حضرت داتا علی ہجویری ؒ کے عرس پر خالص دودھ کی سبیل
عرس میں آنیوالے زائرین کو خالص دودھ بھی لنگر کے طور پر دیا جاتا ہے
عظیم روحانی بزرگ حضرت علی بن عثمان المعروف داتا علی ہجویری ؒ 976 ویں سالانہ عرس کی تقریبات جاری ہیں۔
حضرت داتا علی ہجویری ؒ کے عرس میں آنیوالے زائرین کی جہاں مختلف اقسام کے کھانوں سے تواضع ہوتی ہے وہیں انہیں دودھ کی سبیل سے خالص دودھ بھی لنگر کے طور پر دیا جاتا ہے۔ امور مذہبی کمیٹی داتا دربار نے دودھ کی سبیل کے انتظامات کے حوالے سے ہرسال دودھ کا نذرانہ لے کر آنے والے گوالوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے۔
اس کمیٹی کے سربراہ چوہدری منظور نے ایکسپریس کوبتایا کہ عرس تقریبات شروع ہونے سے دو ماہ قبل پورے پنجاب کا دورہ کیا جاتا ہے اور وہاں جو بڑے گوالے ہیں ان سے ملاقات کرکے دودھ لانے کا کہا جاتا ہے۔ ہم مختلف اضلاع میں ذیلی کمیٹیاں بناتے ہیں جو اپنے اپنے شہروں میں مخصوص مقامات پر اپنے علاقوں کا دودھ جمع کرتے ہیں اور پھر ہمارے نمائندے وہ دودھ لے کر لاہور آتے ہیں۔
چوہدری منظورنے بتایا کہ گزشتہ برس ڈیڑھ لاکھ لیٹرسے زیادہ دودھ تقسیم کیا گیا تھا اس بار ہمارا ہدف ہے کہ ہم دو لاکھ لیٹرسے زیادہ دودھ تقسیم کریں گے۔ لاہورسے جولوگ دودھ لیکر آتے ہیں ان کے لئے ہم نے تین زون بنا رکھے ہیں ، ہرزون سے عرس کے پہلے، دوسرے اورتیسرے روز دودھ لیا جاتا ہے۔ جو بھی دودھ سبیل کے لئے لایا جاتا ہے اس کی کوالٹی پنجاب فوڈ اتھارٹی چیک کرتی ہے اور پھر ہم اسے مرکزی کنٹینر میں ڈال دیتے ہیں۔ دودھ کو خراب ہونے سے بچانے کے لئے چلر لگائے گئے ہیں، عرس میں آنیوالے ہزاروں زائرین دودھ کی نیاز ضرور لیتے ہیں۔
دودھ کی سبیل کمیٹی کے کنونئیر حاجی محمد طفیل نے بتایا کہ ان کے بزرگوں نے 1960 میں سبیل کی خدمت کا سلسلہ شروع کیا تھا جو آج بھی جاری ہے ۔ اب ہم لوگ گزشتہ 20 برس سے یہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ جو بھی گوالہ سبیل کے لئے دودھ دیتا ہے وہ ملاوٹ سے پاک خالص دودھ لے کر آتا ہے۔
دودھ کی سبیل کا تاریخی پس منظر
دودھ کی سبیل کے تاریخی پس منظر بتایا جاتا ہے کہ جب حضرت داتا گنج بخش ؒتبلیغ اسلام کی خاطر غزنی سے لاہور تشریف لائے تو آج جس جگہ پانی کا چشمہ ہے وہاں درخت کے سایہ میں آپ نے قیام فرمایا، ان دنوں شہر لاہور اور گرد و نواح کے لوگ اپنے مویشیوں کا ایک وقت کا دودھ لاہور کے ہندؤ جوگی رائے (شہر کوتوال) کو دیا کرتے تھے۔ آپ کے قیام کے تیسرے دن ایک بڑھیا دودھ اٹھائے جوگی کو دینے جارہی تھی۔ حضرت نے بلا کر پوچھا تو اس بڑھیا نے کہا کہ میں یہ دودھ لاہور کے کوتوال رائے راجو کو دینے جارہی ہوں ،اگر میں نے دودھ نہ دیا تو میرے جانور دودھ کی بجائے خون دینا شروع کر دیں گے۔ داتا علی ہجویری ؒ نے فرمایا کہ یہ دودھ تم مجھے دے دو تمہارے جانور خون نہیں دیں گے۔آپ کی بات پر وہ بڑھیا اس قدر متاثر ہوئی کہ وہ دودھ آپ کو دے کر چلی گئی اور جب اس نے گھر پہنچ کر شام کو جانوروں کا دودھ دوہنا شروع کیا تو دودھ بجائے خون آنے کے اس کی مقدار میں بھی اضافہ ہو گیا۔
اس بات کی خبر بڑھیا نے دوسرے لوگوں تک بھی پہنچائی تو انہوں نے بھی آپ کی خدمت میں دودھ دینا شروع کر دیا ۔جب کوتوال شہر رائے راجو کو پتہ چلا تو اس نے اپنی شعبدہ بازیوں سے آپ کو اٹھانے کی کوشش کی ،مگر آپ نے اپنی کرامات سے اسے زیر کر دیا اور اسے بھی کلمہ طیبہ پڑھا کر مسلمان کر دیا اور ان کا نام آپ نے شیخ ہندی رکھا اور ان کو اجازت وخلافت سے بھی نوازا۔ شہر کے لوگ جوق درجوق مسلمان ہونا شروع ہو گئے۔ آپ نے دودھ کی پہلی نذر قبول فرمائی چنانچہ پنجاب بھر کی گجر برادری اوردودھ فروش اس روایت کو صدیوں سے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ سارا سال اور عرس پاک کے موقع پر ہزاروں من دودھ وہ فی سبیل اللہ تقسیم کرتے ہیں۔
حضرت داتا علی ہجویری ؒ کے عرس میں آنیوالے زائرین کی جہاں مختلف اقسام کے کھانوں سے تواضع ہوتی ہے وہیں انہیں دودھ کی سبیل سے خالص دودھ بھی لنگر کے طور پر دیا جاتا ہے۔ امور مذہبی کمیٹی داتا دربار نے دودھ کی سبیل کے انتظامات کے حوالے سے ہرسال دودھ کا نذرانہ لے کر آنے والے گوالوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے۔
اس کمیٹی کے سربراہ چوہدری منظور نے ایکسپریس کوبتایا کہ عرس تقریبات شروع ہونے سے دو ماہ قبل پورے پنجاب کا دورہ کیا جاتا ہے اور وہاں جو بڑے گوالے ہیں ان سے ملاقات کرکے دودھ لانے کا کہا جاتا ہے۔ ہم مختلف اضلاع میں ذیلی کمیٹیاں بناتے ہیں جو اپنے اپنے شہروں میں مخصوص مقامات پر اپنے علاقوں کا دودھ جمع کرتے ہیں اور پھر ہمارے نمائندے وہ دودھ لے کر لاہور آتے ہیں۔
چوہدری منظورنے بتایا کہ گزشتہ برس ڈیڑھ لاکھ لیٹرسے زیادہ دودھ تقسیم کیا گیا تھا اس بار ہمارا ہدف ہے کہ ہم دو لاکھ لیٹرسے زیادہ دودھ تقسیم کریں گے۔ لاہورسے جولوگ دودھ لیکر آتے ہیں ان کے لئے ہم نے تین زون بنا رکھے ہیں ، ہرزون سے عرس کے پہلے، دوسرے اورتیسرے روز دودھ لیا جاتا ہے۔ جو بھی دودھ سبیل کے لئے لایا جاتا ہے اس کی کوالٹی پنجاب فوڈ اتھارٹی چیک کرتی ہے اور پھر ہم اسے مرکزی کنٹینر میں ڈال دیتے ہیں۔ دودھ کو خراب ہونے سے بچانے کے لئے چلر لگائے گئے ہیں، عرس میں آنیوالے ہزاروں زائرین دودھ کی نیاز ضرور لیتے ہیں۔
دودھ کی سبیل کمیٹی کے کنونئیر حاجی محمد طفیل نے بتایا کہ ان کے بزرگوں نے 1960 میں سبیل کی خدمت کا سلسلہ شروع کیا تھا جو آج بھی جاری ہے ۔ اب ہم لوگ گزشتہ 20 برس سے یہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ جو بھی گوالہ سبیل کے لئے دودھ دیتا ہے وہ ملاوٹ سے پاک خالص دودھ لے کر آتا ہے۔
دودھ کی سبیل کا تاریخی پس منظر
دودھ کی سبیل کے تاریخی پس منظر بتایا جاتا ہے کہ جب حضرت داتا گنج بخش ؒتبلیغ اسلام کی خاطر غزنی سے لاہور تشریف لائے تو آج جس جگہ پانی کا چشمہ ہے وہاں درخت کے سایہ میں آپ نے قیام فرمایا، ان دنوں شہر لاہور اور گرد و نواح کے لوگ اپنے مویشیوں کا ایک وقت کا دودھ لاہور کے ہندؤ جوگی رائے (شہر کوتوال) کو دیا کرتے تھے۔ آپ کے قیام کے تیسرے دن ایک بڑھیا دودھ اٹھائے جوگی کو دینے جارہی تھی۔ حضرت نے بلا کر پوچھا تو اس بڑھیا نے کہا کہ میں یہ دودھ لاہور کے کوتوال رائے راجو کو دینے جارہی ہوں ،اگر میں نے دودھ نہ دیا تو میرے جانور دودھ کی بجائے خون دینا شروع کر دیں گے۔ داتا علی ہجویری ؒ نے فرمایا کہ یہ دودھ تم مجھے دے دو تمہارے جانور خون نہیں دیں گے۔آپ کی بات پر وہ بڑھیا اس قدر متاثر ہوئی کہ وہ دودھ آپ کو دے کر چلی گئی اور جب اس نے گھر پہنچ کر شام کو جانوروں کا دودھ دوہنا شروع کیا تو دودھ بجائے خون آنے کے اس کی مقدار میں بھی اضافہ ہو گیا۔
اس بات کی خبر بڑھیا نے دوسرے لوگوں تک بھی پہنچائی تو انہوں نے بھی آپ کی خدمت میں دودھ دینا شروع کر دیا ۔جب کوتوال شہر رائے راجو کو پتہ چلا تو اس نے اپنی شعبدہ بازیوں سے آپ کو اٹھانے کی کوشش کی ،مگر آپ نے اپنی کرامات سے اسے زیر کر دیا اور اسے بھی کلمہ طیبہ پڑھا کر مسلمان کر دیا اور ان کا نام آپ نے شیخ ہندی رکھا اور ان کو اجازت وخلافت سے بھی نوازا۔ شہر کے لوگ جوق درجوق مسلمان ہونا شروع ہو گئے۔ آپ نے دودھ کی پہلی نذر قبول فرمائی چنانچہ پنجاب بھر کی گجر برادری اوردودھ فروش اس روایت کو صدیوں سے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ سارا سال اور عرس پاک کے موقع پر ہزاروں من دودھ وہ فی سبیل اللہ تقسیم کرتے ہیں۔