نئی عالمی صف بندی

نومبر دسمبر میں یمن کی صورتحال میں بہتری کا آغاز ہو جائے گا


Zamrad Naqvi October 21, 2019
www.facebook.com/shah Naqvi

اعلیٰ سفارتی حکام، جو وزیر اعظم عمران خان کے ایران اور سعودی عرب کے دورے میں ہم رکاب رہے، کا کہنا ہے کہ ان دوروں کے نتیجے میں یہ تو نہیں ہوگا کہ راتوں رات سعودی عرب اور ایران کے درمیان صلح ہوجائے گی لیکن اس کی طرف پیش قدمی کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔

پہلے مرحلے میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ دونوں ممالک کوئی ایسا بیان یا قدم نہ اٹھائیں جو ٹکراؤ کی طرف جاتا ہو۔ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا اگر ان دونوں میں ٹکراؤ ہوتا ہے تو اس کا براہ راست فوری فائدہ ان دہشتگرد گروپوں کو پہنچے گا جو بیتابی سے اس جنگ کا انتظار کر ر ہے ہیں۔ وہ مذہب کے نام پر پورے خطے میں آگ لگا دیں گے۔ عراق، شام میں ان کی قوت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ جب کہ افغانستان اور لیبیا میں اپنی پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں لیکن پاکستان بھی ان کے اثرات سے آزاد نہیں۔یہ اور ان کے سہولت کار خطے میں ہر صورت جنگ چاہتے ہیں۔

چاہے یہ سعودی ایران جنگ ہو یا پاکستان بھارت۔ ان کی بقاء اب صرف جنگ میں پوشیدہ ہے اور صورتحال یہ ہے کہ امریکا، روس،چین یورپین یونین سمیت پوری دنیا ان دہشتگرد گروہوں کا خاتمہ چاہتی ہے۔ امریکی سامراج نے ان قوتوں کو اپنے مفاد میں جتنا استعمال کرنا تھا کر لیا اب یہ امریکا کے لیے بیکار ہیں۔ امریکی تاریخ بھی یہی ہے کہ استعمال کرنے کے بعد وہ خود ہی ان کا خاتمہ کر دیتا ہے۔

سرد جنگ کے آغاز پر امریکا نے ان قوتوں کو تخلیق کیا اور پالا پوسا یہاں تک کہ ان کے پھلنے پھولنے کے لیے ان کے مدمقابل تمام ترقی پسند انسان دوست قوتوں کو ختم کر دیا۔ 1965 کی جنگ ہمارے خطے میں نکتہء آغاز تھا امریکی ایجنڈے پر عمل درآمد کا۔ 1971 میں پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا یا کر دیا گیا۔

بنگالیوں کو علیحدہ کرنے کے بعد اب امریکا پاکستان کو افغانستان کی جنگ میں سویت یونین کے خلاف بھرپور طور پر استعمال کر سکتا تھا اور ایسا ہی ہوا۔ سرد جنگ کے آغاز پر ہی امریکا نے اسلامی دنیا میں مذہبی جماعتوں کو اپنا اتحادی بنانے کا آغاز کر دیا پھر بعد میں اسی نقش قدم پر پاکستان بھی چلا۔

تو بات ایران سعودی عرب کے حوالے سے ہو رہی تھی کہ ایران امریکا کشیدگی ختم کرنے کے لیے فرانسیسی صدر نے چار نکاتی منصوبہ بھی پیش کیا جس کو ایرانی صدر حسن روحانی نے قبول کر لیا۔ فرانس ہو یا برطانیہ سبھی اپنی کوششیں کر رہے ہیں کہ امریکا ایران مفاہمت میں ہی دنیا کا امن پوشیدہ ہے۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر ٹرمپ روحانی ملاقات ہوتے ہوتے رہ گئی کیونکہ ایرانی صدر یمن میں سیز فائر اور معاشی پابندیوں کے اٹھانے کی یقین دہانی چاہتے تھے۔

چند ہفتے پیشتر ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف اس حد تک گئے کہ امریکی کانگریس ایران پر سے پابندیاں ہٹا لے تو ایران مستقل طور پر خود کو غیر جوہری ریاست قرار دے سکتا ہے۔ اس حوالے سے امریکا کو ہر طرح کی یقین دہانی کے لیے تیار ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ایران سعودی صلح ممکن ہے یا نہیں کچھ سادہ لوح قنوطیت زدہ یقین رکھتے ہیں کہ کیونکہ یہ سیکڑوں سال پرانا تنازعہ ہے اس لیے چاہے دنیا ادھر کی اُدھر ہو جائے یہ مسئلہ قیامت تک حل نہیں ہو سکتا۔ اگر فرانس اور انگلینڈ سیکڑوں سال کی لڑائیوں کے بعد ایک دوسرے کے بہترین دوست بنتے ہوئے یورپین یونین کی شکل میں ڈھل سکتے ہیں اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ ناقابل یقین تھا کہ مغربی اور مشرقی جرمنی ایک ہو جائیں لیکن یہ کچھ عرصہ پہلے ہی ہوا اور ہماری نظروں کے سامنے ہی ہوا۔

معجزے ہوتے ہیں اور ہو سکتے ہیں۔ بات صرف اچھے اور برے وقت کی ہے۔ برا وقت طویل بھی ہوسکتا ہے چنانچہ اس کی یہی طوالت بعض انسانوں کو قنوطیت زدہ کر دیتی ہے۔انسان امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کا کرم برے وقت کو اچھے وقت میں بدل دیتا ہے۔ جس طرح افراد اپنے مقدر کے اسیر ہوتے ہیں یہی فارمولا قوموں، ملکوں خطوں پر بھی نافذ ہوتا ہے۔ ہمارا خطہ طویل عرصہ سے مسلسل تباہی و بربادی کی زد میں ہے۔ جس نے ہمارے وجود کو مایوسیوں سے بھر دیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس نحوست سے کبھی نکل بھی پائیں گے؟ ہاں ضرور جب ہمارے خطے کا برا وقت ختم ہوگا۔

اسلحہ انڈسٹری ایران، سعودی عرب متوقع صلح پر بہت پریشان ہے۔ یہ ایک خوفناک مافیا ہے۔ اس کے نیچے کئی ذیلی مافیاز ہیں۔ ان کا اثر و رسوخ دنیا کی حکومتوں تک پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان سمیت پورے مشرق وسطیٰ میں یہ مافیا اربوں کھربوں ڈالر کے مفادات رکھتا ہے۔ ایران سعودی عرب صلح ہونے کی صورت میں ان کے مفادات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ جو وہ کسی بھی صورت نہیں چاہیں گے ۔

اپنے مفادات کے لیے وہ کوشش کریں گے کہ ایران سعودی عرب کے درمیان صلح نہ ہونے پائے۔ ادھرایران سے صلح امریکا کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے ایران پر حملے کا حکم دے کر صرف دس منٹ پہلے واپس لے لیا بقول ٹرمپ کے۔ اب امریکا کو ایران سے جنگ کی ضرورت نہیں۔ اگرچہ وہ دہائیوں کی کوششوں کے باوجود ایرانی حکومت کو تبدیل نہیں کر سکا لیکن اس نے معاشی پابندیوں کے ذریعے اسے حتیٰ الامکان نقصان پہنچا دیا۔

اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ امریکا نے مشرق وسطیٰ کے خطے میں اپنے تمام ٹارگٹس حاصل کر لیے ہیں۔ امریکا نے اپنے حریف سویت یونین کو شکست دینے کے بعد پچھلے تیس سال میں دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کا عمل شروع کیا۔ عراق، لیبیا، شام کا خاتمہ کیا، اب امریکا پھر نئے سرے سے دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے اگلے پچاس سال کے لیے جس میں امریکا ایران مفاہمت اور ایران سعودی عرب صلح ناگریز ہے۔

یہ دونوں معاملات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ان دونوں کاموں پر عملدرآمد سے امریکا خطے میں اپنی پوزیشن مزید مضبوط کرے گا۔ یہ دونوں کام اپنے فائدے کے لیے کرے گا اس سارے عمل میں پاکستان ایران کو بھی بہت بڑا فائدہ مل سکتا ہے۔ اس سارے عمل میں ہی سعودی بادشاہت کی بقاء پوشیدہ ہے ورنہ تو شدت پسند قوتیں بہت بڑا خطرہ ہیں، عرب بادشاہتوں اور اعتدال پسندی کی راہ میں، لیکن شدت پسند قوتوں کا وقت ختم ہو چکا۔

اب ان کے خاتمے کا وقت ہے۔ اس نیک کام میں امریکا، روس،چین، یورپی یونین اور پوری دنیا مل کر حصہ لے گی۔ اس کا ثبوت عراق شام میں ان کا انجام ہے۔ زمین کی پاتال سے بھی ان کو ڈھونڈ نکال لیا جائے گا۔ ان کا اور ان کے سہولت کاروں کا انجام قریب ہے۔ نومبر دسمبر میں یمن کی صورتحال میں بہتری کا آغاز ہو جائے گا۔

سیل فون: 0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں