کراچی اور کے 4پروجیکٹ
کراچی کو پانی فراہمی کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ ملک کے تقریباً سبھی صوبوں کے لوگ یہاں بڑی تعداد میں آکر آباد ہوئے ہیں۔
2کروڑ سے زیادہ آبادی والے پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور سندھ کے دارالحکومت کراچی میں قلت ِ آب کی یہ صورتحال ہے کہ شہر کی تقریباً نصف آبادی ملک کے پس ماندہ ترین علاقے تھر کے عوام کی طرح سروں پر برتن اُٹھائے پانی کی تلاش میں ماری ماری پھرتی ہے جب کہ پوش علاقوں میں بڑے پیمانے پر پانی کا کاروبار ہورہا ہے، جو کہ بڑا منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔
ایک غیر سرکاری سروے کے مطابق شہر میں تقریباً 20لاکھ لوگ اس کاروبار کا حصہ ہیں ۔ اب تو یہ کاروبار ایک انڈسٹری کا درجہ حاصل کرگیا ہے ، پھر کراچی میں عوام کو لائین کے ذریعے پانی کی سپلائی کا ذمے دار ادارہ کراچی واٹر بورڈ خود بھی اس کاروبار کو ریگولرائیزکرچکا ہے اور ہائیڈرنٹس کے لائسنس جاری کرکے عوام کا ہی پانی عوام کو پیسوں پر بیچنے کے لائسنس جاری کرچکا ہے ۔ حالانکہ یہ صورتحال کوئی آج کی نہیں ہے بلکہ جب کراچی ابھی کراچی نہیں ''کلاچی جو کُن'' بالمعروف ''کلاچی'' تھا ، تب بھی یہی صورتحال تھی ۔
اس دور کے حساب سے شہر سے باہر لیاری ندی کے کنارے ڈملوٹی کے مقام پر موجود10 کنوؤں اور منہوڑہ اور کلفٹن پر موجود ایک ایک کنویں سے میونسپلٹی کی جانب سے کسٹم ہاؤس تک چینی کی پائپ لائین کے ذریعے پانی پہنچایا گیا، لیکن وہ ضروریات کے مطابق پورا نہ پڑنے پر مشکیزوں اور اونٹ گاڑیوں پر لاد کر پانی فروخت کیا جاتا تھا۔پھر 1856میں ایک اسکیم کے تحت پہلی مرتبہ میونسپلٹی نے اپنے ٹیکس دہندگان کے گھروں تک پائپ لائن کے ذریعے پانی پہنچانے کا محدود انتظام کیا ۔
1928-30کے دوران کراچی لوکل بورڈ کے صدر جمشید نسروانجی مہتا اور وائس پریذیڈنٹ جی ایم سید نے مخیر حضرات کے تعاون سے شہر میں مختلف مقامات پر تالاب بنوائے جب کہ مستقبل میں شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر کراچی میںوسیع پیمانے پر پائپ کے ذریعے واٹر سپلائی کے لیے دریائے سندھ اور کینجھر جھیل و ہالیجی جھیل سے نہر کے ذریعے گھارو- دھابیجی کے مقام پر بڑا تالاب بناکر لوہے کے پائپ کے ذریعے شہر میں پانی کی فراہمی کی اسکیم کے لیے سروے کروایا ۔ جوکہ آگے چل کر توسیع پاکر ایک نہر سے تین نہروں تک پہنچ چکی ہے ۔ جس کے انتظام کے لیے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کراچی میونسپل کارپوریشن کے ماتحت قائم کیا گیا ۔ لیکن اُس کے باوجود کراچی کی پانی کی ضروریات پوری نہیں ہو پارہی ہیں ۔ جس کے لے 2007میں کینجھر جھیل سے ایک مزید بڑی نہر کراچی کے لیے نکالنے کے منصوبے کے 4-کا آغاز کیا گیا ۔
ابتدائی سات سال تو محض باتوں میں ہی گذار دیے گئے ۔ 2014میں اس منصوبے کی سروے کے بعد پی سی ون منظور کی گئی اور 2سال کے اندر اس پروجیکٹ کو مکمل ہونا تھا لیکن 5سال مزید گذرجانے کے بعد بھی یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوسکا ہے ۔ اس دوران حکومتیں تبدیل ہوگئیں لیکن حساس نوعیت کے اس منصوبے کی تکمیل آج بھی ادھوری ہے اور کراچی والوں کے لیے حسب ضرورت پانی کی دستیابی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے ۔
دیکھا جائے تو حب و ملیر ندی اور قدرتی کنوؤں کے ذریعے سے شہر کو پانی فراہمی سے شروع ہونے والی یہ کوشش دریائے سندھ سے کوٹری بیراج سے ''کراچی واہ '' کینال اور کینجھر وہالیجی سے 3نہروں کے بعد اب کے فور تک پہنچنے کے بعد بھی کراچی کی پانی کی ضروریات پوری ہوتی نظر نہیں آتیں ، تو اس کی واحد وجہ آبادی پر کنٹرول نہ ہونا ہے ۔
یوں تو دنیا بھر میں قدرتی طریقے یعنی پیدائش کے ذریعے بڑھنے والی آبادی میں اضافے پر کنٹرول کے لیے اقوام ِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے آگاہی مہم و تدارکی اہداف و حکمت عملی گزشتہ نصف صدی سے جاری ہے اور اس میں کسی قدر کامیابی بھی ہوئی ہے لیکن دنیا میں غیر فطری طریقہ یعنی بڑے پیمانے پر نقل مکانی سے بڑھنے والی آبادی کے لیے بھی مؤثر اقدامات ہورہے ہیں لیکن پاکستان میں اس پر توجہ نہیں دی گئی بلکہ اُلٹا اس سے ملکی آبادی میں دن بہ دن ہونیوالے اضافے کو قبول کرلیا گیا ہے اور ملک کے ناعاقبت اندیش ادارے و حکمران اس کی پشت پناہی کرتے رہے ہیں ۔
آج تک غیر قانونی طریقے سے ملک میں آنے والے لوگوں کے لیے کوئی ٹھوس اور واضح قانون و پالیسی اختیار نہیں کی گئی ہے ۔ صرف کراچی میں 80لاکھ غیر قانونی لوگ آباد ہیں ۔ شماریاتی اعداد و شمار کے حساب سے وسائل کا بندوبست کرتے وقت ان کا حساب نہیں کیا جاتا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ اس شہر کے وسائل کو استعمال کرتے ہیں ، یہاں کی شاہراہوں اور غذائی اشیاء و شہری سہولیات پر دباؤ کے ساتھ ساتھ یہاںپانی کی شدید قلت کا بھی باعث بن چکے ہیں ۔ دراصل یہیں سے شروع ہوتا ہے پانی کا یہ کاروبار جسے اسلام میں غیر شرعی قرار دیکر بند کیا گیا تھا ۔
اسلام سے قبل عرب میں یہ کاروبار عام تھا لیکن ریاست مدینہ کے قیام کے فوراً بعد پیغمبر اسلام کے حکم پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے پانی کے کنویں خرید کر شہر بھر میں یکساں بنیادوں پر پانی کی فراہمی مفت کردی ۔ یوں تو ہم ایک اسلامی ملک ہیں لیکن دیگر اُمور کی طرح پانی سے متعلق بھی اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال رکھا ہے اور خدا کی اس نعمت کو بھی کاروبار بناکر دین کے احکامات سے انحراف کیا جارہا ہے ۔
کراچی کو پانی فراہمی کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ ملک کے تقریباً سبھی صوبوں کے لوگ یہاں بڑی تعداد میں آکر آباد ہوئے ہیں۔ چونکہ ملک میں وسائل کی تقسیم مردم شماری کی بناء پر آبادی کے اعداد و شمار کے حساب سے کی جاتی ہے ، اس لحاظ سے کراچی میں بسنے والے دیگر صوبوں کے لوگوں کی ضرورت کا پانی تو ان صوبوں کو دیا جاتا ہے لیکن وہ لوگ کراچی میں پانی سندھ صوبہ کے حصے کا استعمال کرتے ہیں ۔
گزشتہ کئی برسوں سے صوبہ سندھ کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ جس طرح ملک بھر کے لوگوں کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں رہنے کی وجہ سے اسلام آباد کو ملک کے مشترکہ پول میں سے اضافی پانی دیا جاتا ہے ، اُسی طرح کراچی کو بھی ملک کے مشترکہ پول میں سے پانی دیا جائے ۔ جس کا تخمینہ 1200کیوسک لگاکر مشترکہ مفادات کونسل ( سی سی آئی ) میں مطالبہ رکھا گیا ہے لیکن دیگر مسائل کی طرح وفاق اور دیگر صوبوں کی جانب سے سندھ بالخصوص کراچی کے اس مسئلے پر بھی روایتی سرد مہری کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے ۔
دنیا میں سعودی عرب ، یو اے ای سمیت کئی ممالک سمندر کے پانی کو Recycleکرکے میٹھا بناکر استعمال کررہے ہیں لیکن ہم نے اس طرف کوئی پیشقدمی تو نہیں کی اُلٹا خدا کی طرف سے نعمت کے طور پر عطا کردہ اس سمندر کو صنعتی فضلہ اور نکاسی ِ آب و کیمیکلز سے اب پینے تو کیا سمندر کے ساحل تک کو بھی سیاحت کے قابل نہیں چھوڑا ہے ۔ دنیا میں مصنوعی و غیر فطری طریقے سے بڑھنے والی آبادی کے باعث شہروں پر بڑھنے والے بوجھ کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسے شہروں کی علیحدہ اور خصوصی قانون سازی کی جاتی ہے تاکہ ایک طرف شہر ، صوبہ و ریاست کی ڈیمو گرافی برقرار رہ سکے تو دوسری طرف ان شہروں میں انسانی زندگی کے معیار کو بھی برقرار رکھا جاسکے۔
بھارت کے آسام ، ممبئی ، گجرات وغیرہ اس کی مثالیں ہیں لیکن کراچی کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس کی ڈیمو گرافی اور معیار ِ زندگی کی تباہی میں شہری ، صوبائی اور وفاقی حکومتیں اور ریاستی ادارے یکمشت اور ایک پیچ پر نظر آتے ہیں ۔ اسی لیے تو میگا پراجیکٹ بناکر ملک کے دیگر علاقوں کے لوگوں کو یہاں آباد کرکے یہاں کے وسائل اور ڈیمو گرافی و جغرافیائی خدوخال کو تبدیل کیا جارہا ہے ۔ اور اس کے لیے اس حد تک کام ہورہا ہے کہ شہر قائد کے پانی کی ضروریات کو پورا کرنے والی کے فور پروجیکٹ جیسی اسکیموں کے رُخ بھی موڑ کر ان میگا رہائشی پروجیکٹس کی طرف کردیا گیا ہے ۔
اس پروجیکٹ کا روٹ اور ڈیزائن اس طرح تبدیل کیا گیا ہے کہ جو اسکیم کراچی کے شہریوں کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی وہ اب بلا شہری ضرورت کے سپر ہائی وے پر قائم ہونے والی میگا رہائشی اسکیموں کے تحت مستقبل میں یہاں آباد ہونیوالوں کو فائدہ دینے کا ذریعہ بنے گی جب کہ اہل ِ کراچی اسی طرح پانی کے لیے بلبلاتے رہیں گے ۔
2014میں منظور کی گئی پی سی ون کے مطابق کے فور پروجیکٹ کے تحت کینجھر جھیل سے 121 کلومیٹر طویل بڑا کینال بنایا جائے گا ۔ یہ پروجیکٹ صوبائی حکومت کی نگرانی میں KW&SBکی جانب سے تعمیر ہونا تھا ۔اس کے تحت کراچی کو 650ملین گیلن یومیہ مزید پانی میسر ہوگا۔ اس کا تخمینہ تقریباً 25.551 ارب روپے لگایا گیا تھا جس کا 50%حصہ وفاق نے دینا تھا جب کہ باقی پچاس فیصد کی ادائیگی صوبائی حکومت کی ذمے داری تھی ۔ دو سال مزید تاخیر سے2016میں شروع ہونے والی یہ اسکیم اب تک پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی ہے ۔
وقت پر پیسے جاری نہ کرنے اور ملکی اُمور میں روایتی سُستی کی وجہ سے اس اسکیم کا موجودہ تخمینہ 75ارب روپے ہوگیا ہے ۔ جس پر وفاق اور سندھ حکومت کے مابین رقم کی ادائیگی کے حصے پر تنازعہ پیدا ہوگیا ہے ۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر الزامات لگائے جارہے ہیں ۔یوں تو کراچی کے اختیارات ، وسائل اور بجٹ کے نام پر وفاقی ، صوبائی اور شہری حکومتیں آپس میں دست ِ گریباں ہیں لیکن کراچی کے عوام کو سہولیات خصوصاً پانی کی فراہمی میں تینوں ہی عدم دلچسپی کی حد تک ہم سب پر عیاں ہے ۔ وہ کراچی کے عوام کے لیے زندگی اور موت جیسی اہمیت کے حامل مسئلے کے فور پروجیکٹ پر ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں ۔
ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں کراچی والوں کو پیاسہ مارنے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ کبھی وفاق پروجیکٹ میں طے شدہ حصے کی رقم روک لیتا ہے تو کبھی کوئی وفاقی وزیر یا وفاق کا نمایندہ اور صوبے کا گورنر پروجیکٹ کو صوبائی حکومت کی نااہلی اور بدعنوانی کا نام دیکر روک دیتا ہے ۔ ستمبر 2018میں بھی وفاقی حکومت کی جانب سے اس پروجیکٹ کے روٹ اور ڈیزائن و تخمینے کو غلط قرار دیکر روک دیا گیا ۔ تب سے اس پر پھر سے کام بند ہے ۔ اس کے بعد دونوں حکومتوں کی جانب سے ایک دوسرے پرپروجیکٹ کی ناکامی کے الزامات لگائے جارہے ہیں لیکن اب تک اسے مشترکہ مفادات کونسل کے ذریعے حل کرنے کی طرف کوئی بھی لے جانے کو تیار نہیں۔
دوسری جانب صوبائی حکومت کبھی پیسوں کی کمی کارونا روکر تو کبھی روایتی سُستی کی وجہ سے پروجیکٹ میں تاخیر کرتی رہی ہے ۔ پھر کراچی کی نام نہاد وراثت کی داعی شہری حکومت کی تو بات ہی نرالی ہے واٹر بورڈ کا تمام نظام متحدہ کی اس شہری حکومت کے مکمل کنٹرول میں ہونے کے باوجود اس اہم نوعیت کے مسئلے اور اس پروجیکٹ پر کوئی پیشرفت یا قانونی چارہ جوئی کرتی نظر نہیں آتی ۔ باقی صوبہ میں تضادات پیدا کرنے کی بات ہو تو یہ صوبہ کے دیگر شہروں کے لوگوں کی جانب سے قانونی طور پر کراچی کے ڈومیسائل بنوانے کو بھی حق تلفی قرار دیکر عدالت پہنچ جاتے ہیں۔
وفاق سے براہ راست کروڑوں روپے کے فنڈز کی نام نہاد اسکیمیں شروع کرواتی ہے لیکن کے فور اسکیم کے لیے کوئی مطالبہ اُن کے لبوں پر نہیں آتا۔حد تو یہ ہے کہ اسی کینجھر اور دریائے سندھ سے نکلنے والی پہلے کی تین نہروں پر تو واٹر بورڈ اور شہری انتظامیہ مکمل اختیار اور دعویٰ رکھتی ہے لیکن جب کے فور کی چوتھی نہر کی تعمیر کی ذمے داری کی بات آتی ہے تو اس پر وہ خود کو اہل نہیں سمجھتی ۔ جب کہ صوبائی حکومت سے بھی سوال ہے کہ جب ماضی میں تین نہریں باآسانی صوبائی حکومت کے ماتحت تعمیر ہوگئیں تو پھر اس اسکیم کے التویٰ کا آخر کیا سبب ہے ؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کام کرنے کی اگر نیت ہو تو جمشید مہتا اور جی ایم سید کی طرح انگریز سرکار کی مخالفت کے باوجود کراچی کے شہری نظام کو ترقی دلائی جاسکتی ہے یا پھر شہری جماعت ، صوبائی حکومت اور مشرف کی وفاقی آمریتی حکومت کی مخٰالفت کے باوجود نعمت اللہ خان کی طرح شہر کا انفرااسٹرکچر میونسپل انتظامیہ بہتر کرسکتی ہے ، لیکن اگر کام کرنے کی نیت نہ ہو تو موجودہ شہری سرکار کی طرح شہر کا کچرہ بھی میونسپل اُٹھانے سے لاچار نظر آتی ہے ۔
بہرحال کے فور پروجیکٹ کی بطور صوبہ کے ایگزیکٹو بنیادی ذمے داری وزیر اعلیٰ سندھ کی ہے ۔ اس لیے وہ اپنے تئیں یا قومی و عالمی مالیاتی اداروں سے قرضہ لے کر بھی اس پروجیکٹ کو جلد از جلد پرانے روٹ اور ڈیزائن کے مطابق مکمل کرکے کراچی کے عوام کو پانی فراہم کرے ۔
ایک غیر سرکاری سروے کے مطابق شہر میں تقریباً 20لاکھ لوگ اس کاروبار کا حصہ ہیں ۔ اب تو یہ کاروبار ایک انڈسٹری کا درجہ حاصل کرگیا ہے ، پھر کراچی میں عوام کو لائین کے ذریعے پانی کی سپلائی کا ذمے دار ادارہ کراچی واٹر بورڈ خود بھی اس کاروبار کو ریگولرائیزکرچکا ہے اور ہائیڈرنٹس کے لائسنس جاری کرکے عوام کا ہی پانی عوام کو پیسوں پر بیچنے کے لائسنس جاری کرچکا ہے ۔ حالانکہ یہ صورتحال کوئی آج کی نہیں ہے بلکہ جب کراچی ابھی کراچی نہیں ''کلاچی جو کُن'' بالمعروف ''کلاچی'' تھا ، تب بھی یہی صورتحال تھی ۔
اس دور کے حساب سے شہر سے باہر لیاری ندی کے کنارے ڈملوٹی کے مقام پر موجود10 کنوؤں اور منہوڑہ اور کلفٹن پر موجود ایک ایک کنویں سے میونسپلٹی کی جانب سے کسٹم ہاؤس تک چینی کی پائپ لائین کے ذریعے پانی پہنچایا گیا، لیکن وہ ضروریات کے مطابق پورا نہ پڑنے پر مشکیزوں اور اونٹ گاڑیوں پر لاد کر پانی فروخت کیا جاتا تھا۔پھر 1856میں ایک اسکیم کے تحت پہلی مرتبہ میونسپلٹی نے اپنے ٹیکس دہندگان کے گھروں تک پائپ لائن کے ذریعے پانی پہنچانے کا محدود انتظام کیا ۔
1928-30کے دوران کراچی لوکل بورڈ کے صدر جمشید نسروانجی مہتا اور وائس پریذیڈنٹ جی ایم سید نے مخیر حضرات کے تعاون سے شہر میں مختلف مقامات پر تالاب بنوائے جب کہ مستقبل میں شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر کراچی میںوسیع پیمانے پر پائپ کے ذریعے واٹر سپلائی کے لیے دریائے سندھ اور کینجھر جھیل و ہالیجی جھیل سے نہر کے ذریعے گھارو- دھابیجی کے مقام پر بڑا تالاب بناکر لوہے کے پائپ کے ذریعے شہر میں پانی کی فراہمی کی اسکیم کے لیے سروے کروایا ۔ جوکہ آگے چل کر توسیع پاکر ایک نہر سے تین نہروں تک پہنچ چکی ہے ۔ جس کے انتظام کے لیے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کراچی میونسپل کارپوریشن کے ماتحت قائم کیا گیا ۔ لیکن اُس کے باوجود کراچی کی پانی کی ضروریات پوری نہیں ہو پارہی ہیں ۔ جس کے لے 2007میں کینجھر جھیل سے ایک مزید بڑی نہر کراچی کے لیے نکالنے کے منصوبے کے 4-کا آغاز کیا گیا ۔
ابتدائی سات سال تو محض باتوں میں ہی گذار دیے گئے ۔ 2014میں اس منصوبے کی سروے کے بعد پی سی ون منظور کی گئی اور 2سال کے اندر اس پروجیکٹ کو مکمل ہونا تھا لیکن 5سال مزید گذرجانے کے بعد بھی یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوسکا ہے ۔ اس دوران حکومتیں تبدیل ہوگئیں لیکن حساس نوعیت کے اس منصوبے کی تکمیل آج بھی ادھوری ہے اور کراچی والوں کے لیے حسب ضرورت پانی کی دستیابی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے ۔
دیکھا جائے تو حب و ملیر ندی اور قدرتی کنوؤں کے ذریعے سے شہر کو پانی فراہمی سے شروع ہونے والی یہ کوشش دریائے سندھ سے کوٹری بیراج سے ''کراچی واہ '' کینال اور کینجھر وہالیجی سے 3نہروں کے بعد اب کے فور تک پہنچنے کے بعد بھی کراچی کی پانی کی ضروریات پوری ہوتی نظر نہیں آتیں ، تو اس کی واحد وجہ آبادی پر کنٹرول نہ ہونا ہے ۔
یوں تو دنیا بھر میں قدرتی طریقے یعنی پیدائش کے ذریعے بڑھنے والی آبادی میں اضافے پر کنٹرول کے لیے اقوام ِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے آگاہی مہم و تدارکی اہداف و حکمت عملی گزشتہ نصف صدی سے جاری ہے اور اس میں کسی قدر کامیابی بھی ہوئی ہے لیکن دنیا میں غیر فطری طریقہ یعنی بڑے پیمانے پر نقل مکانی سے بڑھنے والی آبادی کے لیے بھی مؤثر اقدامات ہورہے ہیں لیکن پاکستان میں اس پر توجہ نہیں دی گئی بلکہ اُلٹا اس سے ملکی آبادی میں دن بہ دن ہونیوالے اضافے کو قبول کرلیا گیا ہے اور ملک کے ناعاقبت اندیش ادارے و حکمران اس کی پشت پناہی کرتے رہے ہیں ۔
آج تک غیر قانونی طریقے سے ملک میں آنے والے لوگوں کے لیے کوئی ٹھوس اور واضح قانون و پالیسی اختیار نہیں کی گئی ہے ۔ صرف کراچی میں 80لاکھ غیر قانونی لوگ آباد ہیں ۔ شماریاتی اعداد و شمار کے حساب سے وسائل کا بندوبست کرتے وقت ان کا حساب نہیں کیا جاتا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ اس شہر کے وسائل کو استعمال کرتے ہیں ، یہاں کی شاہراہوں اور غذائی اشیاء و شہری سہولیات پر دباؤ کے ساتھ ساتھ یہاںپانی کی شدید قلت کا بھی باعث بن چکے ہیں ۔ دراصل یہیں سے شروع ہوتا ہے پانی کا یہ کاروبار جسے اسلام میں غیر شرعی قرار دیکر بند کیا گیا تھا ۔
اسلام سے قبل عرب میں یہ کاروبار عام تھا لیکن ریاست مدینہ کے قیام کے فوراً بعد پیغمبر اسلام کے حکم پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے پانی کے کنویں خرید کر شہر بھر میں یکساں بنیادوں پر پانی کی فراہمی مفت کردی ۔ یوں تو ہم ایک اسلامی ملک ہیں لیکن دیگر اُمور کی طرح پانی سے متعلق بھی اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال رکھا ہے اور خدا کی اس نعمت کو بھی کاروبار بناکر دین کے احکامات سے انحراف کیا جارہا ہے ۔
کراچی کو پانی فراہمی کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ ملک کے تقریباً سبھی صوبوں کے لوگ یہاں بڑی تعداد میں آکر آباد ہوئے ہیں۔ چونکہ ملک میں وسائل کی تقسیم مردم شماری کی بناء پر آبادی کے اعداد و شمار کے حساب سے کی جاتی ہے ، اس لحاظ سے کراچی میں بسنے والے دیگر صوبوں کے لوگوں کی ضرورت کا پانی تو ان صوبوں کو دیا جاتا ہے لیکن وہ لوگ کراچی میں پانی سندھ صوبہ کے حصے کا استعمال کرتے ہیں ۔
گزشتہ کئی برسوں سے صوبہ سندھ کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ جس طرح ملک بھر کے لوگوں کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں رہنے کی وجہ سے اسلام آباد کو ملک کے مشترکہ پول میں سے اضافی پانی دیا جاتا ہے ، اُسی طرح کراچی کو بھی ملک کے مشترکہ پول میں سے پانی دیا جائے ۔ جس کا تخمینہ 1200کیوسک لگاکر مشترکہ مفادات کونسل ( سی سی آئی ) میں مطالبہ رکھا گیا ہے لیکن دیگر مسائل کی طرح وفاق اور دیگر صوبوں کی جانب سے سندھ بالخصوص کراچی کے اس مسئلے پر بھی روایتی سرد مہری کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے ۔
دنیا میں سعودی عرب ، یو اے ای سمیت کئی ممالک سمندر کے پانی کو Recycleکرکے میٹھا بناکر استعمال کررہے ہیں لیکن ہم نے اس طرف کوئی پیشقدمی تو نہیں کی اُلٹا خدا کی طرف سے نعمت کے طور پر عطا کردہ اس سمندر کو صنعتی فضلہ اور نکاسی ِ آب و کیمیکلز سے اب پینے تو کیا سمندر کے ساحل تک کو بھی سیاحت کے قابل نہیں چھوڑا ہے ۔ دنیا میں مصنوعی و غیر فطری طریقے سے بڑھنے والی آبادی کے باعث شہروں پر بڑھنے والے بوجھ کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسے شہروں کی علیحدہ اور خصوصی قانون سازی کی جاتی ہے تاکہ ایک طرف شہر ، صوبہ و ریاست کی ڈیمو گرافی برقرار رہ سکے تو دوسری طرف ان شہروں میں انسانی زندگی کے معیار کو بھی برقرار رکھا جاسکے۔
بھارت کے آسام ، ممبئی ، گجرات وغیرہ اس کی مثالیں ہیں لیکن کراچی کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس کی ڈیمو گرافی اور معیار ِ زندگی کی تباہی میں شہری ، صوبائی اور وفاقی حکومتیں اور ریاستی ادارے یکمشت اور ایک پیچ پر نظر آتے ہیں ۔ اسی لیے تو میگا پراجیکٹ بناکر ملک کے دیگر علاقوں کے لوگوں کو یہاں آباد کرکے یہاں کے وسائل اور ڈیمو گرافی و جغرافیائی خدوخال کو تبدیل کیا جارہا ہے ۔ اور اس کے لیے اس حد تک کام ہورہا ہے کہ شہر قائد کے پانی کی ضروریات کو پورا کرنے والی کے فور پروجیکٹ جیسی اسکیموں کے رُخ بھی موڑ کر ان میگا رہائشی پروجیکٹس کی طرف کردیا گیا ہے ۔
اس پروجیکٹ کا روٹ اور ڈیزائن اس طرح تبدیل کیا گیا ہے کہ جو اسکیم کراچی کے شہریوں کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی وہ اب بلا شہری ضرورت کے سپر ہائی وے پر قائم ہونے والی میگا رہائشی اسکیموں کے تحت مستقبل میں یہاں آباد ہونیوالوں کو فائدہ دینے کا ذریعہ بنے گی جب کہ اہل ِ کراچی اسی طرح پانی کے لیے بلبلاتے رہیں گے ۔
2014میں منظور کی گئی پی سی ون کے مطابق کے فور پروجیکٹ کے تحت کینجھر جھیل سے 121 کلومیٹر طویل بڑا کینال بنایا جائے گا ۔ یہ پروجیکٹ صوبائی حکومت کی نگرانی میں KW&SBکی جانب سے تعمیر ہونا تھا ۔اس کے تحت کراچی کو 650ملین گیلن یومیہ مزید پانی میسر ہوگا۔ اس کا تخمینہ تقریباً 25.551 ارب روپے لگایا گیا تھا جس کا 50%حصہ وفاق نے دینا تھا جب کہ باقی پچاس فیصد کی ادائیگی صوبائی حکومت کی ذمے داری تھی ۔ دو سال مزید تاخیر سے2016میں شروع ہونے والی یہ اسکیم اب تک پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی ہے ۔
وقت پر پیسے جاری نہ کرنے اور ملکی اُمور میں روایتی سُستی کی وجہ سے اس اسکیم کا موجودہ تخمینہ 75ارب روپے ہوگیا ہے ۔ جس پر وفاق اور سندھ حکومت کے مابین رقم کی ادائیگی کے حصے پر تنازعہ پیدا ہوگیا ہے ۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر الزامات لگائے جارہے ہیں ۔یوں تو کراچی کے اختیارات ، وسائل اور بجٹ کے نام پر وفاقی ، صوبائی اور شہری حکومتیں آپس میں دست ِ گریباں ہیں لیکن کراچی کے عوام کو سہولیات خصوصاً پانی کی فراہمی میں تینوں ہی عدم دلچسپی کی حد تک ہم سب پر عیاں ہے ۔ وہ کراچی کے عوام کے لیے زندگی اور موت جیسی اہمیت کے حامل مسئلے کے فور پروجیکٹ پر ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں ۔
ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں کراچی والوں کو پیاسہ مارنے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ کبھی وفاق پروجیکٹ میں طے شدہ حصے کی رقم روک لیتا ہے تو کبھی کوئی وفاقی وزیر یا وفاق کا نمایندہ اور صوبے کا گورنر پروجیکٹ کو صوبائی حکومت کی نااہلی اور بدعنوانی کا نام دیکر روک دیتا ہے ۔ ستمبر 2018میں بھی وفاقی حکومت کی جانب سے اس پروجیکٹ کے روٹ اور ڈیزائن و تخمینے کو غلط قرار دیکر روک دیا گیا ۔ تب سے اس پر پھر سے کام بند ہے ۔ اس کے بعد دونوں حکومتوں کی جانب سے ایک دوسرے پرپروجیکٹ کی ناکامی کے الزامات لگائے جارہے ہیں لیکن اب تک اسے مشترکہ مفادات کونسل کے ذریعے حل کرنے کی طرف کوئی بھی لے جانے کو تیار نہیں۔
دوسری جانب صوبائی حکومت کبھی پیسوں کی کمی کارونا روکر تو کبھی روایتی سُستی کی وجہ سے پروجیکٹ میں تاخیر کرتی رہی ہے ۔ پھر کراچی کی نام نہاد وراثت کی داعی شہری حکومت کی تو بات ہی نرالی ہے واٹر بورڈ کا تمام نظام متحدہ کی اس شہری حکومت کے مکمل کنٹرول میں ہونے کے باوجود اس اہم نوعیت کے مسئلے اور اس پروجیکٹ پر کوئی پیشرفت یا قانونی چارہ جوئی کرتی نظر نہیں آتی ۔ باقی صوبہ میں تضادات پیدا کرنے کی بات ہو تو یہ صوبہ کے دیگر شہروں کے لوگوں کی جانب سے قانونی طور پر کراچی کے ڈومیسائل بنوانے کو بھی حق تلفی قرار دیکر عدالت پہنچ جاتے ہیں۔
وفاق سے براہ راست کروڑوں روپے کے فنڈز کی نام نہاد اسکیمیں شروع کرواتی ہے لیکن کے فور اسکیم کے لیے کوئی مطالبہ اُن کے لبوں پر نہیں آتا۔حد تو یہ ہے کہ اسی کینجھر اور دریائے سندھ سے نکلنے والی پہلے کی تین نہروں پر تو واٹر بورڈ اور شہری انتظامیہ مکمل اختیار اور دعویٰ رکھتی ہے لیکن جب کے فور کی چوتھی نہر کی تعمیر کی ذمے داری کی بات آتی ہے تو اس پر وہ خود کو اہل نہیں سمجھتی ۔ جب کہ صوبائی حکومت سے بھی سوال ہے کہ جب ماضی میں تین نہریں باآسانی صوبائی حکومت کے ماتحت تعمیر ہوگئیں تو پھر اس اسکیم کے التویٰ کا آخر کیا سبب ہے ؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کام کرنے کی اگر نیت ہو تو جمشید مہتا اور جی ایم سید کی طرح انگریز سرکار کی مخالفت کے باوجود کراچی کے شہری نظام کو ترقی دلائی جاسکتی ہے یا پھر شہری جماعت ، صوبائی حکومت اور مشرف کی وفاقی آمریتی حکومت کی مخٰالفت کے باوجود نعمت اللہ خان کی طرح شہر کا انفرااسٹرکچر میونسپل انتظامیہ بہتر کرسکتی ہے ، لیکن اگر کام کرنے کی نیت نہ ہو تو موجودہ شہری سرکار کی طرح شہر کا کچرہ بھی میونسپل اُٹھانے سے لاچار نظر آتی ہے ۔
بہرحال کے فور پروجیکٹ کی بطور صوبہ کے ایگزیکٹو بنیادی ذمے داری وزیر اعلیٰ سندھ کی ہے ۔ اس لیے وہ اپنے تئیں یا قومی و عالمی مالیاتی اداروں سے قرضہ لے کر بھی اس پروجیکٹ کو جلد از جلد پرانے روٹ اور ڈیزائن کے مطابق مکمل کرکے کراچی کے عوام کو پانی فراہم کرے ۔