اردو کی حفاظت قومی فریضہ……

اْردو پاکستان کی قومی زبان ہے اس کا شمار سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں ہوتا ہے۔


Abid Mehmood Azam 1 October 11, 2013

ISLAMABAD: ایکسپریس میڈیا گروپ کی جانب سے منعقد کی جانے والی ''اردو کانفرنس'' ایک قابل تقلید اور خوش آئند کاوش ہے۔وقتا فوقتا ایسی کانفرنسوں کا انعقاد اردوکی حفاظت میں بے مثال کردار ادا کر سکتا ہے۔ اردو کی حفاظت کرنا ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ہمارے ایک استاد محترم فرمایا کرتے تھے''بہت سے عوامل نے مل کر اردو کو تنزلی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ رفتہ رفتہ اردو کی شناخت مدہم ہوتی جارہی ہے۔ اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو اس کے بہت خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔اردو کے زوال سے ہماری مذہبیت پر بھی اثر پڑے گا۔کیونکہ ہماری مذہبی کتابیں عربی میں ہیں یاپھر اردو میں،عربی اکثریت کو آتی نہیں اور خدانخواستہ اگر اردو بھی ہاتھ سے نکل گئی تو ہم کورے ہی رہ جائیں گے۔ اس لیے اردو کی حفاظت کرنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح دین کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔''

برصغیر کی مشہور روحانی و مذہبی شخصیت مولانا اشرف علی تھانوی کو ایک بار اردو کانفرس(انڈیا) میں شرکت کی دعوت دی گئی تو حضرت نے جواب تحریر فرمایا:''اس خط کو پڑھ کر قلب میں ایک حرکت پیدا ہوئی کہ اس خدمت میں حصہ لیا جائے۔اس خاص خدمت کی طرف کسی نے توجہ بھی نہیں کی اور وہ یہ ہے کہ اس تحریک کا شرعی درجہ کیا ہے؟اس کی ضرورت بھی اس لیے محسوس ہوئی کہ اس وقت اس مسئلہ نے تمدن و قومیت سے بڑھ کر مذہبیت کی صورت اختیار کرلی ہے۔اس لیے خیال ہوا کہ اس کے متعلق ایک مختصر تحریر منضبط کرکے بھیج دی جائے۔ اس تحریر میں پہلے چند آیات اور حدیث و فقہ کی روایات نقل فرمائی گئی ہیں اور پھر ان سے اردو کی دینی و شعری حیثیت و درجہ کے متعلق نتائج اخذ فرمائے گئے ہیں۔معلوم ہوگیا کہ اس وقت اردو زبان کی حفاظت دین کی حفاظت ہے۔ اس بناپر یہ حفاظت حسب استطاعت ، اطاعت اور واجب ہوگی اور باوجود قدرت کے اس سے غفلت اور سستی کرنا معصیت اور موجب مواخذۂ آخرت ہوگا۔''اسی طرح برصغیر کے عظیم عالم دین علامہ انور شاہ کشمیری نے ایک بار اپنے شاگردوں کو وصیت کرتے ہوئے فرمایاـ:''اگرچہ میں نے عربی ذوق کے دفاع کے لیے ہمیشہ اردو زبان سے احتراز کیا، لیکن اب مجھے اس پر بھی افسوس ہے،برصغیر میں دین کی خدمت کے لیے اردو کو ذریعہ بنایا جائے،میں اس بارے میں آپ صاحبان کو خاص وصیت کرتا ہوں۔''

بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے بارہا ہندو اور انگریز لیڈروں کے سامنے اس بات کا برملا اعلان کیا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور ہم اس سے کسی صورت دست بردار نہیں ہوسکتے۔ 1908 میں جب پنجاب یونی ورسٹی کے ہندو وائس چانسلر ڈاکٹر چیٹرجی نے یونی ورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد میں کہا کہ پنجاب میں اردو کی جگہ پنجابی رائج کی جائے تو مسلمانان پنجاب اس بیان کے خلاف یک زبان ہو کر میدان میں نکل آئے۔ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، جس میں علامہ محمد اقبال، سرشیخ عبدالقادر، سرمحمد شفیع، مولانا سلیمان شاہ پھلواری اور دیگر مسلم رہنماؤں نے اردو کی حمایت میں مدلل تقاریر کیں اور ایک جامع قرار داد منظور کی، جس میں دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا کہ مسلمانان برصغیر اردو زبان سے کسی صورت دستبردار ہوں گے، نہ ہی اس کی جگہ کسی دوسری زبان کو رائج کرنے کی اجازت دیں گے۔

قائداعظم نے علی گڑھ یونی ورسٹی میں 1941 میں انگریزوں اور ہندوؤں کو مخاطب کرکے فرمایا تھا: ''مجھے پاکستان میں اسلامی تاریخ کی روشنی میں، اپنی ثقافت و روایات کے تحت اور اپنی اردو زبان کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی گزارنے دو۔''معروف شاعر جوش ملیح آبادی نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ انہوں نے ایک سرکاری افسر کو اردو میں خط لکھا۔ جواب انگریزی میں آیا تو انہوں نے انگریز افسر کو جواباً لکھا '' میں نے تو اپنی مادری زبان میں آپ کو خط لکھا تھا لیکن آپ نے اپنی پدری زبان میں مجھے جواب دیا ''۔ ہماری جتنی بھی عظیم ملی وقومی شخصیات کا تحریک پاکستان، قیام پاکستان اور تعمیر پاکستان میں کوئی قابل قدر کارنامہ ہے تو ان کی پہچان اردو زبان ہی تھی۔

اْردو پاکستان کی قومی زبان ہے اس کا شمار سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں ہوتا ہے۔ یہ علاقائی زبانوں سے کئی الفاظ ضم کررہی ہے۔ اْردو کا یہ لہجہ اب پاکستانی اْردو کہلاتی ہے۔ علاقائی زبانیں بھی اْردو کے الفاظ سے اثر پارہی ہیں۔ پاکستان میں کروڑوں افراد ایسے ہیں جن کی مادری زبان کوئی اَور ہے لیکن وہ اْردو کو بولتے اور سمجھ سکتے ہیں۔ ماہرین لسانیات کے بقول اردو انتہائی ثروت مند زبان ہے کیونکہ اس میں انتہا درجہ کی لچک یعنی خیالات، جذبات اور افکار کے اظہار میں بلاغت و فصاحت اور دیگر زبانوں کے الفاظ سمونے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ اگرچہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے لیکن عملاً یہ زبان اپنوں کے درمیان ہی کسمپرسی اور زوال کا شکار ہوتی جارہی ہے۔اب تواہل اردو بھی اردو سے کنارہ کشی اختیار کرتے جارہے ہیں۔ بول چال کی زبان کے اعتبار سے تو اس کا مستقبل بہت حد تک محفوظ نظر آتا ہے البتہ اس کا اسکرپٹ یقیناً شدید خطرات کی زد میں ہے۔ حالانکہ جس زبان میں کسی قوم کا مذہبی، اخلاقی، سماجی، ثقافتی، علمی، تاریخی ورثہ محفوظ ہو، اگر وہی زبان آنے والی نسلوں تک پہنچنے سے رہ جائے، تو اس قوم کے ذہن و قلب کو غلامی کا طوق پہناناکسی دوسری قوم کے لیے چنداں مشکل نہیں ہوتا۔

اہم نکتہ یہ ہے کہ اردو کو اس کا اپنا مقام عطا کرنے اور دنیا کی دیگر زبانوں کے ہم پلہ بنانے کے لیے ہمارا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔ ہماری آزمائش اب شروع ہوچکی ہے کیونکہ اردو کی کشتی آج ایک صبر آزما طوفان سے گزر رہی ہے۔''

ابھی وقت ہمارے ہاتھوں سے نکلا نہیں، اگر ہم اپنے نظام تعلیم میں اس کا جائز مقام دیتے ہوئے مکمل نصاب تعلیم اردو میں کردیں تو اس کا رسم الخط بھی بچ سکتا ہے اور اس میں موجود عظیم تہذیبی ورثے کی حفاظت بھی کی جا سکتی ہے اور قومیں ہمیشہ ترقی بھی اپنی ہی زبان میں کرتی ہیں۔ اردو کو بے دخل کرنے کے نتیجے میں ہماری نوجوان نسل اسلام، جذبہ حب الوطنی، اپنے قومی وملی ورثے اور زبانِ اردو میں موجود بے شمار قیمتی کتب سے مکمل طو رپر کٹتی جارہی ہے۔ جو قومیں اپنی زبان سے لاتعلق ہوجاتی ہیں، وہ تاریخ کی گزرگاہوںمیں اپنا تشخص بھی گم کربیٹھتی ہیں اور اپنے اصل سے بھی محروم ہوجاتی ہیں۔ ہمیں اپنے قومی ورثے اور اپنی قومی زبان پر فخر کرنا چاہیے۔

اْردو چونکہ دنیا کی بیشتر بڑی زبانوں کے مقابلے میں کسی مخصوص قوم یا جغرافیے کی بنیادی خصوصیات سے محروم ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس کے فروغ کے لیے بھی الگ سے کوئی فارمولا وضع کیا جائے۔ اردو زبان کی حفاظت کے لیے سب کو مل کر ہر ممکن کوشش کرنا ہوگی۔ ملک کے تمام تعلیمی اداروں، محبان اردو اور تمام اردو جرائد و اخبارات کواپنا قومی و دینی فریضہ سمجھتے ہوئے اردو کو تنزلی سے بچانے کی کوئی سبیل نکالنی چاہیے۔ اس کے لیے''ایکسپریس میڈیا گروپ'' کی پیروی کرتے ہوئے وقتا فوقتاً اردو بزموں کا انعقاد کافی حد تک معین و مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں