ماں باپ کے والدین کا پیار

اپنے گرینڈ پیرنٹس کو بھی احساس دلائیں کہ آپ ان سے بہت محبت اور ان کا احترام کرتے ہیں

نانا نانی، دادا دادی ہمارے والدین سے بھی بڑھ کر ہمیں چاہتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لاہور:
دادا، دادی، نانا، نانی بہت ہی خوبصورت اور سچے رشتے ہوتے ہیں۔ کئی بچوں کا یہ ماننا ہے کہ ہمیں صرف ننھیال ہی اچھا لگتا ہے اور دادا دادی اچھے نہیں لگتے۔ کئی نوجوانوں کا یہ خیال ہے کہ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے، اب کس کے پاس اتنی فرصت کہ وہ نانا دادا کے پاس بیٹھ کر وہی پرانے گھسے پٹے قصے کہانیاں سنے۔ اس لیے بہتر ہے کہ سوشل میڈیائی بزرگوں، جن میں یقیناً ان کے سینئر دوست شامل ہیں، ان کی صحبت حاصل کرلیں۔ نہ ہی نصیحتوں کی پٹاری کھلے، نہ ہی لیکچر سن کر ذہنی خلفشار ہو۔

زمانہ کچھ بھی کہے اور کتنا ہی ماڈرن کیوں نہ ہوجائے، دادا، دادی کی اہمیت ختم نہیں ہوسکتی۔ خواہ پھوپھو کی چالاکیوں کا فیس بک پر پیج بنایا جائے یا خود سے بڑوں کی توہین کا کسی بھی طرح کوئی نہ کوئی پہلو نکال لیا جائے۔ والدین کے والدین ایک ایسی حقیقت ہیں جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا۔

مجھے تو آج تک اپنے نانا نہیں بھولتے جو جب ہم لاہور جاتے تو ہمیں ریلوے اسٹیشن پر لینے آتے، یا دادا ابو نہیں بھولتے جو پہلے دن اسکول ساتھ لے کرگئے اور تب تک انھوں نے دوپہر کا کھانا نہ کھایا جب تک میں گھر واپس نہ آگئی۔ دادی اماں کی یادیں بھی ساتھ رہتی ہیں۔ ہم سب بہن بھائی ان سے بے جا ضد کرتے، کبھی حلوہ بنادیں تو کبھی گجریلا، کبھی پاپ کارن تو کبھی گلاب جامن، کبھی آئس کریم تو کبھی پتیسے کی فرمائش۔ میری دادی اماں ناخواندہ تھیں، لیکن ہم بھی ایسے تھے کہ اس کے باوجود ان کے ساتھ کیرم بھی کھیلتے، لوڈو بھی اور حتیٰ کہ نام چیز جگہ بھی۔ بس انھیں یہ معلوم تھا کہ لال گوٹی کوئین ہے، جس کے نمبر سب سے زیادہ ہوں گے لیکن لوڈو میں جب وہ ہارنے لگتیں تو کہتیں تم لوگ میری گوٹیاں مار کر جان بوجھ کر مجھے ہراتے ہو اس لیے پھر سے کھیل شروع کرو۔

اسکول جب خود سے جانے لگے تو کبھی کبھی دادی اماں اپنا برقعہ اوڑھے ہمیں واپسی پر لینے آتیں اور ہم جلدی سے سڑک کراس کرکے یہ جا وہ جا۔ اور دادی پیچھے آوازیں لگاتیں رک جاؤ، بچیو کہاں جاتی ہو، میرے ساتھ چلو۔ مگر نہیں ہم کہاں باز آتے تھے۔ لیکن کبھی بھی دادی نے ابو کو شکایت نہ لگائی، ہاں البتہ ہم ان سے معافی ضرور مانگ لیتے تھے اور وہ خوشی سے گلے لگالیتی تھیں۔

لیکن آج کل صورتحال بالکل مختلف ہے۔ ہم نے اپنے بزرگوں کو اس دور کی افراتفری میں دور کہیں کھو دیا ہے۔ اب ہمارے پاس وقت ہی نہیں کہ ہم ان سے بات بھی کریں، ان کی بات سن بھی سکیں۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھیں کہ دنیا میں جو رشتے سچے ہیں ان میں ایک یہ رشتہ گرینڈ پیرنٹس کا بھی ہے۔


کیونکہ ہمارے نانا نانی، دادا دادی ہمارے والدین کے بھی والدین ہوتے ہیں۔ اور وہ کہتے ہیں کہ اصل سے پیارا سود، تو وہ ہمیں ہمارے والدین سے بھی بڑھ کر چاہتے ہیں۔ انھوں نے ہماری تربیت کےلیے بہت اچھا سوچا ہوتا ہے، کیونکہ انھیں ہمارے والدین کی تربیت کا بھی تجربہ ہوتا ہے۔ وہ بہت اچھے سامع ہوتے ہیں۔ آپ کا کوئی بھی مسئلہ ہو، کوئی الجھن، کوئی پریشانی ہو، بڑے ابو بڑی امی آپ کو کبھی بھی مصروف نہیں ملیں گے اور اگر ہوں گے بھی تو آپ کےلیے ہمہ وقت حاضر ہوں گے۔ یعنی ان کا پیار ہمیشہ غیر مشروط ہوگا۔

دادا دادی سے التفات اور پیار کی وجہ سے آپ میں مصائب کا مقابلہ کرنے کی جرأت بھی پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ لوگ بہت مہم جو طبعیت کے حامل ہوتے ہیں۔ دل سے آپ سے بہت سی باتیں کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ان کے زمانے میں جسمانی سرگرمیاں بہت ہوتی تھیں، اس لیے یہ آپ کو کبھی نچلا بیٹھے دیکھتے رہنا پسند نہیں کرتے، بلکہ فوراً کوئی نہ کوئی کام ڈھونڈ کر آپ کو ہلکی پھلکی ورزش پر مجبور کردیتے ہیں اور آپ کو محسوس بھی نہیں ہوتا کہ اتنی سی دیر میں آپ نے کتنی حرکت کرلی۔

نانا نانی کے پاس بہت سی کہانیاں ہوتی ہیں، بہت سے تجربات ہوتے ہیں۔ ان کے پاس ہر وقت آپ کو کچھ بتانے کےلیے ہوتا ہے۔ وہ بہت کاملیت پسند بھی ہوتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ آپ بھی دلجمعی سے کوئی کام پورا کرسکیں۔ ان لوگوں میں بچوں کے ساتھ بچہ بننے اور بڑوں کے ساتھ بڑا بننے کی بھی صلاحیت ہوتی ہے، جس کا یہ بخوبی استعمال جانتے ہیں۔ یہ آپ کو کسی بھی مشکل سے بچا سکتے ہیں۔ آپ کے اپنے والدین اگر آپ کو ڈانٹ رہے ہوں تو یہ ایک ڈھال بن جاتے ہیں، اور تنہائی میں آپ کو آرام سے معاملے کی سنگینی سے آگاہ کردیتے ہیں۔

آپ کی سالگرہ ہو یا شادی کی کوئی تقریب، ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتی۔ وہ آپ کےلیے قیمتی تحائف کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان کی ماضی، حال اور مستقبل سب پر نظر ہوتی ہے، اور اگر وہ قیمتی تحائف افورڈ نہ کرسکیں تو آپ کےلیے اچھے کھانے تیار کرتے ہیں، ہینڈی کرافٹ کی خوبصورت اشیا بناکر آپ کو خوش کرتے ہیں۔

آئیے اتنے خوبصورت رشتوں کی قدر کریں اور اپنے گرینڈ پیرنٹس کو بھی احساس دلائیں کہ آپ ان سے بہت محبت اور ان کا احترام کرتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story