دیہاتی سرکاری اسکولوں کے اساتذہ صرف تنخواہ والے دِن نظر آتے ہیں
جنگلات کی بربادی کے باعث برفباری میں اتنی کمی آچکی ہے کہ جنوری میں سکی انگ مقابلوں کیلئے برف میسر نہ تھی
(قسط نمبر 4)
کارگاہ نالے سے واپس آتے ہوئے راستے میں ایک جوان شخص گدھے پر جلانے کی لکڑی لادے ہوئے گلگت کی طرف رواں دواں نظر آیا۔ میں نے گاڑی رکوا ئی تاکہ اُس سے گفتگو کر سکوں اور ممکن ہو تو اُس یہ بات چیت ریکارڈ کرکے نشر کروں۔ اس شخص کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا جس کی عمر بمشکل دس برس ہوگی۔ دونوں کے چہرے شدید غربت، مفلوک الحالی اور مشقت بھری زندگی کی کہانی بیان کر رہے تھے۔ میرے دریافت کرنے پر اُس نے بتایا کہ وہ ہر ہفتے تین چار مرتبہ جلانے کی لکڑی گدھے پر لاد کر گلگت آتا ہے۔ دو من تک خشک لکڑی گدھے پر لائی جا سکتی ہے جو سات سے آٹھ سو روپے من (فی چالیس کلو گرام) فروخت ہوتی ہے۔ پھر اس رقم سے وہ اپنے گھر کے لئے ضروریات زندگی خرید کر واپس کارگاہ گائوں چلاجاتا ہے۔
واپسی پر اگر گائوں کے کسی دوکاندار کا سامان ہو تو وہ بھی گدھے پر لاد دیا جاتا ہے جس سے کچھ اضافی رقم ہاتھ آجاتی ہے۔بچے کو نہ پڑھانے کے سوال پر اُس نے بتایا کہ کارگاہ میں سرکاری سکول تو موجود ہے لیکن اس میں تعینات استاد صاحب مہینے میں صرف ایک بار اپنی شکل تنخواہ والے روز دکھاتے ہیں اور پھر مہینے بھر کے لئے غائب ہو جاتے ہیں۔ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ (اس صورت حال کی کھوج بین کرنے سے پتہ چلا کہ 2008ء سے 2013ء تک یہاں پیپلز پارٹی کی حکومت تھ۔ حکومت کے مقامی کارپرازان نے گلگت بلتستان کے ہر سر کاری محکمے میں گریڈ چودہ تک کی اسامیوں کی جس انداز میں سیل لگائی ہوئی تھی اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ جس شخص نے چار سے پانچ لاکھ روپے دے کر ملازمت حاصل کی ہو وہ بھلا کیوں ڈیوٹی دینے آئے گا۔
ایسے بھی ہوا ہے کہ جو لوگ پہلے سے کا نٹر یکٹ پر کسی آسامی پر تعینات تھے وہ تمام اسامیاں بھی نئے لوگوں کو فروخت کی گئیں اور پہلے سے برسر روزگار لوگوں کو بے روزگار کیاگیا۔اب کا نٹریکٹ والے ملازمین جن کی تعداد سینکڑوں میں تھی عدالتوں کے دھکے کھا رہے ہیں) یہ بچہ اور کارگاہ نالے کے اطراف میں آباد دیہات میں رہنے والے اس کے ہم عمر بچے سارا دن ادھر اُدھر آوارہ گھومتے ہیں اور جو لوگ گلگت میں رہنے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ اپنے بچوں کے ہمراہ گلگت رہتے اور وہاں اُن کو پڑھاتے ہیں۔ ان کے گدھے کی حالت بھی انہی کی طرح خستہ تھی۔ بوجھ کی وجہ سے وہ چلتے ہوئے ڈگمگا رہا تھا۔ میں نے جب گدھے کی اس حالت اور اس کی قیمت پوچھی تو اُس نے بتایا کہ یہ اکلوتا گدھا اس کے روزگار کا ذریعہ ہے اور اس کی قیمت کم وبیش پچاس ہزار روپے ہے۔اگر زیادہ صحت مند گدھا خریدنا ہو تو اس کے لئے ستر سے اسی ہزار روپے درکار ہوں گے۔
اب میں یہ تو نہیں جانتا کہ وہ تندرست گد ھا خریدنے کے لئے ستر اسی ہزار روپے کب اور کہاں سے فراہم کر سکے گا لیکن مجھے یہ معلوم ہے کہ گدھے پر لکڑی بیس کلو میٹر دور سے لاکر فروخت کر کے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے والا یہ شخص گلگت بلتستان کے اُن ہزاروں نوجوانوں سے بہت بہتر ہے جوسارا دن موٹر سائیکلوں اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں میں ادھر سے اُدھرسڑکوں پر تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے اور اپنے ماں باپ کی کمائی کو اڑانے کو اپنا فخر سمجھتے ہیں۔
ایک طرف برائے نام تعلیم حاصل کرکے لاکھوں روپے کے عوض سرکاری ملازمت خریدنے پر صرف کر نے پر کرتے ہیں۔ دوسری جانب لوگ اسمبلیوں میں آکر وزارت خریدتے اور پھر اپنی رقم کو کئی گنا کرنے کی تگ و دو میں محنت کرنے والے غریب تعلیم یافتہ نوجوانوں کا حق مار کر لاکھوں روپے وصول کرکے ملازمتیں بیچ دیتے ہیں۔یہ بھی ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ دینور سے سلطان آباد اور پھر جوتل تک شاہراہ قراقرم ایک سیدھ میں بنی ہوئی ہے۔ہر سال کم از کم پندرہ سے بیس نوجوان موٹر سائیکل سوار یہاں ون ویلنگ کرتے ہوئے اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں۔زخمی ہونے والوں کی تعداد درجنوں میں ہوتی ہے۔
پاکستان میں قدرتی جنگلات صوبہ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں پائے جاتے ہیں۔ ویسے تو جنگلات کا رقبہ پاکستان کے کل رقبے کے پانچ فیصد رقبے سے بھی کم ہے لیکن جو بچے کھچے جنگلات ہیں وہ بھی ٹمبر مافیا کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں۔ ایک وقت تھا کہ گلگت کے اردگرد سارے پہاڑگھنے جنگلات سے مالامال تھے۔ اب پورے گلگت بلتستان میںجنگلات کی تباہی کا کام اس قدر وسیع پیمانے پر ہو چکا ہے کہ 2015ء کے موسم سرما میں برف اتنی کم ہوئی کہ وادی نلتر میں پاک فضائیہ کے سکی ٹریننگ سکول میں سکی کے سالانہ قومی مقابلے جنوری میں منعقد کرائے جا سکتے۔
یاد رہے کہ دنیا بھر میں 18 جنوری کو سکی کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور جہاں جہاں برف باری ہوتی ہے اُ ن میں سے ہر قابل ذکر مقام پہ سکی انگ کے مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں سکی کے مقابلے سوات میں مالم جبہ، گلگت بلتستان میں نلتر اور رتو میں منعقد کئے جاتے ہیں۔ 18جنوری کے بعد ہونے والی تھوڑی بہت برف باری کے بعد 8 فروری کو پانچ روزہ جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور انٹر سروسز سکی چیمپئن شپ کے مقابلے شروع ہوئے۔ اس مقصد کے لئے سکی انگ ٹریک پر اردگرد سے برف جمع کرکے ڈالی گئی۔پانچ روزہ مقابلوں کی اختتامی تقریب بارہ فروری کو ہونا تھی۔ جس کے مہمان خصوصی چیئر مین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود تھے۔
