک مضبوط سرمایہ دار ملک میں بدل دیا۔ جس کو بعد میں سرمایہ داروں نے حکومت کا رخ بدل کر اپنے ہاتھ میں لے لیا اور یہاں ایک مذہب پرست حکومت قائم کی۔ جس میں کم علم اور جاہل طبقے کو مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے خلاف کھڑا کردیا۔
ایک زمانہ تھا کہ دہلی میں فلسطینی لیڈر یاسر عرفات کی نمایندگی کا دفتر بھی ہوا کرتا تھا۔ مگر اب نریندر مودی بھارت کے سیاسی معاملات میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے رائے مشورے لیتے رہتے ہیں اور اسرائیلی فوج کے بعض بڑے افسران بھارت میں ان علاقوں میں بطور مشیر کام کرتے ہیں جہاں کہیں تھوڑی بہت بھی سول نافرمانی کی لہر دوڑ رہی ہو۔ کل کے بھارت اور آج کے بھارت کا یہی فرق ہے۔
گزشتہ دنوں میرے ایک سینئر دوست ڈاکٹر باقر عسکری جو ایک زمانے میں این ایس ایف کے صدر تھے جنھوں نے ذوالفقار علی بھٹوکا پہلا جلسہ ڈاؤ میڈیکل کالج میں منعقد کیا۔ ان سے میری بات ہوئی کہ نریندر مودی نے اتنا طویل کرفیو کیوں لگا رکھا ہے۔ اس پر انھوں نے جواب دیا کہ یہ کشمیری عوام پر ایک نفسیاتی حملہ ہے کہ لوگ اتنے تنگ آجائیں کہ اپنی آزاد زندگی کے لیے وہ سرحدی علاقوں کا رخ کریں۔ یہ وہی طریقہ ہے جس طرح افغان مہاجرین کو پاکستان میں دھکیلا گیا۔
بعینہ کشمیریوں کو پاکستان میں دھکیلنے کی سازش تیار ہو رہی ہے، تاکہ کم ازکم پچیس تیس لاکھ مہاجرین گھر چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں اور اپنے ان چھوڑے ہوئے گھروں کو یا تو خالی چھوڑ کر آجائیں یا بہت کم داموں میں فروخت کرکے۔ جس میں جموں کے رہنے والے اور نریندر مودی کے خیالات سے ہم آہنگ لوگ آباد ہوجائیں۔
یہ راستہ نیتن یاہو کا بتایا ہوا ہے۔ پاکستان کے سیاسی لوگوں کی نگاہیں معلوم نہیں کسی قدر باریک بیں ہیں یا نہیں کہ بنیے کی اصل منزل کو وہ دیکھ بھی رہے ہیں یا نہیں؟ یا محض ایٹم بم اور جنگ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جے کے ایل ایف کے مارچ میں یہ پہلو زیر غور نہیں کہ بغیر جنگ کے سری نگر اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں کو خالی کروانے کا یہ حربہ نریندر مودی استعمال کر رہے ہیں۔
1947 میں تقسیم ہند کے وقت بعض علاقوں میں جن سنگھ نے ایسے حالات پیدا کر دیے تھے کہ مسلم پناہ گزینوں کی ٹولیاں سرحد کی طرف آتی تھیں۔ کرفیو اٹھا کر نریندر مودی سرحدی علاقوں میں پیراملٹری فورس کا آنا جانا کم کر دیں گے اس طرح سری نگر کے لوگ پاکستان کے بارڈر کے قریب رہائش پذیر ہوجائیں گے جس کو مجبوراً پاکستانی عوام اور جے کے ایل ایف کے نمایندگان خوش آمدید کہنے پر مجبور ہوجائیں گے اور بغیر جنگ کے پاکستانی معیشت پر ان پچیس تیس لاکھ افراد کا بوجھ بھی بڑھ جائے گا۔
ان حالات میں اسرائیلی صہیونی مشیروں کا پاکستان دشمن مشورہ مودی اور اس کے ساتھیوں کو بہت پسند آرہا ہوگا۔ مگر یہ بھولنے کی ضرورت نہیں کہ مودی کے نئے فیصلوں اور سازشوں کی وجہ سے بھارت کے وہ علاقے جو مرکز سے دور نہیں وہاں کے عوام میں نریندر مودی کی حکومت کے خلاف شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔
جہاں تک ہماری اطلاع ہے۔ لداخ میں کشمیر کے انضمام پر عوام میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔ کیونکہ وہاں شیعہ اور سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے اور ان کا کشمیری لوگوں سے گہرا تعلق ہے۔
لہٰذا یہ سمجھنا کہ نریندر مودی نے بھارت کی تاریخ میں کوئی اہم قدم اٹھایا ہے ایسا ہرگز نہیں بلکہ بھارت ماتا کے سینے پر گہری ضرب لگائی ہے جس سے وہاں کی سرزمین پر دراڑ پڑگئی ہے۔ مودی جی نیتن یاہو کے اور بھارتی سیٹھوں کے مشوروں پر عمل پیرا ہیں جو تاریخ کے ردعمل کا مظہر ہیں۔
چونکہ مودی میں علم کا فقدان ہے، اس لیے وہ خود کو مہاتما گاندھی سے بھی بڑا لیڈر سمجھ رہے ہیں۔ اسی لیے مودی جی کی عالمی لیڈروں میں پذیرائی کا عنصر موجود نہیں اور دنیا خصوصاً جدید دنیا کے لوگ ان کی کوتاہ نظری سے واقف ہوگئے ہیں ، جس کے اثرات سیاسی طور پر بھارت کے لیے نامناسب ہوتے جائیں گے اور بالآخر بھارتی سرمایہ داروں کو اپنی غلطی کا احساس ہوجائے گا۔