جب میں نے بھٹو کا کنونشن ناکام بنا دیا

کانفرنس سے2دن پہلےمیں نےبھٹو کو چیلنج کیا کہ اگر ہمت ہے تو لیاقت باغ میں جلسہ کرکے دکھاو، شیخ رشید

اعلان کے بعد پولیس نے میرے والد اور بھائیوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا تھا، شیخ رشید۔ فوٹو: فائل

سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے بطور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر چارج سنبھال لیا۔

اس طرح ملک میں ایک نیا سیاسی سلسلہ شروع ہوگیا اور بھٹو نے اسلامی سربراہی کانفرنس میں بنگلہ دیش کو منظور کروانے کے لیے اپنی پارٹی کا کنونشن لیاقت باغ میں منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ کانفرنس سے دو دن پہلے میں نے شہید چوک میں جلسہ کے دوران بھٹو کو چیلنج کیا کہ اس میں ہمت ہے تو لیاقت باغ میں جلسہ کرکے دکھائے۔ میں اخبارات میں بھی بیان دے چکا تھا کہ بھٹو کے خلاف تحریک چلاؤں گا اور اعلان کیا کہ بھٹو میری لاش پر ہی لیاقت باغ میں جلسہ کرے گا۔

یہ ایسا اعلان تھا کہ جس سے شہر میں خوف و ہراس پھیل گیا اور پولیس نے میرے والد اور بھائیوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا۔ کچھ روز پہلے ہی میں پنڈی سے پیپلزپارٹی کے وزیر خورشید حسن کے گورڈن کالج میں اپنی اجازت کے بغیر طلباء سے خطاب کرنے کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کرچکا تھا۔ میرا نکتہ اعتراض یہ تھا کہ میری اجازت کے بغیر وہ کالج میں کیوں آئے۔ وزیر موصوف نے بھاگنے کی راہ لی۔ جب کہ اس کی گاڑی پر قبضہ کرلیا گیا۔ جسے دوسرے دن انتظامیہ کی مداخلت پر واپس کیا گیا۔

میں نے بھٹو کو لیاقت باغ میں جلسہ نہ کرنے کی کھلی دھمکی دی تھی جس کے بعد مجھے اندیشہ تھا کہ اب مجھے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑے گا اور خدشہ تھا کہ پولیس رات کو میرے گھر پر چھاپہ مارے گی۔ میرا یہ خدشہ درست ثابت ہوا۔ میرے والد اور بھائیوں کو پولیس سی آئی اے سٹاف لے گئی، لیکن میں نے حوصلہ نہیں ہارا اور رات چھپ کر گزاردی۔ اگلے دن یہ اعلان کردیا کہ اگر زندہ رہا تو بھٹو کو لیاقت باغ میں جلسہ نہیں کرنے دوں گا۔ آخری رات جس کی صبح جلسہ ہونا تھا میں نے لیاقت باغ کے سامنے دو گیز کیفے کے اوپر اپنے دوست بٹ صاحب کے گھر گزاری۔

ساری رات میں ایک بٹن والا چاقو لے کر ان کی چھت پر سویا رہا۔ مجھے ڈھونڈنے کے لیے پولیس سارے شہر میں چھاپے مار رہی تھی اور میں لیاقت باغ کے سامنے ٹین کی چھت پر دو اینٹیں سر کے نیچے رکھ کر سونے کی کوشش کررہا تھا۔ کپڑے بھی مٹی سے لتھڑے ہوئے تھے۔ رات اتنی لمبی تھی کہ کٹنے کا نام نہیں لیتی تھی۔ میں اپنے چند جاں نثاروں کی ایک ٹولی کو اسلامیہ سکول کے سامنے اکٹھا ہونے کا وقت دے چکا تھا، لیکن میں نے کسی کو نہیں بتایا تھا کہ میں رات کو کہاں چھپوں گا۔ ان کو یہ کہا کہ میں کالج روڈ کے راستے واپس آؤں گا۔ درحقیقت میں یہ سارا نقشہ پہلے ہی بنا چکا تھا۔




پیپلزپارٹی کا جلسہ پلٹنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ یہ میری زندگی کی پہلی رات تھی کہ اگر کوئی بلی بھی پاس سے گزرتی تو میں گھبرا اٹھتا۔ لیاقت باغ کے ارگرد گھروں سے ہندوؤں کی بنی بارہ دریوں سے میں دیکھ رہا تھا کہ رات ہی پولیس آچکی تھی ساتھ ہی گھر سے کان لگا کر سنا تو میرے بارے میں باتیں ہورہی تھیں۔ میرے دوست قمر سعید بٹ کو بھی یہ پتہ نہیں تھا کہ رات میں ان کی چھت کی سیڑھیوں پر گزاروں گا۔ مجھے ساتھ گھر میں ہونے والی باتوں سے پتہ چلا کہ میرے والد اور بھائیوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

اس صبح ہی سے کنونشن میں جوق در جوق بسیں آرہی تھیں اور ہزاروں کی تعداد میں پیپلزپارٹی کے جیالے جلسہ گاہ میں داخل ہورہے تھے۔ تھوڑی دیر میں پولیس کی ایک پلاٹون جب دو گیز کیفے کی طرف بڑھی تو میں گھبرا گیا لیکن وہ پوری پلاٹون حفاظتی طور پر وہاں آکر کھڑی ہوگئی اور میرے لیے مشکل تھا کہ مجھے اس طرف سے نیچے اترنا تھا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ میرے ساتھی جو تعداد میں پچیس تیس تھے مقررہ جگہ پر پہنچ چکے تھے۔ بھٹو تقریر شروع کرچکے تھے اور جب میں نے گھر کی سیڑھیوں کے راستے اترنا چاہا تو مایوسی ہوئی کیونکہ باہر سے کنڈی لگی ہوئی تھی۔

جب میں نے شور مچایا تو سعید کے چھوٹے بھائی نے کنڈی کھولی اور میں سیڑھیوں سے باہر آگیا۔ ادھر پولیس کھڑی تھی، میں تیزی سے پولیس کے ایک طرف سے ہوتا ہوا اپنے دوستوں میں پہنچ گیا۔ جہاں وہ میرا انتظار کررہے تھے۔ نعرے لگاتے ہوئے ہم مین گیٹ سے جلسہ گاہ میں داخل ہوگئے۔ اس وقت میرا وزن کچھ اتنا زیادہ نہیں تھا۔ سفید پٹی کا کوٹ میں نے پہنا ہوا تھا۔ ہم اس تیزی سے جلسہ گاہ میں داخل ہوئے کہ جلسہ گاہ میں کھلبلی مچ گئی اور لوگوں نے بھاگنا شروع کردیا جس سے ہم نے پورا فائدہ اٹھایا۔

ہم جب اسٹیج کے قریب پہنچ گئے تو اسٹیج سے کسی بیوقوف نے میرے اندازے کے عین مطابق گولیوں کی بوچھاڑ شروع کردی۔ جلسہ درہم برہم ہوگیا۔ میرے منصوبے کے عین مطابق لیاقت باغ کے باہر کھڑی گاڑیوں کو میرے دوستوں نے دو تین مختلف جگہوں پر آگ لگادی۔ نوجوانوں نے مجھے کندھوں پر اٹھالیا۔ میں بھٹو کے بالکل سامنے بنگلہ دیش نامنظور نامنظور کے نعرے لگا رہا تھا۔ جلسہ میں اتنی بھگدڑ مچی کہ کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ میرے اردگرد 20/25 نوجوانوں کا زبردست حصار تھا۔

جب زیادہ گولی چلی تو میں نے کوٹ، قمیض اور بنیان سب اتار دیئے اور ننگی چھاتی دکھاتے ہوئے بھٹو کو للکارا کہ بھٹو یہاں گولی مارو۔ جلسہ درہم برہم ہوگیا۔ لوگ ایک دوسرے کو مار رہے تھے اور ہم اپنی منصوبہ بندی کے مطابق جلسہ گاہ سے باہر نکلنا چاہتے تھے، لیکن مشاہدکے بھائی مجاہد اور اشتیاق کو کافی چوٹیں آچکی تھیں۔ مزید لوگوں نے باہر نکل کر تین چار گاڑیوں کو آگ لگادی۔ بھٹو پر اتنا خوف طاری ہوا کہ سکیورٹی نے اسے گھیرے میں لے لیا اور ایک گھنٹے بعد اسے گوالمنڈی کے راستے نکال کر لے گئے۔ اخباروں نے اگلے روز جلی سرخیوں سے جلسہ کا ذکر کیا اور بھٹو کے یہ الفاظ لکھے کہ میں نے راولپنڈی کے ایک مقامی وزیر کو ڈانٹا کہ ایک لڑکا تم سے نہیں سنبھالا جاتا محسوس ہوتا ہے کہ مجھے شیخ رشید سے رابطہ قائم کرنا پڑے گا۔ یہ جلسہ الٹنے سے سارے ملک میں میری دھاک بیٹھ گئی۔ بی بی سی نے آنکھوں دیکھا حال اور تبصرہ نشر کیا اور میری زندگی کا بہت بڑا حاصل یہ تھا کہ ملک کے نامور ادیب اور شاعر آغا شورش کاشمیری نے ''چٹان'' میں ایک فی البدیہہ نظم ''ایک بہادر نوجوان'' کے عنوان سے لکھی جو میری زندگی کا سرمایہ بنی۔

(آپ بیتی ''فرزند ِ پاکستان'' سے اقتباس)
Load Next Story