کیاانصاف حاصل کرنے کے لیے خودکشی کی جائے
شائداب ہمارے عظیم ملک میں انصاف حاصل کرنے کے لیے خودکشی کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا!
ایم او کالج لاہور کے ایک لیکچرار نے خودکشی کرلی۔ اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا خط میرے سامنے میز پر پڑا ہوا ہے۔ محمد افضل محمود انگریزی زبان و ادب کا اُستاد تھا۔ تصویر میں تیس پنتیس برس کا نظر آ رہا ہے۔ عام سا آدمی۔ مگر اس کے اندر جو ٹوٹ پھوٹ جاری تھی، کوئی اس کا اندازہ نہیں لگا سکا۔ نہ اس کے اہل خانہ، نہ کالج کی انتظامیہ اور نہ ہی اس کے طالبعلم۔
اس کے دوسطری خط نے ہمیں اپنے معاشرہ کی اصل تصویر دکھا دی ہے۔ وہ چہرہ جسے دیکھنے سے تمام اہل قلم گھبراتے ہیں۔ نوے فیصد لوگ تو خیر سماج کی تلخ حقیقتوں کو من و عن تسلیم ہی نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک تو اس ملک میں صرف فرشتے رہتے ہیں۔ ویسے شائد وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ دس نمبر ملک میں اور کون رہ سکتا ہے۔
افضل محمود کون تھا۔ کہاں سے آیا۔ نوکری کیسے ملی۔ مجھے کچھ علم نہیں۔ جاننا بھی نہیں چاہتا۔ اس لیے کہ ہر پڑھے لکھے شخص کی طرح وہ بھی ''بے حیثیت'' تھا۔ اس ملک کی بات کر رہا ہوں۔ ورنہ مغربی دنیا میں اُستاد سے اوپر کوئی پیشہ نہیں ہے۔ اس کا قصور کیا تھا۔ یہ اہم ترین نکتہ ہے۔ اسی پر بات شروع ہوتی ہے اور یہیں ختم ہوتی ہے۔ میڈیا کی خبر کے مطابق کالج میں ایک طالبہ کو اس بدقسمت لیکچرار نے ڈانٹا اور بطور اُستاد کہاکہ وہ اس کی خواہش پر نمبر نہیں بڑھا سکتا۔
پھر اسی سال جولائی میں لڑکی نے کالج انتظامیہ کو تحریری شکایت کی کہ افضل طالبات سے بدتمیزی کرتا ہے بلکہ اس شکایت میں ''جنسی ہراسگی'' Sexual Harassment کا الزام بھی شامل تھا۔ ایسا الزام دراصل کسی بھی لڑکی کے پاس ایسا ہتھیار ہے جس کا ہمارے جیسے ملکوں میں کوئی توڑ بھی نہیں ہے۔
مغرب میں بہرحال صورتحال ہمارے معاشرے سے بالکل متضاد ہے۔ وہاں اگر کوئی شکایت کرتا ہے کہ اسے کوئی جنسی طور پر ہراساں کر رہا ہے۔ تو اس شکایت کا جائزہ لینے کے طریقہ کار میں عورت اور مرد کا امیتاز نہیں کیا جاتا ۔ قانون کے مطابق عورت اور مرد کو برابر کا فریق تسلیم کیا گیا ہے اور ایک فریق کو جنس کی بنیاد پر دوسرے پر کوئی فوقیت نہیں ہے۔ لیکن ہمارے جیسے ملک میں اگر کوئی لڑکی یا خاتون اس طرح کی شکایت کرے تو اسے لازما ًدرست سمجھا جاتا ہے۔
عام تصور یہی ہے کہ کوئی بھی لڑکی اس معاملے میں غلط بیانی سے کام نہیں لے گی۔ مگر اس خام خیالی کو درست ہونا چاہیے۔ جتنی ہراسگی مرد کر سکتا ہے، اتنی ہی عورت بھی کر سکتی ہے۔ ہماری سوچ اور قانون کو صرف سچ کے ساتھ ہونا چاہیے ناکہ عام معاشرتی روئے کے ساتھ۔ مگر بہرحال یہاں کی سماجی درستگی میں شائد وقت لگے یا شائد یہ رویہ کبھی بھی درست نہیں ہو سکتا۔
میڈیا میں جو اطلاعات آئی ہیں، ان کے مطابق افضل محمود کے خلاف شکایت کی تحقیقات کے لیے انتظامیہ نے کمیٹی تشکیل کی جس میں ایک خاتون پروفیسر بھی شامل تھی۔ انھوں نے پروفیسر افضل کے خلاف الزامات غلط قرار دیا۔ یہ انکوائری رپورٹ 13 جولائی کو مکمل کر کے انتظامیہ کو بھجوا دی گئی۔ یعنی8 شکایت کے تقریباً پانچ دن میں تحقیقات مکمل کر لی گئیں۔ جولائی سے اکتوبر تک یہ رپورٹ انتظامیہ کے پاس پڑی رہی۔ مجھے اصل حقائق کا قطعاً علم نہیں مگر بادی النظر میں انکوائری رپورٹ کا اتنے عرصے کے لیے پڑے رہنا، بے جواز نظر آتا ہے۔
اسی اثناء میں افضل محمود بار بار لکھتا رہا کہ اسے تحقیقات کی روشنی میں بے گناہ ہونے کا خط جاری کیا جائے تا کہ اس کے پاس کوئی دستاویزاتی ثبوت موجود رہے۔ مگر نامعلوم وجوہات کی بنیاد خط جاری نہیں کیا۔ پروفیسر اتنے کرب اور دکھ میں مبتلاہو گیا۔ اسی ذہنی کشمکش میں گھریلو حالات بھی بگڑ گئے۔ اہلیہ اسے چھوڑ کر چلی گئی۔ پروفیسر کے لیے یہ تمام معاملات عذاب کی صورت اختیار کر گئے۔
صرف ایک خط کی تلاش تھی جو اسے بے گناہ ثابت کر سکے۔ اکتوبر کی آٹھ تاریخ کو اس نے خاتون پروفیسر کو انگریزی میں خط لکھا جس میں ساری روداد لکھی۔ اپنی ذہنی کیفیت بھی بیان کی۔ طالبہ کارول نمبر بھی تھا۔ اس کے بعد یہ بھی لکھا کہ لڑکی کو کالج سے نکالا جائے تا کہ دیگر اساتذہ محفوظ رہیں۔ اس نے یہاں تک درج کیا کہ اگر وہ مر جائے تو تنخواہ اس کی والدہ کے حوالے کی جائے۔ مزید، اس کی والدہ کو ایک سرٹیفکیٹ بھی دیا جائے کہ اس کا بیٹا اچھے کردار کا مالک تھا۔
یہ خط کالج کے پرنسپل کی جانب سے جاری ہونا چاہیے۔ اس خط کا ایک ایک لفظ بتا رہا تھا کہ پروفیسر شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھا۔ حددرجہ بدقسمتی یہ ہے کہ وہ خط جو اس کودستاویزاتی طور پر بے گناہ قرار دے پائے جاری نہیں ہو سکا۔ اس خط کے ٹھیک ایک دن بعد یعنی9 تاریخ کو افضل نے تین سطری نوٹ لکھا۔ یہ نوٹ یاخط نہیں بلکہ ایک نوحہ ہے۔ ایک بے گناہ کی فریا دہے۔ اس نے درج کیا کہ وہ یہ تمام معاملہ خدا کی عدالت پر چھوڑتا ہے۔
پولیس کے متعلق بھی لکھا کہ اس معاملے کی کوئی انکوائری نہ کرے اور کسی کو بھی تنگ نہ کرے۔ اگر دیکھا جائے تو پروفیسر نے اس طالبہ کو بھی معاف کر دیا۔ اس نوٹ کے بعد، افضل نے زہر کھایا اورجہان فانی سے کوچ کر گیا۔ اس نوجوان پروفیسر نے خودکشی تو کر لی مگر ہمارے معاشرے کی ایک ہولناک صورت ہمیں دکھا گیا۔ بدبودار اور بگڑا ہوا سماج جس کو ہم کبھی بھی تسلیم نہیں کرتے کیونکہ اپنی ہولناک تصویر دیکھنے کے لیے بہت ظرف چاہیے۔ جو بہرحال اوپر سطح سے لے کر نیچے تک خطرناک حد تک کم ہے۔
افضل کی خودکشی سے کئی سوالات اُٹھتے ہیں۔ پہلا سوال تو یہ کہ جنسی ہراسگی کو صرف اور صرف مرد سے کیوں منسوب کیا جاتا ہے؟ اس فکر میں بہرحال تبدیلی کی ضرورت ہے کہ خاتون بھی مرد پر بہتان لگا سکتی ہے۔ اس کے متعلق جھوٹے الزامات لگا سکتی ہے۔ اس موقعہ پر گلوکار علی ظفر کیس کی مثال بھی دی جا سکتی ہے ۔
دوسرا سوال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ کالج کی انتظامیہ اس قدر سست کیسے رہی کہ صرف ایک خط جاری کرنے سے تین ماہ تک گریزاں رہی۔ آخر وہ کون سے عوامل تھے، جن کی بنا پر ایک خط جاری نہ ہو سکا۔ کیا اس خط کوجاری کرنے کے لیے وزیراعظم، وزیراعلیٰ یا وزیرتعلیم سے اجازت کی ضرورت تھی۔ ہرگز نہیں۔ یہ مقامی سطح کا انتظامی معاملہ تھا جسے میرٹ پر حل نہیں کیا گیا۔ میرا مشورہ ہے کہ اس معاملے کی جانچ ہونی چاہیے۔ تیسری بات یہ کہ اگر پروفیسر پر الزام غلط تھا تو فریق مخالف کے خلاف کارروائی کیوں نہ ہوئی؟ ورنہ مغربی ممالک میں تو بہتان لگانا بہت سنجیدہ جرم ہے، جس کی سزا دس سے پندرہ برس تک ہے۔
میں خواتین کی برابری اور ان کے یکساں حقوق کے لیے ہمیشہ لکھتا آیا ہوں۔ آج بھی اس فلسفہ پر قائم ہوں کہ عورت کے قانونی، سماجی اور خاندانی حقوق ہر طور پر مرد کے برابر ہیں۔ ان کو زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع ہرصورت میں ملنے چاہییں۔ اگر کوئی شخص، خواتین کے حقوق کی بے حرمتی کرے، تو اسے قرار واقعی سزاملنی چاہیے۔
مگر اس کے بالکل ساتھ یہ بھی عرض کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ عورت بھی مرد پر جھوٹے الزامات نہیں لگا سکتی ہے۔ اگر بے لاگ تحقیقات کے بعد یہ ثابت ہو جائے کہ مرد پر لگائے گئے الزامات بالکل ناجائز اور خود ساختہ ہیں، تو خاتون کو صنف نازک ہونے کا فائدہ نہیں دینا چاہیے۔ اس کے خلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔
افضل زہرکھاکر مرگیا۔ مرنے کے بعد تواس کی فائل ویسے ہی بند ہو جائے گی۔ اس لیے کہ مرنے کے بعد تو جزا اور سزا تو صرف خدا کے ہاتھ میں ہے۔ مگر اس نے خودکشی کر کے یہ ضرور ثابت کر دیاکہ معاشرہ کس درجہ ادنیٰ ہے۔ شائداب ہمارے عظیم ملک میں انصاف حاصل کرنے کے لیے خودکشی کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا!
اس کے دوسطری خط نے ہمیں اپنے معاشرہ کی اصل تصویر دکھا دی ہے۔ وہ چہرہ جسے دیکھنے سے تمام اہل قلم گھبراتے ہیں۔ نوے فیصد لوگ تو خیر سماج کی تلخ حقیقتوں کو من و عن تسلیم ہی نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک تو اس ملک میں صرف فرشتے رہتے ہیں۔ ویسے شائد وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ دس نمبر ملک میں اور کون رہ سکتا ہے۔
افضل محمود کون تھا۔ کہاں سے آیا۔ نوکری کیسے ملی۔ مجھے کچھ علم نہیں۔ جاننا بھی نہیں چاہتا۔ اس لیے کہ ہر پڑھے لکھے شخص کی طرح وہ بھی ''بے حیثیت'' تھا۔ اس ملک کی بات کر رہا ہوں۔ ورنہ مغربی دنیا میں اُستاد سے اوپر کوئی پیشہ نہیں ہے۔ اس کا قصور کیا تھا۔ یہ اہم ترین نکتہ ہے۔ اسی پر بات شروع ہوتی ہے اور یہیں ختم ہوتی ہے۔ میڈیا کی خبر کے مطابق کالج میں ایک طالبہ کو اس بدقسمت لیکچرار نے ڈانٹا اور بطور اُستاد کہاکہ وہ اس کی خواہش پر نمبر نہیں بڑھا سکتا۔
پھر اسی سال جولائی میں لڑکی نے کالج انتظامیہ کو تحریری شکایت کی کہ افضل طالبات سے بدتمیزی کرتا ہے بلکہ اس شکایت میں ''جنسی ہراسگی'' Sexual Harassment کا الزام بھی شامل تھا۔ ایسا الزام دراصل کسی بھی لڑکی کے پاس ایسا ہتھیار ہے جس کا ہمارے جیسے ملکوں میں کوئی توڑ بھی نہیں ہے۔
مغرب میں بہرحال صورتحال ہمارے معاشرے سے بالکل متضاد ہے۔ وہاں اگر کوئی شکایت کرتا ہے کہ اسے کوئی جنسی طور پر ہراساں کر رہا ہے۔ تو اس شکایت کا جائزہ لینے کے طریقہ کار میں عورت اور مرد کا امیتاز نہیں کیا جاتا ۔ قانون کے مطابق عورت اور مرد کو برابر کا فریق تسلیم کیا گیا ہے اور ایک فریق کو جنس کی بنیاد پر دوسرے پر کوئی فوقیت نہیں ہے۔ لیکن ہمارے جیسے ملک میں اگر کوئی لڑکی یا خاتون اس طرح کی شکایت کرے تو اسے لازما ًدرست سمجھا جاتا ہے۔
عام تصور یہی ہے کہ کوئی بھی لڑکی اس معاملے میں غلط بیانی سے کام نہیں لے گی۔ مگر اس خام خیالی کو درست ہونا چاہیے۔ جتنی ہراسگی مرد کر سکتا ہے، اتنی ہی عورت بھی کر سکتی ہے۔ ہماری سوچ اور قانون کو صرف سچ کے ساتھ ہونا چاہیے ناکہ عام معاشرتی روئے کے ساتھ۔ مگر بہرحال یہاں کی سماجی درستگی میں شائد وقت لگے یا شائد یہ رویہ کبھی بھی درست نہیں ہو سکتا۔
میڈیا میں جو اطلاعات آئی ہیں، ان کے مطابق افضل محمود کے خلاف شکایت کی تحقیقات کے لیے انتظامیہ نے کمیٹی تشکیل کی جس میں ایک خاتون پروفیسر بھی شامل تھی۔ انھوں نے پروفیسر افضل کے خلاف الزامات غلط قرار دیا۔ یہ انکوائری رپورٹ 13 جولائی کو مکمل کر کے انتظامیہ کو بھجوا دی گئی۔ یعنی8 شکایت کے تقریباً پانچ دن میں تحقیقات مکمل کر لی گئیں۔ جولائی سے اکتوبر تک یہ رپورٹ انتظامیہ کے پاس پڑی رہی۔ مجھے اصل حقائق کا قطعاً علم نہیں مگر بادی النظر میں انکوائری رپورٹ کا اتنے عرصے کے لیے پڑے رہنا، بے جواز نظر آتا ہے۔
اسی اثناء میں افضل محمود بار بار لکھتا رہا کہ اسے تحقیقات کی روشنی میں بے گناہ ہونے کا خط جاری کیا جائے تا کہ اس کے پاس کوئی دستاویزاتی ثبوت موجود رہے۔ مگر نامعلوم وجوہات کی بنیاد خط جاری نہیں کیا۔ پروفیسر اتنے کرب اور دکھ میں مبتلاہو گیا۔ اسی ذہنی کشمکش میں گھریلو حالات بھی بگڑ گئے۔ اہلیہ اسے چھوڑ کر چلی گئی۔ پروفیسر کے لیے یہ تمام معاملات عذاب کی صورت اختیار کر گئے۔
صرف ایک خط کی تلاش تھی جو اسے بے گناہ ثابت کر سکے۔ اکتوبر کی آٹھ تاریخ کو اس نے خاتون پروفیسر کو انگریزی میں خط لکھا جس میں ساری روداد لکھی۔ اپنی ذہنی کیفیت بھی بیان کی۔ طالبہ کارول نمبر بھی تھا۔ اس کے بعد یہ بھی لکھا کہ لڑکی کو کالج سے نکالا جائے تا کہ دیگر اساتذہ محفوظ رہیں۔ اس نے یہاں تک درج کیا کہ اگر وہ مر جائے تو تنخواہ اس کی والدہ کے حوالے کی جائے۔ مزید، اس کی والدہ کو ایک سرٹیفکیٹ بھی دیا جائے کہ اس کا بیٹا اچھے کردار کا مالک تھا۔
یہ خط کالج کے پرنسپل کی جانب سے جاری ہونا چاہیے۔ اس خط کا ایک ایک لفظ بتا رہا تھا کہ پروفیسر شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھا۔ حددرجہ بدقسمتی یہ ہے کہ وہ خط جو اس کودستاویزاتی طور پر بے گناہ قرار دے پائے جاری نہیں ہو سکا۔ اس خط کے ٹھیک ایک دن بعد یعنی9 تاریخ کو افضل نے تین سطری نوٹ لکھا۔ یہ نوٹ یاخط نہیں بلکہ ایک نوحہ ہے۔ ایک بے گناہ کی فریا دہے۔ اس نے درج کیا کہ وہ یہ تمام معاملہ خدا کی عدالت پر چھوڑتا ہے۔
