روٹی روٹی کرے چنگیر

ملک بھر کے خاکروبوں کو مہینوں تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ہیں۔

zb0322-2284142@gmail.com

انتخابات سے قبل موجودہ حکمرانوں نے ''عرب بہار انقلاب'' کے توڑ میں یا خوف سے انقلاب، انقلاب کے نعروں کو اپنے جلسوں، جلوسوں اور تقاریر کا اہم موضوع بنالیا تھا۔ ایک طرف تو جناب طاہر القادری انقلاب کا نعرہ دیتے ہوئے نہ تھکے بلکہ اب بھی ان کا ورد جاری ہے۔ وہ کرپشن کے خاتمے کی بات کرتے ہیں اور اس کے نت نئے طریقے بھی بتاتے رہتے ہیں مگر اب تک انھیں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ سرمایہ داری میں رہتے ہوئے کرپشن کیونکر ختم ہوسکتی ہے۔ اگر غربت، کرپشن اور بے روزگاری کا خاتمہ اس نظام میں رہتے ہوئے ہوسکتا تھا تو پھر امریکا، یورپ، آسٹریلیا اور جاپان میں بھی ختم ہوچکا ہوتا۔ وہاں کروڑوں لوگ بے روزگار نہ ہوتے۔ طاہر القادری نجی ملکیت کے خاتمے، سامراجی سرمایہ کی ضبطگی، دفاعی بجٹ کا خاتمہ اور 18 کروڑ عوام کی فوجی تربیت، پیداوار پر پیداواری قوتوں کے قبضے کی بات بالکل نہیں کرتے۔ مگر انقلاب کی رٹ بھی نہیں چھوڑتے۔

پھر نواز شریف نے شاید ہی کسی جلسے میں ( انتخابات سے قبل) انقلاب کی بات نہ کی ہو مگر انتخابات کے بعد جب وہ وزیراعظم بنے تو کشکول ٹوٹا تو نہیں لیکن اس کا سائز بڑھ گیا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے قرض لیے۔ وہ شرائط یہ ہیں کہ عوام کو دی گئی سہولتیں واپس لو، ٹیکس کا پہاڑ لاد دو، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کرو، روپے کی قیمت میں مسلسل کمی کرو، طالبان سے ذرا پیچھے ہٹ کر لڑائی جاری رکھو، جن میں دونوں جانب ان کا اسلحہ بکتا رہے، اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان باتوں کو حکمرانوں نے چھپایا نہیں، شیروں کی طرح برملا اظہار بھی کیا۔ انھوں نے کہا کہ تین سال میں 65 اداروں کی نجکاری کریںگے، پی آئی اے کا 26 فیصد نجکاری کے لیے بیچنے کا فیصلہ بھی کرلیا، ریلوے کی ناجائز تجاوزات کو خالی کرنے کے نام پر ریلوے کی مزدور بستیوں سے ملازمین کو بے دخل کیا جارہا ہے۔ کے ای ایس سی کے دو درجن ڈائریکٹروں کو کروڑوں روپے گھر بیٹھے رقم (سیاسی بنیاد پر) تو ادا کی جارہی ہے لیکن منیجروں اور جونیئر افسروں کو نااہل کہہ کر ملازمت سے فارغ کردیا گیا ہے۔

ملک بھر کے خاکروبوں کو مہینوں تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ہیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکروں کو مستقل نہیں کیا جارہا ہے بلکہ جو مستقل ہیں انھیں تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی ہیں۔ چند طلبا کو لیپ ٹاپ تو بانٹے جارہے ہیں لیکن جی ڈی پی کا 2.5 فیصد تعلیم کا بجٹ مقرر کیا گیا ہے جب کہ اربوں روپے کی اسمبلی ممبروں، نوکر شاہی، اداروں کے افسران کی لوٹ مار پر کوئی قدغن نہیں۔لیاری کے کئی علاقوں میں 12 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں 15 ہزار افراد ہر روز غربت کی لکیر کے نیچے آرہے تھے، زرداری کے دور میں 25 ہزار اور اب 100 دنوں میں موجودہ حکومت کے دور میں 35 ہزار لوگ غربت کی لکیر کے نیچے چلے گئے ہیں۔ یہ ہے ان کا انقلاب یعنی امیر امیر تر اور غریب نہ صرف غریب تر بلکہ بے گور و کفن زندگی سے بھی ہاتھ دھو رہا ہے۔ یہ بھی ایک انقلاب ہے اور وہ ہے سرمایہ داروں کا انقلاب، تیسرا انقلاب عمران خان کا ہے۔


وہ انقلاب عالمی سامراج کے اثاثوں اور قرضوں کی ضبطگی کرنے یا اس کا مقابلہ کرنے کے بجائے سامراجی آلہ کاروں کو پاکستان میں دفتر کھولنے کی اجازت دینے کا مطالبہ ہے۔ جیل کے عملے کو روپوش کرکے رجعتی سامراجی لے پالکوں کو جیل سے آزاد کروانے کی سہولتیں مہیا کرنا ہے۔ پشاور میں خودکش حملے میں 83 افراد کی ہلاکت کے چار گھنٹے بعد پی ٹی آئی کے نمایندوں کا گرجا گھر پر پہنچنا بھی ایک انقلاب ہے۔ چوتھا انقلاب جماعت اسلامی اور جے یو آئی کا ہے۔ ان کے نمونے مصر میں واضح ہوگئے ہیں۔ اخوان المسلمون کی فطری بادشاہت اور فوجی حکومت کی سعودی بادشاہت حمایت کررہی ہے جب کہ ان دونوں کی امریکی سامراج سرپرستی کررہا ہے، ترکی، تیونس اور سوڈان میں اسلامی حکومتوں (سرمایہ داری) میں مہنگائی، بے روزگاری، افراط زر اور جبر کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہیں۔ کے پی کے اور وفاقی حکومت طالبان اور اوباما سے مذاکرات کرتے نظر آتے ہیں لیکن نجکاری کے اعلان کے بعد ان اداروں کی مزدور یونینوں کے نمایندوں سے مذاکرات نہیں کیے جاتے۔

پاکستان میں توانائی کے مصنوعی بحران کو سامراجی مفادات کے لیے عوام کے حقوق پر ڈاکا مارا جارہا ہے، جب کہ امریکا کی قابل تجدید توانائی کی قومی لیبارٹری کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ہوا سے 90 ہزار سے ایک لاکھ 31 ہزار 8 سو میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی استعدادکار ہے۔ تحقیق میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے اہم وسائل کی نشاندہی کی گئی ہے، جن میں حیدرآباد سے گھارو کا علاقہ اور کراچی سے حیدرآباد کے درمیان کی پہاڑی چوٹیاں شامل ہیں۔ اسی طرح شمالی پنجاب کی پہاڑی چوٹیاں اور مردان، اسلام آباد کے قریب کوریڈورز جب کہ چاغی، مکران کی پہاڑیاں اور ہوا کی گزرگاہوں پر ونڈ پلانٹ لگانے کے لیے علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس سے ہوا سے توانائی پیدا کرنے کے منصوبوں میں بڑے پیمانے پر عمل درآمد کیا جاسکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے لیے اتنی رقم کہاں سے آئے گی؟ ہم اپنے بجٹ کا بیش تر حصہ دفاع، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں اور سود کی ادائیگیوں پر خرچ کردیتے ہیں۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ دفاع سمیت بہت سے شعبوں کے بجٹ میں فی الحال 50 فیصد کمی کردیں اور 18 کروڑ عوام کو فوجی تربیت دیں ۔

دوسرا یہ کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کا جتنا ہم سود ادا کرچکے ہیں وہ قرضوں سے زیادہ ہے، اس لیے اب مزید قرضوں اور سود کی ادائیگی کے بجائے سارے قرضے بحق سرکار ضبط کرکے ونڈ کروڈورز پر لگادیں، باقی پیسوں کو کارخانے قائم کرنے اور بے روزگاری کے خاتمے میں لگایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سیکڑوں بڑے بڑے اسپتال، اسکول اور یونیورسٹیاں قائم کی جاسکتی ہیں۔ ہمیں موٹر وے، انڈر پاس اور بائی پاس نہیں چاہیے۔ یہاں پہلے لوگوں کو دال، چاول، آٹا، دودھ، گوشت، چینی اور تیل چاہیے۔ الیکٹرونک، الیکٹریکل آلات، اشیائے سجاوٹ اور غیر پیداواری اشیا کی قیمتوں میں مسلسل کمی اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں روزانہ کے حساب سے اضافہ ہورہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمیں کاسترو، ہیوگو شاویز، چی گویرا اور ہوچی منہ جیسے انقلابی جرأت مند، مخلص اور بہادروں کی ضرورت ہے۔ جو خود سامراجی کاسہ لیس ہوں وہ کیونکر ایسا کام انجام دے سکتے ہیں۔ یہاں جارج آرویل، ایما گولڈمان، باکونین اور پیترکروپوتکن جیسے انقلابیوں اور دانشوروں کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں حسن ناصر، نذیر عباسی اور ڈاکٹر تاج جیسے انقلابیوں کو آمریتوں میں قتل کیاگیا لیکن آج ہزاروں حسن ناصر پیدا ہورہے ہیں، ہم تو صرف بم اور میزائل بنانے میں مصروف رہتے ہیں، خواہ بلوچستان میں ہزاروں محنت کش زلزلوں میں ہلاک ہوں، زخمی ہوں یا لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہی کیوں نہ ہوں۔ آخر بلوچستان کے محنت کشوں کی مدد کیوں نہیں کی جاسکتی۔ یہاں تو مدد کرنے کے بجائے اسمبلی کارکنان، زلزلے کا اعلان سنتے ہی اسمبلی چھوڑ کر ایسا بھاگتے ہیں کہ ہرن بھی شرما جائے، ان سے تو کہیں اچھی اور قابل احترام رہنمائی ہوائی اور پانی کے جہاز کے پائلٹ اور کپتان کرتے ہیں۔ جب تک ایک سواری بھی جہاز میں موجود ہو وہ جہاز نہیں چھوڑتے۔ زلزلہ زدگان کی اب تک جتنی مدد کی جارہی ہے وہ اپنی مدد آپ ہے۔ ان مسائل کا مکمل حل تب ہی ممکن ہے جب اس ظالمانہ سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کا مکمل خاتمہ عمل میں لایا جائے۔
Load Next Story