ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹریاں ایک اور اہم سنگِ میل
اللہ تعالیٰ کی مدد اور والد صاحب کی تربیت ایک بار پھر کام آئی اور میں نے اس نئے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے کمر کس لی۔
ڈنگی کے سنگین چیلنج سے نمٹنے کے بعد اچانک ایک اور چیلنج درپیش تھا،پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور سے مفت دعائیں حاصل کرنے والے غریب مریضوں میں 100سے زائد کی موت ۔۔۔ پہلے مریض کی موت دسمبر 2012 کے اواخرمیں ہوئی تھی اور تین ہفتوں کے اندر یہ تعداد 100 کا ہندسہ عبور کرگئی ۔
ان میں بیشتر کا تعلق لاہور شہر (اور یہاں کے مضافات) سے تھا، صرف ایک تھا جو ملتان سے تعلق رکھتا تھا۔ وفا ت سے پہلے کی بیشتر علامات ڈنگی والی تھیں،مثلا جسم کی رنگت کا بدلنا، خون میں سفید خلیات (Cells)کی پیدائش کا رُک جانا ،پلیٹ لیٹ میں کمی اور خون کی قے وغیرہ ،چنانچہ ابتدا میں یہی خیال ہوا کہ ڈنگی لوٹ آیا ہے۔ صرف تین ہفتے میں سو سے زائد اموات نے سیاسی مخالفین کو بے رحم تنقید کا ایک اور موقع مہیا کر دیاتھا ۔
وہ ان اموات کو" قتل"قرار دے کر مجھے اس کا ذمے دار ٹھہراتے۔جمہوری معاشروں میں حکومتیں عوام کو ،حزب اختلاف کو، میڈیا کو اور عدالتوں کوجوابدہ ہوتی ہیں۔ ایک( ادنیٰ سے) مسلمان کے طور پر میں خود کو اپنے خالق و مالک کے حضور بھی جواب دہ سمجھتا تھا۔ ایک بار پھر مجھے بے خواب راتوں کا سامنا تھا لیکن یہ مایوس ہوکر بیٹھ رہنے اور مخالفین کی تنقید پر کڑھتے رہنے کا وقت نہیں تھا۔
اللہ تعالیٰ کی مدد اور والد صاحب کی تربیت ایک بار پھر کام آئی اور میں نے اس نئے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے کمر کس لی۔ میں نے متاثرہ خاندانوں کے لیے پانچ، پانچ لاکھ روپے ادائیگی کا فیصلہ کیا (ظاہر ہے یہ قیمتی انسانی جانوں کا معاوضہ نہیں تھا ،محض لواحقین کی دل جوئی اور ان کے غم میں شریک ہونے کا علامتی اظہار تھا۔) میں نے اس المیہ کی بے لاگ انکوائری کا حکم دیا (وفاقی سطح پر ایف آئی اے بھی حرکت میں آئی) پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کو یہ ادویات فراہم کرنے والی تین ادویہ ساز( فارماسیوٹیکل) کمپنیوں سے تحقیقات کا آغاز ہوا ، تو معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک کمپنی کا لائسنس اپریل 2011 میں ایکسپائر ہو چکا تھا۔
اس کے باوجود وہ ادویات بناتی اور اسے سرکاری اسپتالوں اور کھلی مارکیٹ میں وسیع پیمانے پر فروخت کرتی رہی ۔یہ متعلقہ وفاقی ادارے کی مجرمانہ غفلت تھی۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وفاقی لیبارٹری نے ان غیر معیاری ادویات کو معیاری قرار دے دیا تھا ۔میں نے دل کے مریضوں کے زیر استعمال ان پانچ ادویات کے نمونے ٹیسٹنگ کے لیے بیرون ملک اعلی ترین لیبارٹریوں کو بھجوائے (وقت کم تھا چنانچہ میں نے یہ نمونے اپنے پرسنل اسٹاف آفسر کے ذریعے دستی بھجوائے)۔ ان میں برطانیہ کی برٹش میڈیسنز اینڈ ہیلتھ کیئر پروڈکشن ریگولیٹری ایجنسی (MAHRA) بھی تھی ۔
ٹیسٹ رپورٹوں سے معلوم ہوا کہ ان پانچ ادویات میں سے ایک دوائیIsotab تو ملیریا کے علاج میں استعمال ہوتی ہے۔ رپورٹس میں ایک اور دوائی Alfagril کو بھی غیر معیاری قرار دیا گیا تھا۔ یہ ادویات بنانے والی کمپنی Efroze Chemicals، کورنگی انڈسٹریل ایریا کراچی میں واقع تھی، اسے ِسیل کرنے کے علاوہ اس کے مالکان کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ(ECL) پر ڈال دیا گیا ۔ان کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے اور گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔
اسپتالوں اور بازاروں میں میڈیکل اسٹورز پر ناقص اور غیر معیاری ادویات فراہمی کی خبروں نے سوسائٹی اور خصوصاً میڈیکل پروفیشنلز میں تشویش اور اضطراب کی لہر دوڑا دی تھی ، ان میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن(PMA) بھی تھی جو وفاقی اور صوبائی سطح پر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کا مطالبہ کر رہی تھی۔ ناقص اور جعلی ادویات کے اس اسیکنڈل نے بیرون ملک بھی پاکستان کی شہرت کو متاثر کیا ۔ سری لنکا نے پاکستان سے ادویات کی درآمد بند کر دی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کوبھی گلوبل ڈرگ سیفٹی الرٹ جاری کرنا پڑا۔
صحتِ عامہ کے لیے میرے تصور(Vision) میں ، خالص اور معیاری ادویات کو ہمیشہ بنیادی اہمیت حاصل رہی تھی۔آپ دنیا کا بہترین(اسٹیٹ آف دی آرٹ) اسپتال بنالیں، یہاں قابل ترین ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل سٹاف لے آئیں۔اس کا ماحول بھی مثالی ہو، آلات بھی جدیدترین ہوں لیکن اگر ادویات ناقص اور غیر معیاری ہیں تو سب کیا دھرا خاک میں مل جائے گا اور مریض صحت یاب ہو کر اپنے گھروں کو لوٹنے کی بجائے اگلے جہان روانہ ہوتے رہیں گے۔
1997ء میں پنجاب میں اپنی پہلی حکومت کے دوران، ہم نے جعلی ادویات کے خلاف خصوصی مہم چلائی۔ میڈیکل اسٹورز اور فارما سیوٹیکل کمپنیوں پر چھاپے مارے۔ معاشرے کو جعلی اور ناقص ادویات سے پاک کرنے کی یہ مہم آسان نہ تھی ۔داغ دہلوی نے تو دو، چار سخت مقامات کی بات کی تھی ؎
رہروِ راہ محبت کا خدا حافظ ہے
اس میں دو، چار بہت سخت مقام آتے ہیں
یہاں بے شمار سخت مقامات تھے، قدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا تھا، اس میں صوبے بھر میں میڈیکل اسٹورز کی ہڑتال بھی تھی۔ یہ ایک اور طرح کی مافیا تھی جس سے نمٹنا تھا، الحمدللہ ہماری مہم کا پہلا مرحلہ کامیاب رہا ۔اس ایجنڈے پر مزید کام باقی تھا کہ 12 اکتوبر 1999 کو مشرف کے ٹیک اوور کے بعد فلاح و بہبود اور قومی تعمیرو ترقی کے ہمارے دیگر منصوبوں کی طرح ، معاشرے کو جعلی ادویات سے پاک کرنے کا منصوبہ بھی ادھور ا رہ گیا۔
طویل جلاوطنی کے بعد قدرت نے 2008 میں عوام کی خدمت کا دوبارہ موقع دیا تو مواصلات کی جدید ترین سہولتوں کے ساتھ ہیومن ڈیولپمنٹ کے لیے صحت اور تعلیم بھی میرے ایجنڈے میں سرفہرست تھے۔ غریبوں کو خالص اور مفت اودیات کی فراہمی اس میں بنیادی حیثیت رکھتی تھی۔ اس ملک میں اشرافیہ( اصحابِ ثروت) کی دنیا الگ ہے ۔علاج کی مہنگی اور اعلیٰ ترین سہولتیں ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ۔مسئلہ تو کم وسیلہ لوگوں کا ہے، جو ادویات خریدنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے یا متبادل سستی اور ناقص ادویات پر انحصار کرتے ہیں۔
خواجہ عمران نذیر (تب پارلیمانی سیکریٹری ہیلتھ) کی زیرِقیادت ٹاسک فورس برائے انسدادِ جعلی ادویات کا قیام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ جعلی ادویات سازی کے مکروہ دھندے میں ملوث "فیکٹریاںـ"اس خصوصی مہم کا ہدف تھیں۔ رحیم یارخان سے ا ٹک تک، اس ٹاسک فورس نے ان عوام دشمن جعل سازوں کا تعاقب کیا ۔اس کے لیے قصبات اور دیہات تک پہنچے اور صوبے بھر میں گیارہ سو سے زائد مقدمات قائم کیے۔
ادویہ ساز( فارماسیوٹیکل) کمپنیوں کی لائسنسنگ رجسٹریشن اور GMP لائسنس کا اجراء فیڈرل سبجیکٹ تھا،(فیڈرل ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی۔DRAP) صوبائی حکومت معیاری ادویات کی خریداری اور اسپتالوں تک اس کی فول پروف سپلائی ہی کا کام کرسکتی تھی (اور یہی اصل کام تھا) اچھی شہرت کی حامل فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے ادویات کی خریداری( اور ان کی فول پروف ٹیسٹنگ) اس کا اولین مرحلہ تھا ۔میں لندن میں سرکاری دورے پر تھا ۔یہاں کی جدید ترین لیبارٹری LGC کا معائنہ بھی پروگرام میں شامل تھا۔ اس کے جدید ترین نظام کار سے متاثر ہو کر میں نے انھیں پاکستان آنے اور پنجاب ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کے معائنے کی دعوت دے دی، جسے LGC نے قبول کرلیا ۔وہ پاکستان آئے ۔
پنجاب میں ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹریز کے مفصل معائنے کے بعد انھوں نے اسے مطلوبہ معیار سے انتہائی کم تر قرار دیا۔افرادی قوت کی کمی بھی ایک مسئلہ تھا۔ میں نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو بلایا اور انھیں اپنے اس ویژن کی یاد دہانی کرائی (جو عوام سے انتخابی وعدے کی صورت میں بھی کیا تھا ) ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز اسپتالوں (DHQs)، تحصیل ہیڈ کوارٹرز اسپتالوں (THQs)، رورل ہیلتھ سینٹرز(RHCs) اور بنیادی مراکز صحت (BHUs) تک ان معیاری ادویات کی فراہمی، جنھیں ملک کا وزیر اعظم ،وزرا اعلیٰ، وزرا، جرنیل ، ججز، بیورکریٹس، اشرافیہ، میں خود، میری فیملی اور میرے بچے بھی استعمال کریں۔
معذرت خواہ ہوں کہ بات لمبی ہو رہی ہے، اختصار سے کام لیتے ہوئے ،میں ان اقدامات کا ذکر کیے دیتا ہوں جو صوبے بھر کے لیے معیاری ادویات کی خریداری اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتالوں سے لیکر بنیادی مراکز صحت ( نچلی ترین )سطح تک انکی بلاتاخیر اور بلاتعطل فراہمی کے لیے اختیار کیا گیا۔
٭ ہم نے لاہورـ، ملتان، فیصل آباد ، راولپنڈی اور بہاولپور میں اپنی ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹریز کوبرطانوی ادارے (LGC) کی رہنمائیمیں عالمی معیار کے مطابق جدید ترین سہولتوں کے ساتھ منظم کیا۔ (اس سے پہلے یہی لیبارٹریاں جن ادویات کو 100 فیصد درست قرار دے چُکی تھیں، غیر ملکی لیبارٹریوں نے ان میں سے 40 فیصد کو ناقص قرار دیا تھا، میں سر پکڑ کر بیٹھ گیااور سوچنے لگا کہ غیر معیاری لیبارٹریاںکتنے مریضوں کے لیے قتل گاہیں بن چکی ہوںگی۔)
٭ ان جدید ترین لیبارٹریوں کے اسٹاف کی میرٹ کی بنیاد پر(NTS کے ذریعے) بھرتی کے بعد لندن اور ترکی میں ٹریننگ کروائی ۔
٭ صوبہ بھر کے لیے ( اوسطاً دس ارب روپے سالانہ کی) ادویات کی خریداری کا مرکزی نظام قائم کیا جس سے لوکل سطح پر خریداری میں کمیشن کا مکروہ دھندہ ختم ہوگیا۔
٭ ادویات کی خریداری کے لیے باقاعدہ Bidding ہوتی ,جس میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ منتخب ہونے والی کمپنیوں کے اپنے خرچ پرحکومت بیرون ملک بھی ان ادویات کی ٹیسٹنگ کروائے گی۔ سوئٹزر لینڈ ،برطانیہ اور ترکی کی اعلی ترین لیبارٹریزمیں یہ ادویات 100 فیصد معیاری پائی گئیں۔
٭ ادویات کی خریداری کے بعد ان کی سٹوریج کا بہترین نظام بنایا گیا جس میں مطلوبہ درجہ حرارت اور معیاری ماحول کا پورا اہتمام تھا ۔
٭ یہیں سے پورے صوبے میں مقامی ضرورت کے مطابق ادویات فراہم کی جاتیں، جس میں کسی قسم کی تاخیر یا تعطل ناقابل قبول تھا ۔کسی علاقے میں، کسی آفتِ ناگہانی کی صورت میں ،ادویات کی مطلوبہ مقدارمیں فراہمی کا بھی پورا اہتمام تھا ۔
11 کروڑ سے زائد آبادی کے صوبے میں (جو اس لحاظ سے دنیا کے کئی ملکوں سے بھی بڑا تھا) خالص ادویات کی فراہمی کا کام آسان نہ تھا۔ اس میں قدم قدم پر مافیا کی مزاحمت بھی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے کرم کیا ، ہماری نیت اور عمل کا پھل ملا اور ہم صحتِ عامہ کے شعبے میں ایک اور سنگِ میل عبور کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس میں محکمہ صحت کے دونوں وزراء خواجہ سلمان رفیق اور خواجہ عمران نذیر کے ساتھ ان کے سیکریٹریز اور دیگر متعلقہ افسران و اہلکاران کی تحسین بھی واجب ہے۔
ان میں بیشتر کا تعلق لاہور شہر (اور یہاں کے مضافات) سے تھا، صرف ایک تھا جو ملتان سے تعلق رکھتا تھا۔ وفا ت سے پہلے کی بیشتر علامات ڈنگی والی تھیں،مثلا جسم کی رنگت کا بدلنا، خون میں سفید خلیات (Cells)کی پیدائش کا رُک جانا ،پلیٹ لیٹ میں کمی اور خون کی قے وغیرہ ،چنانچہ ابتدا میں یہی خیال ہوا کہ ڈنگی لوٹ آیا ہے۔ صرف تین ہفتے میں سو سے زائد اموات نے سیاسی مخالفین کو بے رحم تنقید کا ایک اور موقع مہیا کر دیاتھا ۔
وہ ان اموات کو" قتل"قرار دے کر مجھے اس کا ذمے دار ٹھہراتے۔جمہوری معاشروں میں حکومتیں عوام کو ،حزب اختلاف کو، میڈیا کو اور عدالتوں کوجوابدہ ہوتی ہیں۔ ایک( ادنیٰ سے) مسلمان کے طور پر میں خود کو اپنے خالق و مالک کے حضور بھی جواب دہ سمجھتا تھا۔ ایک بار پھر مجھے بے خواب راتوں کا سامنا تھا لیکن یہ مایوس ہوکر بیٹھ رہنے اور مخالفین کی تنقید پر کڑھتے رہنے کا وقت نہیں تھا۔
اللہ تعالیٰ کی مدد اور والد صاحب کی تربیت ایک بار پھر کام آئی اور میں نے اس نئے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے کمر کس لی۔ میں نے متاثرہ خاندانوں کے لیے پانچ، پانچ لاکھ روپے ادائیگی کا فیصلہ کیا (ظاہر ہے یہ قیمتی انسانی جانوں کا معاوضہ نہیں تھا ،محض لواحقین کی دل جوئی اور ان کے غم میں شریک ہونے کا علامتی اظہار تھا۔) میں نے اس المیہ کی بے لاگ انکوائری کا حکم دیا (وفاقی سطح پر ایف آئی اے بھی حرکت میں آئی) پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کو یہ ادویات فراہم کرنے والی تین ادویہ ساز( فارماسیوٹیکل) کمپنیوں سے تحقیقات کا آغاز ہوا ، تو معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک کمپنی کا لائسنس اپریل 2011 میں ایکسپائر ہو چکا تھا۔
اس کے باوجود وہ ادویات بناتی اور اسے سرکاری اسپتالوں اور کھلی مارکیٹ میں وسیع پیمانے پر فروخت کرتی رہی ۔یہ متعلقہ وفاقی ادارے کی مجرمانہ غفلت تھی۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وفاقی لیبارٹری نے ان غیر معیاری ادویات کو معیاری قرار دے دیا تھا ۔میں نے دل کے مریضوں کے زیر استعمال ان پانچ ادویات کے نمونے ٹیسٹنگ کے لیے بیرون ملک اعلی ترین لیبارٹریوں کو بھجوائے (وقت کم تھا چنانچہ میں نے یہ نمونے اپنے پرسنل اسٹاف آفسر کے ذریعے دستی بھجوائے)۔ ان میں برطانیہ کی برٹش میڈیسنز اینڈ ہیلتھ کیئر پروڈکشن ریگولیٹری ایجنسی (MAHRA) بھی تھی ۔
ٹیسٹ رپورٹوں سے معلوم ہوا کہ ان پانچ ادویات میں سے ایک دوائیIsotab تو ملیریا کے علاج میں استعمال ہوتی ہے۔ رپورٹس میں ایک اور دوائی Alfagril کو بھی غیر معیاری قرار دیا گیا تھا۔ یہ ادویات بنانے والی کمپنی Efroze Chemicals، کورنگی انڈسٹریل ایریا کراچی میں واقع تھی، اسے ِسیل کرنے کے علاوہ اس کے مالکان کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ(ECL) پر ڈال دیا گیا ۔ان کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے اور گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔
اسپتالوں اور بازاروں میں میڈیکل اسٹورز پر ناقص اور غیر معیاری ادویات فراہمی کی خبروں نے سوسائٹی اور خصوصاً میڈیکل پروفیشنلز میں تشویش اور اضطراب کی لہر دوڑا دی تھی ، ان میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن(PMA) بھی تھی جو وفاقی اور صوبائی سطح پر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کا مطالبہ کر رہی تھی۔ ناقص اور جعلی ادویات کے اس اسیکنڈل نے بیرون ملک بھی پاکستان کی شہرت کو متاثر کیا ۔ سری لنکا نے پاکستان سے ادویات کی درآمد بند کر دی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کوبھی گلوبل ڈرگ سیفٹی الرٹ جاری کرنا پڑا۔
صحتِ عامہ کے لیے میرے تصور(Vision) میں ، خالص اور معیاری ادویات کو ہمیشہ بنیادی اہمیت حاصل رہی تھی۔آپ دنیا کا بہترین(اسٹیٹ آف دی آرٹ) اسپتال بنالیں، یہاں قابل ترین ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل سٹاف لے آئیں۔اس کا ماحول بھی مثالی ہو، آلات بھی جدیدترین ہوں لیکن اگر ادویات ناقص اور غیر معیاری ہیں تو سب کیا دھرا خاک میں مل جائے گا اور مریض صحت یاب ہو کر اپنے گھروں کو لوٹنے کی بجائے اگلے جہان روانہ ہوتے رہیں گے۔
1997ء میں پنجاب میں اپنی پہلی حکومت کے دوران، ہم نے جعلی ادویات کے خلاف خصوصی مہم چلائی۔ میڈیکل اسٹورز اور فارما سیوٹیکل کمپنیوں پر چھاپے مارے۔ معاشرے کو جعلی اور ناقص ادویات سے پاک کرنے کی یہ مہم آسان نہ تھی ۔داغ دہلوی نے تو دو، چار سخت مقامات کی بات کی تھی ؎
رہروِ راہ محبت کا خدا حافظ ہے
اس میں دو، چار بہت سخت مقام آتے ہیں
یہاں بے شمار سخت مقامات تھے، قدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا تھا، اس میں صوبے بھر میں میڈیکل اسٹورز کی ہڑتال بھی تھی۔ یہ ایک اور طرح کی مافیا تھی جس سے نمٹنا تھا، الحمدللہ ہماری مہم کا پہلا مرحلہ کامیاب رہا ۔اس ایجنڈے پر مزید کام باقی تھا کہ 12 اکتوبر 1999 کو مشرف کے ٹیک اوور کے بعد فلاح و بہبود اور قومی تعمیرو ترقی کے ہمارے دیگر منصوبوں کی طرح ، معاشرے کو جعلی ادویات سے پاک کرنے کا منصوبہ بھی ادھور ا رہ گیا۔
طویل جلاوطنی کے بعد قدرت نے 2008 میں عوام کی خدمت کا دوبارہ موقع دیا تو مواصلات کی جدید ترین سہولتوں کے ساتھ ہیومن ڈیولپمنٹ کے لیے صحت اور تعلیم بھی میرے ایجنڈے میں سرفہرست تھے۔ غریبوں کو خالص اور مفت اودیات کی فراہمی اس میں بنیادی حیثیت رکھتی تھی۔ اس ملک میں اشرافیہ( اصحابِ ثروت) کی دنیا الگ ہے ۔علاج کی مہنگی اور اعلیٰ ترین سہولتیں ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ۔مسئلہ تو کم وسیلہ لوگوں کا ہے، جو ادویات خریدنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے یا متبادل سستی اور ناقص ادویات پر انحصار کرتے ہیں۔
خواجہ عمران نذیر (تب پارلیمانی سیکریٹری ہیلتھ) کی زیرِقیادت ٹاسک فورس برائے انسدادِ جعلی ادویات کا قیام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ جعلی ادویات سازی کے مکروہ دھندے میں ملوث "فیکٹریاںـ"اس خصوصی مہم کا ہدف تھیں۔ رحیم یارخان سے ا ٹک تک، اس ٹاسک فورس نے ان عوام دشمن جعل سازوں کا تعاقب کیا ۔اس کے لیے قصبات اور دیہات تک پہنچے اور صوبے بھر میں گیارہ سو سے زائد مقدمات قائم کیے۔
ادویہ ساز( فارماسیوٹیکل) کمپنیوں کی لائسنسنگ رجسٹریشن اور GMP لائسنس کا اجراء فیڈرل سبجیکٹ تھا،(فیڈرل ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی۔DRAP) صوبائی حکومت معیاری ادویات کی خریداری اور اسپتالوں تک اس کی فول پروف سپلائی ہی کا کام کرسکتی تھی (اور یہی اصل کام تھا) اچھی شہرت کی حامل فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے ادویات کی خریداری( اور ان کی فول پروف ٹیسٹنگ) اس کا اولین مرحلہ تھا ۔میں لندن میں سرکاری دورے پر تھا ۔یہاں کی جدید ترین لیبارٹری LGC کا معائنہ بھی پروگرام میں شامل تھا۔ اس کے جدید ترین نظام کار سے متاثر ہو کر میں نے انھیں پاکستان آنے اور پنجاب ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کے معائنے کی دعوت دے دی، جسے LGC نے قبول کرلیا ۔وہ پاکستان آئے ۔
پنجاب میں ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹریز کے مفصل معائنے کے بعد انھوں نے اسے مطلوبہ معیار سے انتہائی کم تر قرار دیا۔افرادی قوت کی کمی بھی ایک مسئلہ تھا۔ میں نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو بلایا اور انھیں اپنے اس ویژن کی یاد دہانی کرائی (جو عوام سے انتخابی وعدے کی صورت میں بھی کیا تھا ) ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز اسپتالوں (DHQs)، تحصیل ہیڈ کوارٹرز اسپتالوں (THQs)، رورل ہیلتھ سینٹرز(RHCs) اور بنیادی مراکز صحت (BHUs) تک ان معیاری ادویات کی فراہمی، جنھیں ملک کا وزیر اعظم ،وزرا اعلیٰ، وزرا، جرنیل ، ججز، بیورکریٹس، اشرافیہ، میں خود، میری فیملی اور میرے بچے بھی استعمال کریں۔
معذرت خواہ ہوں کہ بات لمبی ہو رہی ہے، اختصار سے کام لیتے ہوئے ،میں ان اقدامات کا ذکر کیے دیتا ہوں جو صوبے بھر کے لیے معیاری ادویات کی خریداری اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتالوں سے لیکر بنیادی مراکز صحت ( نچلی ترین )سطح تک انکی بلاتاخیر اور بلاتعطل فراہمی کے لیے اختیار کیا گیا۔
٭ ہم نے لاہورـ، ملتان، فیصل آباد ، راولپنڈی اور بہاولپور میں اپنی ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹریز کوبرطانوی ادارے (LGC) کی رہنمائیمیں عالمی معیار کے مطابق جدید ترین سہولتوں کے ساتھ منظم کیا۔ (اس سے پہلے یہی لیبارٹریاں جن ادویات کو 100 فیصد درست قرار دے چُکی تھیں، غیر ملکی لیبارٹریوں نے ان میں سے 40 فیصد کو ناقص قرار دیا تھا، میں سر پکڑ کر بیٹھ گیااور سوچنے لگا کہ غیر معیاری لیبارٹریاںکتنے مریضوں کے لیے قتل گاہیں بن چکی ہوںگی۔)
٭ ان جدید ترین لیبارٹریوں کے اسٹاف کی میرٹ کی بنیاد پر(NTS کے ذریعے) بھرتی کے بعد لندن اور ترکی میں ٹریننگ کروائی ۔
٭ صوبہ بھر کے لیے ( اوسطاً دس ارب روپے سالانہ کی) ادویات کی خریداری کا مرکزی نظام قائم کیا جس سے لوکل سطح پر خریداری میں کمیشن کا مکروہ دھندہ ختم ہوگیا۔
٭ ادویات کی خریداری کے لیے باقاعدہ Bidding ہوتی ,جس میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ منتخب ہونے والی کمپنیوں کے اپنے خرچ پرحکومت بیرون ملک بھی ان ادویات کی ٹیسٹنگ کروائے گی۔ سوئٹزر لینڈ ،برطانیہ اور ترکی کی اعلی ترین لیبارٹریزمیں یہ ادویات 100 فیصد معیاری پائی گئیں۔
٭ ادویات کی خریداری کے بعد ان کی سٹوریج کا بہترین نظام بنایا گیا جس میں مطلوبہ درجہ حرارت اور معیاری ماحول کا پورا اہتمام تھا ۔
٭ یہیں سے پورے صوبے میں مقامی ضرورت کے مطابق ادویات فراہم کی جاتیں، جس میں کسی قسم کی تاخیر یا تعطل ناقابل قبول تھا ۔کسی علاقے میں، کسی آفتِ ناگہانی کی صورت میں ،ادویات کی مطلوبہ مقدارمیں فراہمی کا بھی پورا اہتمام تھا ۔
11 کروڑ سے زائد آبادی کے صوبے میں (جو اس لحاظ سے دنیا کے کئی ملکوں سے بھی بڑا تھا) خالص ادویات کی فراہمی کا کام آسان نہ تھا۔ اس میں قدم قدم پر مافیا کی مزاحمت بھی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے کرم کیا ، ہماری نیت اور عمل کا پھل ملا اور ہم صحتِ عامہ کے شعبے میں ایک اور سنگِ میل عبور کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس میں محکمہ صحت کے دونوں وزراء خواجہ سلمان رفیق اور خواجہ عمران نذیر کے ساتھ ان کے سیکریٹریز اور دیگر متعلقہ افسران و اہلکاران کی تحسین بھی واجب ہے۔