احتجاج کی سیاست اور خطے کو درپیش چیلنجز
’’ آزادی مارچ‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ
جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے 27 اکتوبر کو اسلام آباد کی جانب 'آزادی مارچ' کے اعلان سے ملکی سیاست میں ہلچل پیدا ہوگئی ہے۔
ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ چھوٹی اپوزیشن جماعتوں کی حمایت کے اعلان سے حکومتی حلقے متحرک ہوگئے ہیں اور اب وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے ایک مشاورتی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے جو مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے بات چیت کرے گی۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کی قیادت میں ہونے والے اپوزیشن کے اس آزادی مارچ پر سب کی نظریں جمی ہوئی ہیں اور بیشتر سوالات ذہن میں گردش کر رہے ہیں کہ کیا یہ مارچ ہوگا؟ اس سے حکومت گرائی جاسکے کی؟
اپوزیشن اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوسکے گی؟ ملک کو کیا نقصان ہوگا؟ اس طرح کے بے شمار سوالات عوامی حلقوں میں زیر بحث ہیں جن کے جوابات جاننے کیلئے گزشتہ دنوں ''اپوزیشن کا آزادی مارچ اور ملک پر اس کے اثرات'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن
(رکن صوبائی اسمبلی پنجاب و رہنما پاکستان مسلم لیگ نواز)
2018ء کے انتخابات میں بدترین دھاندلی ہوئی اور ایسا بدترین الیکشن پاکستان کی تاریخ میں پہلے نہیں ہوا۔ جس طرح تحریک انصاف کو یہ حکومت ملی وہ عوام کے ووٹ و جذبات کے منافی تھی۔ انتخابات کے فوری بعد تمام سیاسی جماعتوں کا متفقہ موقف یہ تھا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن زیرک سیاستدان ہیں جو شروع دن سے ہی اپنا واضح موقف رکھتے ہیں اور چاہتے تھے کہ پارلیمنٹ میں نہ جایا جائے تاہم اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے پارلیمنٹ جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ بعد ازاں جمعیت علماء اسلام (ف) کی سربراہی میں آل پارٹیز کانفرنس ہوئی جس میں مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔
اس میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی و دیگر جماعتوں کے قائدین و نمائندے شامل ہوتے رہے۔ عمران خان کی حکومت کو ایک سال سے زائد وقت دیا مگر یہ پرفارم نہیں کرسکے اور حالت یہ ہے کہ عوام ان سے تنگ آچکے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) آزادی مارچ کے حوالے سے بالکل واضح ہے اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ہے۔ ہم اپنے قائد میاں محمد نواز شریف کی ہدایت کے مطابق آزادی مارچ میں بھرپور شرکت کریں گے تاہم دھرنے کا فیصلہ ابھی نہیں کیا گیا، اب اس حکومت کا جانا لکھا جا چکا ہے کیونکہ یہ 22 کروڑ عوام کی خواہش ہے۔ ملک میں فری اینڈ فیئر الیکشن ہونا چاہیے اور اس پرکسی کو نظر انداز نہیں ہونا چاہیے بلکہ فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے۔
تحریک انصاف کے اپنے ووٹر و سپورٹر بھی ان سے نالاں ہیں کیونکہ کنٹینر پر جو باتیں اور دعووے کیے گئے ان میں سے ایک بھی وفا نہیں ہوا۔ تحریک انصاف نے ہمیں 5 برس تنگ کیا مگر ہم نے انہیںا سلام آباد جانے کا راستہ دیا، انہیںمیڈیا کورریج بھی ملی مگر آج انہوں نے میڈیا پر پابندیاں لگا دی ہیں لہٰذا یہ سویلین ڈکٹیٹرشپ ہے جس سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ آج ملکی معیشت ڈوب چکی ہے، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، اشیائے خورونوش عوام کی پہنچ سے باہر ہیں، بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور حکومت ڈیلور کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے بلکہ اب تو حکومت کہہ رہی ہے کہ نوکریوں کے لیے اس کی طرف نہ دیکھا جائے جبکہ پہلے ایک کروڑ نوکریاں دینے کے دعوے کرتے تھے۔
حکومت نے پہلے 100 دن مانگے، بعد میں وہ 6 ماہ ہوگئے، پھر ایک سال کا کہا اور اب ایک سال سے زائد وقت ہوچکا ہے مگر کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ حالات مزید خراب ہوچکے ہیں،ا س صورتحال کی وجہ سے عوام ان سے چھٹکارہ چاہتے ہیں۔ حکومت احتساب کے نام پر ہمارے قائدین اور پارٹی عہدیداران کے خلاف بدترین انتقامی کارروائیاں کر رہی ہے، نیب آلہ کار بنی ہوئی ہے مگر ابھی تک ہماری قیادت کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاسکا۔ اب تو جج صاحبان بھی بول اٹھے ہیں، بیانات اور ویڈیوز سامنے آرہی ہیں کہ کس طرح انہیں دباؤ میں لایا جارہا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ یہ حکومت کس طرح آئی ہے اور کیسے چل رہی ہے، اگر اتنی سپورٹ کسی اور حکومت کو دی جاتی تو آج ملک کے حالات مختلف ہوتے مگر یہ اس کے باوجود بھی پرفارم نہیں کر پائے۔
سعدیہ سہیل رانا
(چیئرپرسن سٹینڈنگ کمیٹی پنجاب اسمبلی ورہنما پاکستان تحریک انصاف)
پر امن احتجاج سب کا حق ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ احتجاج کے محرکات کیا ہیں۔ ایک بات تو واضح ہے کہ احتجاج کی آڑ میں کسی کو ملک کا نقصان کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ آج خطے کے جو حالات ہیں ان میں ملک کسی احتجاج کا متحمل نہیں ہوسکتا لہٰذا تمام جماعتوں کو اپنے مفادات سے بالاتر ہوکر ملکی مفاد کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا۔ 2018ء کے انتخابات میں دھاندلی کا شور مچایا جارہاہے جو درست نہیں۔ عوام نے ان سب کو رد کیا جو گزشتہ کئی دہائیوں سے برسر اقتدار تھے اور تمام مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ جو جماعتیں ماضی میں کشمیر کمیٹی کا حصہ رہی وہ بھی آج کشمیر ایشو پر بات کر رہی ہیں ۔
وزیراعظم عمران خان نے جس مضبوط اور جارحانہ انداز میں کشمیر کا مقدمہ عالمی سطح پر لڑا ہے آج سے پہلے کسی لیڈر نے نہیں لڑا۔ اس پر پوری دنیا نے عمران خان کو سراہا۔ ایک بات واضح ہونی چاہیے کہ اس وقت تمام ادارے آزاد ہیں اور حکومت کسی پر اثر انداز نہیں ہو رہی۔سیاسی رہنماؤں کے خلاف جو کیس چل رہے ہیں وہ بھی تحریک انصاف نے نہیں بنائے بلکہ انہی لوگوں کے ایک دوسرے پر بنائے ہوئے ہیں لہٰذا جنہوں نے کرپشن کی ہے انہیں بھگتنا پڑے گا۔ میں احتساب کے حق میں ہوں، ہمارا بھی احتساب ہورہا ہے لہٰذا اس نظام کو مزید مضبوط کیا جائے۔ مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ 'لیڈر بچاؤ' مہم ہے جو نواز شریف اور آصف زرداری کو بچانا چاہتے ہیں۔
جے یو آئی (ف) کے آزادی مارچ کے اعلان سے کشمیر کا مسئلہ پیچھے چلا گیا ہے، اس وقت تمام جماعتوں کو متحد ہوکر مسئلہ کشمیر کے حل پر توجہ دینی چاہیے۔ آزادی مارچ کی ٹائمنگ غلط ہے، خدانخواستہ کہیں انتشارپیدا ہوگیا تو ملک کو نقصان ہوسکتا ہے، خطے کے حالات کے پیش نظر ہم ایسی کسی صورتحال کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
مشاورتی عمل کبھی بند نہیں ہوتا، وزیراعظم عمران خان نے دھرنے کا سیاسی حل تلاش کرنے کیلئے مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے لہٰذا ملکی مفاد میں جمعیت علماء اسلام (ف) و دیگر جماعتوں سے بات چیت کی جائے گی۔ یہ مذہب کارڈ استعمال کر رہے ہیں جو درست نہیں۔ہم سب مسلمان ہیں اور دین کیلئے اپنی جان تک قربان کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان عالمی سطح پر جس انداز سے حرمت رسولؐ پر بات کی، آج سے پہلے کسی حکمران نے نہیں کی، جو جماعتیں مذہب کارڈ استعمال کر رہی ہیں انہیں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
سیدحسن مرتضیٰ
( پارلیمانی لیڈرپاکستان پیپلز پارٹی،پنجاب اسمبلی)
پاکستان پیپلز پارٹی ، جمعیت علماء اسلام (ف) کے آزادی مارچ کا حصہ بنے گی اور سندھ حکومت ان کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی جس کا فیصلہ کور کمیٹی اجلاس میں کیا گیا۔ بلاول بھٹو اس مارچ سے پہلے عوامی رابطہ مہم کی قیادت کر رہے ہوں گے لہٰذا جہاں جمعیت علماء اسلام (ف) کو ہماری ضرورت ہوگی، بھرپور تعاون کریں گے، ہمارے قائدین، کارکنان و سپورٹر ان کے جلسوں میں شرکت کریں گے۔
میرے نزدیک اس میں کوئی ابہام نہیں ہے، ہم ہر طرح سے اس آزادی مارچ کو سپورٹ کریں گے تاہم دھرنے کے حوالے سے ابھی فیصلہ نہیں کیاگیا۔ پیپلز پارٹی ہمیشہ سے دھرنے کے مخالف رہی ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ملک کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتا بلکہ اس سے ملک برسوں پیچھے چلا جاتا ہے۔ ہم مذہب کارڈ کے بھی خلاف ہیں کیونکہ اس سے خطرنات نتائج آتے ہیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو نے آل پارٹیز کانفرنس میں بھی اس کی مخالفت کی تھی۔ یہ کارڈ ماضی میں ہمارے خلاف استعمال کیا جاتارہا، مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بھی ایسا ہوا، جنہوں نے ماضی میں یہ کارڈ کھیلا آج وہ اس کا شکار ہور ہے ہیں۔ یہاں یہ بات کی گئی کہ احتساب کی وجہ سے ہم احتجاج کر رہے ہیں اور حکومت کی مخالفت کرتے ہیں۔
یہ بھی کہا گیا کہ کیس تحریک انصاف نے نہیں بنائے بلکہ ماضی میں بنائے گئے۔ یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے کیس نہیں بنائے ۔ 2008ء میں جب ہم آئینی اصلاحات کر رہے تھے تو میاں نواز شریف سے کہا کہ احتساب کا قانون کالا قانون ہے لہٰذا اس کے خاتمے میں ہمارا ساتھ دیں مگر اس وقت انہوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے نیب بنائی مگر تحریک انصاف نے سیاسی انجینئرنگ کے لیے اسے جس انداز میں استعمال کیا اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ آصف علی زرداری کہتے تھے کہ نیب اور معیشت ایک ساتھ نہیں چل سکتی، آج وہی بات عمران خان کر رہے ہیں جبکہ بزنس کمیونٹی نے آرمی چیف سے اس کا اظہار کیا۔
جس پر انہوں نے بہتری کی یقین دہانی کروائی، حکومتی نااہلی کی وجہ سے عسکری قیادت متنازعہ ہورہی ہے، سیاسی معاملات سیاسی قیادت کو ہی چلانے چاہئیں۔ مولانا فضل الرحمن نے ابھی آزادی مارچ کا مکمل پلان نہیں دیا جس کی وجہ سے لوگوں میں کنفیوژن پائی جاتی ہے تاہم ہم بالکل واضح ہیں۔ جو پلان انہوں نے ہمیں دیا اس پر غیر مشروط حمایت کا اعلان ہوچکا ہے۔ اس وقت ہماری توجہ متحدہ اپوزیشن پر ہے تاکہ مل کر حکومت پر موثر انداز میں دباؤ ڈالا جاسکے۔
مولانا امجد خان
(مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل جمعیت علماء اسلام (ف)
عام انتخابات کے فوری بعد یہ ردعمل آیا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔ یہ صرف جمعیت علماء اسلام (ف) کا موقف نہیں تھا بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کا موقف بھی یہی تھا بلکہ وہ جماعتیں جو موجودہ حکومت کی اتحادی ہیں انہوں نے بھی یہی بات کی۔ اس حوالے سے مولانا فضل الرحمن نے مختلف آراء دیں جن پر بات چیت ہوتی رہی ۔ ہم سمجھتے تھے کہ عالمی طاقتوں کی جانب سے ملک پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
لہٰذا مولانا فضل الرحمن نے عوام کو متحرک رکھنے کیلئے مختلف شہروں میں کامیاب ملین مارچ کیے۔یقینی طور پر یہ مارچ تاریخ ساز تھے جنہیں عوامی سطح پر پذیرائی ملی اور ان میں ہمارے قائد نے اپنا موقف قوم کے سامنے رکھا۔ یہ مارچ منظم اور پرامن تھے جس کی گواہی ہمارے مخالفین بھی دیتے ہیں۔ ہمارا آخری ملین مارچ 28 جولائی کو کوئٹہ میں منعقد ہوا جس میں مولانا فضل الرحمن نے چند مطالبات رکھے اور اعلان کیا کہ اکتوبر میں آزادی مارچ کریں گے۔
اس حوالے سے تاریخ نہیں دی گئی تھی۔ جمعیت علماء اسلام (ف) نے کل جماعتی کونفرنس بلائی، اپوزیشن جماعتوں سے بار بار مشاورت کی گئی اور پھر آزادی مارچ کی تاریخ دے دی گئی۔ اس مارچ کا آغاز 27 اکتوبر سے کیا جائے گا جو کشمیر کیلئے ہے۔ ہم اس دن ملک بھر میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے اکٹھے ہوں گے اور بھارتی ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھائی جائے گی۔ اس کے بعد ہمارے قافلے اسلام آباد کی جانب مارچ کریں گے۔
اب تک ہمارے 15 ملین مارچ ہوئے جو پرامن تھے، اب بھی ہم پر امن احتجاج کریں گے ۔ یہ واضح کرتے ہیں کہ ہم پارلیمنٹ، پی ٹی وی یا کسی ادارے پر حملہ نہیں کریں گے۔ہمارے پروگرام کا آغاز اللہ تعالیٰ کے پاک کلام کی تلاوت سے ہوگا، نعت خوانی کی جائے گی، نمازیں پڑھی جائیں گی اور لوگ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوں گے۔جہاں اللہ اور اس کے رسولؐ کا ذکر ہو وہاں رحمتیں نازل ہوتی ہیں لہٰذا ہم اسلام آباد میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور عوام کا سیلاب لے کر داخل ہوں گے۔ موجودہ حکومت نے عوام سے کیا ہوا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ایک وفاقی وزیر یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت 400 محکمے بند کرنے جا رہی ہے۔
لہٰذا نوکریوں کیلئے حکومت کی طرف نہ دیکھا جائے۔ یہ اس جماعت کے وزیر ہیں جس نے لوگوں کو 1 کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اس وقت معیشت تباہ حال ہے، مہنگائی عروج پر ہے، ڈالر کی اونچی اڑان ہے، پٹرول مہنگا ہے غرضیکہ عوام کی زندگی مشکل ہوچکی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ تاجروں نے بغیر کسی سیاسی قیادت کی کال کے ملک گیر ہڑتال کی اور گزشتہ دنوں فیصل آباد میں تاریخ کی سب سے کامیاب ہڑتال کی گئی۔ جب ملک بحرانوں سے دوچار ہو ملکی قیادت کا کام سب کو ساتھ ملاکر ان کا حل ڈھونڈھنا ہوتا ہے مگر افسوس ہے کہ یہ حکومت سب سے انتقام لے رہی ہے۔
عوام ہمارے ساتھ ہیں، وہ ان سے مایوس ہو چکے ہیں اور اس حکومت سے جان چھڑوانا چاہتے ہیں۔ ہمیں تمام اپوزیشن جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے لہٰذا آزادی مارچ ہر صورت میں ہوگا، ہم سب جماعتوں سے رابطے میں ہیں، مشاورتی اجلاس ہورہے ہیں، ہم کنٹینر پر بھی اجلاس کریں گے اور مستقبل کا لائحہ عمل طے کرتے رہیں گے۔ ہماری رضاکار فورس دستور کے مطابق ہے جو الیکشن کمیشن و متعلقہ اداروں کو معلوم ہے۔
2017ء جب امام کعبہ پاکستان تشریف لائے تھے تو اس اجتماع میں 50 لاکھ افراد نے شرکت کی ، اس اجتماع میںانہی رضاکاروں نے ڈیوٹی دی۔ ہمارے یہ رضاکار ملین مارچ کے دوران ایمبولینس کو راستہ دلوائیں گے اور یقینی بنائیں گے کہ کسی قسم کا کوئی نقصان نہ ہو۔ حکومت ہمیں بدنام کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر اسے سمجھنا چاہیے کہ اب عوام باشعور ہیں اور اس پراپیگنڈہ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہم تمام ملکی مسائل پر بات کر رہے ہیں۔ مذہبی کارڈ کی بات کی جاتی ہے، پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور ہم مذہب کو اپنی زندگی سے الگ نہیں کرسکتے۔ حضرت محمدؐ کی حرمت پر ہمارا جان مال، اولاد، زندگی سب کچھ قربان ہے۔ ہم مذہبی و دنیوی تمام ملکی و عوامی مسائل پر بات کریں گے اور ان کے حل کیلئے ہر ممکن دباؤ ڈالیں گے۔
ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ چھوٹی اپوزیشن جماعتوں کی حمایت کے اعلان سے حکومتی حلقے متحرک ہوگئے ہیں اور اب وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے ایک مشاورتی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے جو مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے بات چیت کرے گی۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کی قیادت میں ہونے والے اپوزیشن کے اس آزادی مارچ پر سب کی نظریں جمی ہوئی ہیں اور بیشتر سوالات ذہن میں گردش کر رہے ہیں کہ کیا یہ مارچ ہوگا؟ اس سے حکومت گرائی جاسکے کی؟
اپوزیشن اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوسکے گی؟ ملک کو کیا نقصان ہوگا؟ اس طرح کے بے شمار سوالات عوامی حلقوں میں زیر بحث ہیں جن کے جوابات جاننے کیلئے گزشتہ دنوں ''اپوزیشن کا آزادی مارچ اور ملک پر اس کے اثرات'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن
(رکن صوبائی اسمبلی پنجاب و رہنما پاکستان مسلم لیگ نواز)
2018ء کے انتخابات میں بدترین دھاندلی ہوئی اور ایسا بدترین الیکشن پاکستان کی تاریخ میں پہلے نہیں ہوا۔ جس طرح تحریک انصاف کو یہ حکومت ملی وہ عوام کے ووٹ و جذبات کے منافی تھی۔ انتخابات کے فوری بعد تمام سیاسی جماعتوں کا متفقہ موقف یہ تھا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن زیرک سیاستدان ہیں جو شروع دن سے ہی اپنا واضح موقف رکھتے ہیں اور چاہتے تھے کہ پارلیمنٹ میں نہ جایا جائے تاہم اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے پارلیمنٹ جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ بعد ازاں جمعیت علماء اسلام (ف) کی سربراہی میں آل پارٹیز کانفرنس ہوئی جس میں مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔
اس میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی و دیگر جماعتوں کے قائدین و نمائندے شامل ہوتے رہے۔ عمران خان کی حکومت کو ایک سال سے زائد وقت دیا مگر یہ پرفارم نہیں کرسکے اور حالت یہ ہے کہ عوام ان سے تنگ آچکے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) آزادی مارچ کے حوالے سے بالکل واضح ہے اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ہے۔ ہم اپنے قائد میاں محمد نواز شریف کی ہدایت کے مطابق آزادی مارچ میں بھرپور شرکت کریں گے تاہم دھرنے کا فیصلہ ابھی نہیں کیا گیا، اب اس حکومت کا جانا لکھا جا چکا ہے کیونکہ یہ 22 کروڑ عوام کی خواہش ہے۔ ملک میں فری اینڈ فیئر الیکشن ہونا چاہیے اور اس پرکسی کو نظر انداز نہیں ہونا چاہیے بلکہ فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے۔
تحریک انصاف کے اپنے ووٹر و سپورٹر بھی ان سے نالاں ہیں کیونکہ کنٹینر پر جو باتیں اور دعووے کیے گئے ان میں سے ایک بھی وفا نہیں ہوا۔ تحریک انصاف نے ہمیں 5 برس تنگ کیا مگر ہم نے انہیںا سلام آباد جانے کا راستہ دیا، انہیںمیڈیا کورریج بھی ملی مگر آج انہوں نے میڈیا پر پابندیاں لگا دی ہیں لہٰذا یہ سویلین ڈکٹیٹرشپ ہے جس سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ آج ملکی معیشت ڈوب چکی ہے، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، اشیائے خورونوش عوام کی پہنچ سے باہر ہیں، بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور حکومت ڈیلور کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے بلکہ اب تو حکومت کہہ رہی ہے کہ نوکریوں کے لیے اس کی طرف نہ دیکھا جائے جبکہ پہلے ایک کروڑ نوکریاں دینے کے دعوے کرتے تھے۔
حکومت نے پہلے 100 دن مانگے، بعد میں وہ 6 ماہ ہوگئے، پھر ایک سال کا کہا اور اب ایک سال سے زائد وقت ہوچکا ہے مگر کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ حالات مزید خراب ہوچکے ہیں،ا س صورتحال کی وجہ سے عوام ان سے چھٹکارہ چاہتے ہیں۔ حکومت احتساب کے نام پر ہمارے قائدین اور پارٹی عہدیداران کے خلاف بدترین انتقامی کارروائیاں کر رہی ہے، نیب آلہ کار بنی ہوئی ہے مگر ابھی تک ہماری قیادت کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاسکا۔ اب تو جج صاحبان بھی بول اٹھے ہیں، بیانات اور ویڈیوز سامنے آرہی ہیں کہ کس طرح انہیں دباؤ میں لایا جارہا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ یہ حکومت کس طرح آئی ہے اور کیسے چل رہی ہے، اگر اتنی سپورٹ کسی اور حکومت کو دی جاتی تو آج ملک کے حالات مختلف ہوتے مگر یہ اس کے باوجود بھی پرفارم نہیں کر پائے۔
سعدیہ سہیل رانا
(چیئرپرسن سٹینڈنگ کمیٹی پنجاب اسمبلی ورہنما پاکستان تحریک انصاف)
پر امن احتجاج سب کا حق ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ احتجاج کے محرکات کیا ہیں۔ ایک بات تو واضح ہے کہ احتجاج کی آڑ میں کسی کو ملک کا نقصان کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ آج خطے کے جو حالات ہیں ان میں ملک کسی احتجاج کا متحمل نہیں ہوسکتا لہٰذا تمام جماعتوں کو اپنے مفادات سے بالاتر ہوکر ملکی مفاد کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا۔ 2018ء کے انتخابات میں دھاندلی کا شور مچایا جارہاہے جو درست نہیں۔ عوام نے ان سب کو رد کیا جو گزشتہ کئی دہائیوں سے برسر اقتدار تھے اور تمام مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ جو جماعتیں ماضی میں کشمیر کمیٹی کا حصہ رہی وہ بھی آج کشمیر ایشو پر بات کر رہی ہیں ۔
وزیراعظم عمران خان نے جس مضبوط اور جارحانہ انداز میں کشمیر کا مقدمہ عالمی سطح پر لڑا ہے آج سے پہلے کسی لیڈر نے نہیں لڑا۔ اس پر پوری دنیا نے عمران خان کو سراہا۔ ایک بات واضح ہونی چاہیے کہ اس وقت تمام ادارے آزاد ہیں اور حکومت کسی پر اثر انداز نہیں ہو رہی۔سیاسی رہنماؤں کے خلاف جو کیس چل رہے ہیں وہ بھی تحریک انصاف نے نہیں بنائے بلکہ انہی لوگوں کے ایک دوسرے پر بنائے ہوئے ہیں لہٰذا جنہوں نے کرپشن کی ہے انہیں بھگتنا پڑے گا۔ میں احتساب کے حق میں ہوں، ہمارا بھی احتساب ہورہا ہے لہٰذا اس نظام کو مزید مضبوط کیا جائے۔ مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ 'لیڈر بچاؤ' مہم ہے جو نواز شریف اور آصف زرداری کو بچانا چاہتے ہیں۔
جے یو آئی (ف) کے آزادی مارچ کے اعلان سے کشمیر کا مسئلہ پیچھے چلا گیا ہے، اس وقت تمام جماعتوں کو متحد ہوکر مسئلہ کشمیر کے حل پر توجہ دینی چاہیے۔ آزادی مارچ کی ٹائمنگ غلط ہے، خدانخواستہ کہیں انتشارپیدا ہوگیا تو ملک کو نقصان ہوسکتا ہے، خطے کے حالات کے پیش نظر ہم ایسی کسی صورتحال کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
مشاورتی عمل کبھی بند نہیں ہوتا، وزیراعظم عمران خان نے دھرنے کا سیاسی حل تلاش کرنے کیلئے مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے لہٰذا ملکی مفاد میں جمعیت علماء اسلام (ف) و دیگر جماعتوں سے بات چیت کی جائے گی۔ یہ مذہب کارڈ استعمال کر رہے ہیں جو درست نہیں۔ہم سب مسلمان ہیں اور دین کیلئے اپنی جان تک قربان کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان عالمی سطح پر جس انداز سے حرمت رسولؐ پر بات کی، آج سے پہلے کسی حکمران نے نہیں کی، جو جماعتیں مذہب کارڈ استعمال کر رہی ہیں انہیں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
سیدحسن مرتضیٰ
( پارلیمانی لیڈرپاکستان پیپلز پارٹی،پنجاب اسمبلی)
پاکستان پیپلز پارٹی ، جمعیت علماء اسلام (ف) کے آزادی مارچ کا حصہ بنے گی اور سندھ حکومت ان کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی جس کا فیصلہ کور کمیٹی اجلاس میں کیا گیا۔ بلاول بھٹو اس مارچ سے پہلے عوامی رابطہ مہم کی قیادت کر رہے ہوں گے لہٰذا جہاں جمعیت علماء اسلام (ف) کو ہماری ضرورت ہوگی، بھرپور تعاون کریں گے، ہمارے قائدین، کارکنان و سپورٹر ان کے جلسوں میں شرکت کریں گے۔
میرے نزدیک اس میں کوئی ابہام نہیں ہے، ہم ہر طرح سے اس آزادی مارچ کو سپورٹ کریں گے تاہم دھرنے کے حوالے سے ابھی فیصلہ نہیں کیاگیا۔ پیپلز پارٹی ہمیشہ سے دھرنے کے مخالف رہی ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ملک کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتا بلکہ اس سے ملک برسوں پیچھے چلا جاتا ہے۔ ہم مذہب کارڈ کے بھی خلاف ہیں کیونکہ اس سے خطرنات نتائج آتے ہیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو نے آل پارٹیز کانفرنس میں بھی اس کی مخالفت کی تھی۔ یہ کارڈ ماضی میں ہمارے خلاف استعمال کیا جاتارہا، مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بھی ایسا ہوا، جنہوں نے ماضی میں یہ کارڈ کھیلا آج وہ اس کا شکار ہور ہے ہیں۔ یہاں یہ بات کی گئی کہ احتساب کی وجہ سے ہم احتجاج کر رہے ہیں اور حکومت کی مخالفت کرتے ہیں۔
یہ بھی کہا گیا کہ کیس تحریک انصاف نے نہیں بنائے بلکہ ماضی میں بنائے گئے۔ یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے کیس نہیں بنائے ۔ 2008ء میں جب ہم آئینی اصلاحات کر رہے تھے تو میاں نواز شریف سے کہا کہ احتساب کا قانون کالا قانون ہے لہٰذا اس کے خاتمے میں ہمارا ساتھ دیں مگر اس وقت انہوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے نیب بنائی مگر تحریک انصاف نے سیاسی انجینئرنگ کے لیے اسے جس انداز میں استعمال کیا اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ آصف علی زرداری کہتے تھے کہ نیب اور معیشت ایک ساتھ نہیں چل سکتی، آج وہی بات عمران خان کر رہے ہیں جبکہ بزنس کمیونٹی نے آرمی چیف سے اس کا اظہار کیا۔
جس پر انہوں نے بہتری کی یقین دہانی کروائی، حکومتی نااہلی کی وجہ سے عسکری قیادت متنازعہ ہورہی ہے، سیاسی معاملات سیاسی قیادت کو ہی چلانے چاہئیں۔ مولانا فضل الرحمن نے ابھی آزادی مارچ کا مکمل پلان نہیں دیا جس کی وجہ سے لوگوں میں کنفیوژن پائی جاتی ہے تاہم ہم بالکل واضح ہیں۔ جو پلان انہوں نے ہمیں دیا اس پر غیر مشروط حمایت کا اعلان ہوچکا ہے۔ اس وقت ہماری توجہ متحدہ اپوزیشن پر ہے تاکہ مل کر حکومت پر موثر انداز میں دباؤ ڈالا جاسکے۔
مولانا امجد خان
(مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل جمعیت علماء اسلام (ف)
عام انتخابات کے فوری بعد یہ ردعمل آیا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔ یہ صرف جمعیت علماء اسلام (ف) کا موقف نہیں تھا بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کا موقف بھی یہی تھا بلکہ وہ جماعتیں جو موجودہ حکومت کی اتحادی ہیں انہوں نے بھی یہی بات کی۔ اس حوالے سے مولانا فضل الرحمن نے مختلف آراء دیں جن پر بات چیت ہوتی رہی ۔ ہم سمجھتے تھے کہ عالمی طاقتوں کی جانب سے ملک پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
لہٰذا مولانا فضل الرحمن نے عوام کو متحرک رکھنے کیلئے مختلف شہروں میں کامیاب ملین مارچ کیے۔یقینی طور پر یہ مارچ تاریخ ساز تھے جنہیں عوامی سطح پر پذیرائی ملی اور ان میں ہمارے قائد نے اپنا موقف قوم کے سامنے رکھا۔ یہ مارچ منظم اور پرامن تھے جس کی گواہی ہمارے مخالفین بھی دیتے ہیں۔ ہمارا آخری ملین مارچ 28 جولائی کو کوئٹہ میں منعقد ہوا جس میں مولانا فضل الرحمن نے چند مطالبات رکھے اور اعلان کیا کہ اکتوبر میں آزادی مارچ کریں گے۔
اس حوالے سے تاریخ نہیں دی گئی تھی۔ جمعیت علماء اسلام (ف) نے کل جماعتی کونفرنس بلائی، اپوزیشن جماعتوں سے بار بار مشاورت کی گئی اور پھر آزادی مارچ کی تاریخ دے دی گئی۔ اس مارچ کا آغاز 27 اکتوبر سے کیا جائے گا جو کشمیر کیلئے ہے۔ ہم اس دن ملک بھر میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے اکٹھے ہوں گے اور بھارتی ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھائی جائے گی۔ اس کے بعد ہمارے قافلے اسلام آباد کی جانب مارچ کریں گے۔
اب تک ہمارے 15 ملین مارچ ہوئے جو پرامن تھے، اب بھی ہم پر امن احتجاج کریں گے ۔ یہ واضح کرتے ہیں کہ ہم پارلیمنٹ، پی ٹی وی یا کسی ادارے پر حملہ نہیں کریں گے۔ہمارے پروگرام کا آغاز اللہ تعالیٰ کے پاک کلام کی تلاوت سے ہوگا، نعت خوانی کی جائے گی، نمازیں پڑھی جائیں گی اور لوگ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوں گے۔جہاں اللہ اور اس کے رسولؐ کا ذکر ہو وہاں رحمتیں نازل ہوتی ہیں لہٰذا ہم اسلام آباد میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور عوام کا سیلاب لے کر داخل ہوں گے۔ موجودہ حکومت نے عوام سے کیا ہوا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ایک وفاقی وزیر یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت 400 محکمے بند کرنے جا رہی ہے۔
لہٰذا نوکریوں کیلئے حکومت کی طرف نہ دیکھا جائے۔ یہ اس جماعت کے وزیر ہیں جس نے لوگوں کو 1 کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اس وقت معیشت تباہ حال ہے، مہنگائی عروج پر ہے، ڈالر کی اونچی اڑان ہے، پٹرول مہنگا ہے غرضیکہ عوام کی زندگی مشکل ہوچکی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ تاجروں نے بغیر کسی سیاسی قیادت کی کال کے ملک گیر ہڑتال کی اور گزشتہ دنوں فیصل آباد میں تاریخ کی سب سے کامیاب ہڑتال کی گئی۔ جب ملک بحرانوں سے دوچار ہو ملکی قیادت کا کام سب کو ساتھ ملاکر ان کا حل ڈھونڈھنا ہوتا ہے مگر افسوس ہے کہ یہ حکومت سب سے انتقام لے رہی ہے۔
عوام ہمارے ساتھ ہیں، وہ ان سے مایوس ہو چکے ہیں اور اس حکومت سے جان چھڑوانا چاہتے ہیں۔ ہمیں تمام اپوزیشن جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے لہٰذا آزادی مارچ ہر صورت میں ہوگا، ہم سب جماعتوں سے رابطے میں ہیں، مشاورتی اجلاس ہورہے ہیں، ہم کنٹینر پر بھی اجلاس کریں گے اور مستقبل کا لائحہ عمل طے کرتے رہیں گے۔ ہماری رضاکار فورس دستور کے مطابق ہے جو الیکشن کمیشن و متعلقہ اداروں کو معلوم ہے۔
2017ء جب امام کعبہ پاکستان تشریف لائے تھے تو اس اجتماع میں 50 لاکھ افراد نے شرکت کی ، اس اجتماع میںانہی رضاکاروں نے ڈیوٹی دی۔ ہمارے یہ رضاکار ملین مارچ کے دوران ایمبولینس کو راستہ دلوائیں گے اور یقینی بنائیں گے کہ کسی قسم کا کوئی نقصان نہ ہو۔ حکومت ہمیں بدنام کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر اسے سمجھنا چاہیے کہ اب عوام باشعور ہیں اور اس پراپیگنڈہ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہم تمام ملکی مسائل پر بات کر رہے ہیں۔ مذہبی کارڈ کی بات کی جاتی ہے، پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور ہم مذہب کو اپنی زندگی سے الگ نہیں کرسکتے۔ حضرت محمدؐ کی حرمت پر ہمارا جان مال، اولاد، زندگی سب کچھ قربان ہے۔ ہم مذہبی و دنیوی تمام ملکی و عوامی مسائل پر بات کریں گے اور ان کے حل کیلئے ہر ممکن دباؤ ڈالیں گے۔