پولیس کے متعلق بھی لکھا کہ اس معاملے کی کوئی انکوائری نہ کرے اور کسی کو بھی تنگ نہ کرے۔ اگر دیکھا جائے تو پروفیسر نے اس طالبہ کو بھی معاف کر دیا۔ اس نوٹ کے بعد، افضل نے زہر کھایا اورجہان فانی سے کوچ کر گیا۔ اس نوجوان پروفیسر نے خودکشی تو کر لی مگر ہمارے معاشرے کی ایک ہولناک صورت ہمیں دکھا گیا۔ بدبودار اور بگڑا ہوا سماج جس کو ہم کبھی بھی تسلیم نہیں کرتے کیونکہ اپنی ہولناک تصویر دیکھنے کے لیے بہت ظرف چاہیے۔ جو بہرحال اوپر سطح سے لے کر نیچے تک خطرناک حد تک کم ہے۔
افضل کی خودکشی سے کئی سوالات اُٹھتے ہیں۔ پہلا سوال تو یہ کہ جنسی ہراسگی کو صرف اور صرف مرد سے کیوں منسوب کیا جاتا ہے؟ اس فکر میں بہرحال تبدیلی کی ضرورت ہے کہ خاتون بھی مرد پر بہتان لگا سکتی ہے۔ اس کے متعلق جھوٹے الزامات لگا سکتی ہے۔ اس موقعہ پر گلوکار علی ظفر کیس کی مثال بھی دی جا سکتی ہے ۔
دوسرا سوال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ کالج کی انتظامیہ اس قدر سست کیسے رہی کہ صرف ایک خط جاری کرنے سے تین ماہ تک گریزاں رہی۔ آخر وہ کون سے عوامل تھے، جن کی بنا پر ایک خط جاری نہ ہو سکا۔ کیا اس خط کوجاری کرنے کے لیے وزیراعظم، وزیراعلیٰ یا وزیرتعلیم سے اجازت کی ضرورت تھی۔ ہرگز نہیں۔ یہ مقامی سطح کا انتظامی معاملہ تھا جسے میرٹ پر حل نہیں کیا گیا۔ میرا مشورہ ہے کہ اس معاملے کی جانچ ہونی چاہیے۔ تیسری بات یہ کہ اگر پروفیسر پر الزام غلط تھا تو فریق مخالف کے خلاف کارروائی کیوں نہ ہوئی؟ ورنہ مغربی ممالک میں تو بہتان لگانا بہت سنجیدہ جرم ہے، جس کی سزا دس سے پندرہ برس تک ہے۔
میں خواتین کی برابری اور ان کے یکساں حقوق کے لیے ہمیشہ لکھتا آیا ہوں۔ آج بھی اس فلسفہ پر قائم ہوں کہ عورت کے قانونی، سماجی اور خاندانی حقوق ہر طور پر مرد کے برابر ہیں۔ ان کو زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع ہرصورت میں ملنے چاہییں۔ اگر کوئی شخص، خواتین کے حقوق کی بے حرمتی کرے، تو اسے قرار واقعی سزاملنی چاہیے۔
مگر اس کے بالکل ساتھ یہ بھی عرض کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ عورت بھی مرد پر جھوٹے الزامات نہیں لگا سکتی ہے۔ اگر بے لاگ تحقیقات کے بعد یہ ثابت ہو جائے کہ مرد پر لگائے گئے الزامات بالکل ناجائز اور خود ساختہ ہیں، تو خاتون کو صنف نازک ہونے کا فائدہ نہیں دینا چاہیے۔ اس کے خلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔
افضل زہرکھاکر مرگیا۔ مرنے کے بعد تواس کی فائل ویسے ہی بند ہو جائے گی۔ اس لیے کہ مرنے کے بعد تو جزا اور سزا تو صرف خدا کے ہاتھ میں ہے۔ مگر اس نے خودکشی کر کے یہ ضرور ثابت کر دیاکہ معاشرہ کس درجہ ادنیٰ ہے۔ شائداب ہمارے عظیم ملک میں انصاف حاصل کرنے کے لیے خودکشی کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا!