کیا واقعی عمران خان ناکام ہوگئے
اُدھار کی لعنت کے باعث انسان دِن بدن قرض کی دلدل میں بھی دھنستا چلا جاتا ہے۔
گزشتہ روز ایک تقریب میں جانا ہوا، وہاں ایک ''سیاسی'' مہمان خصوصی کا انتظار ہو رہا تھا، کچھ دیر انتظار کرنا پڑا۔ پیچھے بیٹھے دو نوجوان وقت گزاری کی خاطر گفتگو کر رہے تھے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی باتیں سننا پڑیں۔ دونوں نوجوانوں نے پچھلے سال انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا۔
عمران خان کے لیے وہ حسن ظن رکھتے اور شریف خاندان سے سخت نالاں تھے۔ نرم گوشے کے باوجود انھیں تشویش تھی کہ عمران خان کی ناقص گورننس سے کاروبار بالکل تباہ ہوگیا ہے۔ ایک کا تعلق کنسٹرکشن سے جب کہ دوسرا آئی ٹی کے حوالے سے سامان منگوانے کے شعبے سے تعلق رکھتا تھا۔تعمیرات کے شعبے والا بتا رہا تھا کہ مارکیٹ بالکل بیٹھ گئی ہے، پچھلے دس پندرہ برسوں میں ایسی بری صورتحال کبھی نہیں دیکھی گئی۔
دوسرا نوجوان ڈالر کی قیمت میں غیر معمولی اضافے پر دلبرداشتہ تھا، میں نے پوچھا کہ وجہ کیا ہے؟کہنے لگا، مارکیٹ میں کیش فلو ہے ہی نہیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ اس قسم کی باتوں پر حکومتی موقف کیا ہے۔ یہ سادہ بات مگر جانتا ہوں کہ اگر خلق خدا پریشان ہے تو حکومتی پالیسی میں غلطی ضرور ہے۔ بعض کہہ دیتے ہیں کہ ووٹ ہم نے بھی عمران خان کو دیا تھا، مگر اب پچھتا رہے ہیں۔ ایک تاثر ہر جگہ واضح ہے کہ حکومت ناکام ہوچکی بہتری کی بھی کوئی امید نہیں۔
یہ سب باتیں ٹھیک، لوگوں کے اعتراضات و پریشانی بھی ٹھیک مگر مداوا کیا۔ ملکی معیشت کا ذکر کرنے سے پہلے زمبابوے کے حالات کا ذکر ہو جائے جہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے نسل پرستی اور بدامنی کی صورتحال ہے، 1980میں سفید فام اقلیت کے اقتدار کے اختتام کے بعد رابرٹ موگابے کے ہاتھ میں اقتدار آیا تو پھر 4دہائیوں تک کوئی اُن سے کرسی نہ چھین سکا۔
وہ 37 سال اقتدار میں رہے اور 2017 میں اقتدار چھوڑا، کہنے کو تو رابرٹ موگابے وہاں آزادی کے علمبردار تھے لیکن اُن کی پالیسیاں ہمارے سابق حکمرانوں سے کسی طور پر بھی کم نہیں تھیں، وہ اپنے اقتدار کو ''پسندیدہ'' بنانے کے لیے دنیا بھر سے قرضے اور امداد لے کر عوام کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے، ہر چیز پر سبسڈی دے کر خزانے پر بوجھ بڑھاتے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ پاکستان کی طرح وہاں ہر چیز گروی رکھ دی گئی، حتیٰ کہ سرکاری عمارتوں پر بھی مالیاتی ادارے اپنا حق جتانے لگے۔ رفتہ رفتہ زمبابوے دیوالیہ ہوگیا۔ پھر وہاں مہنگائی کا ایسا طوفان آیا کہ ایک ارب زمبابوین ڈالر کے عوض ایک ڈبل روٹی خریدی جاتی۔ جو عوام قرضہ لے کر سبسڈیاں لیتی رہی اب موگابے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی اور 2017 میں اقتدار سے الگ کرکے اُسے چلتا کیا۔
بالکل یہی حال پاکستان کا رہا، ایک معاشی طور پر کمزور ملک میں کاسمیٹکس قسم کے ''فلاحی منصوبے'' شروع کیے گئے، اُن میں کمیشنیں بنائی گئیں، کھربوں روپے خورد برد کیے گئے اور قرضے لے کر ملک کی معیشت کو سنبھالا دیا جاتا رہا۔ حتیٰ کہ حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ جب حکومت نے رواں سال بجٹ پیش کیا تو 7000ارب روپے کے بجٹ میں 3000ارب روپے محض سود کی ادائیگی واجب الادا تھی۔ عمران خان آج بھی بہرحال ماضی کے سیاستدانوں کے گروہ سے بہتر ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن گیارہ سال براہ راست حکمران رہیں جب کہ مشرف دور کو نکال کر پچھلے تیس برس سے صرف یہ دونوں فریق ہی سیاست میں موجود ہیں، ملک پربے پناہ قرضے لادنے، ادارے تباہ کرنے اور معیشت کی کمر توڑنے میں ان کا مرکزی کردار ہے۔ عمران خان ایک سیاسی آپشن تھا، اور ہے ، شائد مستقبل میں بھی رہے۔
بارہ سو ارب ڈالر سے زائد گردشی قرضہ مسلم لیگی حکومت ہی کا کارنامہ ہے۔ اسٹیل ملز، پی آئی اے اور دیگر قومی اداروں کی تباہی میں پیپلزپارٹی اورن لیگ دونوں کا حصہ ہے۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی باہمی مفاہمت سے نالاںلوگوں کے پاس عمران خان کی حمایت کے سوا اور کیا آپشن بچی تھی؟ اور اب مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کو جو لوگ سپورٹ کر رہے ہیں۔
اُن کے پاس عمران خان کے بعد کوئی متبادل آپشن کیا ہے؟ کیا ملک میں قابل لیڈر شپ کی لائن لگی ہوئی ہے؟ اور اگر واقعی عمران خان ناکام ہو گیا ہے تو یہ رونے پیٹنے والوں کو مزید قرضے لے کر خوش کیا جائے؟ ادھار پر عیاشی گناہ ہی نہیں بلکہ گناہ عظیم ہے۔ گھر کی چیزیں بیچ کر کبھی حالات بہتر نہیں کیے جا سکتے۔ ایک بار حضرت علیؓ بازار سے گزر رہے تھے کہ قصاب نے آواز لگائی،''یاعلیؓ! تازہ گوشت آیا ہے لے لیں''، حضرت علیؓ نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا، ''آج میرے پاس پیسے نہیں، قصاب نے کہا، ''آپ اُدھار کر لیں، حضرت علیؓ نے کہا جو اُدھار تمہارے ساتھ کرنا ہے، کیوں نہ وہ اُدھار میں اپنے آپ سے (گوشت نہ کھانے کی صورت میں )کر لوں''
اُدھار کی لعنت کے باعث انسان دِن بدن قرض کی دلدل میں بھی دھنستا چلا جاتا ہے۔لہٰذا عمران خان کو موقع دیں، وہ سسٹم کو بہتر کرے گا، پھر نہ ہی ملک کو کسی قرضے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی کسی سپرپاور کی سپورٹ کی۔ ورنہ آج اپنے ارد گرد دیکھ لیں ریاست کی گاڑی کے انجر پنچر ہل گئے ہیں، نیب، ایف آئی اے، پولیس کی اہلیت، قابلیت، نیت آپ کے سامنے ہے۔
شہباز شریف کے 56کمپنی اسکینڈلز، بات تین چار کمپنیوں تک ہی پہنچ پائی ہے۔آصف زرداری کے منی لانڈرنگ، جعلی اکاؤنٹس کیس، کچھوے کی رفتار، قوم نواز، زرداری سے برآمدگیوں کے انتظار میں، سندھو دیش تک پہنچے بلاول کے پاس ابھی تک اس ایک سوال کا جواب نہیں کہ '' سندھ حکومت کی کارکردگی کیا ہے؟
سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پراجیکٹ ایسے قرضے پر لیے گئے جو ملک پر بوجھ بنے۔ جہاں سے ریٹرن بھی کچھ نہیں ہوا۔ پچھلی حکومتوں کا کوئی منصوبہ جو نفع بخش تھا،میں تو ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک گیا ہوں کہ کوئی ایسا منصوبہ جو نفع میں ہے لیکن افسوس کوئی ایک منصوبہ بھی منافع بخش نہ مل سکا۔ لہٰذاعمران خان ناکام نہیں ہوئے بلکہ وہ ان سے پوچھ گچھ کرنے کے جرم میں پھنسے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ آج اگر عمران خان ''احتساب '' کا باب بند کردے تو نہ دھرنا ہوگا، نہ عمران خان کی کردار کشی ہوگی اور نہ ہی کسی کو مہنگائی نظر آئے گی!!!
عمران خان کے لیے وہ حسن ظن رکھتے اور شریف خاندان سے سخت نالاں تھے۔ نرم گوشے کے باوجود انھیں تشویش تھی کہ عمران خان کی ناقص گورننس سے کاروبار بالکل تباہ ہوگیا ہے۔ ایک کا تعلق کنسٹرکشن سے جب کہ دوسرا آئی ٹی کے حوالے سے سامان منگوانے کے شعبے سے تعلق رکھتا تھا۔تعمیرات کے شعبے والا بتا رہا تھا کہ مارکیٹ بالکل بیٹھ گئی ہے، پچھلے دس پندرہ برسوں میں ایسی بری صورتحال کبھی نہیں دیکھی گئی۔
دوسرا نوجوان ڈالر کی قیمت میں غیر معمولی اضافے پر دلبرداشتہ تھا، میں نے پوچھا کہ وجہ کیا ہے؟کہنے لگا، مارکیٹ میں کیش فلو ہے ہی نہیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ اس قسم کی باتوں پر حکومتی موقف کیا ہے۔ یہ سادہ بات مگر جانتا ہوں کہ اگر خلق خدا پریشان ہے تو حکومتی پالیسی میں غلطی ضرور ہے۔ بعض کہہ دیتے ہیں کہ ووٹ ہم نے بھی عمران خان کو دیا تھا، مگر اب پچھتا رہے ہیں۔ ایک تاثر ہر جگہ واضح ہے کہ حکومت ناکام ہوچکی بہتری کی بھی کوئی امید نہیں۔
یہ سب باتیں ٹھیک، لوگوں کے اعتراضات و پریشانی بھی ٹھیک مگر مداوا کیا۔ ملکی معیشت کا ذکر کرنے سے پہلے زمبابوے کے حالات کا ذکر ہو جائے جہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے نسل پرستی اور بدامنی کی صورتحال ہے، 1980میں سفید فام اقلیت کے اقتدار کے اختتام کے بعد رابرٹ موگابے کے ہاتھ میں اقتدار آیا تو پھر 4دہائیوں تک کوئی اُن سے کرسی نہ چھین سکا۔
وہ 37 سال اقتدار میں رہے اور 2017 میں اقتدار چھوڑا، کہنے کو تو رابرٹ موگابے وہاں آزادی کے علمبردار تھے لیکن اُن کی پالیسیاں ہمارے سابق حکمرانوں سے کسی طور پر بھی کم نہیں تھیں، وہ اپنے اقتدار کو ''پسندیدہ'' بنانے کے لیے دنیا بھر سے قرضے اور امداد لے کر عوام کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے، ہر چیز پر سبسڈی دے کر خزانے پر بوجھ بڑھاتے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ پاکستان کی طرح وہاں ہر چیز گروی رکھ دی گئی، حتیٰ کہ سرکاری عمارتوں پر بھی مالیاتی ادارے اپنا حق جتانے لگے۔ رفتہ رفتہ زمبابوے دیوالیہ ہوگیا۔ پھر وہاں مہنگائی کا ایسا طوفان آیا کہ ایک ارب زمبابوین ڈالر کے عوض ایک ڈبل روٹی خریدی جاتی۔ جو عوام قرضہ لے کر سبسڈیاں لیتی رہی اب موگابے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی اور 2017 میں اقتدار سے الگ کرکے اُسے چلتا کیا۔
بالکل یہی حال پاکستان کا رہا، ایک معاشی طور پر کمزور ملک میں کاسمیٹکس قسم کے ''فلاحی منصوبے'' شروع کیے گئے، اُن میں کمیشنیں بنائی گئیں، کھربوں روپے خورد برد کیے گئے اور قرضے لے کر ملک کی معیشت کو سنبھالا دیا جاتا رہا۔ حتیٰ کہ حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ جب حکومت نے رواں سال بجٹ پیش کیا تو 7000ارب روپے کے بجٹ میں 3000ارب روپے محض سود کی ادائیگی واجب الادا تھی۔ عمران خان آج بھی بہرحال ماضی کے سیاستدانوں کے گروہ سے بہتر ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن گیارہ سال براہ راست حکمران رہیں جب کہ مشرف دور کو نکال کر پچھلے تیس برس سے صرف یہ دونوں فریق ہی سیاست میں موجود ہیں، ملک پربے پناہ قرضے لادنے، ادارے تباہ کرنے اور معیشت کی کمر توڑنے میں ان کا مرکزی کردار ہے۔ عمران خان ایک سیاسی آپشن تھا، اور ہے ، شائد مستقبل میں بھی رہے۔
بارہ سو ارب ڈالر سے زائد گردشی قرضہ مسلم لیگی حکومت ہی کا کارنامہ ہے۔ اسٹیل ملز، پی آئی اے اور دیگر قومی اداروں کی تباہی میں پیپلزپارٹی اورن لیگ دونوں کا حصہ ہے۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی باہمی مفاہمت سے نالاںلوگوں کے پاس عمران خان کی حمایت کے سوا اور کیا آپشن بچی تھی؟ اور اب مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کو جو لوگ سپورٹ کر رہے ہیں۔
اُن کے پاس عمران خان کے بعد کوئی متبادل آپشن کیا ہے؟ کیا ملک میں قابل لیڈر شپ کی لائن لگی ہوئی ہے؟ اور اگر واقعی عمران خان ناکام ہو گیا ہے تو یہ رونے پیٹنے والوں کو مزید قرضے لے کر خوش کیا جائے؟ ادھار پر عیاشی گناہ ہی نہیں بلکہ گناہ عظیم ہے۔ گھر کی چیزیں بیچ کر کبھی حالات بہتر نہیں کیے جا سکتے۔ ایک بار حضرت علیؓ بازار سے گزر رہے تھے کہ قصاب نے آواز لگائی،''یاعلیؓ! تازہ گوشت آیا ہے لے لیں''، حضرت علیؓ نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا، ''آج میرے پاس پیسے نہیں، قصاب نے کہا، ''آپ اُدھار کر لیں، حضرت علیؓ نے کہا جو اُدھار تمہارے ساتھ کرنا ہے، کیوں نہ وہ اُدھار میں اپنے آپ سے (گوشت نہ کھانے کی صورت میں )کر لوں''
اُدھار کی لعنت کے باعث انسان دِن بدن قرض کی دلدل میں بھی دھنستا چلا جاتا ہے۔لہٰذا عمران خان کو موقع دیں، وہ سسٹم کو بہتر کرے گا، پھر نہ ہی ملک کو کسی قرضے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی کسی سپرپاور کی سپورٹ کی۔ ورنہ آج اپنے ارد گرد دیکھ لیں ریاست کی گاڑی کے انجر پنچر ہل گئے ہیں، نیب، ایف آئی اے، پولیس کی اہلیت، قابلیت، نیت آپ کے سامنے ہے۔
شہباز شریف کے 56کمپنی اسکینڈلز، بات تین چار کمپنیوں تک ہی پہنچ پائی ہے۔آصف زرداری کے منی لانڈرنگ، جعلی اکاؤنٹس کیس، کچھوے کی رفتار، قوم نواز، زرداری سے برآمدگیوں کے انتظار میں، سندھو دیش تک پہنچے بلاول کے پاس ابھی تک اس ایک سوال کا جواب نہیں کہ '' سندھ حکومت کی کارکردگی کیا ہے؟
سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پراجیکٹ ایسے قرضے پر لیے گئے جو ملک پر بوجھ بنے۔ جہاں سے ریٹرن بھی کچھ نہیں ہوا۔ پچھلی حکومتوں کا کوئی منصوبہ جو نفع بخش تھا،میں تو ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک گیا ہوں کہ کوئی ایسا منصوبہ جو نفع میں ہے لیکن افسوس کوئی ایک منصوبہ بھی منافع بخش نہ مل سکا۔ لہٰذاعمران خان ناکام نہیں ہوئے بلکہ وہ ان سے پوچھ گچھ کرنے کے جرم میں پھنسے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ آج اگر عمران خان ''احتساب '' کا باب بند کردے تو نہ دھرنا ہوگا، نہ عمران خان کی کردار کشی ہوگی اور نہ ہی کسی کو مہنگائی نظر آئے گی!!!