واقعی یار رلا دیا

عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ جو رلانے کا کہا گیا تھا وہ عوام کےلیے تھا، جو چیخیں نکالنی تھیں وہ عوام کی تھیں

ایک عام آدمی کے رونے کا آغاز ہوچکا ہے اور اس کی چیخیں بھی نکل رہی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

کتنے دبنگ لہجے میں کوئی کہا کرتا تھا کہ میں ان سب کو رلاؤں گا، ان کی چیخیں نکال دوں گا۔ اور واقعی اس نے کر دکھایا۔ لیکن ساتھ ساتھ کچھ اور بھی لوگ رونا شروع کرچکے ہیں، جن کی سسکیاں فی الحال مدھم ہیں لیکن روز بہ روز تیز ہوتی جارہی ہیں۔ اب پتہ نہیں کہنے والے کی مراد کیا تھی؟ بظاہر تو وہ کرپٹ اشرافیہ کو رلانے کی باتیں کررہا تھا تو نہ جانے یہ غریب مظلوم اور دہائیوں سے روزگار، امن چین سکون کو ترسے ہوئے عوام بھی کیوں منہ بسورنا شروع ہوگئے ہیں۔ اور لگ یہی رہا ہے کہ آہستہ آہستہ یہ چیخیں بلند سے بلند تر ہوتی چلی جائیں گی۔

چلیے اس بارے میں کچھ مفروضوں یا بیانیوں پر بات کرتے ہیں جو کہ آج کل ہر سطح پر بڑے مقبول ہیں اور مختلف زاویوں سے ہر سطح کے لوگ کم و بیش ان پر گفتگو کرتے نظر آرہے ہیں۔ ان میں پہلا مفروضہ تبدیلی کے اب تک ہمدردوں اور گن گانے والوں میں بڑا دفاعی انداز رکھتے ہوئے کافی مقبول ہے۔

اس پہلے مفروضے یا بیانیے کے تحت ابھی تک گزشتہ ادوار کے بگاڑ کا چورن بیچا جارہا ہے اور یہی کہا جارہا ہے کہ گزشتہ حکومت میں ملک کو تباہ حال کرکے اور ملکی معیشت کو جس طرح مصنوعی طور پر جھوٹے اعداد و شمار کی مدد سے زندہ رکھا گیا یہ سب اسی کے بداثرات و ثمرات ہیں۔ اسی گند کو صاف کرنے کےلیے کی جانے والی کوششوں کی وجہ سے ابھی ذرا کٹھن وقت چل رہا ہے۔ لیکن اب جلد اس کے اچھےثمرات سامنے آنے لگیں گے اور مہنگائی میں کمی آئے گی، نئی ملازمتیں تخلیق ہوں گی، مالی خوشحالی کا دور آیا ہی سمجھو۔ عوام حوصلہ رکھیں، قومی زندگی میں کٹھن وقت آتے ہی رہتے ہیں، وغیرہ۔ لیکن اب یہ بیانیہ رفتہ رفتہ اپنا اثر کھوتا جارہا ہے۔

دوسرا مفروضہ یا بیانیہ یہ ہے کہ ملک روانی سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن تھا، امن و امان بحال ہوگیا تھا، تجارت و معیشت تیزی سے ترقی کررہی تھیں، ڈالر مستحکم تھا اور معاشی انڈیکیٹرز ترقی کے اشارے دے رہے تھے کہ کرپشن کا شور مچایا گیا۔ اس کےلیے پروپیگنڈہ اور مس انفارمیشن کی زبردست مہم چلائی گئی اور ایک اچھی بھلی سیاسی حکومت کو پہلے مظاہروں اور دھرنوں سے دباؤ میں لایا گیا اور پھر کرپشن کے الزامات پر فارغ کرکے مرضی کے پنٹر بٹھا دیئے گئے۔ جو بین الاقوامی استعماری طاقتوں کے نمائندے ہیں، جنہیں ایک خوشحال، مضبوط اور مستحکم پاکستان کسی صورت گوارا نہیں ہے۔

یہی وہ بیانیہ ہے جس کے ذیل میں موجودہ حکومت کو نااہل اور نقصان دہ قرار دے کر اب موجودہ پیش آنے والے لانگ مارچز اور دھرنوں کا غلغلہ مچا ہوا ہے۔


اب چند چھوٹے بڑے بیانیے، مفروضے یا نقطہ ہائے نظر اور بھی گردش میں ہیں، جن میں موجودہ حکومت کا ایماندار ہونا لیکن ناتجربہ کاری کی وجہ سے حالات و معاملات کو مس ہینڈل کرجانا، عالمی بدلتی صف بندیوں کے پاکستان پر اثرات، خصوصاً امریکن طوطا چشمی، انڈیا کے غیر معمولی مسلم دشمن احکامات اور کشمیر کا قضیہ اور اس پر موجودہ حکومت کا ردعمل وغیرہ شامل ہیں، جو موجودہ بگڑتی معاشی صورتحال کی جانب مشیر کیے جاتے ہیں۔

اب ان سارے بیانیوں، مفروضوں یا باتوں میں سے کون سی درست ہے یا کیا غلط ہے، یا پھر سب ہی کچھ نہ کچھ صحیح یا غلط ہیں؟ یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں کہ یہ سب بڑے پیچیدہ معاملات ہیں اور ماہرین ہی انہیں بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن میرے جیسا عام آدمی جو روز کنواں کھودتا ہے اور روز پانی پیتا ہے، اسے ان سب باتوں سے جب غرض ہوگی جب وہ روز افزوں مہنگائی کے ہاتھوں قدم قدم پر ذلیل نہیں ہورہا ہوگا۔ جب اسے امن، چین، روزگار اور بہتر مستقبل نظر آرہا ہوگا۔ جب وہ ادویات کی بار بار بڑھائی جانے والی قیمتوں سے بچا رہے گا اور اپنے اور اپنی آئندہ نسلوں کےلیے کچھ بہتر امکانات دیکھ پارہا ہوگا۔ جب اسے وہ سب سہولتیں اور آسائشیں کسی نہ کسی حد تک مل جائیں گی جو فی الوقت تو اس ملک کے پچیس کروڑ عوام میں سے صرف چند لاکھ لاڈلوں اور خوش بختوں کو حاصل ہیں، تو پھر وہ ان باتوں پر غور کرسکے گا۔

تو ایک عام آدمی فی الحال جو دیکھ رہا ہے اور اس کی معمول کی زندگی جس طرح روز بہ روز مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے، اس سے وہ ساری دیگر باتوں کو چھوڑ کر دوسرے بیانیے کو ہی درست سمجھنے پر خود کو مجبور پارہا ہے۔ ایک عام آدمی تو یہ دیکھ رہا ہے کہ بس اس کے رونے کا آغاز ہوچکا ہے اور اس کی بھی چیخیں نکل رہی ہیں۔

ذرا کچھ عرصے قبل ہی جو بلند بانگ انتخابی دعوے کیے گئے تھے وہ تقریباً سب یوٹرن بن چکے ہیں اور اس کے بالکل برعکس سی صورتحال سامنے آرہی ہے۔ نہ کوئی پیسہ کسی بھی مبینہ کرپٹ فرد سے اب تک وصول ہوسکا ہے، نہ غیر ملکی بینکوں میں مبینہ موجود اربوں ڈالر واپس آسکے، جو کہ منی لانڈرنگ کے بتائے جاتے تھے اور جن کے آتے ہی پاکستان کا مقدر بدل جانا تھا۔ لاکھوں نوکریوں میں سے چند ہزار بھی ابھی تک اناؤنس نہ ہوپائیں، بلکہ ایک وزیر موصوف نے تو یہ فرمادیا ہے کہ ہم تو 400 محکمے بند کرنے والے ہیں، لوگ سرکاری ملازمتوں کے آسرے پر نہ رہیں۔ چلو چھٹی ہوئی۔

تو پھر عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب نہیں کہ وہ جو رلانے کا کہا گیا تھا وہ عوام کےلیے تھا۔ وہ جو چیخیں نکالنی تھیں وہ عوام الناس کی نکالنی تھیں۔ جب آپ کو حکومت کرنے کا اتنا ہی شوق تھا تو پوری طرح تیاری کرنا تھی ناں۔ آپ تو کہا کرتے تھے کہ ہمارے پاس ٹیکنوکریٹس کا جم غفیر اور ہر شعبے کے ماہرین وافر مقدار میں موجود ہیں۔ تو وہ سب کہاں چلے گئے؟ جن کو آپ میگا کرپشن میں ملوث کہا کرتے تھے وہ تو فائیو اسٹار انداز میں جیلوں میں پرسکون زندگی گزار رہے ہیں، اور شاید آنے والے زمانے میں اس جیل یاترا کو اپنے فائدے میں استعمال کرنے کی منصوبہ بندی بھی کیے بیٹھے ہوں گے۔ لیکن کچھ عرصے قبل تک مثبت تبدیلی کی آس لگائے پرامید سے عام شہریوں کو واقعی آپ نے رلا کر دکھا دیا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story