آزادی مارچ اور نظر انداز عدالتی فیصلہ

اگر فیصلے پر من و عن عمل ہوگیا ہوتا تو حکومت اس شش وپنج میں نہ ہوتی اور مولانا اس اعتماد سے اپنی فوج تیار نہ کرتے


نادیہ مرتضیٰ October 21, 2019
سیاسی دھرنوں کی تعریف ہمارے ملک میں رائج جمہوریت کے مزاج کے مطابق ہوتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ویسے تو پاکستان میں تحریک، احتجاج اور دھرنے کی کون سی صورت قابل قبول ہے، یہ جمہوریت کا پرتکلف اور غیر متوقع مزاج طے کرتا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے آزادی مارچ کے خلاف درخواستیں نمٹاتے ہوئے مقامی انتظامیہ کو معاملہ دیکھنے اور انتظامیہ کو احتجاج کرنے والوں اور نہ کرنے والوں دونوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کا حکم دیا، ایسا ہی فیصلہ اسی عدالت نے 2014 میں تحریک انصاف کے دھرنے کےلیے دیا تھا۔

دھرنوں سے متعلق ایک اور بڑا فیصلہ اس ملک کی سب سے بڑی عدالت نے کیا، جو تھا فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ کا تینتالیس صفحات پر مشتمل فیصلہ۔ حکومت مخالف دھرنوں اور تحریکوں پر وہ تاریخی فیصلہ ہے جسے سیاسی اور غیر سیاسی نصاب میں برابر شامل کیا جانا چاہیے، مگر شومیٔ قسمت، اس فیصلے پر اتنا ہی عمل ہوسکا جتنا کہ ہمارے نظام میں جمہوریت کی اصل روح پر عمل ہوا ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ کے اس فیصلے میں تین احکامات بہت واضح ہیں۔ پہلا حکم دھرنا دینے والے گروہ کےلیے ہے۔ فیصلے کے مطابق ''آئین بطورخاص احتجاج کے حق کو بیان نہیں کرتا، تاہم جمہوریت اس نوعیت کے حق کو تسلیم کرتی ہے۔ مگر احتجاج کسی قانونی حکومت کو معزول کرنے کےلیےاستعمال نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کہے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے کہ اکٹھا ہونے کا حق کسی جمہوری سیاسی نظام کی حفاظت کےلیےانتہائی اہم حق ہے، لیکن کوئی بھی ریاست، ایسی کوئی بات یا عمل برداشت نہیں کرسکتی جو ایسی حکومت گرانے کی نیت رکھتی ہو، جو قانونی اور آئینی طور پر وجود میں آئی ہو''۔

دوسرا حکم ریاست کےلیے ہے۔ فیصلے کے مطابق تحریک لبیک پاکستان اور اس کے حامی شہری زندگی کو مفلوج بنانے کےلیے مکمل طور پر پرعزم تھے، تاہم اس صورت حال سے نمٹنے کےلیے حکومت کی طرف سے ناکافی انتظامات کیے گئے تھے۔ اس حوالے سے کوئی قبل ازوقت منصوبہ بندی بھی نہیں کی گئی۔ بصیرت و صراحت کا فقدان اور تذبذب کا عنصر غالب دکھائی دیا۔ جب قانون شکنی کرنے والوں کو معلوم ہو کہ اس کی کوئی سزا نہیں ہوگی تو دوسروں کو شہ ملتی ہے۔ پاکستان کے شہری اپنے بنیادی حقوق کو برقرار رکھے جانے کے حوالے سے ریاست پر بھروسہ کرتے ہیں۔ شہریوں کا تحفظ یقینی بنایا جانا چاہیے، ان کی املاک کی حفاظت کی جانی چاہیے اور انہیں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت ہونی چاہیے۔ تاہم ریاست نے انہیں مایوس کیا۔

تیسرا حکم اسٹیبلشمنٹ کےلیے ہے۔ فیصلے کے مطابق ''ایئر مارشل اصغرخان کیس کے فیصلے کے مطابق مسلح افواج کے آفیسرز یا اراکین کی سیاست اور میڈیا میں مداخلت یا کسی اور ''غیر قانونی'' اقدام میں شمولیت یا مداخلت کو روکا جانا چاہیے۔ جبکہ اس کے برعکس ٹی ایل پی دھرنے کے مظاہرین وردی والے سے نقد رقم وصول کررہے تھے۔ یوں اس معاملے میں ان کی شمولیت کا تصور ملا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر بھی اس معاملے میں سیاسی بیان دے چکے ہیں۔ ایجنسیوں کو کسی مخصوص سیاسی جماعت یا اس کے کسی دھڑے کی ہرگز حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ اگر مسلح افواج کا کوئی رکن میڈیا کے خلاف یا اس کے ذریعے جوڑ توڑ کرتا ہے یا اس کے ساتھ سیاست بازی کرتا ہے، تو وہ مسلح افواج کی دیانت اور پیشہ ورانہ مہارت کو مجروح کرتا ہے''۔

اس فیصلے سے جڑا ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ اس فیصلے کے خلاف 8 ریویو پٹیشنز سپریم کورٹ میں دائر کی گئیں۔ درخواست دائر کرنے والوں میں سرفہرست پاکستان تحریک انصاف، وزارت دفاع، انٹیلی جنس بیورو الیکشن کمیشن اور شیخ رشید شامل ہیں۔

آج تحریک انصاف کی حکومت کو خود ایک دھرنے کا سامنا ہے۔ قاضی فائز عیسی کے جس فیصلے کے خلاف حکومت فریق بنی، اگر فیصلے پر من و عن عمل ہوگیا ہوتا تو حکومت اس شش وپنج میں نہ ہوتی۔ مولانا صاحب اس اعتماد سے اپنی فوج تیار نہ کرتے اور اسٹیبلشمنٹ کو اپنے کردار اور غیر جانبداری کی یوں گواہی نہ دینی پڑتی۔

چونکہ سیاسی دھرنوں کی تعریف ہمارے ملک میں رائج جمہوریت کے مزاج کے مطابق ہوتی ہیں، سو تحریکیں ہائی جیک ہوجائیں تو ملک کا نظام خودساختہ صدر یعنی ضیاالحق چلاتے ہیں۔ تحریکیں اگر ایک سو چھبیس دن طویل ہوجائیں اور ہائی جیک نہ ہوں، تو نظام کمزور وزیراعظم چلاتے ہیں۔ اور اگر تحریکیں جڑواں شہروں کے وسط میں بیٹھ کر کاروبار زندگی مفلوج کردیں تو کھلے عام پیسوں کے لفافے بانٹ کر نظام ریاست کو یوں چلایا جاتا ہے کہ عدالتوں کے فیصلے اور تاریخ کے سبق دونوں خاک چاٹتے رہ جاتے ہیں۔

مولانا صاحب اور حکومت دونوں کسی عدالتی فیصلے کی فکر میں نہیں، بلکہ اشارے کی فکر میں ہیں کہ اس دھرنے کو کون سا سیاسی لبادہ پہنایا جاتا ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں