افسانوں کے مجموعے ’’گزرتی شب‘‘ کا اجرا

اگر وفاقی یا سندھ حکومت چاہے تو اس تاریخی ورثے کے تن مردہ میں جان پڑ سکتی ہے۔

usmandamohi@yahoo.com

ISLAMABAD:
اس میں شک نہیں کہ افسانہ لکھنے کا رجحان اب کم ہوتا جا رہا ہے ، مگر پچاس ساٹھ کی دہائی میں افسانہ لکھنے کا لوگوں میں ایسا کریز تھا کہ اس دور میں بے شمار افسانہ نگار نمودار ہوئے اورکچھ تو ایسے چھائے کہ آج بھی چھائے ہوئے ہیں۔ کرشن چندر خواجہ احمد عباس ، رام لعل، احمد ندیم قاسمی، شاہد احمد دہلوی اور منشی پریم چند کو بھلا کون نہیں جانتا۔

اچھے افسانہ نگاروں کی صف میں حاذق الخیری کا نام بھی شامل ہے۔ آپ کے افسانے نوجوانی کی امنگوں، بزلہ سنجی اور چلبلے پن سے لبریز ہیں مگر ادبی لحاظ سے مضبوط اور مستحکم ہیں،گوکہ افسانہ نگاری آپ کا محبوب مشغلہ تھا مگر زیادہ دیر تک افسانہ نگاری کے ساتھ نہ چل سکے، اس لیے کہ تعلیم ، معلمی اور پھر منصفی کی کٹھن ذمے داریوں میں ایسے الجھے کہ افسانہ کیا لکھتے، ان کی زندگی خود افسانہ بن گئی۔

آپ کا تعارف اس طرح ہے کہ آپ خاندانی ادیب ہیں۔ آپ کا پورا خاندان ادب نوازی میں معروف رہا ہے اور آج بھی ہے۔ آپ کے دادا راشد الخیری جنھیں مصور غم کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے اردو ادب کے ایک بلند مینارکی حیثیت رکھتے ہیں۔آپ کی اصلاحی کہانیوں نے مسلم خواتین میں بیداری کی لہر پیدا کردی تھی، مسلم خواتین میں اصلاحی مضامین لکھنے کا جذبہ آپ نے ہی ابھارا تھا۔ آپ کا جاری کردہ ماہنامہ ''عصمت'' برصغیرکی خواتین کے لیے ایک تحریک کی حیثیت رکھتا ہے۔

یہ رسالہ خوش قسمتی سے ایک سو پندرہ سال سے مسلسل شایع ہو رہا ہے، مگر اب وقفے وقفے سے اس لیے کہ اس کے اخراجات کے بوجھ کو اٹھانے والا کوئی نہیں، اگر وفاقی یا سندھ حکومت چاہے تو اس تاریخی ورثے کے تن مردہ میں جان پڑ سکتی ہے مگر افسوس کہ توجہ مبذول کرانے کے باوجود بھی کوئی اس طرف توجہ نہیں دے رہا۔

حاذق الخیری اب پیرانہ سالی میں ہیں مگر چاق و چوبند ہیں۔ پرانے ادیب ہونے کی وجہ سے کراچی کی کوئی ادبی تقریب آپ کی شرکت کے بغیر مکمل نہیں سمجھی جاتی۔ آپ اکثر ادبی تقریبات کی صدارت کرتے ہیں یا پھر بحیثیت مہمان خصوصی مدعوکیے جاتے ہیں۔ آپ مولانا رازق الخیری ایڈیٹر عصمت اور مشہور افسانہ نگار آمنہ نازلی کے صاحبزادے ہیں۔ ابتدائی تعلیم دہلی کے اینگلو عربک اسکول میں حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد ہی والدین کے ساتھ کراچی آگئے۔ کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اور 1956 میں قانون کی ڈگری حاصل کی۔ 1957 میں وکالت کی ابتدا کی۔ 1961 میں مسلم لا کالج میں قانون کے استاد مقرر ہوئے۔

1981 میں اسی کالج کے پرنسپل بنے اور 1988 میں سندھ ہائی کورٹ کے جج کا عہدہ سنبھالا۔ پھر 2004 میں چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ مقرر ہوئے۔ آپ کی خودنوشت ''جاگتے لمحے'' کے نام سے 2012 میں شایع ہوچکی ہے۔ 2014 میں مشہور ڈرامے ''وہ آدمی'' کے نام سے دوبارہ شایع ہوچکے ہیں۔ زیر نظر افسانوں کا مجموعہ ''گزرتی شب'' حال ہی میں شایع ہوا ہے۔ اس کتاب کی شروعات میں ہی سخن فردا کے عنوان سے آپ نے تحریر کیا ہے کہ میرے یہ افسانے بوڑھوں کے لیے نہیں نوجوانوں کے لیے ہیں۔ آپ نے یہ شاید اس لیے لکھا کہ انھیں آپ نے اپنی جوانی کے زمانے میں تحریر کیے تھے چنانچہ قاری کو ان سے لطف اندوز ہونے کے لیے اس عہد میں پہنچنا ہوگا۔


یہ دراصل پچاس ساٹھ کی دہائی کی کہانیاں ہیں۔ جب کراچی ایک جیتا جاگتا جگمگاتا شہر تھا۔ ہر شخص کھلی فضا میں سانس لے رہا تھا پرسکون ماحول میں زندگی پوری جولانی سے رواں دواں تھی۔ مچلتے خواب تھے ، بدلتے موسم تھے ، جنون تھا بس جو کچھ تھا دلفریب تھا اور پھر آتش بھی جوان تھا۔ زیادہ تر افسانے زمانہ طالب علمی میں لکھے گئے جو ماہنامہ ''ساقی'' میں باقاعدگی سے شایع ہوتے رہے۔ صرف ایک افسانہ ''بھیگے بادل'' اسی کی دہائی یعنی 1983 کا ہے۔ یہ مجموعہ کل پندرہ افسانوں پر مشتمل ہے ''جب بہار بیت جائے'' ایک طویل افسانہ ہے۔ ''کلب، احمق اور کنوارا آسمان'' ابتدائی افسانے ہیں۔

افسانہ ''حسین تیری آنکھیں حسین تیرے آنسو'' دسمبر 1960 میں لکھا گیا۔ ان افسانوں کے پہلے ایڈیشن پر ایڈیٹر ماہ نور رفیق خاور نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا ''ہر افسانہ ندرت آمیز جدید زندگی کے تجربات اور مشاہدات میں ڈوبا ہوا ہے جو سینما کی سلائیڈ کی مانند ہمارے سامنے چلے آتے ہیں۔ یہ احساسات، تاثرات کا مرکز اور محبت ہی محبت ہیں۔ ان کی شادکامیاں اور تلخ کامیاں اپنی جگہ جہاں ہمیں قدم قدم پر محبت کی تازگی اور بلندی نظر آتی ہے وہاں پستیاں بھی ہیں۔ رنگین بیانی اور منظر کشی ان کے خاص جوہر ہیں۔ یہ نہایت شگفتہ اور رواں ہونے کی وجہ سے منفرد مقام لیے ہوئے ہیں۔

ان افسانوں کے سلیقے، حسن، ذوق اور چابکدستی کا ایک بڑا ثبوت خود یہ ہے کہ یہ اسلوب، تکنیک اور موضوعات میں عام روش سے قصداً احترازکرتے ہیں مگر زندگی کی حقیقی کیفیت بیان کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک اور ادیب اور افسانہ نگار حسن منظر نے گزرتی شب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ''جناب حاذق الخیری کے یہ افسانے انسانی ذہن کے ایک خاص دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ زندگی کا وہ حصہ جس میں انسان جذبات خواہشات اور آرزوؤں کے سیلاب سے گزر رہا ہوتا ہے اور بہت کچھ چاہتے ہوئے بھی جو چاہتا ہے اسے حاصل کرلینے سے کتراتا ہے۔

اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس دور میں اس کے سامنے کتنی ہی منازل ہوتی ہیں ان تک پہنچنا تو چاہتا ہے مگر وہاں قیام نہیں کرسکتا۔ کیونکہ جذبات غیر مستحکم ہوتے ہیں۔ اٹھتی ہوئی جوانی کو ہندی میں کشورتا کہتے ہیں۔ اس دور میں انسان کے دل میں آرزوؤں کا امڈتا طوفان ہوتا ہے جسے نہایت صبر ، استحکام اور سلیقے سے حاذق صاحب نے اپنے افسانوں میں پرویا ہے۔ یہ افسانے ایک زرخیزکشور دماغ کی کاشت ہیں مگر فیصلہ نہ کرنے کی بنا پر اپنے اندر ٹریجڈی لیے ہوئے ہیں۔

یہ سیدھے سادھے رومانی افسانے ہیں جو لڑکپن اور جوانی کے درمیانی دورکی آنکھوں سے آنسوؤں سے بھری دنیا کو دیکھنے سے وجود میں آئے ہیں۔ یہ بے شک ادب میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ گزرتی شب کے افسانوں کا دوبارہ شایع ہونا گویا معدوم ہوتے ہوئے تخلیقی ادب کا احیا ہے۔'' راقم کے مطالعے کے مطابق ان افسانوں کو صرف ایک زمانے تک محدود کرنا زیادتی ہے۔ یہ صرف جوانوں کے لیے نہیں بلکہ ہر عمر کے انسانوں کے لیے ہیں۔ ان افسانوں کی کہانیاں قاری کو اپنے سحر میں یوں جکڑ لیتی ہیں کہ وہ انھیں ختم کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور یہی چیز افسانہ نگار کو مستند بنا دیتی ہے۔

پہلے افسانے گزرتی شب سے ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے ''پھر ہوائیں گنگنانے لگیں، موجیں بے خود ہوگئیں، اندھیرا پھٹا اور پیانو پر انگلیاں اس سرے سے اس سرے تک بھاگتی گئیں۔ لہروں نے کناروں پر جاکر دم توڑ دیا۔ خواتین سیڑھیاں ختم کرکے برآمدے میں آگئیں انھوں نے ہاتھوں میں گلدستے لے رکھے تھے ''فوزی'' اس کے دوست نے سرگوشی میں کہا۔ اس نے نشے میں اپنا چہرہ اٹھایا، ہولے سے آنکھیں کھولیں اور ایک جھٹکے سے اس کی گردن پر ڈھلک گئی'' افسانہ خمار سے چند سطور ملاحظہ فرمائیں ''وہ دیکھتا رہا۔ ہوائیں خوشگوار تھیں۔ پھولوں نے اپنی خوشبوئیں پوری طرح بکھیر دیں۔

درختوں کے سائے اس کے پاؤں کو چومنے آگے آئے اور موجیں سربسجود ، بادل کے ٹکڑے اوپر اٹھتے گئے پھر چاند نکلا، آبشاروں کی آوازیں آ رہی تھیں، ہمارے چاروں طرف اونچے اونچے پہاڑ تھے ہم دیر تک بغلوں میں ہاتھ دیے کھڑے تھے۔ اس کی عادت تھی کہ جب وہ دور چلا جاتا تو اسے متواتر دیکھتی رہتی اور نزدیک آنے پر اجنبی بن جاتی۔'' گزرتی شب کے افسانوں کا دوبارہ شایع ہونا جہاں یاد سے معدوم ہوتے ہوئے تخلیقی ادب کا احیا ہے وہاں افسانہ نگار کے ایک اچھے ادیب ہونے کا مظہر بھی ہے۔
Load Next Story