آگے خدا جانے
پاکستان کی بدنصیبی کہ اپنے اپنے ’’خوف‘‘ کی وجہ سے نوازشریف اورخورشیدشاہ سڈل صاحب کو چیئرمین احتساب بیورو نہ لگا پائے۔
اگر آپ میرے دل کی بات پوچھیں تو میں صاف کہہ دوں گا کہ ہمارے ہاں احتساب کے نام پر پہلے سیل اور اب بیورو والی جو دکان کھولی گئی ہے، اسے فوراََ بند کر دینا چاہیے۔ کسی بھی ملک میں جہاں انصاف اور قانون کا واقعتاََ راج ہو ایسی دکانیں نہیں کھولی جاتیں۔ ہاں کسی حکمران جماعت کے کسی اہم رکن یا وزیر وغیرہ کے خلاف تحقیق و تفتیش کے عمومی اداروں کے ذریعے جو شواہد جمع ہوں انھیں عدالتوں کے سامنے جانفشانی سے پیش کرنے کے لیے ایک خاص پراسیکیوٹر ضرور متعین کیا جاتا ہے۔ اسے یہ اختیار بھی دیا جاتا ہے کہ اگر وہ اپنے سامنے رکھے گئے شواہد سے مطمئن نہ ہو تو اپنی پسند کے کسی بھی تفتیش کار کو ان سوالوں کے جوابات اکٹھا کرنے پر لگا دے جو اس کے ذہن میں موجود ہوتے ہیں۔
امریکا میں بھی ایسے ہی ہوتا ہے۔ مگر کلنٹن جیسے کرشمہ ساز ایک دھانسو پراسیکیوٹر کو بھی ناکام بنا دیتے ہیں۔ مونیکا لیونسکی والا قصہ تو آپ کو یاد ہو گا۔ اس کی وجہ سے صدر کلنٹن کی بڑی بدنامی ہوئی اور بات وہاں کی کانگریس کے ذریعے اس کے احتساب تک جاپہنچی۔ سابق صدر مگر اپنی چرب زبانی سے بچ نکلے حالانکہ مونیکا والے قصے میں کافی جان تھی۔ حال ہی میں فرانس جیسے ملک میں وہاں کا سابق صدر سرکوزی اپنے خلاف دس سے زیادہ سال سے اس ملک کے طاقتور ترین اخباروں میں مسلسل چھپتی ہوئی کرپشن کہانیوں کے باوجود عدالتوں کے ذریعے مجرم ثابت نہ کیا جا سکا۔ اٹلی کے وزیر اعظم کے بارے میں کیا کچھ ہمارے سامنے نہیں آیا۔ موصوف ابھی تک دھڑلے سے زندگی کے مزے لے رہے ہیں۔
ہم چونکہ خود کو اپنی ترکیب میں بہت ہی خاص سمجھتے ہیں، اس لیے کرپشن کرپشن پکارتے ہوئے اپنے سرکردہ سیاستدانوں کو چوراہوں پر پھانسی چڑھا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ابھی تک کامیابی اس ضمن میں صرف ذوالفقار علی بھٹو کے انجام کی صورت نظر آئی۔ مگر ان کی جان کا اصل دشمن ایک فوجی آمر تھا اور عدالتیں ان دنوں حکمرانوں کی خواہش پوراکرنے پر زیادہ دھیان دیا کرتی تھیں۔
مرحوم صدر غلام اسحاق خان نے محترمہ بے نظیر کی پہلی حکومت کرپشن کے نام پر برطرف کی تھی۔ آصف علی زرداری کو انھوں نے جیل میں ڈالا۔ ہمارے ایک بڑے ہی جیّد اور صاحب قسم کے افسر روئیداد خان کو احتساب کا فریضہ سونپا گیا۔ مگر 1993ء میں جب غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی پہلی حکومت کو برطرف کیا تو یہی روئیداد خان میری آنکھوں کے سامنے محترمہ بے نظیر بھٹو کے اسلام آباد والے گھر سے آفتاب شیرپائو کے ساتھ ایک گاڑی میں بیٹھ کر ایوانِ صدر روانہ ہوئے۔ محترمہ کا پیغام اس وقت کے صدر کے لیے یہ تھا کہ وہ میر بلخ شیر مزاری کی عبوری حکومت کے ساتھ تعاون صرف اس صورت کریں گی اگر آصف علی زرداری کو ان کی کابینہ میں وزیر بجلی و پانی بنایا جائے۔ جب دونوں یہ پیغام لے کر چل دیے تو میں نے محترمہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تھوڑی جرأت اور کافی بدتمیزی سے کہہ ڈالا کہ غلام اسحاق خان آصف علی زرداری والی شرط ہرگز نہیں مانیں گے۔ وہ اعتماد سے چمکتے چہرے کے ساتھ صرف مسکرائیں۔ ان کی مسکراہٹ میں صاف لکھا تھا کہ میرے جیسے صحافی اقتدار کی مجبوریاں نہیں سمجھ سکتے اور وہ سچی ثابت ہوئیں۔
نواز شریف صاحب کے دوسرے دور میں سیف الرحمٰن احتساب کے نام پر جو تماشے لگاتے رہے، ان کا ذکر اس کالم میں ایک سے زیادہ بار کر چکا ہوں۔ سیف الرحمٰن اس ملک میں پارسا سیاست کو فروغ دینے کا عزم لے کر نکلے تھے۔ جنرل مشرف کی قید سے رہائی کے بعد سے اب پاکستان میں نظر ہی نہیں آتے۔ جنرل مشرف نے بھی ان کی طرح سیاست کو پاک صاف کرنا چاہا تھا۔ ان کے جنرل امجد نے فاروق آدم اور سعید ملک کے ساتھ مل کر ''بدعنوان سیاستدانوں'' کو تھانوں میں ڈال کر وہ حقوق بھی نہ دیے جو جنگی قیدیوں کو ملا کرتے ہیں۔ بالآخر کیا ہوا؟ مشرف کے محتسبوں کی طرف سے قید میں ڈالے فیصل صالح حیات، آفتاب شیر پائو اور کئی بہت سارے اور سیاستدان جنرل مشرف کے دور میں ہی مرکزی اور صوبائی وزیر بنے۔ حتیٰ کہ بالآخر مشرف نے بھی محترمہ کے ساتھ NRO کر لیا۔ ان بے چاری کو اس کے فائدے تو نصیب نہ ہوئے مگر آصف علی زرداری نے ایوانِ صدر میں پانچ سال پورے کر لیے۔ قومی احتساب بیورو(NAB) کی ایسی ''شاندار'' تاریخ کی روشنی میں اس ادارے کے ذریعے پاکستان میں پارسائی کی سیاست کو فروغ دینے کی مجھے تو کوئی امید نہیں۔
مگر کرپشن کرپشن کا سیاپا چٹ پٹے کالم بناتا ہے۔ انھیں لکھنے والوں کو اصول پسند، دیانتدار اور سماج سدھار کا رضاکار بھی سمجھا جاتا ہے۔ پھر ٹی وی پر Ratings بھی اس موضوع پر سیاپا کرنے سے ملتی ہیں۔ اس لیے NAB کی دکان پر رش جاری رہے گا۔ آج کل تو ویسے بھی اس ادارے کے ذریعے آصف علی زرداری کو اڈیالہ جیل بھجوانے کی لگن میں مبتلا لوگوں کو چوہدری قمر زمان کی بطور چیئرمین نیب تعیناتی سے بہت دُکھ پہنچا ہے۔ ان کے خلاف انھیں کوئی ٹھوس دلیل نہیں مل رہی۔ بس یہ کہا جا رہا ہے کہ اس ''روایتی افسر'' میں جو اپنے پورے کیریئر میں کبھی OSD نہیں بنا ایک پارسائی فروغ جلاد والی خوبیاں نظر نہیں آ رہیں۔ ڈاکٹر شعیب سڈل اس عہدے کے لیے چنے جاتے تو مولوی مدن والی بات کی امید بن سکتی تھی۔ میں بھی سڈل صاحب کا مداح ہوں۔ مگر پہلے آئی بی چیف اور بعدازاں وفاقی ٹیکس محتسب غالباََ وہ اسی آصف علی زرداری کے دور میں بنائے گئے تھے جنھیں اب اڈیالہ لے جا کر قوم کی ''لوٹی ہوئی دولت'' کو واپس لانا مقصود ہے۔ پاکستان کی بدنصیبی کہ اپنے اپنے ''خوف'' کی وجہ سے نواز شریف اور خورشید شاہ سڈل صاحب کو چیئرمین احتساب بیورو نہ لگا پائے۔ لیکن عمران خان کی نگاہِ بندہ شناس نے میری اطلاع کے مطابق انھیں خیبر پختون خوا کے احتساب بیورو کے سربراہ کے لیے چن لیا ہے۔ اگر پرویز خٹک مان گئے تو کم از کم ہمارا ایک صوبہ تو بدعنوان افسروں اور سیاستدانوں سے پاک ہو جائے گا۔
میں نے چوہدری قمر زمان کو تین یا چار مرتبہ بس کسی کے ہاں آتے اور جاتے دیکھا ہے۔ ایک بار پارلیمان کی راہداری میں سرسری سلام دُعا ہوئی تھی۔ میں ان کی ذات اور کیریئر بارے کچھ نہیں جانتا۔ اس لیے کوئی رائے دینے کا حق بھی نہیں رکھتا۔ مگر بریگیڈئر ترمذی کی آپ بیتی نما کتاب کے حوالے سے جو کہا جا رہا ہے، اسے تسلیم کرتے ہوئے دل نہیں مانتا۔ وجہ میرے شک کی یہ ہے کہ ان ترمذی صاحب نے بڑی کوششوں کے بعد آئی ایس آئی سے نکالے جانے کے بعد مجھ سے ایک دو ملاقاتیں کی تھیں۔ خدا مجھے غیبت سے بچائے۔ مگر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ موصوف کافی بڑے کہانی کار تھے۔ ان کی اکثر باتیں میں نے تحقیق کی تو بالکل بے سر و پا نکلیں۔ آگے خدا جانے۔