شاباش جنرل کیانی
یہ کاروبار ہستی بڑے سے بڑے شخص کے اٹھ جانے کے بعد بھی اپنے معمول کے مطابق جاری و ساری رہتا ہے۔
سرکاری ملازم چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، سویلین ہو یا فوجی ایک نہ ایک دن اسے اپنے عہدے سے سبکدوش ضرور ہونا پڑتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ہر ذی نفس کو ایک دن اس جہان فانی سے کوچ کرنا ہوتا ہے۔ مرزا غالب نے جو فرمایا تھا کہ ''موت کا ایک دن معین ہے'' وہ سرکاری ملازم کی ریٹائرمنٹ پر بھی اسی طرح صادق آتا ہے۔ جس طرح دنیا سے چلے جانے والے اچھے شخص کو ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے اسی طرح سرکاری ملازمت سے نیک نامی سے ریٹائر ہونے والے عہدے دار کو بھی لوگ ہمیشہ اچھے الفاظ میں ہی یاد کرتے ہیں۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں جنھیں قوم ہمیشہ اچھے الفاظ میں ہی یاد کرے گی۔ ہمارے یہاں کسی بھی سرکاری ملازم کی مدت ملازمت میں توسیع کے پس پشت یہ سوچ یا دلیل کارفرما ہوتی ہے کہ اس کے بغیر گزارا ممکن نہیں ہے۔ گویا فلاں شخص ناگزیر ہے۔ حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا یہ کارخانہ کسی بھی شخص کے چلے جانے کے بعد بھی اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ اس حوالے سے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
خدا جانے یہ دنیا جلوہ گاہ ناز ہے کس کی
ہزاروں اٹھ گئے لیکن وہی رونق ہے مجلس کی
یہ کاروبار ہستی بڑے سے بڑے شخص کے اٹھ جانے کے بعد بھی اپنے معمول کے مطابق جاری و ساری رہتا ہے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کی مدت میں توسیع کے پیچھے بعض مفادات پوشیدہ ہوتے ہیں جو ذاتی بھی ہوسکتے ہیں اور گروہی بھی۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس رجحان کو چند فوجی طالع آزماؤں نے متعارف کرایا ہے اور پروان چڑھایا ہے جن میں فیلڈ مارشل(خودساختہ) ایوب خان کا نام سرفہرست ہے۔ انھوں نے ہی اپنے قلم سے خود کو توسیع دینے کی روایت کا آغاز کیا جس کا اختتام جنرل پرویز مشرف پر جاکر ہوا۔ اس قبیل کے فوجی طالع آزماؤں کی وجہ سے ہی پاکستانی فوج جوکہ دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے، خوامخواہ بدنام ہوئی حالانکہ امن اور جنگ دونوں حالات میں ہماری فوج ہی ملک و قوم کی حفاظت کا مقدس فریضہ انجام دیتی ہے اور قوم کی نظروں میں اسے ایک انتہائی باوقار مقام حاصل ہے۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے 29 نومبر 2013 کو اپنی مدت ملازمت کی میعاد ختم ہونے پر ریٹائرمنٹ کا اعلان کرکے نہ صرف اس حوالے سے ہونے والی مختلف قسم کی چہ میگوئیوں اور قیاس آرائیوں کو ختم کردیا ہے ملک و قوم اور پوری دنیا کی نظروں میں پاکستانی فوج کے امیج کو بھی انتہائی بلند کردیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے بھی ثابت کردیا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج اقتدار کی قطعی بھوکی نہیں ہے اور انھیں وطن عزیز میں جمہوری نظام کا فروغ صدق دل سے عزیز ہے۔ جنرل کیانی کے یہ الفاظ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں کہ انھیں چھ سال تک دنیا کی بہترین فوج کی قیادت کا موقع ملا اور انھوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور خلوص نیت کے ساتھ اس عظیم قوم کی خدمت کی، اب یہ دوسروں کی باری ہے کہ وہ پاکستان کو حقیقی جمہوری، خوش حال اور پرامن بنانے کے مشن کو آگے بڑھائیں۔
جنرل کیانی کا یہ کہنا بھی بالکل بجا اور درست ہے کہ ادارے اور روایات کسی فرد سے کہیں زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ وطن عزیز کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ کسی عالی مرتبت شخصیت نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمارے نظام حکومت اور انتظامی ڈھانچے میں جو بھی خرابیاں پائی جاتی ہیں اس کا بنیادی سبب بھی شخصیت پرستی کا رجحان ہی ہے جس کے نتیجے میں افراد مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے گئے اور ادارے کمزور سے کمزور تر ہوگئے۔ اس حقیقت کا اطلاق نہ صرف ہماری عسکری شخصیات پر ہوتا ہے بلکہ ہماری سیاسی شخصیات بھی اس زمرے میں آتی ہیں۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ ترقی اور استحکام ان ہی قوموں کے حصے میں آیا جنہوں نے ارادوں کو مضبوط و مستحکم کرنے پر زور دیا نہ کہ شخصیات اور افراد کو۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اگر جنرل کیانی بھی اپنے بعض سابقہ فوجی سربراہوں کی طرح اقتدار کے بھوکے ہوتے تو وہ مواقع سے فائدہ اٹھاکر بہ آسانی اقتدار پر قبضہ کرلیتے اور شاید حالات سے دل گرفتہ عوام انھیں بخوشی قبول بھی کرلیتے۔ مگر ان کی دیانت داری، خلوص نیت اور جمہوریت نوازی کی داد دینا پڑے گی کہ وہ ثابت قدم رہے اور اپنے پیشہ ورانہ فرائض سے ذرا بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ یہ ان کی حب الوطنی اور بے لوث جذبہ و خدمت کا سب سے بڑا اور ناقابل تردید ثبوت ہے جس کے لیے ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ ان کے اس مثالی کارنامے پر پوری قوم نہ صرف نازاں و فرحاں ہے بلکہ انھیں دل کی گہرائیوں سے سلام پیش کر رہی ہے۔
اس حقیقت سے بھی کون انکار کرسکتا ہے کہ جنرل کیانی کا دور ملک و قوم کی تاریخ کا سب سے نازک اور پرآشوب دور تھا اور ملک کو نہ صرف بیرونی بلکہ شدید ترین اندرونی خطرات کا بھی سامنا تھا۔ اس حوالے سے ان کا عسکری کیریئر قطعی غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا۔ انھوں نے نہ صرف بدترین حالات میں افواج پاکستان کی بہترین قیادت کی بلکہ جمہوریت کے ننھے اور نازک پودے کی بھی پورے خلوص سے آبیاری کی۔ جنرل کیانی نے اپنے بے داغ کردار سے ثابت کردیا کہ وہ ملک و قوم ہی کے نہیں بلکہ جمہوریت کے بھی سچے قدردان اور پاسبان ہیں۔ سب سے زیادہ قابل تعریف یہ بات ہے کہ انھوں نے اپنے بعد آنے والے تمام فوجی سربراہوں کو اخلاقی طور پر اس روش کا پابند کردیا کہ افواج پاکستان کا ملکی سیاست سے کوئی مفاد وابستہ نہیں ہونا چاہیے اور انھیں سیاست سے دور رہتے ہوئے اپنی تمام تر توانائیاں اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں پر ہی مرکوز کرنی چاہئیں۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی نے جن انتہائی دشوار حالات میں اپنے منصب کی ذمے داریاں سنبھالی تھیں وہ قطعی طور پر نامساعد تھے۔ ماضی کے کسی بھی فوجی سربراہ کو اس طرح کے حالات سے نبرد آزما نہیں ہونا پڑا۔ جنرل کیانی کی جگہ سنبھالنے والے نئے فوجی سربراہ کے سامنے بھی بے شمار چیلنج ہوں گے مگر کیانی صاحب کی مثال ان کے سامنے موجود ہوگی۔ انھیں ان روایات کو پروان چڑھانا ہوگا جو جنرل کیانی قائم کرکے رخصت ہورہے ہیں۔ اس میں صبر و استقامت کا مظاہرہ بھی شامل ہے اور اقتدار سے بے نیازی اور جمہوریت کی حفاظت اور پاسداری بھی۔
جنرل کیانی کی سبکدوشی کے ساتھ پاکستانی فوج کا ایک روشن اور درخشندہ باب اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ وہ پاکستان کے پہلے فوجی سربراہ ہیں جنہوں نے اپنی مرضی سے اور بہ رضا و رغبت اپنی ریٹائرمنٹ کا بروقت اعلان کیا ہے۔ ان کے اس صائب اور مستحسن فیصلے کو نہ صرف اندرون ملک بلکہ دنیا بھر میں سراہا جارہا ہے تمام سیاسی، صحافتی اور کاروباری حلقے ان کے اس دانشمندانہ فیصلے پر انھیں تہہ دل سے خراج تحسین پیش کر رہے ہیں اور گلی کوچوں میں ملک بھر کے عوام بھی ان کی بڑھ چڑھ کر تعریفیں کر رہے ہیں۔ ہم جنرل صاحب کو ان کے اس تاریخی فیصلے پر شاباش دیتے ہوئے ان کی خدمت میں صرف یہی عرض کرسکتے ہیں!
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا