طالبان اور پرامن مذاکرات…

اس کے ابتدائی مرحلے میں جب طالبان اور حکومت کے مابین بات چیت کے لیے فریم ورک پر معاملات طے پارہے تھے

11 مئی 2013 کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے وقت مسلم لیگ (ن) کا طالبان سے مذاکرات کا ایجنڈا اس کے منشور کے اہم نکات میں تھا، جسے عملی جامہ پہنانے کے لیے میاں نواز شریف نے حکومت کی تشکیل کے بعد باقاعدہ حکمت عملی مرتب کی۔ طالبان سے امن مذاکرات کے حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں سے مشورے بھی کیے گئے اور جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق گروپ کے سربراہ نے ان مذاکرات کی پیش رفت کے لیے اپنی خدمات کی پیش کش بھی کی۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں منعقدہ اے پی سی میں پاکستان کی سالمیت اور امن کے قیام کے لیے طالبان سے پرامن مذاکرات پر ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے حمایت کا اعلان کیا۔ دوسری جانب طالبان کی طرف سے بھی ان مذاکرات کے لیے آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ امریکا صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ان مذاکرات کا حامی ہے لیکن درپردہ ڈرون حملے کرکے ان کو سبوتاژ کرنے میں مواقع بنا رہا ہے۔

اس کے ابتدائی مرحلے میں جب طالبان اور حکومت کے مابین بات چیت کے لیے فریم ورک پر معاملات طے پارہے تھے تب ڈرون حملہ کرکے طالبان کمانڈر ولی رحمان محسود کو ہلاک کیا۔ ڈرون حملوں کا سلسلہ نہ رکا اور نہ ہی تھما جب کہ طالبان کی پرامن مذاکرات کی شرائط میں ڈرون حملوں کی روک تھام، پاک فوج کی وزیرستان سے واپسی اور طالبان کے گرفتار کارکنان کی رہائی شامل ہے۔ حکومت نے بھی ان کی شرائط کو پاکستان کے وسیع تر مفاد کی خاطر عمل درآمد کرنا شروع کردیا ہے۔ ان میں طالبان کے گرفتار لوگوں کی مرحلہ وار رہائی کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ البتہ ڈرون حملوں سے متعلق اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار امریکا سے پاکستان حکومت نے اپنے ابتدائی ایام سے کرنا شروع کردیا تھا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف سے مذاکرات کی پیش رفت کے سلسلے میں پنجابی پشتون طالبان میں اختلافات پیدا کردیے ہیں۔ پنجابی طالبان رہنما عصمت اﷲ معاویہ کو امن مذاکرات کے خیرمقدم کے طور پر فارغ کرکے انھیں میڈیا سے رابطوں اور کسی قسم کی بات چیت سے منع کردیا جب کہ عصمت اﷲ معاویہ نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایگزیکٹو کونسل کے پاس ان کی معزولی کے اختیارات نہیں، ان کی الگ شوریٰ ہے کیونکہ یہ اس طرح کے مذاکرات کو تسلیم نہیں کرتے۔

حکومت کی جانب سے طالبان سے امن مذاکرات کے حق میں فیصلے کے باوجود ملک میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے ہیں، جن میں نانگا پربت پر غیرملکیوں پر حملہ، ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر حملہ، اپر دیر میں پاک فوج کے افسروں کی بارودی سرنگ کے دھماکے میں ہلاکت اور اب پشاور میں مسیحی برادری کی عبادت گاہ پر حملہ نمایاں ہیں۔ عام خیال ہے کہ کیا اب بھی حکومت کی جانب سے ان دہشت گرد حملوں کے باوجود طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوششیں جاری رکھی جائیں گی؟ اس صورت حال کے تناظر میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کہتے ہیں کہ حالیہ واقعات بلاشبہ امن مذاکرات کی راہ میں الجھنیں پیدا کر رہے ہیں لیکن یہ معاملات ایسے نہیں کہ جن کی وجہ سے پالیسیاں تبدیل کی جائیں یا ان میں روزانہ کی بنیاد پر یا پھر ایک دو واقعات کی وجہ سے رد و بدل کیا جائے۔

پشاور میں گرجا گھر پر حملے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس واقعے سے لگتا ہے کہ ملک میں عملداری اور حاکمیت حکومت کے بجائے انتہاپسندوں یا شدت پسندوں کی ہے۔ حکومت کسی بھی طرح لاتوں کے بھوتوں کو باتوں سے سیدھا نہیں کر پا رہی۔ اختلاف مذہب و مسلک کو بنیاد بنا کر بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا جارہا ہے، جو انسانیت سوز عمل سے کم نہیں۔ اسلام کا ادنیٰ سے ادنیٰ طالب علم بھی اس بات سے بے خبر نہیں کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلم آبادی کو مسلمانوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں اور ان کے تحفظ کی ذمے داری اسلامی ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ ریاست میں کسی گروہ یا فرد کو اختیار حاصل نہیں کہ وہ بے گناہ غیر مسلم شہریوں کا قتل عام کرے۔


پشاور خودکش حملوں سے عالمی برادری میں ملک کا سر شرم سے جھک گیا اور اس سانحے پر نہ صرف عالمی سطح پر اس کی بھرپور مذمت کی جارہی ہے بلکہ پاکستان میں بسنے والے شہری بھی اس خون ریزی کی کارروائیوں پر چلا اٹھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک بھر میں مذہبی آزادی سلب ہورہی ہے، نمازیوں کو مسجدوں میں سیکیورٹی کے خدشات لاحق ہیں جب کہ غیر مسلموں کو اپنی عبادت گاہوں میں عدم تحفظ کی صورت حال درپیش ہے۔ آپس میں محبت و اخوت کے احساسات معدوم ہورہے ہیں۔ بقول شاعر:

نہ مروت، نہ محبت، نہ خلوص محسن

میں تو شرمندہ ہوں، اس دور کا انساں ہوکر

طالبان کا حملوں پر جواز ہے کہ یہ حملے یا اس طرح کی کارروائیوں کا پیش خیمہ ڈرون حملے ہیں اور جب تک ڈرون حملوں کا خاتمہ نہیں ہوتا غیر مسلموں اور غیرملکیوں پر خودکش حملوں کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ اس صورتحال سے ملک میں خانہ جنگی کے خدشات خارج از امکان نہیں۔ بین الاقوامی میڈیا میں خبر گرم ہے کہ اپر دیر اور پشاور حملوں کی ذمے داری اگرچہ طالبان نے قبول کرلی ہے لیکن سرکاری ذرایع ابھی تک طالبان کا نام لینے سے گریزاں ہیں۔ لگتا ہے کہ پاکستان کے موجودہ حکمران طالبان سے کچے دھاگوں والے رشتوں سے بندھ چکے ہیں اور ان دہشت گرد واقعات کے خلاف طالبان کا نام لیتے ہوئے اس طرح شرماتے ہیں جیسے کسی دیہاتی عورت سے اس کے خاوند کا نام لینے کو کہا جائے تو وہ شرما جاتی ہے۔
Load Next Story