قربانی کے دن
میں نے چار پانچ سال پہلے یہ شعر کہے تھے، مگر شعر پرانے ہو ہی نہیں رہے۔
KINGSTON:
قربانی کا مہینہ آن پہنچا۔ پانچ دن بعد عالم اسلام اﷲ کے حضور قربانیاں پیش کرے گا، حسب توفیق اونٹ، گائے، بکرے، بھیڑ، دنبے ذبح کیے جائیں گے۔ ہر سال حج کے موقع پر دنیا بھر کے مسلمان قربانی کا مذہبی فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اﷲ کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینے کا جذبہ ہر مسلمان میں ہونا چاہیے۔ مال و دولت حتیٰ کہ اولاد جیسی نعمت بھی اﷲ کی راہ میں قربان کرنا پڑے، تو کردو۔ ہزاروں سال پہلے یہ واقعہ ہو گزرا ہے کہ جب حضرت ابراہیم کو حکم الٰہی کے ذریعے کہا گیا کہ ''اے ابراہیم! اپنی عزیز ترین شے میری راہ میں قربان کردے۔'' حضرت ابراہیمؑ نے سر جھکایا اور اپنے پیارے بیٹے حضرت اسمٰعیل کے گلے پر چھری پھیر دی۔ اﷲ کو تو صرف نیت دیکھنا تھی۔ حضرت ابراہیمؑ سرخرو ہوئے اور حضرت اسمٰعیل کی جگہ عرش سے ایک دنبہ بھیجا گیا۔ حضرت ابراہیم نے دیکھا ان کے فرزند صحیح سلامت تھے اور ذبح شدہ دنبہ سامنے پڑا تھا۔ اﷲ کو اپنے پیغمبر حضرت ابراہیمؑ کی یہ اطاعت اس درجہ پسند آئی کہ اس نے اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں قربانی کو حج کے ساتھ لازم قرار دیا۔ ہر سال اسی سنت ابراہیمی کو ادا کرتے ہوئے دنیا بھر کے کروڑوں مسلمان اﷲ کی راہ میں جانور قربان کرتے ہیں اور قربانی کا یہ سلسلہ تین دن اور کہیں چوتھے دن بھی جاری رہتا ہے۔
اﷲ کی راہ میں حلال جانوروں کی قربانی تو تین دن جاری رہتی ہے، مگر اﷲ کے بندے سال کے پورے بارہ مہینے اپنی جانیں قربان کرتے گزارتے ہیں۔ پوری دنیا میں اﷲ کے بندے، دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ اﷲ کے منکر خودکش دھماکوں، ڈرون حملوں، دستی بموں، کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے خلق خدا کو مار رہے ہیں۔ دنیا بھر میں معصوم و بے گناہ انسان مارے جارہے ہیں۔ منفی قوتیں اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ہر طرف تباہی و بربادی کا کھیل کھیل رہی ہیں اور ان شیطانوں کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔ ہندو، مسلم، عیسائی، یہودی، سکھ غرض کہ ہر مذہب اور عقیدے کا ماننے والا شکار ہورہا ہے۔ 9/11 کا واقعہ ہو، بمبئی کا سانحہ ہو، پشاور کا چرچ ہو، جی ایچ کیو راولپنڈی ہو، میریٹ ہوٹل اسلام آباد ہو، کارساز بیس کراچی ہو، بلوچستان میں ہزارہ بستی ہو، لاہور کے پولیس ٹریننگ سینٹر ہوں، ہندوستان کی پارلیمنٹ ہو، مقبوضہ کشمیر کے مظلوم ہوں، ہندوستان پاکستان ہی نہیں، عراق، لیبیا، مصر، شام، سوڈان، اردن، فلسطین، صومالیہ، سب جگہ انسان قربان ہورہے ہیں۔ شیطانوں کے ہاتھوں انسان مارے جارہے ہیں اور:
ہمارے شہر کی کیا پوچھتے ہو!
شکاری ہیں لگائے گھات پیارے
جدھر دیکھو تباہی ہی تباہی
عدو کی بات ہے کیا بات پیارے
امیر شہر سے یہ پوچھنا ہے
یونہی رکھتے ہیں سر پر ہاتھ پیارے!
میں نے چار پانچ سال پہلے یہ شعر کہے تھے، مگر شعر پرانے ہو ہی نہیں رہے۔ آج بھی شہر کے حالات جوں کے توں ہیں۔ عید قرباں پھر آئی ہے، ہمیں کیا! ہم تو سارا سال یوں ہی گزارتے ہیں۔ گلی گلی، رستے رستے، بستی بستی، بکھرے انسانی اعضاء، بہتا انسانی خون، کہیں بھیجا باہر تو کہیں پیٹ کی انتڑیاں باہر۔ عید کے جانور تو خاموشی سے ذبح ہوجاتے ہیں، انسان گولیوں اور بموں کی خوفناک آوازوں کے ساتھ قربان کیے جاتے ہیں۔ جانور ذبح ہونے پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ گھر کی بیٹیاں، بہوئیں، کلیجی اور مغز تیار کرنے میں لگ جاتی ہیں۔ انسانوں کے قتل پر قاتل بھنگڑے ڈالتے ہیں۔ لاشوں کا جلوس نکالتے ہیں، بربریت کے سارے مظاہرے کیے جاتے ہیں۔ کسی زمانے میں بچے، بڑے، بوڑھے قربانی کا جانور ذبح ہوتے دیکھنے کے لیے جمع ہوجایا کرتے تھے۔ اب کہیں ایسا نہیں ہوتا۔ کیونکہ بچے، بڑے سارا سال ٹی وی پر یہ مناظر دیکھتے رہتے ہیں۔ اب قربانی کے بکروں، گائے، اونٹ کی بعد از قربانی کھلی آنکھوں کو کوئی نہیں دیکھتا۔ انسانی لاشوں کی کھلی آنکھیں بہت دیکھ لیں۔
بہت ہوچکا، اب بہت ہوچکا۔ انتہائیں ختم ہوچکیں۔ اب یہ انسانی قربان گاہیں، قتل گاہیں، عقوبت گاہیں ختم ہونی چاہئیں۔ قاتل، دہشت گرد پکڑے جائیں اور انھیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ ہمیں پھر سے پرامن شہر چاہیے۔ تاروں بھری چاندنی راتیں اور سورج سے دمکتے سنہرے دن۔ اب کوئی چلتر بازی نہیں چلے گی۔ بہت انسان قربان ہوگئے۔ بہت خون بہہ چکا، بہت گھر اجڑ گئے، بہت بچے یتیم ہوگئے، بہت سہاگنیں چوڑیاں توڑچکیں بہت قبرستان بھر چکے۔ بس! اب بس! اب آپریشن سارا صفایا کرکے ہی ختم ہونا چاہیے۔ ظلم خدا کا! کیا بانکا شہر تھا اور کیا بنادیا، جہاں راتیں جاگتی تھیں، اب دن ویران ہیں، جہاں بازار جگمگ کرتے تھے اب وہ سنسان ہیں، جہاں قہقہے اور مسکراہٹیں رنگ جماتے تھے، اب وہاں آہ و بکا، سسکیاں، آنسو اور بین کرتے ماں باپ، بہن بھائی ہیں، روتے بلکتے معصوم بچے ہیں، کہیں مذہب کے نام پر، کہیں عقیدے کی خاطر، انسان قتل ہورہا ہے۔ یہ کیسا وقت آگیا ہے؟
ہر وقت دل کو ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے، بچوں کو گھر سے باہر لے جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے، بچے اسکول جاتے ہیں تو واپسی تک ماں باپ سولی پر ٹنگے رہتے ہیں۔ یہ وحشی درندے، یہ انسان کہلانے کے بالکل حق دار نہیں ہیں۔ انھیں ختم کردو، یہ جو بچوں کے ساتھ، بچیوں کے ساتھ ''ظلم'' کرتے ہیں، یہ کسی رو رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔
کہتے ہیں انسان نے بڑی ترقی کرلی ہے۔ چاند فتح کرلیا ہے، مریخ تک رسائی ہوچکی، خلا میں قدم رکھ دیا، ''کیا فائدہ جو اپنے دیاروں میں شب رہی'' یہ کیسی ترقی ہے، یہ کیا ارتقاء ہے، جو کبھی سنا نہ تھا۔ آج اس انتہائی ترقی یافتہ دور میں سننے کو مل رہا ہے جو کبھی دیکھا نہ تھا۔ وہ دیکھ رہے ہیں۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ اتنا کچھ تباہ و برباد ہوجانے کے بعد انسانی جانوں کا زیاں ہونے کے بعد ظلم و بربریت اور انسانیت سوز مظالم کے بعد بھی ہمارے رہبروں، رہنماؤں، لیڈروں کے زبان و بیان میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وہی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے والی حرکتیں آج بھی جاری ہیں۔
خبر ہے کہ ہمارے جید علما کرام نے طالبان سے جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔ یعنی علما نے طالبان سے کہا ہے کہ مساجد پر خودکش حملے بند کردو۔ بازاروں میں معصوم لوگوں کو بلڈنگوں سمیت ملیامیٹ کرنا بند کردو۔ گرجا گھروں پر حملے بند کردو (پشاور چرچ کی ذمے داری جنداﷲ نے قبول کی)۔ خیر۔۔۔۔ چلو ٹھیک ہے، اﷲ کرے طالبان علما کرام کی بات مان کر بربریت بند کردیں، اور مذاکرات کے بعد امن و امان سے رہنا شروع کردیں۔ خدا کے لیے اب یہ سارے غیرانسانی کام بند کردو، بہت ہوچکا، بہت ہوچکا۔