ملالہ سے یکجہتی
پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کا معاملہ گزشتہ صدی کی آخری دہائیوں سے متنازعہ ہے۔
لاہور:
پشاور میں پولیو کے قطرے پلانے والے پھر شہید ہوگئے۔ ایک رضاکار اور پولیس افسر کی شہادت کے بعد بچوں کی زندگی بچانے والی کوشش پھر معطل ہو گئی۔ بتایا گیا ہے کہ پشاور کے علاقے بڈبیڑ میں ہیلتھ کیئر سینٹر کے سامنے پولیس وین کو خودکار بم سے اڑا دیا گیا، دو افراد کی ہلاکت کے ساتھ 13 افراد زخمی ہو گئے۔ پشاور کے ایس ایس پی آپریشن کا کہنا ہے کہ سرکاری ڈسپنسری کے قریب ایک اور بم موجود تھا اگر وہ بم پھٹ جاتا تو پولیو کے قطرے پلانے والے کئی رضاکار جاں بحق ہو جاتے۔ اس علاقے میں 3بچوں میں پولیو کے جراثیم کا پتہ چلا ہے، یہ بچے اب اپاہج ہو جائیں گے۔ ملالہ پر قاتلانہ حملے کو ایک سال ہو گیا، وہ امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد ہو گئی۔ ادھر جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا سمیع الحق کا کہنا ہے کہ ملالہ یوسف زئی غیر اسلامی طاقتوں کی آلہ کار بن گئی ہے۔ پاکستانی طالبان کے ترجمان شاہد اﷲ شاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ طالبان پھر ملالہ یوسف زئی پر حملہ کریں گے۔
پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کا معاملہ گزشتہ صدی کی آخری دہائیوں سے متنازعہ ہے۔ خیبرپختونخوا کے دیہی اور شہر ی علاقوں میں انتہا پسندوں نے پولیو کے قطرے پلانے کے خلاف مہم چلائی، نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف پر حملے شروع ہوئے۔ گزشتہ سال سے کراچی کے مضافاتی علاقوں میں خواتین رضاکاروں کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا، چند ماہ قبل کراچی میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم میں شریک کئی رضاکار خواتین بموں کے حملوں میں شہید ہو گئیں۔ تاریخی حقائق کے جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ بعض انتہا پسند علما نے پولیو کے انسداد کی مہم کو غیر اسلامی سمجھنا شروع کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس جدید طریقے سے ممکنہ بیماریوں سے بچنے کی کوشش کی ہے جو کہ شریعت کے مطابق نہیں ہے۔ پھر یہ کہا جانے لگا کہ مغربی ممالک پولیو کے قطرے پلا کر بچوں کو بانجھ بنانا چاہتے ہیں تا کہ مسلمانوں کی آبادی کم ہو۔
کچھ علما کو اس مہم میں خواتین کی شرکت پر بھی اعتراض تھا، ان کا کہنا تھا کہ خواتین ویکسی نیٹرز پردے کے تمام لوازمات پورے نہیں کرتیں، ان ویکسی نیٹرز کا گھر میں موجود خواتین سے رابطہ ہوتا ہے، ان خواتین ویکسی نیٹرز کی بنا پر ان کی خواتین پر برے اثرات برآمد ہو سکتے ہیں۔ قبائلوں میں بانجھ بنانے پر خاصی تشویش پائی جاتی تھی۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ آبادی بڑھانے کو شریعت کے عین مطابق سمجھتا ہے۔ ان لوگوں میں بعض مذہبی رہنما، اساتذہ، ڈاکٹر وغیر ہ شامل ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ آبادی میں کمی کا معاملہ عیسائیوں اور یہودیوں کی سازش سے منسلک ہے، آبادی میں کمی کے لیے اقدامات نہیں ہونے چاہئیں۔ اگرچہ بچوں کو پولیو کے مرض کے قطروں کا بانجھ پن کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر رجعت پسندوں نے ان اہم معاملات کو ایک دوسرے سے منسلک کیا، بعض علما نے مساجد میں پولیو کے قطروں کے خلاف مہم چلائی۔
جب سوات میں مولانا فضل اﷲ کا عروج ہوا تو انھوں نے خواتین کی تعلیم اور پولیو کے قطرے پلانے کے خلاف تقاریر شروع کیں، ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو جدید تعلیم حاصل نہیں کرنی چاہیے نہ انھیں ملازمت کرنے کا حق ہونا چاہیے، وہ صرف مردوں کی تعلیم کے حق میں تھے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بیماریاں قدرت کی طرف سے آتی ہیں، ان کی مدافعت نہیں کرنی چاہیے۔ مولانا فضل اﷲ اس بات کے حق میں تھے کہ جس علاقے میں بیماری پھیلے، مسلمان اس علاقے کو چھوڑ سکتے ہیں۔ مولانا فضل اﷲ ایف ایم ریڈیو پر تقاریر کرنے کی شہرت رکھتے تھے۔ سوات کے ہزاروں لوگ ان کی تقاریر کو سنتے تھے، ان میں عورتیں شامل تھیں مگر سوات میں کسی اور کو حق نہیں تھا کہ اس رجعت پسند پروپیگنڈہ کا سامنا کر سکے۔
یہی وجہ تھی کہ طالبان کے سوات کے قبضے کے دوران پولیو کے قطرے پلانے کے علاوہ بچوں کو بیماریوں سے دور رکھنے کے لیے ٹیکے لگانے کی مہم نہیں چلائی جا سکی۔ اس دوران پیدا ہونے والے بچے کئی بیماریوں کا شکار ہوئے اور زندگی میں انھیں مزید نئی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکی سی آئی اے نے خیبر پختونخوا کے ڈاکٹر آفریدی کی زیر نگرانی اسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے ہیپاٹائٹس سی کے لیے خون کے قطرے جمع کرنے کی مہم خفیہ طور پر چلائی۔ یہ مہم ایبٹ آباد میں چلائی گئی تھی مگر جب اسامہ کی ہلاکت کے بعد امریکی اخبارات نے اس مہم کا ذکر کیا تو طالبان نے پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کو امریکی مہم سمجھ لیا۔ قبائلی علاقوں کے علاوہ کراچی میں بھی ان مہمات کے خلاف تشدد کے واقعات پیش آنے لگے۔ اس کے ساتھ ملالہ یوسف زئی کو یورپ اور امریکا میں ملالہ کی جدوجہد کو سراہنے کے ساتھ رجعت پسندوں نے پھر ملالہ کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
جب 2010ء میں سوات پر طالبان نے قبضہ کیا تو انھوں نے خواتین کے اسکول بند کر دیے، مخلوط تعلیم کو خطرناک جرم قرار دیا تھا۔ خواتین ڈاکٹروں کا مردوں کا علاج کرنے اور مرد ڈاکٹروں کا خواتین کا علاج کرنے کو سخت جرم قرار دیا گیا، خواتین اساتذہ کے علاوہ خواتین ڈاکٹر بھی گھروں میں مقید ہو گئیں، خواتین مرد ڈاکٹروں سے علاج نہ کرانے کی بنا پر سخت مشکلات کا شکار ہوئیں۔ ملالہ اگرچہ اس وقت کم عمر تھی مگر اپنے خاندان کے ماحول کی بنا پر اسے تعلیم حاصل کرنے سے گہری دلچسپی تھی، جب وہ انگریزی اسکول میں تعلیم سے محروم ہوئی تو ملالہ نے حالات کو ایک ڈائری کی شکل میں لکھنا شروع کیا وہ کیونکہ کمپیوٹر جانتی تھی اس لیے اس کی ڈائری بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر نظر آنے لگی۔ اس ڈائری میں طالبان کے علاوہ سیکیورٹی فورسز کی خلاف قانونی کارروائیوں کا ذکر تھا۔ عالمی رائے عامہ ملالہ کی طرف متوجہ ہوئی۔ جب سوات پر سے طالبان کا قبضہ ختم ہوا تو پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملالہ کی جرأت کو تسلیم کیا، اسے اعلیٰ ترین اعزاز دیا گیا۔ ملالہ کے لیے پشاور، اسلام آباد، کراچی میں پروگرام ہوئے۔ انتہا پسندوں کو ملالہ کی جرأت اور اس کی آزادی پسند نہیں آئی۔ ملالہ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کی توجہ اور عالمی برادری کی کوششوں سے ملالہ کو نئی زندگی ملی۔ ملالہ خواتین کی تعلیم اور جدوجہد کا سمبل بن گئی۔ مذہبی جماعتوں نے ملالہ پر حملے کی مذمت نہیں کی بلکہ سوشل میڈیا پر بعض رجعت پسند عناصر نے ایک غیر منطقی مہم چلائی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ملالہ پر حملہ نہیں ہوا، یہ سب امریکی سازش ہے۔ یہ لوگ اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے کہ طالبان نے تو کابل پر قبضے کے بعد خواتین اور اقلیتوں کو براہ راست نشانہ بنایا تھا اور قبائلی علاقوں میں لڑنے والی جنگ دنیا کی منفرد جنگ ہے، اس میں صرف خواتین کے اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ مولانا سمیع الحق ملالہ پر تو الزام لگا رہے ہیں مگر کسی صورت پولیو کے قطرے پلانے والی مہم کے کارکنوں پر حملوں کی مذمت نہیں کر رہے ہیں، یہی حال دوسری مذہبی جماعتوں کے رہنمائوں کا ہے۔ یہ صورتحال رجعت پسندوں کے دوہرے رویے کو آشکار کر رہی ہے۔
اس صورتحال میں سب سے مضحکہ خیز رویہ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کا ہے۔ ایک طرف طالبان سے مذاکرات کی وکالت کرتے ہیں اور ان کا دفتر کھولنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کرتے ہیں تو دوسری طرف برطانیہ کے امرا کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ پاکستان میں ایک جدید نظام قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس صورتحال میں طالبان سے بات چیت اور ان کی پشت پناہی کے خطرناک نتائج کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ اسلامی ممالک میں صرف پاکستان اور سوڈان میں بچوں میں پولیو کی بیماری سے بچائو کے خلاف مزاحمت ہو رہی ہے۔ یہ صورتحال نئی نسل کے لیے خطرناک ہے۔ پیپلز پارٹی، اے این پی پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کی بھرپور حمایت کرتی ہیں۔ مسلم لیگ ن اگرچہ ان جدید طریقوں کے حامی ہے مگر جب رجعت پسند حملہ آور ہوتے ہیں تو اس کے رہنما مدافعتی رویہ اختیار کرتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی حکومت نے ان حملوں کی مذمت کی ہے مگر طالبان سے ہمدردی کا اظہار کر کے اپنے موقف کو کمزور کرتی ہے۔ اب وقت ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں بچوں کی مستقبل کی خاطر ان حملوں کی مذمت کریں۔ آج سوات میں 26 ہزار بچے اسکولوں میں رجسٹرڈ ہو چکے ہیں، اس کا کریڈٹ ملالہ کو ملنا چاہیے، اور خواتین کے تعلیم کے حق اور خواتین کو برابری کے حقوق کی امین ملالہ یوسف زئی سے یکجہتی کا اظہار کریں۔
پشاور میں پولیو کے قطرے پلانے والے پھر شہید ہوگئے۔ ایک رضاکار اور پولیس افسر کی شہادت کے بعد بچوں کی زندگی بچانے والی کوشش پھر معطل ہو گئی۔ بتایا گیا ہے کہ پشاور کے علاقے بڈبیڑ میں ہیلتھ کیئر سینٹر کے سامنے پولیس وین کو خودکار بم سے اڑا دیا گیا، دو افراد کی ہلاکت کے ساتھ 13 افراد زخمی ہو گئے۔ پشاور کے ایس ایس پی آپریشن کا کہنا ہے کہ سرکاری ڈسپنسری کے قریب ایک اور بم موجود تھا اگر وہ بم پھٹ جاتا تو پولیو کے قطرے پلانے والے کئی رضاکار جاں بحق ہو جاتے۔ اس علاقے میں 3بچوں میں پولیو کے جراثیم کا پتہ چلا ہے، یہ بچے اب اپاہج ہو جائیں گے۔ ملالہ پر قاتلانہ حملے کو ایک سال ہو گیا، وہ امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد ہو گئی۔ ادھر جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا سمیع الحق کا کہنا ہے کہ ملالہ یوسف زئی غیر اسلامی طاقتوں کی آلہ کار بن گئی ہے۔ پاکستانی طالبان کے ترجمان شاہد اﷲ شاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ طالبان پھر ملالہ یوسف زئی پر حملہ کریں گے۔
پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کا معاملہ گزشتہ صدی کی آخری دہائیوں سے متنازعہ ہے۔ خیبرپختونخوا کے دیہی اور شہر ی علاقوں میں انتہا پسندوں نے پولیو کے قطرے پلانے کے خلاف مہم چلائی، نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف پر حملے شروع ہوئے۔ گزشتہ سال سے کراچی کے مضافاتی علاقوں میں خواتین رضاکاروں کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا، چند ماہ قبل کراچی میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم میں شریک کئی رضاکار خواتین بموں کے حملوں میں شہید ہو گئیں۔ تاریخی حقائق کے جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ بعض انتہا پسند علما نے پولیو کے انسداد کی مہم کو غیر اسلامی سمجھنا شروع کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس جدید طریقے سے ممکنہ بیماریوں سے بچنے کی کوشش کی ہے جو کہ شریعت کے مطابق نہیں ہے۔ پھر یہ کہا جانے لگا کہ مغربی ممالک پولیو کے قطرے پلا کر بچوں کو بانجھ بنانا چاہتے ہیں تا کہ مسلمانوں کی آبادی کم ہو۔
کچھ علما کو اس مہم میں خواتین کی شرکت پر بھی اعتراض تھا، ان کا کہنا تھا کہ خواتین ویکسی نیٹرز پردے کے تمام لوازمات پورے نہیں کرتیں، ان ویکسی نیٹرز کا گھر میں موجود خواتین سے رابطہ ہوتا ہے، ان خواتین ویکسی نیٹرز کی بنا پر ان کی خواتین پر برے اثرات برآمد ہو سکتے ہیں۔ قبائلوں میں بانجھ بنانے پر خاصی تشویش پائی جاتی تھی۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ آبادی بڑھانے کو شریعت کے عین مطابق سمجھتا ہے۔ ان لوگوں میں بعض مذہبی رہنما، اساتذہ، ڈاکٹر وغیر ہ شامل ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ آبادی میں کمی کا معاملہ عیسائیوں اور یہودیوں کی سازش سے منسلک ہے، آبادی میں کمی کے لیے اقدامات نہیں ہونے چاہئیں۔ اگرچہ بچوں کو پولیو کے مرض کے قطروں کا بانجھ پن کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر رجعت پسندوں نے ان اہم معاملات کو ایک دوسرے سے منسلک کیا، بعض علما نے مساجد میں پولیو کے قطروں کے خلاف مہم چلائی۔
جب سوات میں مولانا فضل اﷲ کا عروج ہوا تو انھوں نے خواتین کی تعلیم اور پولیو کے قطرے پلانے کے خلاف تقاریر شروع کیں، ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو جدید تعلیم حاصل نہیں کرنی چاہیے نہ انھیں ملازمت کرنے کا حق ہونا چاہیے، وہ صرف مردوں کی تعلیم کے حق میں تھے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بیماریاں قدرت کی طرف سے آتی ہیں، ان کی مدافعت نہیں کرنی چاہیے۔ مولانا فضل اﷲ اس بات کے حق میں تھے کہ جس علاقے میں بیماری پھیلے، مسلمان اس علاقے کو چھوڑ سکتے ہیں۔ مولانا فضل اﷲ ایف ایم ریڈیو پر تقاریر کرنے کی شہرت رکھتے تھے۔ سوات کے ہزاروں لوگ ان کی تقاریر کو سنتے تھے، ان میں عورتیں شامل تھیں مگر سوات میں کسی اور کو حق نہیں تھا کہ اس رجعت پسند پروپیگنڈہ کا سامنا کر سکے۔
یہی وجہ تھی کہ طالبان کے سوات کے قبضے کے دوران پولیو کے قطرے پلانے کے علاوہ بچوں کو بیماریوں سے دور رکھنے کے لیے ٹیکے لگانے کی مہم نہیں چلائی جا سکی۔ اس دوران پیدا ہونے والے بچے کئی بیماریوں کا شکار ہوئے اور زندگی میں انھیں مزید نئی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکی سی آئی اے نے خیبر پختونخوا کے ڈاکٹر آفریدی کی زیر نگرانی اسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے ہیپاٹائٹس سی کے لیے خون کے قطرے جمع کرنے کی مہم خفیہ طور پر چلائی۔ یہ مہم ایبٹ آباد میں چلائی گئی تھی مگر جب اسامہ کی ہلاکت کے بعد امریکی اخبارات نے اس مہم کا ذکر کیا تو طالبان نے پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کو امریکی مہم سمجھ لیا۔ قبائلی علاقوں کے علاوہ کراچی میں بھی ان مہمات کے خلاف تشدد کے واقعات پیش آنے لگے۔ اس کے ساتھ ملالہ یوسف زئی کو یورپ اور امریکا میں ملالہ کی جدوجہد کو سراہنے کے ساتھ رجعت پسندوں نے پھر ملالہ کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
جب 2010ء میں سوات پر طالبان نے قبضہ کیا تو انھوں نے خواتین کے اسکول بند کر دیے، مخلوط تعلیم کو خطرناک جرم قرار دیا تھا۔ خواتین ڈاکٹروں کا مردوں کا علاج کرنے اور مرد ڈاکٹروں کا خواتین کا علاج کرنے کو سخت جرم قرار دیا گیا، خواتین اساتذہ کے علاوہ خواتین ڈاکٹر بھی گھروں میں مقید ہو گئیں، خواتین مرد ڈاکٹروں سے علاج نہ کرانے کی بنا پر سخت مشکلات کا شکار ہوئیں۔ ملالہ اگرچہ اس وقت کم عمر تھی مگر اپنے خاندان کے ماحول کی بنا پر اسے تعلیم حاصل کرنے سے گہری دلچسپی تھی، جب وہ انگریزی اسکول میں تعلیم سے محروم ہوئی تو ملالہ نے حالات کو ایک ڈائری کی شکل میں لکھنا شروع کیا وہ کیونکہ کمپیوٹر جانتی تھی اس لیے اس کی ڈائری بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر نظر آنے لگی۔ اس ڈائری میں طالبان کے علاوہ سیکیورٹی فورسز کی خلاف قانونی کارروائیوں کا ذکر تھا۔ عالمی رائے عامہ ملالہ کی طرف متوجہ ہوئی۔ جب سوات پر سے طالبان کا قبضہ ختم ہوا تو پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملالہ کی جرأت کو تسلیم کیا، اسے اعلیٰ ترین اعزاز دیا گیا۔ ملالہ کے لیے پشاور، اسلام آباد، کراچی میں پروگرام ہوئے۔ انتہا پسندوں کو ملالہ کی جرأت اور اس کی آزادی پسند نہیں آئی۔ ملالہ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کی توجہ اور عالمی برادری کی کوششوں سے ملالہ کو نئی زندگی ملی۔ ملالہ خواتین کی تعلیم اور جدوجہد کا سمبل بن گئی۔ مذہبی جماعتوں نے ملالہ پر حملے کی مذمت نہیں کی بلکہ سوشل میڈیا پر بعض رجعت پسند عناصر نے ایک غیر منطقی مہم چلائی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ملالہ پر حملہ نہیں ہوا، یہ سب امریکی سازش ہے۔ یہ لوگ اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے کہ طالبان نے تو کابل پر قبضے کے بعد خواتین اور اقلیتوں کو براہ راست نشانہ بنایا تھا اور قبائلی علاقوں میں لڑنے والی جنگ دنیا کی منفرد جنگ ہے، اس میں صرف خواتین کے اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ مولانا سمیع الحق ملالہ پر تو الزام لگا رہے ہیں مگر کسی صورت پولیو کے قطرے پلانے والی مہم کے کارکنوں پر حملوں کی مذمت نہیں کر رہے ہیں، یہی حال دوسری مذہبی جماعتوں کے رہنمائوں کا ہے۔ یہ صورتحال رجعت پسندوں کے دوہرے رویے کو آشکار کر رہی ہے۔
اس صورتحال میں سب سے مضحکہ خیز رویہ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کا ہے۔ ایک طرف طالبان سے مذاکرات کی وکالت کرتے ہیں اور ان کا دفتر کھولنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کرتے ہیں تو دوسری طرف برطانیہ کے امرا کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ پاکستان میں ایک جدید نظام قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس صورتحال میں طالبان سے بات چیت اور ان کی پشت پناہی کے خطرناک نتائج کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ اسلامی ممالک میں صرف پاکستان اور سوڈان میں بچوں میں پولیو کی بیماری سے بچائو کے خلاف مزاحمت ہو رہی ہے۔ یہ صورتحال نئی نسل کے لیے خطرناک ہے۔ پیپلز پارٹی، اے این پی پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کی بھرپور حمایت کرتی ہیں۔ مسلم لیگ ن اگرچہ ان جدید طریقوں کے حامی ہے مگر جب رجعت پسند حملہ آور ہوتے ہیں تو اس کے رہنما مدافعتی رویہ اختیار کرتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی حکومت نے ان حملوں کی مذمت کی ہے مگر طالبان سے ہمدردی کا اظہار کر کے اپنے موقف کو کمزور کرتی ہے۔ اب وقت ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں بچوں کی مستقبل کی خاطر ان حملوں کی مذمت کریں۔ آج سوات میں 26 ہزار بچے اسکولوں میں رجسٹرڈ ہو چکے ہیں، اس کا کریڈٹ ملالہ کو ملنا چاہیے، اور خواتین کے تعلیم کے حق اور خواتین کو برابری کے حقوق کی امین ملالہ یوسف زئی سے یکجہتی کا اظہار کریں۔