قائد اعظم نے اپنی زندگی کے44سال قومی سیاست میں گزارے مقررین
آج مسلم لیگ نہیں ہے بلکہ’’ن‘‘اور’’ق‘‘لیگ ہے،شریف الدین پیرزادہ، قائد اعظم پر پہلی کتاب1913میں لکھی گئی،خواجہ رضی حیدر
جامعہ کراچی میں ''بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی مسلم لیگ میں رکنیت کے 100سال کی تکمیل'' کے موقع پرسیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہاہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے 72میں سے 44سال قومی سیاست میں گزارے۔
انھوں نے1913میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تاہم دستاویزات سے معلوم ہوتاہے کہ وہ 1909 سے 1912تک مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی سے رابطے میں تھے اور غیرمنقسم برصغیر کے مسلمانوں کے مسائل ان کے پیش نظرتھے، قائد اعظم پر پہلی کتاب اردوزبان میں 1913میں ہی شائع ہوگئی تھی لہٰذا قائد اعظم کی شخصیت پر لکھی گئی پہلی کتاب کو بھی 100برس پورے ہوچکے ہیں، جولوگ گرجاگر پرحملے کو شریعت کے مطابق سمجھتے ہیں یہ لوگ ملک کے آئین کونہیں مانتے، ان سے گفت وشنید اوراس سے بہترنتائج خام خیالی ہے۔
قائد اعظم کاخیال تھا کہ اکثریت اوراقلیت کے تصورکو ختم ہوناچاہیے، اگرہم ان کے خواب کوپورا نہیں کرسکتے تواس کے کچھ حصے کوہی پورا کردیں، ان خیالات کااظہار قائد اعظم محمد علی جناح کے اعزازی سیکریٹری شریف الدین پیرزادہ، پروفیسر شریف المجاہد، خواجہ رضی حیدر اور جامعہ کراچی شعبہ تاریخ عمومی کی قائم مقام چیئرپرسن پروفیسرنرگس رشید نے کیا، اس سیمینار کااہتمام قائد اعظم رائٹرزگلڈ نے شعبہ تاریخ عمومی کے تعاون سے کیاتھاجس میں رائٹرزگلڈ کے اظہار حیدراور شازیہ ناز نے بھی اپنے خیالات کااظہارکیا۔
بحیثیت مہمان خصوصی شریف الدین پیرزادہ نے اپنے خطاب کے بعد ایک طالب علم کی جانب سے کیے گئے سوال سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ آج مسلم لیگ نہیں ہے بلکہ ''ن''لیگ اور''ق''لیگ ہے جبکہ مسلم لیگ اور دیگر سیاست دانوںمیں آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنماؤں اورکارکنوں جیساجذبہ نہیں، سیمینارسے بحیثیت مہمان اعزازی خواجہ رضی حیدرنے کہاکہ شریف الدین پیرزادہ نے مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کی دستاویزات کوجمع کرکے کتابی شکل میں شائع کیا، ان کی کتاب ''فاؤنڈیشن آف پاکستان ''تحریک پاکستان کوسمجھنے کیلیے بائیبل کادرجہ رکھتی ہے،
اگریہ کتاب نہیں لکھی جاتی توتحریک پاکستان اس قدرواضح اورنمایاں نہیں ہوتی، انھوں نے بتایاکہ قائد اعظم محمد علی جناح لندن میں تھے جب مولانامحمد علی جوہرکی جانب سے قائل کیے جانے کے بعد بانی پاکستان نے مسلم لیگ کی رکنیت کافارم بھرا اوراس فارم کومحمد علی جوہراوروزیرحسن نے ''پرپوز''کیاتھا،کہایہ جاتاہے کہ 1918میں قائد اعظم کی تقاریرپرمشتمل پہلی کتاب ایک خاتون مصنفہ کی جانب سے لکھی گئی تھی تاہم شریف الدین پیرزادہ نے اس بات کاانکشاف کیاہے کہ ستمبر1913میں پنجاب ہائیکورٹ کے ایک وکیل شیخ گلاب الدین نے قائد اعظم پرکتاب لکھی تھی۔
قائد اعظم اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر اورقائد اعظم کی شخصیت پر متعددکتابیں لکھنے والے محقق پروفیسرشریف المجاہد نے پاکستان میں اقلیتی برادری پرسماجی ظلم وستم اور دہشت گردی کانشانہ بنائے جانے پرشدید الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے کہاکہ قائداعظم نے 11اگست کی اپنی تقریر میں اقلیتوں کومساوی حقوق دیے جانے کے حوالے سے وضاحت کردی تھی تاہم اب بھی اندرون سندھ سے شکایات آتی ہیں کہ وہاں ہندوخواتین کواغوا کرکے ان سے زبردستی شادیاں کی جاتی ہیں یہ سلسلہ ختم ہوناچاہیے، انھوں نے کہا کہ اے پی سی کے بعد بھی دہشت گردی کے حملے ہوئے اورحملہ کرنے والوں نے ان حملوں کی ذمے داری بھی قبول کی اورمعصوموں کومارالیکن ہم کمزوری دکھارہے ہیں، ہمارے لوگ کہتے ہیں کہ ان کادفترکھولاجائے ان کی موجودگی میں ان کے دفترکی کیاضرورت ہے؟
انھوں نے مزیدکہاکہ قائد اعظم نے ہمیشہ نوجوانوں پر اعتماد کیا،پروفیسرنرگس رشید نے اپنے اختتامی خطاب میں طلبہ کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قائد اعظم اپناکام کرگئے اب ہمیں اس کام کوآگے بڑھاناہے، ورنہ ہم قصہ پارینہ بن جائیں گے، قائد اعظم نے کہاتھاکہ دشمن کواس ہی کے ہتھیارسے مارو اور انگریز بہترجانتے ہیں کہ خود قائد اعظم کس معیارکی انگریزی بولتے تھے۔
انھوں نے1913میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تاہم دستاویزات سے معلوم ہوتاہے کہ وہ 1909 سے 1912تک مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی سے رابطے میں تھے اور غیرمنقسم برصغیر کے مسلمانوں کے مسائل ان کے پیش نظرتھے، قائد اعظم پر پہلی کتاب اردوزبان میں 1913میں ہی شائع ہوگئی تھی لہٰذا قائد اعظم کی شخصیت پر لکھی گئی پہلی کتاب کو بھی 100برس پورے ہوچکے ہیں، جولوگ گرجاگر پرحملے کو شریعت کے مطابق سمجھتے ہیں یہ لوگ ملک کے آئین کونہیں مانتے، ان سے گفت وشنید اوراس سے بہترنتائج خام خیالی ہے۔
قائد اعظم کاخیال تھا کہ اکثریت اوراقلیت کے تصورکو ختم ہوناچاہیے، اگرہم ان کے خواب کوپورا نہیں کرسکتے تواس کے کچھ حصے کوہی پورا کردیں، ان خیالات کااظہار قائد اعظم محمد علی جناح کے اعزازی سیکریٹری شریف الدین پیرزادہ، پروفیسر شریف المجاہد، خواجہ رضی حیدر اور جامعہ کراچی شعبہ تاریخ عمومی کی قائم مقام چیئرپرسن پروفیسرنرگس رشید نے کیا، اس سیمینار کااہتمام قائد اعظم رائٹرزگلڈ نے شعبہ تاریخ عمومی کے تعاون سے کیاتھاجس میں رائٹرزگلڈ کے اظہار حیدراور شازیہ ناز نے بھی اپنے خیالات کااظہارکیا۔
بحیثیت مہمان خصوصی شریف الدین پیرزادہ نے اپنے خطاب کے بعد ایک طالب علم کی جانب سے کیے گئے سوال سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ آج مسلم لیگ نہیں ہے بلکہ ''ن''لیگ اور''ق''لیگ ہے جبکہ مسلم لیگ اور دیگر سیاست دانوںمیں آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنماؤں اورکارکنوں جیساجذبہ نہیں، سیمینارسے بحیثیت مہمان اعزازی خواجہ رضی حیدرنے کہاکہ شریف الدین پیرزادہ نے مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کی دستاویزات کوجمع کرکے کتابی شکل میں شائع کیا، ان کی کتاب ''فاؤنڈیشن آف پاکستان ''تحریک پاکستان کوسمجھنے کیلیے بائیبل کادرجہ رکھتی ہے،
اگریہ کتاب نہیں لکھی جاتی توتحریک پاکستان اس قدرواضح اورنمایاں نہیں ہوتی، انھوں نے بتایاکہ قائد اعظم محمد علی جناح لندن میں تھے جب مولانامحمد علی جوہرکی جانب سے قائل کیے جانے کے بعد بانی پاکستان نے مسلم لیگ کی رکنیت کافارم بھرا اوراس فارم کومحمد علی جوہراوروزیرحسن نے ''پرپوز''کیاتھا،کہایہ جاتاہے کہ 1918میں قائد اعظم کی تقاریرپرمشتمل پہلی کتاب ایک خاتون مصنفہ کی جانب سے لکھی گئی تھی تاہم شریف الدین پیرزادہ نے اس بات کاانکشاف کیاہے کہ ستمبر1913میں پنجاب ہائیکورٹ کے ایک وکیل شیخ گلاب الدین نے قائد اعظم پرکتاب لکھی تھی۔
قائد اعظم اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر اورقائد اعظم کی شخصیت پر متعددکتابیں لکھنے والے محقق پروفیسرشریف المجاہد نے پاکستان میں اقلیتی برادری پرسماجی ظلم وستم اور دہشت گردی کانشانہ بنائے جانے پرشدید الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے کہاکہ قائداعظم نے 11اگست کی اپنی تقریر میں اقلیتوں کومساوی حقوق دیے جانے کے حوالے سے وضاحت کردی تھی تاہم اب بھی اندرون سندھ سے شکایات آتی ہیں کہ وہاں ہندوخواتین کواغوا کرکے ان سے زبردستی شادیاں کی جاتی ہیں یہ سلسلہ ختم ہوناچاہیے، انھوں نے کہا کہ اے پی سی کے بعد بھی دہشت گردی کے حملے ہوئے اورحملہ کرنے والوں نے ان حملوں کی ذمے داری بھی قبول کی اورمعصوموں کومارالیکن ہم کمزوری دکھارہے ہیں، ہمارے لوگ کہتے ہیں کہ ان کادفترکھولاجائے ان کی موجودگی میں ان کے دفترکی کیاضرورت ہے؟
انھوں نے مزیدکہاکہ قائد اعظم نے ہمیشہ نوجوانوں پر اعتماد کیا،پروفیسرنرگس رشید نے اپنے اختتامی خطاب میں طلبہ کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قائد اعظم اپناکام کرگئے اب ہمیں اس کام کوآگے بڑھاناہے، ورنہ ہم قصہ پارینہ بن جائیں گے، قائد اعظم نے کہاتھاکہ دشمن کواس ہی کے ہتھیارسے مارو اور انگریز بہترجانتے ہیں کہ خود قائد اعظم کس معیارکی انگریزی بولتے تھے۔