ہزاروں خواہشیں

کیا ملک میں انتشار تو نہیں پھیل جائے گااور پھر دوستوں کا یہ گروپ حزبِ اقتدار اور حزب ِ اختلاف میں تقسیم ہو جاتا ہے۔

h.sethi@hotmail.com

ہر کوئی اختلاف رائے کا حق رکھتا ہے لیکن یہ حق جمہوری روایات کے تابع ہونا چاہیے، دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں اختلاف رائے کو برداشت کیا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں جہاں بھی دوست احباب اکٹھے ہوتے ہیں، سیاسی بحث شروع ہوجاتی ہے، یہ ہمارے معاشرے کی ایک روایت بن گئی ہے کہ جہاں چند دوست بیٹھے دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ سیاست پر بھی بحث لازمی ہوتی ہے۔پھر آپس کی باتوں کے بعد تان یہاں ٹوٹتی ہے کہ کیا PTI حکومت اپنی پانچ سال کی آئینی مدت مکمل کر پائے گی ؟ کیا مولانا فضل الرحمن کا لانگ مارچ کامیاب ہوگا یا ناکام ہوجائے گا۔

کیا ملک میں انتشار تو نہیں پھیل جائے گااور پھر دوستوں کا یہ گروپ حز بِ اقتدار اور حزب ِ اختلاف میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ اختلاف ِ رائے ہر کسی کا حق ہے لیکن کچھ دیر میں ہمارا اختلاف رائے لفظی جنگ کی شکل اختیار کر لیتا ہے، ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے جاتے ہیں اور اس بحث کو ذاتی نوعیت کی بحث میں تبدیل کردیا جاتا ہے تا آنکہ ان میں سے ایک دوست بلند آواز میں موضوع تبدیل کرنے کا فیصلہ نہ سنا دے تاکہ معاملات زیادہ تلخ نہ ہوجائیں۔

ٹیلیویژن پر تو اب کوئی قابل ِ ذکر خبر ہوتی نہیں بلکہ ایک جھوٹی خبر گزشتہ ہفتے میں نے سنی جس کے مطابق لاہور سے روانہ ہونے والی اس روز دس پروازیں معطل ہو گئی تھیں۔ اتفاق سے اسی روز صبح دس بجے میں نے لندن سے آئے دو مہمانوں کو ایئر پورٹ ڈراپ کرنا تھا جن کی فلائیٹ کی روانگی دوپہر ایک بجے تھی۔ خبر سن کر ان میں تھرتھلی مچ گئی۔ میں نے فلائٹ انکوائری کو ٹیلیفون کیا تو جواب ملا کہ ہمارے پاس ٹیلیفون کالز کا تانتا یہی معلوم کرنے کے لیے بندھا ہوا ہے حالانکہ ہماری تو ایک فلائٹ بھی لیٹ ہوئی ہے نہ معطل۔

گھروں، دوستوں، اہل ِ محلہ، کاروباریوں، کھلاڑیوں، دفتروں، باررومز بلکہ سہیلیوں میں گفتگو کے دوران ضروری نہیں کہ فریقین ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملائیں۔ ہر کسی کی سوچ ، تجربہ، مشاہدہ، نتیجہ اخذ کرنے کا انداز مختلف ہوتا اور ہو سکتا ہے۔ میڈیا پر بعض اوقات بغیر تصدیق و تحقیق خبر چل جائے تو تہلکا مچا دیتی ہے۔ بہرحال ایسا پاکستان میں ہوتا رہتا ہے، ہم سب اس کے عادی ہیں۔شاید دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک میں بھی ایسا ہی ہوتا ، اس میں تو اس معاملے میں خاموشی کو ہی بہتر سمجھتا ہوں اور کسی سے الجھنے سے پرہیز ہی کرتا ہوں۔یہ پالیسی ہم سب کو اپنانی چاہیے کیونکہ اسی میں بھلائی ہے۔


حکومت وقت ان دنوں دو محاذوں پر بر سر ِ پیکار ہے ۔ ایک مقدمہ UNO کے فورم پر ہے جس کی بنیاد RSS کا علمبردار انڈین وزیر ِ اعظم نریندر مودی ہے۔ جس کا مقدمہ اصولی ، قانونی اور اخلاقی لحاظ سے کمزور ہونے کے باوجود ابھی تک زیر ِ فیصلہ ہے اور اس کی وجہ انڈیا کی پاکستان پر معاشی اقتصادی اور عددی برتری ہے اور جس تفصیل، Logic اور قابلیت سے عمران خان نے انڈین کیس کو Tackle کیا اور انڈین کیس کے پرخچے بکھیرے وہ قطعی غیر متوقع تھا کیونکہ عمران کی تقریر کے دوران وقفہ ہوتا تو تالیوں سے UN ہال گونجتا رہتا۔

UN کے فورم پر تو عمران کی تقریر اس قدر مدلّل ، جامع اور مفصل تھی کہ تمام دنیا اس کی معترف تھی اور پرفارمنس کا مقابلہ کیا جائے تو شاید ہی کوئی سامع مودی کو Pass marks دے لیکن انٹر نیشنل فورم پر سے نکل کر Domestic سیاست گری پر نظر دوڑائیں تو یہاں کے شکست خوردہ کرپشن کی دلدل میں کاندھوں تک دبے کشمیر کاز کے اناڑی کھلاڑی جن کی کارکردگی گزشتہ دو دہائیں تک صفر رہی، آج کل پاکستان بچائو تحریک میں متحرک ہیں۔

جیسا کہ شروع میں لکھا کہ ہر ذی شعور کو اپنا نکتہ نظر لوگوں کے سامنے بتانے اور بیان کرنے کی آزادی ہونی چاہیے لیکن وہ جسے بونگی مارنا کہا جاتا ہے با شعور اور اہل ِ نظر کے سامنے ماری ہی نہ جائے اور اسے دہراتے چلے جانا تعفن پھیلانے کے مترادف ہے۔اس سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے سیاسی و اخلاقی گراوٹ کے علاوہ دیانت و امانت سے بے نیاز رسوائی میں لتھڑے ہوئے متعدد سابق حکمران اپنے انجام سے خوفزدہ لیکن بچ نکلنے کے لیے اپنے مصاحبوں کو ہراول دستہ بنا کر شہروں، بازاروں، جلسوں اور ٹی وی چینلز کا رخ کیے ہوئے ہیں۔ لیکن مخلوقِ خدا اندھی بہری تو نہیں۔ انھیں ہر چیز کا پتہ ہے۔عوام کو زیادہ دیر تک بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا، جلد یا بدیر حقائق سامنے آجاتے ہیں۔

میری ملازمت کے ابتدائی دن تھے جب میں نے ایک عالم ِ دین مفتی محمود کا نام سنا ۔ جو بھی ان کا ذکر کرتا نہایت عزت و احترام سے لبریز الفاظ کا چنائو کرتا۔ میں نے تو انھیں کبھی دیکھا نہ تقریر و گفتگو کرتے سنا۔ سرکاری ملازمت میں ایسا ممکن بھی نہیں تھا۔ اپنے کام سے فرصت ہی کہاں تھی۔ ویسے بھی انھیں شاید یوں بھی جلسے جلوسوں سے خاص رغبت نہ تھی اور وہ کم ہی احتجاجی جلسوں میں تقریر کرتے تھے لیکن ان کے ذکر پر لوگ ان کو غائبانہ احترا م دیتے تھے۔

یقیناً مفتی محمود قابل قدر دینی شخصیت تھے۔ اب ان کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمٰن البتہ ملکی سیاست کے ایک اہم لیڈر سمجھے جاتے ہیں بلکہ ایک بار تو وہ ملک کے منصب ِ اعلیٰ کے امیدوار بھی تھے ۔ گزشتہ کئی ماہ سے مولانا وزیر ِ اعظم عمران خان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں اور ملک کی کوئی شخصیت یا پارٹی ایسی نہیں جس سے وہ رات دن رابطے نہ کررہے ہوں کہ عمران خان کو ہر صورت وزارت عظمیٰ سے الگ کر کے نئے انتخابات کی راہ ہموار کر دیں۔ ان کی اس شدید خواہش کا نتیجہ کب اور کیا نکلتا ہے۔ لیکن انسان کی خواہشوں کا حساب کسی حساب دان کے پاس نہیں۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
Load Next Story