میرے ہمراہ نیوزسٹرنگر شیر عباس اور شیر محمد نیوز ایڈیٹر نے اس تقریب کی کوریج کے لئے گلگت سے صبح چھ بجے روانہ ہونا تھا۔ گلگت ائر پورٹ پر پاک فضائیہ کا ایک دفتر قائم ہے ۔ ذرائع ابلاغ سے متعلق تمام لوگوں نے اسی دفتر آنا اور فضائیہ کی مہیا کی ہوئی ٹرانسپورٹ پر نلتر جانا تھا۔ صبح سات بجے ہم فضائیہ کی بس پر نلتر روانہ ہوئے اورشاہراہ قراقرم کے بجائے دریائے ہنزہ کے اُس پار پرا نی سڑک پر چلتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ راستے میں ایک بڑا گائوں نومل آتا ہے۔ جو گلگت سے تیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ نومل ایک بڑی آبادی ہے۔اپنے نام کی طرح خوبصورت یہ گائوںجو اپنی زرعی پیداوار، خاص طور پر پھلوں کے لئے، بہت مشہور ہے۔یہ گائوں دریائے ہنزہ کے کنارے آباد ہے۔روایتی زرعی پیداوار کے ساتھ ساتھ نومل کے باغات میں چیری کی بہت اچھی قسم پیدا ہو تی ہے۔
اس وسیع و عریض گائوں کے سرسبز و شاداب کھیت،باغات اور کھیتوں کے درمیان بنے ہوئے گھر بہت ہی حسین منظر پیش کرتے ہیں۔ نومل سے آگے سڑک وادی نلتر کی طرف مڑ جاتی ہے۔ اس سڑک کی حالت بہت خراب تھی۔ گاڑی کی رفتار بہت آہستہ کرنا پڑی۔راستے میں چودہ اور اٹھارہ میگاواٹ کے دو بجلی گھر زیر تعمیر ہیں۔ سڑک کے ساتھ ساتھ نلتر نالہ بہہ رہا ہے۔
سڑک جسے پگڈنڈی کہیں تو زیادہ مناسب ہو گا کہیں تو نالے کے ساتھ چلتی ہے اور کہیں نالے سے اونچی ہو جاتی ہے۔ سردی کا موسم ہونے کی وجہ سے پانی کچھ دھیمے انداز میں بہہ رہا تھا۔صاف شفاف پانی برف کی طرح ٹھنڈاجھاگ اُڑاتا بہت حسین لگ رہا تھا۔ کچھ آگے نلتر پایاں آکر گاڑیاں روک دی گئیں۔ کیونکہ یہاں سے آگے سڑک کی حالت ایسی تھی کہ صرف طاقتور جیپیں ہی آگے جا سکتی ہیں اور فضائیہ کی ڈبل کیبن پک اپس ہمیں لینے کے لئے یہاں کھڑی تھیں۔ نلتر ، گلگت سے تقریباً چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ گلگت سے نلتر جانے کے دو راستے ہیں ایک شاہراہ قراقرم کے ذریعے، اور دوسرا پرانا راستہ شاہراہ قراقرم کے اُس پار دریائے ہنزہ کے دوسرے کنارے چلتا ہے۔
سطح سمندر سے دس ہزار فٹ کی بلندی پرواقع وادی نلتر گلگت بلتستان کے اُن چند مقامات میں سے ایک ہے۔ جہاں تھوڑے سے رقبے پر قدرتی جنگلات اب بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔پاک فضائیہ نے نلتر میں پہلی بار اپنا ایک چھوٹا سکول 1959ء میں قائم کیا جس میں فضائیہ کے افسروں کو خاص طور پر ہوا بازوں کو برف اور سردی میں رہنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ 1961ء میں یہاں سکی ٹریننگ سکول کھولا اور تعمیرات شروع کی گئیں۔یہ سکول مری کے قریب قائم کالاباغ ائر بیس کا ایک یونٹ ہے۔بہت ہی خوبصورت وادی میں پہاڑ کی چو ٹی سے لے کر نیچے تک برف بچھی ہوئی ہے۔چیڑھ کے گھنے درختوں میں گھرا ہوا سکی انگ ٹریک شاہ خان سکی سکول نلتر میں پڑھنے والے بچوں کی تربیت کے لئے بھی کام آتا ہے۔
مہمان خصوصی جنرل راشد محمود کی آمد ہیلی کاپٹر میں ہوئی۔ اُ ن کے ہمراہ وائس ائر چیف سہیل خان بھی تھے۔ تقریب بہت شاندار رہی جس میں سکی مقابلوں میں حصہ لینے والی ٹیموں کے کھلاڑی گروپوں کی صورت میں سکی کرتے ہوئے نیچے آئے۔ مہما ن خصوصی کے سامنے سے گذرتے ہوئے سلامی دی ۔ کھلاڑیوں میں سرمائی اولمپکس میں طلائی تمغہ حاصل کرنے والا کارپورل محمد عباس بھی شامل تھا۔ جو نلتر کا رہنے والا اور شاہ خان سکی سکول کا تربیت یافتہ ہے۔ کھلاڑیوں کے بوٹوں پر رنگین دھواں چھوڑنے والا مادہ نصب تھا اور نیچے آتے آتے وہ کرتب دکھاتے ہوائی جہازوں کے انجنوں سے نکلنے والے رنگین دھوئیں کی طرح اپنے جوتوں سے دھواں نکالتے آ رہے تھے۔ تمام کھلاڑیوں کے نیچے پہنچ جانے پر فوٹو سیشن ہوا اور پھر تقریب ختم ہوتے ہی مہمانوں کو آفیسرز میس کی طرف جانے کا کہا گیا۔
جہاں ظہرانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ ہم یعنی میں، شیر محمد نیوز ایڈیٹر اور سٹرنگر شیر عباس جونہی میس جانے کے لئے آگے بڑھے تو پاک فضائیہ کے ڈائریکٹر سپورٹس گروپ کیپٹن ندیم شاہد نے ہمیں اپنے ہمراہ آنے کو کہا اور چیئر لفٹ کی طرف لے گئے۔ اب صورت حال یہ تھی کہ تقریب کے سارے مہمان اپنی اور فضائیہ کی گاڑیوں پر میس کی طرف جارہے تھے اور ہم چار افراد چیئر لفٹ پر بیٹھے تھے۔ کم و بیش ڈیڑھ کلو میٹر طویل اور سکی سکول سے اتنی ہی اونچائی پر واقع چوٹی کی طرف رواں دواں تھے۔ ہالینڈ کے انجینئرز ابھی نلتر میں تعینات اور چیئر لفٹ کی تنصیب مکمل ہونے کے بعد آزمائشی مدت میں اس کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔
وہ ہم سے پہلے چیئر لفٹ کے ذریعے اوپر جا چکے تھے۔ ڈیڑھ کلو میٹر طویل اس چیئر لفٹ کو اوپر جاتے ہوئے تقریباً دو ہزار فٹ بلندی پر جانا پڑتا ہے۔سارا راستہ چیڑھ کے گھنے درختوں سے گھرا ہوا ہے۔ چیئر لفٹ کی تعمیر کے لئے کئی درختوں کو کاٹنا پڑا۔ اوپر نرم کومل برف کی ایسی چادر بچھی ہوئی تھی جس پر پائوں رکھتے ہی بندہ گھٹنوں تک برف میں دھنس جاتا تھا۔ اوپر چیئر لفٹ تعمیر کرنے والے ڈچ انجینئر چیئر لفٹ کے دھرے سے برف ہٹانے اور اس کی سٹنگ کرنے میں مصروف تھے۔ ہمیں اوپر پہنچا کر چیئر لفٹ بند کر دی گئی تھی تاکہ کام مکمل کیا جا سکے۔ وہیں قریب ہی چرواہوں کا ایک کمرہ بنا ہو اتھا۔ سردی اس قدر تھی کہ بھاری گرم کپڑوں کے باوجود ہم ٹھٹھر رہے تھے۔
سردی سے بچنے کے لئے اس کمرے کا رخ کیا۔ جو اپنے مکینوں سے تو خالی تھا۔ لیکن کمرے کی حالت اپنے اندر ایک پوری داستان سموئے ہوئی تھی۔ یہ کمرہ گرمیوں میں جانور لے کر چراہ گاہوں کو جانے والے چرواہوں کے رہنے کا کام آتا ہے۔پچیس بائی پچیس کے اس کمرے میں ایک طرف ایک چبوترہ سا بنا ہوا تھا۔ یقینناً یہ چرواہوں کے سونے کی جگہ تھی۔ درمیان میں آگ جلانے کا انتظام تھا۔ اور ایک بڑی کیتلی بھی دیوار کے ساتھ ٹنگی ہوئی تھی۔جو دھوئیں سے کالی سیاہ ہو چکی تھی۔ کمرے میں چبوترے کے بالمقابل دوسری طرف بکریوں کی مینگنیاں پڑی تھیں اورظاہر ہے کہ یہ جگہ بکریوں کے لئے مخصوص تھی۔ جہاں وہ رات کو اپنے رکھوالوں کے ہمراہ خونخوار جنگلی جانوروں یعنی بھیڑیئے، جنگلی کتوں، چیتوں اور ریچھوں سے محفوظ رہتی تھیں۔نلتر گائوں کا ایک چرواہا سردی کے موسم میں جبکہ جانوروں کو چراہ گا ہوں سے واپس نیچے لایا جا چکا ہوتا ہے۔سکی سکول میں مزدوری کر رہا تھا اور اُس وقت ڈچ انجینئروں کے ساتھ برف کی صفائی وغیرہ پر مامور تھا۔ اُس نے دھوئیں سے کالی چھت میں لگے شہتیروں میں سے ایک سے کچھ ٹکڑے توڑے اور ہمارے لئے آگ جلا دی۔
تاکہ ہم اُس پر ہاتھ تاپ سکیں اور جتنی دیر چیئر لفٹ بند رہتی ہے۔ اپنے آپ کو گرم رکھ سکیں۔بیس بائیس برس کے نوجوان چرواہے نے پوچھنے پر بتایا کہ وہ خود بھی دیسی سٹائل میں سکی کرتا رہا ہے۔غربت کی وجہ سے وہ سکول تو نہیں پڑھ سکا لیکن بچپن میں سردیوں کے دوران میں سکی کرتے ہوئے اور گرمیوں میں اپنے گھر کے جانور چراتے ہوئے اب وہ بڑا ہوگیا ہے۔ چیئر لفٹ کی تعمیر کے دوران میں اُس نے یہاں مزدوری کرتے ہوئے اس کی تعمیر میں حصہ لیا۔یہاں اُسے آٹھ سو روپے روزانہ مزدوری ملتی تھی۔ کیونکہ اس قدر بلندی پر دشوار ترین علاقے میں کوئی بھی تعمیراتی کام کرنا خالہ جی کا گھر نہیں۔ اور یہ تو چیئر لفٹ کی تعمیر تھی۔ جس کے دوران میں زیادہ وزنی سامان مثلاًوہ بڑا پہیہ، اور اس سے متعلق تمام مشینری جس پر چیئر لفٹ کا رسہ چلتا ہے۔اپنی تنصیب کے مقام تک پہنچانے میں پاک فوج کے ہیلی کاپٹروں سے کام لیا گیا۔اب ایک شاندار اور خوبصورت ترین مناظر کی حامل چیئر لفٹ مکمل ہو چکی ہے۔ہماے ہمراہ چیئر لفٹ پر اوپر آنے والے سوئس ٹیکنیشنزآخری سٹاپ کے پلیٹ فارم کی اونچائی کم کرنے کی فکر میں تھے۔اس لئے کہ اگر لفٹ پر سوار افراد خبردار نہ ہوں۔تو اُترنے سے پہلے لفٹ کے پائیدان کی سطح کے برابر پلیٹ فارم سے ٹکرا کر اُن کے پائوں پنڈلی سے ٹوٹ بھی سکتے ہیں۔
(یاد رہے کہ اُس وقت تک چیئرلفٹ عوام کے لئے نہیں کھولی گئی تھی)پوچھنے پر بتا یا گیا کہ عوام کے لئے چیئر لفٹ کو کھولنے سے پہلے چیئر لفٹ کی نشست کو کم و بیش ڈیڑھ فٹ مزید اونچا کیا جائے گا تاکہ پلیٹ فارم پر اُترنے سے پہلے لوگوں کو اپنے پائوں اوپر نہ کرنے پڑیں۔نلتر چیئر لفٹ کی بلندی سے نیجے وادی کا منظر ناقابل بیان خوبصورتی لئے ہوئے تھا۔اور دل سے بے اختیار خالق کائنات کی حمد وثنا نکل رہی تھی۔
میں ایوبیہ اور پتریاٹہ کی چیئر لفٹوں اور کیبل کار کی سیر بھی کر چکا ہوں۔ لیکن جو منظر نلتر میں دیکھنے کو ملا۔اُس کی بات ہی کچھ اور تھی۔ وہاں چرواہوں والی کوٹھڑی میں چند مقامی نوجوانوں سے بھی ملاقات ہوئی جو لفٹ کی تعمیر کے دوران میں یہاں مزدوری کرتے رہے۔اور اب وہ اس توقع میں تھے کہ چیئر لفٹ کھلنے سے پہلے اُنہیں یہاں پکی نوکری مل جائے گی۔یہ تمام نوجوان سکی کے کھلاڑی بھی تھے اور محمد کریم کی قسمت پر رشک کررہے تھے۔جس نے نلتر بالا ہی کی گلیوں میں پرورش پائی۔اپنے طور پر سکی سیکھی اور پھر سکی میں اپنی مہارت کے باعث پاک فضائیہ میں ملازمت حاصل کی۔محمد کریم نے 2014ء کے سرمائی اولمپکس میں پاکستان کے لئے طلائی تمغہ حاصل کیا۔نلتر چیئر لفٹ سے اوپر وسیع میدان ہے۔جہاں گرمیوں میں چرواہے اپنے مال مویشی لے کر پہنچ جاتے ہیں اور پھر سردی کا موسم شروع ہونے پر نیچے اُترتے ہیں۔اس چراہ گاہ میں شلجم اور آلو بھی کاشت کئے جاتے ہیں۔جو اپنے ذائقے کی بدولت ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے ہیں۔چیئر لفٹ سے اُترے تو مہمانوں کو میس لے جانے والی تمام گاڑیاں جا چکی تھیں۔
میں نے سکی کرنے والے کھلاڑیوں کے بیٹھنے کے لئے بنے ہوئے سن روم میں ظہر کی نماز ادا کی۔جس کی پیشانی پر لکھا تھا''Up we fly-Down we ski''پاک فضائیہ کے اس سکی سکول کے لئے جس نے بھی یہ فقرہ سوچا اور یہاں لکھوایا۔وہ یقینناً اہل دل میں سے تھا۔اور تعریف کا مستحق بھی۔فون کا انتظام کچھ زیادہ بہتر نہ تھا۔ اس لئے گاڑی منگوانے کا خیال ترک کرکے ہم میس کی طرف پیدل چل پڑے۔یہ راہ بہت دشوار تھی۔سارا راستہ برف سے ڈھکا ہوا تھا۔ہر قدم پر بہت پھونک پھونک کرآگے بڑھنا پڑتا تھا۔گو یہ پل صراط تو نہ تھا اور نہ ہی نیچے جہنم کی آگ بھڑک رہی تھی لیکن برف کا جہنم زار ضرور تھا۔ جس پر گرنے کی صورت میں ہڈی پسلی ایک ہونے کا خدشہ تھا۔
ہر ممکن احتیاط کے باوجودمیں دو بار پھسل کر برف پر گرا۔شکر ہے کہ چوٹ زیادہ نہیں آئی ورنہ نلتر کا یہ دورہ تکلیف دہ بن جاتا۔خدا خدا کرکے آفیسرز میس کی عمارت آئی اور ہماری جان میں جان۔میس میں میڈیا کوآرڈینیٹر فلائٹ لیفٹیننٹ ڈاکٹر عباس علی شرمیلی سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے معذرت خواہ تھے کہ وہ پیغام نہ ملنے کے باعث گاڑی نہ بھجوا سکے۔بہر حال پہلے ریڈیوپاکستان گلگت ٹیلی فون کرکے تقریب کی خبر لکھوائی تاکہ مقامی اور قومی خبروں میں شامل ہوسکے ۔پھر کھانا کھایا۔ ڈاکٹر عباس نے بتایا کہ وہ زمانہ طالب علمی میں ریڈیوپاکستان سکردو میں طلبہ اور نوجوانوں کے پروگراموں میں میزبان کی حیثیت سے شریک ہوا کرتے تھے۔ اور انہوں نے ریڈیوپاکستان سکردو سے وابستگی کی وجہ سے جو اعتماد حاصل کیا۔
اسی کی بدولت وہ ایف ایس سی کرنے کے بعد میڈیکل کالج پہنچے اور گریجویشن کرکے پاک فضائیہ میں شامل ہوئے۔انہوں نے بتایا کہ پاک فضائیہ نلتر کے باشندوں کو طبی سہولیات بھی فراہم کرتی ہے۔گفتگو کے دوران میں ایک شخص اپنی سات ماہ کی بچی کو لے کر میس آیا۔جسے بخار تھا۔ڈاکٹر عباس نے اُس بچی کا معائنہ کیا اور دوائیں تجویز کرکے دو روز بعد دکھانے کی ہدایت کی۔
گلگت واپس آتے ہوئے گاڑی میں ہمارے ساتھ گروپ کیپٹن ریٹائرڈ ظفر بھی موجود تھے۔راستے میں انہوں نے بتایا کہ وہ ریٹائر ہونے کے بعدسے یعنی گذشتہ دس برس سے ہر سال مارچ سے نومبر تک اپنے اہل خانہ کے ہمراہ نلتر میں رہتے ہیں اور یہاں سکول چلاتے ہیں۔''پڑھالکھا پاکستان نلتر'' کے نام سے چلنے والے اس پرا جیکٹ کے تحت لڑکے لڑکیوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔انہیں کتب ،کاپیاں اور یونیفارم بھی مہیا کی جاتی ہے۔اس وقت اُن کے سکول میں ایک سو بچے زیر تعلیم ہیں۔وہ بتا رہے تھے کہ اُن کی زیادہ تر طالبات پندرہ سے اٹھارہ برس عمر کی ہیں جنہیں غربت کی وجہ سے سکول کی شکل بھی دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔اب وہ دوسروں کی دیکھا دیکھی پڑھنے کی اجازت ملنے پر ان کے رضاکارانہ منصوبے سے مستفید ہو رہی ہیں۔میں نے انہیں ریڈیوپاکستان گلگت آکر یہ تما م باتیں سامعین تک پہنچانے کی دعوت دی۔
نلتر کی وجہ شہرت پاک فضائیہ کا سرمائی سکول ہونے کے علاوہ اس علاقے کی بے پناہ قدرتی خوبصورتی ہے۔ یوں تو گلگت بلتستان اور چترال کی ہر وادی اور ہر منظر دل کش ہے۔لیکن بعض مقامات ایسے ہیں کہ وہاں جا کر واپس آنے کو جی نہیں چاہتا۔ایسے مقامات میںضلع استور میں منی مرگ، راما اور پریشنگ، ضلع چترال میں بمبوریت، بونی اور قاق لشٹ،ضلع گلگت میں نلتر،نومل اور حراموش ،ضلع نگر میں چھلت،راکاپوشی ویو پوائینٹ اور مناپن، ضلع غذر میں پھنڈر،گلاپور،شیر قلعہ،درکوت اور گوپس ضلع ہنزہ میں خیبر،شمشال،گلمت ،ششکت،حسینی اور کریم آباد شامل ہیں۔ نلتر شاہراہ قراقرم سے سترہ کلو میٹر دور ہے۔کوئی عام سی جگہ ہوتی تو یہ فاصلہ بیس پچیس منٹ میں طے ہوتا لیکن یہ نلتر ہے۔جہاں کی سٹرک ایک کچی پگڈنڈی کی طرح ہے۔جو سال میں کئی مرتبہ لینڈ سلائڈنگ، سیلاب اور پہاڑوں سے گرنے والے پتھروں کی زد میں آکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور بندہوتی ہے۔اس کے علاوہ پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث یہ راستہ خطرناک چڑھائیوںاور موڑوں سے عبارت ہے۔
اسی لئے نلتر پایاں پہنچنے میں دو گھنٹے صرف ہو جاتے ہیں۔نلتر کی وجہ شہرت اس کی تین جھیلیں بھی ہیں۔جو اس قدر شفاف ہیں کہ ان کے پانیوں میں موجود گھاس، پتھریلی چٹانیں اور مچھلیاں اپنے تمام تر رنگوں کے ساتھ دعوت نظارہ دیتی ہیں۔یہ چھوٹی چھوٹی جھیلیں ایک دوسرے سے اوپر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر واقع ہیں۔نلتر پایاں اور نلتر بالا کی آبادیوں سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر یہ قدرتی جھیلیں بہترین سیاحتی سیر گاہیں بننے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔شرط صرف یہاں کی سڑک اورقیام و طعام کی سہولتوں کو بہتربنانے کی ہے۔ پاکستان بھر سے ہر سال بلا مبالغہ لاکھوں لوگ ناران جاتے ہیں تاکہ جھیل سیف الملوک کا نظارہ کر سکیں۔یقینناً سیف الملوک اور اس کے اردگرد کا علاقہ بہت خوبصورت ہے۔لیکن سیاحوں کی لاپرواہی ، گندی عادات اور متعلقہ سرکاری اداروں کی عدم توجہی کی وجہ سے جھیل سیف الموک اب گندے پانی کا ایک جوہڑ بنتی جا رہی ہے۔جبکہ نلتر کی جھیلیںاس قدر شفاف ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔یہاں پہنچ کر لگتا ہے کہ وقت تھم گیا ہے۔ہر طرف ایک پرسکون خاموشی کا راج ہے۔ اگر ہلکی ہلکی ہوا چل رہی ہو تو جھیل کی سطح پر ہلکورے لیتا پانی ہپناٹائز کردیتا ہے۔اور بندہ لہریں گنتے گنتے اپنے غم بھول جاتا ہے۔نلتر کی دیگر تفصیلات آپ آئندہ انہی صفحات میں پڑھ سکیں گے۔
اگلا دن تیرہ فروری جمعتہ المبارک کا تھا۔اُس روز گلگت میں بجلی کی غیر معمولی بندش کی وجہ سے ہڑتال تھی۔شہر اور چھائونی کی تمام دکانیں بند تھیں۔یہاں تک کہ تنور بھی بند تھے۔اُس روز مجھ جیسے مسافروں کوکھانے پینے کی بڑی دقت رہی۔ہفتہ کے روز میں شہر کی طرف گیا تاکہ سابق سٹیشن ڈائریکٹر اور ریڈیوپاکستان گلگت کے بانی محمد اکرم خان سے ملاقات کرسکوں۔جو شہر کی جامع مسجد اور ملحقہ پولو گرائونڈ کے پیچھے کرائے کے ایک مکان میں رہتے ہیں۔وہ20اکتوبر2000ء کو کنٹرولرکی حیثیت سے ریٹائرہوئے تھے۔1979ء میں اُس وقت کی حکومت نے گلگت میں ریڈیوسٹیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو محمد اکرم خان راولپنڈی میں سینئر پروڈیوسر کی حیثیت سے تعینات تھے۔
اُنہیں گلگت بھیجا گیا۔معلوم نہیں کہ کیوں گلگت شہر یا چھائونی کے بجائے دریا پار کی آبادی دینور میں زمین خریدی گئی اور 250واٹ کے ٹرانسمیٹر سے نشریات کا آغاز کیا گیا۔1989ء میں یہاں دس کلو واٹ کا میڈیم ویو ٹرانسمیٹر نصب کیا گیا یوں ریڈیوپاکستان گلگت کی آواز گلگت شہر سے نکل کر دور درازعلاقوں تک پہنچی۔پہلے سٹیشن ڈائر یکٹر سلیم اقبال سلیم تھے۔ جنہیںاُس وقت کے مقامی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے ریڈیو پاکستان کے لئے گلگت چھائونی کے علاقہ جوٹیال میں تین سو کنال زمین الاٹ کرنے کی پیش کش کی۔لیکن سلیم اقبال سلیم صاحب نے کوئی دلچسپی نہ لی۔اور یوںیہ موقعہ ہاتھ سے نکل گیا۔ بعد میں 5جنوری 1985ء کو محمد اکرم خان پروگرام منیجر کے عہدے پر ترقی پا کر سٹیشن ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ انہوں نے کوشش کرکے ریڈیو پاکستان کے صدر دفتر سے منظوری لی اورجوٹیال میں بارہ کنال رقبہ خریداجہاں نئے براڈکاسٹنگ ہائوس کی تعمیر شروع ہوئی۔محمد اکرم خان یہاں اپنے ریٹائر ہونے تک یعنی 2000ء تک سٹیشن ڈائریکٹر رہے۔
وہ ریڈیوپاکستان میں پروڈیوسر کی حیثیت سے ملازمت شروع کرنے سے 1979ء تک ریڈیوپاکستان راولپنڈی میں تعینات رہے اور شینا پروگرام پیش کرتے رہے۔ ریڈیو پاکستان گلگت قائم ہوا تو اُنہیں یہاں بھیج دیا گیا۔ اس سٹیشن کی تعمیر و ترقی میں محمد اکرم خان نے بے حد اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس لئے میں اُن کی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ملنے کا خواہاں تھا۔وہ بہت محبت سے ملے اور کافی دیر تک اپنے دور کی باتیں کرتے رہے۔
میں دفتر واپس آیا تو ریڈیوپاکستان کی عمارت سے کافی پہلے اُترنا پڑا کیونکہ سڑک ٹریفک کے لئے بند کی جا چکی تھی۔ میں دفتر کی طرف پیدل چل پڑا کچھ آگے گیا تو معلوم ہوا کہ گلگت میں بجلی کی غیر معمولی بندش کی وجہ سے جوٹیال اور ملحقہ آبادیوں کی خواتین اپنے بچوں سمیت باہر آچکی ہیں اور انہوں نے یہ ٹریفک احتجاجاً بند کر رکھی ہے۔مظاہرین کے مطالبے پر پانی و بجلی کے نگران وزیر عطی اللہ خان اور ایکسئن مذاکرات کے لئے پہنچ گئے۔ مظاہرین ریڈیوپاکستان گلگت کے صدر دروازے کے بالکل سامنے دھرنا دیئے ہوئے تھے۔
اس لئے میں نے مظاہرین کے چند رہنمائوں اور معمرنگران وزیر کو میں اپنے دفتر آنے کی دعوت دی۔ وہ اندر آئے ۔تو اُن کے لئے ریڈیو سٹیشن کے لان میں کرسیاں لگوا دیں۔ مظاہرین کے نمائندے اور وزیر موصوف مذاکرات کرنے لگے۔ان مذاکرات میں چند خواتین بھی شامل تھیں اور بڑے جوش و جذبے سے اپنے موقف کی وضاحت کر رہی تھیں۔میں نے باہر بیٹھے مظاہرین کے لئے جن میں بچے بھی شامل تھے پینے کے لئے پانی بھیجا۔عطی اللہ خان خود بھی جوٹیال کے علاقہ ذوالفقار آباد میں رہتے ہیں۔اُن کے اس کہنے پر طویل مذاکرات کامیابی سے ختم ہوئے۔عطی اللہ خان ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں اور میری اُن کے ساتھ پہلی ملاقات بڑے دلچسپ انداز میں ہوئی تھی۔
(جاری ہے)
کارگاہ نالے سے واپس آتے ہوئے راستے میں ایک جوان شخص گدھے پر جلانے کی لکڑی لادے ہوئے گلگت کی طرف رواں دواں نظر آیا۔ میں نے گاڑی رکوا ئی تاکہ اُس سے گفتگو کر سکوں اور ممکن ہو تو اُس یہ بات چیت ریکارڈ کرکے نشر کروں۔ اس شخص کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا جس کی عمر بمشکل دس برس ہوگی۔ دونوں کے چہرے شدید غربت، مفلوک الحالی اور مشقت بھری زندگی کی کہانی بیان کر رہے تھے۔ میرے دریافت کرنے پر اُس نے بتایا کہ وہ ہر ہفتے تین چار مرتبہ جلانے کی لکڑی گدھے پر لاد کر گلگت آتا ہے۔ دو من تک خشک لکڑی گدھے پر لائی جا سکتی ہے جو سات سے آٹھ سو روپے من (فی چالیس کلو گرام) فروخت ہوتی ہے۔ پھر اس رقم سے وہ اپنے گھر کے لئے ضروریات زندگی خرید کر واپس کارگاہ گائوں چلاجاتا ہے۔
واپسی پر اگر گائوں کے کسی دوکاندار کا سامان ہو تو وہ بھی گدھے پر لاد دیا جاتا ہے جس سے کچھ اضافی رقم ہاتھ آجاتی ہے۔بچے کو نہ پڑھانے کے سوال پر اُس نے بتایا کہ کارگاہ میں سرکاری سکول تو موجود ہے لیکن اس میں تعینات استاد صاحب مہینے میں صرف ایک بار اپنی شکل تنخواہ والے روز دکھاتے ہیں اور پھر مہینے بھر کے لئے غائب ہو جاتے ہیں۔ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ (اس صورت حال کی کھوج بین کرنے سے پتہ چلا کہ 2008ء سے 2013ء تک یہاں پیپلز پارٹی کی حکومت تھ۔ حکومت کے مقامی کارپرازان نے گلگت بلتستان کے ہر سر کاری محکمے میں گریڈ چودہ تک کی اسامیوں کی جس انداز میں سیل لگائی ہوئی تھی اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ جس شخص نے چار سے پانچ لاکھ روپے دے کر ملازمت حاصل کی ہو وہ بھلا کیوں ڈیوٹی دینے آئے گا۔
ایسے بھی ہوا ہے کہ جو لوگ پہلے سے کا نٹر یکٹ پر کسی آسامی پر تعینات تھے وہ تمام اسامیاں بھی نئے لوگوں کو فروخت کی گئیں اور پہلے سے برسر روزگار لوگوں کو بے روزگار کیاگیا۔اب کا نٹریکٹ والے ملازمین جن کی تعداد سینکڑوں میں تھی عدالتوں کے دھکے کھا رہے ہیں) یہ بچہ اور کارگاہ نالے کے اطراف میں آباد دیہات میں رہنے والے اس کے ہم عمر بچے سارا دن ادھر اُدھر آوارہ گھومتے ہیں اور جو لوگ گلگت میں رہنے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ اپنے بچوں کے ہمراہ گلگت رہتے اور وہاں اُن کو پڑھاتے ہیں۔ ان کے گدھے کی حالت بھی انہی کی طرح خستہ تھی۔ بوجھ کی وجہ سے وہ چلتے ہوئے ڈگمگا رہا تھا۔ میں نے جب گدھے کی اس حالت اور اس کی قیمت پوچھی تو اُس نے بتایا کہ یہ اکلوتا گدھا اس کے روزگار کا ذریعہ ہے اور اس کی قیمت کم وبیش پچاس ہزار روپے ہے۔اگر زیادہ صحت مند گدھا خریدنا ہو تو اس کے لئے ستر سے اسی ہزار روپے درکار ہوں گے۔
اب میں یہ تو نہیں جانتا کہ وہ تندرست گد ھا خریدنے کے لئے ستر اسی ہزار روپے کب اور کہاں سے فراہم کر سکے گا لیکن مجھے یہ معلوم ہے کہ گدھے پر لکڑی بیس کلو میٹر دور سے لاکر فروخت کر کے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے والا یہ شخص گلگت بلتستان کے اُن ہزاروں نوجوانوں سے بہت بہتر ہے جوسارا دن موٹر سائیکلوں اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں میں ادھر سے اُدھرسڑکوں پر تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے اور اپنے ماں باپ کی کمائی کو اڑانے کو اپنا فخر سمجھتے ہیں۔
ایک طرف برائے نام تعلیم حاصل کرکے لاکھوں روپے کے عوض سرکاری ملازمت خریدنے پر صرف کر نے پر کرتے ہیں۔ دوسری جانب لوگ اسمبلیوں میں آکر وزارت خریدتے اور پھر اپنی رقم کو کئی گنا کرنے کی تگ و دو میں محنت کرنے والے غریب تعلیم یافتہ نوجوانوں کا حق مار کر لاکھوں روپے وصول کرکے ملازمتیں بیچ دیتے ہیں۔یہ بھی ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ دینور سے سلطان آباد اور پھر جوتل تک شاہراہ قراقرم ایک سیدھ میں بنی ہوئی ہے۔ہر سال کم از کم پندرہ سے بیس نوجوان موٹر سائیکل سوار یہاں ون ویلنگ کرتے ہوئے اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں۔زخمی ہونے والوں کی تعداد درجنوں میں ہوتی ہے۔
پاکستان میں قدرتی جنگلات صوبہ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں پائے جاتے ہیں۔ ویسے تو جنگلات کا رقبہ پاکستان کے کل رقبے کے پانچ فیصد رقبے سے بھی کم ہے لیکن جو بچے کھچے جنگلات ہیں وہ بھی ٹمبر مافیا کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں۔ ایک وقت تھا کہ گلگت کے اردگرد سارے پہاڑگھنے جنگلات سے مالامال تھے۔ اب پورے گلگت بلتستان میںجنگلات کی تباہی کا کام اس قدر وسیع پیمانے پر ہو چکا ہے کہ 2015ء کے موسم سرما میں برف اتنی کم ہوئی کہ وادی نلتر میں پاک فضائیہ کے سکی ٹریننگ سکول میں سکی کے سالانہ قومی مقابلے جنوری میں منعقد کرائے جا سکتے۔
یاد رہے کہ دنیا بھر میں 18 جنوری کو سکی کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور جہاں جہاں برف باری ہوتی ہے اُ ن میں سے ہر قابل ذکر مقام پہ سکی انگ کے مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں سکی کے مقابلے سوات میں مالم جبہ، گلگت بلتستان میں نلتر اور رتو میں منعقد کئے جاتے ہیں۔ 18جنوری کے بعد ہونے والی تھوڑی بہت برف باری کے بعد 8 فروری کو پانچ روزہ جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور انٹر سروسز سکی چیمپئن شپ کے مقابلے شروع ہوئے۔ اس مقصد کے لئے سکی انگ ٹریک پر اردگرد سے برف جمع کرکے ڈالی گئی۔پانچ روزہ مقابلوں کی اختتامی تقریب بارہ فروری کو ہونا تھی۔ جس کے مہمان خصوصی چیئر مین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود تھے۔
میرے ہمراہ نیوزسٹرنگر شیر عباس اور شیر محمد نیوز ایڈیٹر نے اس تقریب کی کوریج کے لئے گلگت سے صبح چھ بجے روانہ ہونا تھا۔ گلگت ائر پورٹ پر پاک فضائیہ کا ایک دفتر قائم ہے ۔ ذرائع ابلاغ سے متعلق تمام لوگوں نے اسی دفتر آنا اور فضائیہ کی مہیا کی ہوئی ٹرانسپورٹ پر نلتر جانا تھا۔ صبح سات بجے ہم فضائیہ کی بس پر نلتر روانہ ہوئے اورشاہراہ قراقرم کے بجائے دریائے ہنزہ کے اُس پار پرا نی سڑک پر چلتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ راستے میں ایک بڑا گائوں نومل آتا ہے۔ جو گلگت سے تیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ نومل ایک بڑی آبادی ہے۔اپنے نام کی طرح خوبصورت یہ گائوںجو اپنی زرعی پیداوار، خاص طور پر پھلوں کے لئے، بہت مشہور ہے۔یہ گائوں دریائے ہنزہ کے کنارے آباد ہے۔روایتی زرعی پیداوار کے ساتھ ساتھ نومل کے باغات میں چیری کی بہت اچھی قسم پیدا ہو تی ہے۔
اس وسیع و عریض گائوں کے سرسبز و شاداب کھیت،باغات اور کھیتوں کے درمیان بنے ہوئے گھر بہت ہی حسین منظر پیش کرتے ہیں۔ نومل سے آگے سڑک وادی نلتر کی طرف مڑ جاتی ہے۔ اس سڑک کی حالت بہت خراب تھی۔ گاڑی کی رفتار بہت آہستہ کرنا پڑی۔راستے میں چودہ اور اٹھارہ میگاواٹ کے دو بجلی گھر زیر تعمیر ہیں۔ سڑک کے ساتھ ساتھ نلتر نالہ بہہ رہا ہے۔
سڑک جسے پگڈنڈی کہیں تو زیادہ مناسب ہو گا کہیں تو نالے کے ساتھ چلتی ہے اور کہیں نالے سے اونچی ہو جاتی ہے۔ سردی کا موسم ہونے کی وجہ سے پانی کچھ دھیمے انداز میں بہہ رہا تھا۔صاف شفاف پانی برف کی طرح ٹھنڈاجھاگ اُڑاتا بہت حسین لگ رہا تھا۔ کچھ آگے نلتر پایاں آکر گاڑیاں روک دی گئیں۔ کیونکہ یہاں سے آگے سڑک کی حالت ایسی تھی کہ صرف طاقتور جیپیں ہی آگے جا سکتی ہیں اور فضائیہ کی ڈبل کیبن پک اپس ہمیں لینے کے لئے یہاں کھڑی تھیں۔ نلتر ، گلگت سے تقریباً چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ گلگت سے نلتر جانے کے دو راستے ہیں ایک شاہراہ قراقرم کے ذریعے، اور دوسرا پرانا راستہ شاہراہ قراقرم کے اُس پار دریائے ہنزہ کے دوسرے کنارے چلتا ہے۔
سطح سمندر سے دس ہزار فٹ کی بلندی پرواقع وادی نلتر گلگت بلتستان کے اُن چند مقامات میں سے ایک ہے۔ جہاں تھوڑے سے رقبے پر قدرتی جنگلات اب بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔پاک فضائیہ نے نلتر میں پہلی بار اپنا ایک چھوٹا سکول 1959ء میں قائم کیا جس میں فضائیہ کے افسروں کو خاص طور پر ہوا بازوں کو برف اور سردی میں رہنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ 1961ء میں یہاں سکی ٹریننگ سکول کھولا اور تعمیرات شروع کی گئیں۔یہ سکول مری کے قریب قائم کالاباغ ائر بیس کا ایک یونٹ ہے۔بہت ہی خوبصورت وادی میں پہاڑ کی چو ٹی سے لے کر نیچے تک برف بچھی ہوئی ہے۔چیڑھ کے گھنے درختوں میں گھرا ہوا سکی انگ ٹریک شاہ خان سکی سکول نلتر میں پڑھنے والے بچوں کی تربیت کے لئے بھی کام آتا ہے۔
مہمان خصوصی جنرل راشد محمود کی آمد ہیلی کاپٹر میں ہوئی۔ اُ ن کے ہمراہ وائس ائر چیف سہیل خان بھی تھے۔ تقریب بہت شاندار رہی جس میں سکی مقابلوں میں حصہ لینے والی ٹیموں کے کھلاڑی گروپوں کی صورت میں سکی کرتے ہوئے نیچے آئے۔ مہما ن خصوصی کے سامنے سے گذرتے ہوئے سلامی دی ۔ کھلاڑیوں میں سرمائی اولمپکس میں طلائی تمغہ حاصل کرنے والا کارپورل محمد عباس بھی شامل تھا۔ جو نلتر کا رہنے والا اور شاہ خان سکی سکول کا تربیت یافتہ ہے۔ کھلاڑیوں کے بوٹوں پر رنگین دھواں چھوڑنے والا مادہ نصب تھا اور نیچے آتے آتے وہ کرتب دکھاتے ہوائی جہازوں کے انجنوں سے نکلنے والے رنگین دھوئیں کی طرح اپنے جوتوں سے دھواں نکالتے آ رہے تھے۔ تمام کھلاڑیوں کے نیچے پہنچ جانے پر فوٹو سیشن ہوا اور پھر تقریب ختم ہوتے ہی مہمانوں کو آفیسرز میس کی طرف جانے کا کہا گیا۔
جہاں ظہرانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ ہم یعنی میں، شیر محمد نیوز ایڈیٹر اور سٹرنگر شیر عباس جونہی میس جانے کے لئے آگے بڑھے تو پاک فضائیہ کے ڈائریکٹر سپورٹس گروپ کیپٹن ندیم شاہد نے ہمیں اپنے ہمراہ آنے کو کہا اور چیئر لفٹ کی طرف لے گئے۔ اب صورت حال یہ تھی کہ تقریب کے سارے مہمان اپنی اور فضائیہ کی گاڑیوں پر میس کی طرف جارہے تھے اور ہم چار افراد چیئر لفٹ پر بیٹھے تھے۔ کم و بیش ڈیڑھ کلو میٹر طویل اور سکی سکول سے اتنی ہی اونچائی پر واقع چوٹی کی طرف رواں دواں تھے۔ ہالینڈ کے انجینئرز ابھی نلتر میں تعینات اور چیئر لفٹ کی تنصیب مکمل ہونے کے بعد آزمائشی مدت میں اس کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔
وہ ہم سے پہلے چیئر لفٹ کے ذریعے اوپر جا چکے تھے۔ ڈیڑھ کلو میٹر طویل اس چیئر لفٹ کو اوپر جاتے ہوئے تقریباً دو ہزار فٹ بلندی پر جانا پڑتا ہے۔سارا راستہ چیڑھ کے گھنے درختوں سے گھرا ہوا ہے۔ چیئر لفٹ کی تعمیر کے لئے کئی درختوں کو کاٹنا پڑا۔ اوپر نرم کومل برف کی ایسی چادر بچھی ہوئی تھی جس پر پائوں رکھتے ہی بندہ گھٹنوں تک برف میں دھنس جاتا تھا۔ اوپر چیئر لفٹ تعمیر کرنے والے ڈچ انجینئر چیئر لفٹ کے دھرے سے برف ہٹانے اور اس کی سٹنگ کرنے میں مصروف تھے۔ ہمیں اوپر پہنچا کر چیئر لفٹ بند کر دی گئی تھی تاکہ کام مکمل کیا جا سکے۔ وہیں قریب ہی چرواہوں کا ایک کمرہ بنا ہو اتھا۔ سردی اس قدر تھی کہ بھاری گرم کپڑوں کے باوجود ہم ٹھٹھر رہے تھے۔
سردی سے بچنے کے لئے اس کمرے کا رخ کیا۔ جو اپنے مکینوں سے تو خالی تھا۔ لیکن کمرے کی حالت اپنے اندر ایک پوری داستان سموئے ہوئی تھی۔ یہ کمرہ گرمیوں میں جانور لے کر چراہ گاہوں کو جانے والے چرواہوں کے رہنے کا کام آتا ہے۔پچیس بائی پچیس کے اس کمرے میں ایک طرف ایک چبوترہ سا بنا ہوا تھا۔ یقینناً یہ چرواہوں کے سونے کی جگہ تھی۔ درمیان میں آگ جلانے کا انتظام تھا۔ اور ایک بڑی کیتلی بھی دیوار کے ساتھ ٹنگی ہوئی تھی۔جو دھوئیں سے کالی سیاہ ہو چکی تھی۔ کمرے میں چبوترے کے بالمقابل دوسری طرف بکریوں کی مینگنیاں پڑی تھیں اورظاہر ہے کہ یہ جگہ بکریوں کے لئے مخصوص تھی۔ جہاں وہ رات کو اپنے رکھوالوں کے ہمراہ خونخوار جنگلی جانوروں یعنی بھیڑیئے، جنگلی کتوں، چیتوں اور ریچھوں سے محفوظ رہتی تھیں۔نلتر گائوں کا ایک چرواہا سردی کے موسم میں جبکہ جانوروں کو چراہ گا ہوں سے واپس نیچے لایا جا چکا ہوتا ہے۔سکی سکول میں مزدوری کر رہا تھا اور اُس وقت ڈچ انجینئروں کے ساتھ برف کی صفائی وغیرہ پر مامور تھا۔ اُس نے دھوئیں سے کالی چھت میں لگے شہتیروں میں سے ایک سے کچھ ٹکڑے توڑے اور ہمارے لئے آگ جلا دی۔
تاکہ ہم اُس پر ہاتھ تاپ سکیں اور جتنی دیر چیئر لفٹ بند رہتی ہے۔ اپنے آپ کو گرم رکھ سکیں۔بیس بائیس برس کے نوجوان چرواہے نے پوچھنے پر بتایا کہ وہ خود بھی دیسی سٹائل میں سکی کرتا رہا ہے۔غربت کی وجہ سے وہ سکول تو نہیں پڑھ سکا لیکن بچپن میں سردیوں کے دوران میں سکی کرتے ہوئے اور گرمیوں میں اپنے گھر کے جانور چراتے ہوئے اب وہ بڑا ہوگیا ہے۔ چیئر لفٹ کی تعمیر کے دوران میں اُس نے یہاں مزدوری کرتے ہوئے اس کی تعمیر میں حصہ لیا۔یہاں اُسے آٹھ سو روپے روزانہ مزدوری ملتی تھی۔ کیونکہ اس قدر بلندی پر دشوار ترین علاقے میں کوئی بھی تعمیراتی کام کرنا خالہ جی کا گھر نہیں۔ اور یہ تو چیئر لفٹ کی تعمیر تھی۔ جس کے دوران میں زیادہ وزنی سامان مثلاًوہ بڑا پہیہ، اور اس سے متعلق تمام مشینری جس پر چیئر لفٹ کا رسہ چلتا ہے۔اپنی تنصیب کے مقام تک پہنچانے میں پاک فوج کے ہیلی کاپٹروں سے کام لیا گیا۔اب ایک شاندار اور خوبصورت ترین مناظر کی حامل چیئر لفٹ مکمل ہو چکی ہے۔ہماے ہمراہ چیئر لفٹ پر اوپر آنے والے سوئس ٹیکنیشنزآخری سٹاپ کے پلیٹ فارم کی اونچائی کم کرنے کی فکر میں تھے۔اس لئے کہ اگر لفٹ پر سوار افراد خبردار نہ ہوں۔تو اُترنے سے پہلے لفٹ کے پائیدان کی سطح کے برابر پلیٹ فارم سے ٹکرا کر اُن کے پائوں پنڈلی سے ٹوٹ بھی سکتے ہیں۔
(یاد رہے کہ اُس وقت تک چیئرلفٹ عوام کے لئے نہیں کھولی گئی تھی)پوچھنے پر بتا یا گیا کہ عوام کے لئے چیئر لفٹ کو کھولنے سے پہلے چیئر لفٹ کی نشست کو کم و بیش ڈیڑھ فٹ مزید اونچا کیا جائے گا تاکہ پلیٹ فارم پر اُترنے سے پہلے لوگوں کو اپنے پائوں اوپر نہ کرنے پڑیں۔نلتر چیئر لفٹ کی بلندی سے نیجے وادی کا منظر ناقابل بیان خوبصورتی لئے ہوئے تھا۔اور دل سے بے اختیار خالق کائنات کی حمد وثنا نکل رہی تھی۔
میں ایوبیہ اور پتریاٹہ کی چیئر لفٹوں اور کیبل کار کی سیر بھی کر چکا ہوں۔ لیکن جو منظر نلتر میں دیکھنے کو ملا۔اُس کی بات ہی کچھ اور تھی۔ وہاں چرواہوں والی کوٹھڑی میں چند مقامی نوجوانوں سے بھی ملاقات ہوئی جو لفٹ کی تعمیر کے دوران میں یہاں مزدوری کرتے رہے۔اور اب وہ اس توقع میں تھے کہ چیئر لفٹ کھلنے سے پہلے اُنہیں یہاں پکی نوکری مل جائے گی۔یہ تمام نوجوان سکی کے کھلاڑی بھی تھے اور محمد کریم کی قسمت پر رشک کررہے تھے۔جس نے نلتر بالا ہی کی گلیوں میں پرورش پائی۔اپنے طور پر سکی سیکھی اور پھر سکی میں اپنی مہارت کے باعث پاک فضائیہ میں ملازمت حاصل کی۔محمد کریم نے 2014ء کے سرمائی اولمپکس میں پاکستان کے لئے طلائی تمغہ حاصل کیا۔نلتر چیئر لفٹ سے اوپر وسیع میدان ہے۔جہاں گرمیوں میں چرواہے اپنے مال مویشی لے کر پہنچ جاتے ہیں اور پھر سردی کا موسم شروع ہونے پر نیچے اُترتے ہیں۔اس چراہ گاہ میں شلجم اور آلو بھی کاشت کئے جاتے ہیں۔جو اپنے ذائقے کی بدولت ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے ہیں۔چیئر لفٹ سے اُترے تو مہمانوں کو میس لے جانے والی تمام گاڑیاں جا چکی تھیں۔
میں نے سکی کرنے والے کھلاڑیوں کے بیٹھنے کے لئے بنے ہوئے سن روم میں ظہر کی نماز ادا کی۔جس کی پیشانی پر لکھا تھا''Up we fly-Down we ski''پاک فضائیہ کے اس سکی سکول کے لئے جس نے بھی یہ فقرہ سوچا اور یہاں لکھوایا۔وہ یقینناً اہل دل میں سے تھا۔اور تعریف کا مستحق بھی۔فون کا انتظام کچھ زیادہ بہتر نہ تھا۔ اس لئے گاڑی منگوانے کا خیال ترک کرکے ہم میس کی طرف پیدل چل پڑے۔یہ راہ بہت دشوار تھی۔سارا راستہ برف سے ڈھکا ہوا تھا۔ہر قدم پر بہت پھونک پھونک کرآگے بڑھنا پڑتا تھا۔گو یہ پل صراط تو نہ تھا اور نہ ہی نیچے جہنم کی آگ بھڑک رہی تھی لیکن برف کا جہنم زار ضرور تھا۔ جس پر گرنے کی صورت میں ہڈی پسلی ایک ہونے کا خدشہ تھا۔
ہر ممکن احتیاط کے باوجودمیں دو بار پھسل کر برف پر گرا۔شکر ہے کہ چوٹ زیادہ نہیں آئی ورنہ نلتر کا یہ دورہ تکلیف دہ بن جاتا۔خدا خدا کرکے آفیسرز میس کی عمارت آئی اور ہماری جان میں جان۔میس میں میڈیا کوآرڈینیٹر فلائٹ لیفٹیننٹ ڈاکٹر عباس علی شرمیلی سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے معذرت خواہ تھے کہ وہ پیغام نہ ملنے کے باعث گاڑی نہ بھجوا سکے۔بہر حال پہلے ریڈیوپاکستان گلگت ٹیلی فون کرکے تقریب کی خبر لکھوائی تاکہ مقامی اور قومی خبروں میں شامل ہوسکے ۔پھر کھانا کھایا۔ ڈاکٹر عباس نے بتایا کہ وہ زمانہ طالب علمی میں ریڈیوپاکستان سکردو میں طلبہ اور نوجوانوں کے پروگراموں میں میزبان کی حیثیت سے شریک ہوا کرتے تھے۔ اور انہوں نے ریڈیوپاکستان سکردو سے وابستگی کی وجہ سے جو اعتماد حاصل کیا۔
اسی کی بدولت وہ ایف ایس سی کرنے کے بعد میڈیکل کالج پہنچے اور گریجویشن کرکے پاک فضائیہ میں شامل ہوئے۔انہوں نے بتایا کہ پاک فضائیہ نلتر کے باشندوں کو طبی سہولیات بھی فراہم کرتی ہے۔گفتگو کے دوران میں ایک شخص اپنی سات ماہ کی بچی کو لے کر میس آیا۔جسے بخار تھا۔ڈاکٹر عباس نے اُس بچی کا معائنہ کیا اور دوائیں تجویز کرکے دو روز بعد دکھانے کی ہدایت کی۔
گلگت واپس آتے ہوئے گاڑی میں ہمارے ساتھ گروپ کیپٹن ریٹائرڈ ظفر بھی موجود تھے۔راستے میں انہوں نے بتایا کہ وہ ریٹائر ہونے کے بعدسے یعنی گذشتہ دس برس سے ہر سال مارچ سے نومبر تک اپنے اہل خانہ کے ہمراہ نلتر میں رہتے ہیں اور یہاں سکول چلاتے ہیں۔''پڑھالکھا پاکستان نلتر'' کے نام سے چلنے والے اس پرا جیکٹ کے تحت لڑکے لڑکیوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔انہیں کتب ،کاپیاں اور یونیفارم بھی مہیا کی جاتی ہے۔اس وقت اُن کے سکول میں ایک سو بچے زیر تعلیم ہیں۔وہ بتا رہے تھے کہ اُن کی زیادہ تر طالبات پندرہ سے اٹھارہ برس عمر کی ہیں جنہیں غربت کی وجہ سے سکول کی شکل بھی دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔اب وہ دوسروں کی دیکھا دیکھی پڑھنے کی اجازت ملنے پر ان کے رضاکارانہ منصوبے سے مستفید ہو رہی ہیں۔میں نے انہیں ریڈیوپاکستان گلگت آکر یہ تما م باتیں سامعین تک پہنچانے کی دعوت دی۔
نلتر کی وجہ شہرت پاک فضائیہ کا سرمائی سکول ہونے کے علاوہ اس علاقے کی بے پناہ قدرتی خوبصورتی ہے۔ یوں تو گلگت بلتستان اور چترال کی ہر وادی اور ہر منظر دل کش ہے۔لیکن بعض مقامات ایسے ہیں کہ وہاں جا کر واپس آنے کو جی نہیں چاہتا۔ایسے مقامات میںضلع استور میں منی مرگ، راما اور پریشنگ، ضلع چترال میں بمبوریت، بونی اور قاق لشٹ،ضلع گلگت میں نلتر،نومل اور حراموش ،ضلع نگر میں چھلت،راکاپوشی ویو پوائینٹ اور مناپن، ضلع غذر میں پھنڈر،گلاپور،شیر قلعہ،درکوت اور گوپس ضلع ہنزہ میں خیبر،شمشال،گلمت ،ششکت،حسینی اور کریم آباد شامل ہیں۔ نلتر شاہراہ قراقرم سے سترہ کلو میٹر دور ہے۔کوئی عام سی جگہ ہوتی تو یہ فاصلہ بیس پچیس منٹ میں طے ہوتا لیکن یہ نلتر ہے۔جہاں کی سٹرک ایک کچی پگڈنڈی کی طرح ہے۔جو سال میں کئی مرتبہ لینڈ سلائڈنگ، سیلاب اور پہاڑوں سے گرنے والے پتھروں کی زد میں آکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور بندہوتی ہے۔اس کے علاوہ پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث یہ راستہ خطرناک چڑھائیوںاور موڑوں سے عبارت ہے۔
اسی لئے نلتر پایاں پہنچنے میں دو گھنٹے صرف ہو جاتے ہیں۔نلتر کی وجہ شہرت اس کی تین جھیلیں بھی ہیں۔جو اس قدر شفاف ہیں کہ ان کے پانیوں میں موجود گھاس، پتھریلی چٹانیں اور مچھلیاں اپنے تمام تر رنگوں کے ساتھ دعوت نظارہ دیتی ہیں۔یہ چھوٹی چھوٹی جھیلیں ایک دوسرے سے اوپر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر واقع ہیں۔نلتر پایاں اور نلتر بالا کی آبادیوں سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر یہ قدرتی جھیلیں بہترین سیاحتی سیر گاہیں بننے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔شرط صرف یہاں کی سڑک اورقیام و طعام کی سہولتوں کو بہتربنانے کی ہے۔ پاکستان بھر سے ہر سال بلا مبالغہ لاکھوں لوگ ناران جاتے ہیں تاکہ جھیل سیف الملوک کا نظارہ کر سکیں۔یقینناً سیف الملوک اور اس کے اردگرد کا علاقہ بہت خوبصورت ہے۔لیکن سیاحوں کی لاپرواہی ، گندی عادات اور متعلقہ سرکاری اداروں کی عدم توجہی کی وجہ سے جھیل سیف الموک اب گندے پانی کا ایک جوہڑ بنتی جا رہی ہے۔جبکہ نلتر کی جھیلیںاس قدر شفاف ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔یہاں پہنچ کر لگتا ہے کہ وقت تھم گیا ہے۔ہر طرف ایک پرسکون خاموشی کا راج ہے۔ اگر ہلکی ہلکی ہوا چل رہی ہو تو جھیل کی سطح پر ہلکورے لیتا پانی ہپناٹائز کردیتا ہے۔اور بندہ لہریں گنتے گنتے اپنے غم بھول جاتا ہے۔نلتر کی دیگر تفصیلات آپ آئندہ انہی صفحات میں پڑھ سکیں گے۔
اگلا دن تیرہ فروری جمعتہ المبارک کا تھا۔اُس روز گلگت میں بجلی کی غیر معمولی بندش کی وجہ سے ہڑتال تھی۔شہر اور چھائونی کی تمام دکانیں بند تھیں۔یہاں تک کہ تنور بھی بند تھے۔اُس روز مجھ جیسے مسافروں کوکھانے پینے کی بڑی دقت رہی۔ہفتہ کے روز میں شہر کی طرف گیا تاکہ سابق سٹیشن ڈائریکٹر اور ریڈیوپاکستان گلگت کے بانی محمد اکرم خان سے ملاقات کرسکوں۔جو شہر کی جامع مسجد اور ملحقہ پولو گرائونڈ کے پیچھے کرائے کے ایک مکان میں رہتے ہیں۔وہ20اکتوبر2000ء کو کنٹرولرکی حیثیت سے ریٹائرہوئے تھے۔1979ء میں اُس وقت کی حکومت نے گلگت میں ریڈیوسٹیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو محمد اکرم خان راولپنڈی میں سینئر پروڈیوسر کی حیثیت سے تعینات تھے۔
اُنہیں گلگت بھیجا گیا۔معلوم نہیں کہ کیوں گلگت شہر یا چھائونی کے بجائے دریا پار کی آبادی دینور میں زمین خریدی گئی اور 250واٹ کے ٹرانسمیٹر سے نشریات کا آغاز کیا گیا۔1989ء میں یہاں دس کلو واٹ کا میڈیم ویو ٹرانسمیٹر نصب کیا گیا یوں ریڈیوپاکستان گلگت کی آواز گلگت شہر سے نکل کر دور درازعلاقوں تک پہنچی۔پہلے سٹیشن ڈائر یکٹر سلیم اقبال سلیم تھے۔ جنہیںاُس وقت کے مقامی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے ریڈیو پاکستان کے لئے گلگت چھائونی کے علاقہ جوٹیال میں تین سو کنال زمین الاٹ کرنے کی پیش کش کی۔لیکن سلیم اقبال سلیم صاحب نے کوئی دلچسپی نہ لی۔اور یوںیہ موقعہ ہاتھ سے نکل گیا۔ بعد میں 5جنوری 1985ء کو محمد اکرم خان پروگرام منیجر کے عہدے پر ترقی پا کر سٹیشن ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ انہوں نے کوشش کرکے ریڈیو پاکستان کے صدر دفتر سے منظوری لی اورجوٹیال میں بارہ کنال رقبہ خریداجہاں نئے براڈکاسٹنگ ہائوس کی تعمیر شروع ہوئی۔محمد اکرم خان یہاں اپنے ریٹائر ہونے تک یعنی 2000ء تک سٹیشن ڈائریکٹر رہے۔
وہ ریڈیوپاکستان میں پروڈیوسر کی حیثیت سے ملازمت شروع کرنے سے 1979ء تک ریڈیوپاکستان راولپنڈی میں تعینات رہے اور شینا پروگرام پیش کرتے رہے۔ ریڈیو پاکستان گلگت قائم ہوا تو اُنہیں یہاں بھیج دیا گیا۔ اس سٹیشن کی تعمیر و ترقی میں محمد اکرم خان نے بے حد اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس لئے میں اُن کی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ملنے کا خواہاں تھا۔وہ بہت محبت سے ملے اور کافی دیر تک اپنے دور کی باتیں کرتے رہے۔
میں دفتر واپس آیا تو ریڈیوپاکستان کی عمارت سے کافی پہلے اُترنا پڑا کیونکہ سڑک ٹریفک کے لئے بند کی جا چکی تھی۔ میں دفتر کی طرف پیدل چل پڑا کچھ آگے گیا تو معلوم ہوا کہ گلگت میں بجلی کی غیر معمولی بندش کی وجہ سے جوٹیال اور ملحقہ آبادیوں کی خواتین اپنے بچوں سمیت باہر آچکی ہیں اور انہوں نے یہ ٹریفک احتجاجاً بند کر رکھی ہے۔مظاہرین کے مطالبے پر پانی و بجلی کے نگران وزیر عطی اللہ خان اور ایکسئن مذاکرات کے لئے پہنچ گئے۔ مظاہرین ریڈیوپاکستان گلگت کے صدر دروازے کے بالکل سامنے دھرنا دیئے ہوئے تھے۔
اس لئے میں نے مظاہرین کے چند رہنمائوں اور معمرنگران وزیر کو میں اپنے دفتر آنے کی دعوت دی۔ وہ اندر آئے ۔تو اُن کے لئے ریڈیو سٹیشن کے لان میں کرسیاں لگوا دیں۔ مظاہرین کے نمائندے اور وزیر موصوف مذاکرات کرنے لگے۔ان مذاکرات میں چند خواتین بھی شامل تھیں اور بڑے جوش و جذبے سے اپنے موقف کی وضاحت کر رہی تھیں۔میں نے باہر بیٹھے مظاہرین کے لئے جن میں بچے بھی شامل تھے پینے کے لئے پانی بھیجا۔عطی اللہ خان خود بھی جوٹیال کے علاقہ ذوالفقار آباد میں رہتے ہیں۔اُن کے اس کہنے پر طویل مذاکرات کامیابی سے ختم ہوئے۔عطی اللہ خان ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں اور میری اُن کے ساتھ پہلی ملاقات بڑے دلچسپ انداز میں ہوئی تھی۔
(جاری ہے)