مسعود رانا نے گائیکی کا آغاز ریڈیو سے کیا
مسعود رانا نے ’’انقلاب‘‘ سے فلم انڈسٹری میںقدم رکھا۔
KARACHI:
مسعود رانا نے بحیثیت گلوکار بے شمار فلموں میں اپنی حسین و دلکش آواز کا جادو جگایا اور بڑے عمدہ مسحور کن مقبول ترین نغمات سے شہرت ومقبولیت حاصل کی۔
اردو اور پنجابی فلموں کے بیک وقت وہ مصروف ترین گلوکار تھے ۔ اگر ایک طرف'' تانگے والا خیر منگدا'' کی گونج گلی گلی سنائی دیتی تھی تو دوسری طرف ''تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں''نے دھوم مچا رکھی تھی۔ راجہ حفیظ کی فلم ''ہمراہی'' کے تمام ہی نغمات بے حد مقبول ہوئے اور مسعود رانا ان سبھی گیتوں میں فن کی تمام تر بلندیوں کو چھوتے ہوئے نظر آئے۔ مسعود رانا 9جون 1938ء کو میر پور خاص میں پیدا ہوئے ۔انھوں نے گائیکی کا آغاز ریڈیو سے کیا اور 1955ء میں کراچی میں ایک میوزک گروپ قائم کیا جس میں گلوکار اخلاق احمد اور ندیم بیگ جیسے بڑے نام شامل تھے ۔ فلم انڈسٹری میں انھیں اداکار ساقی نے پروڈیوسر وڈائریکٹر شہزاد اقبال سے متعارف کروایا اور انھوں نے پہلا فلمی گیت فلم''انقلاب'' کے لیے گیا تھا مگر انھیں اصل شہرت فلم''بنجارن '' سے ملی تھی ۔
ہمایوں مرزا کی مشہور فلم ''آگ کا دریا'' میں شاعر انقلاب حضرت جوش ملیح آبادی کے نغمے '' اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں'' کو جس عمدگی سے مسعود رانا نے گایا وہ ان کی فنی صلاحیتوں کی ایک روشن مثال ہے۔ شکل و وصورت میں بھی ماشاء اللہ کسی روایتی فلمی ہیرو سے کم نہ تھے بلکہ دو فلموں میں باقاعدہ طور پر ہیرو کا کردار بھی ادا کیا ۔ ان میں سے ایک تو شاہی فقیر نامی اردو فلم تھی دوسری ایک پنجابی فلم ''دومٹیاراں'' میاں بشیر احمد کا معروف ملی نغمہ '' ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح'' بھی مسعود کی فنکارانہ عظمتوں کا مظہر ہے۔ مسعود رانا کی تمام فلموں کا احاطہ تو سردست ممکن نہیں البتہ ان کے معروف و مقبول ترین نغمات ''جھوم اے دل میرا جان بہار آیا ہے'' ، '' رکھ دیا قدموں پہ دل نذرانہ'' ، ''یہ وعدہ کرو کہ محبت کرینگے '' ، '' عاشقاں توں سوہنا مکھڑا چھپان لئی'' ، ''بڑی مہربانی بڑی ہی عنایت'' ، ''بھیگی بھیگی ٹھنڈی ہوا'' ،''بھل جاندے نیں سب غم دنیادے'' جیسے گانے ان کے کریڈٹ پر ہیں۔
ہدایتکار ایم صادق کی پاکستان میں پہلی اور آخری فلم '' بہارو پھول برسائو'' میں مسعود رانا کا یہ گانا ''میرے دل کی ہے آواز کہ بچھڑا یاد ملے گا'' بہت مقبول ہوا۔ الف لیلی ، بنجارن، بدنام ، آرزو، ہمراہی ، نازنین، مترئی ماں، ذیلدار، مورچہ، گبھرو پت پنجاب دے ، لنگوٹیا ، مکھڑا چن ورگا، شیراں دی جوڑی، جوانی مستانی، روٹی اور بے شمار فلموں میں مسعود رانا نے گیت گائے ۔ مسعود رانا میں قناعت پسندی بہت تھی وہ ایک درویش صفت انسان تھے۔ اتنے بھرپور فلمی کیرئیر اور ایک مقبول ومصروف ترین گلوکار ہوتے ہوئے لاہور میں اپنا ذاتی مکان تک نہیں بنا سکے۔ ان میں دید لحاظ بھی ضرورت سے زیادہ تھا ایسے درویش اور نیک سیرت انسان کو عزت واحترام زیادہ دینے کی بجائے اہل زمانہ سیدھا اور کم عقل کہتے ہیں ۔ یہ معروف گلوکار چار اکتوبر 1995ء کو خالق حقیقی سے جا ملا۔
مسعود رانا نے بحیثیت گلوکار بے شمار فلموں میں اپنی حسین و دلکش آواز کا جادو جگایا اور بڑے عمدہ مسحور کن مقبول ترین نغمات سے شہرت ومقبولیت حاصل کی۔
اردو اور پنجابی فلموں کے بیک وقت وہ مصروف ترین گلوکار تھے ۔ اگر ایک طرف'' تانگے والا خیر منگدا'' کی گونج گلی گلی سنائی دیتی تھی تو دوسری طرف ''تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں''نے دھوم مچا رکھی تھی۔ راجہ حفیظ کی فلم ''ہمراہی'' کے تمام ہی نغمات بے حد مقبول ہوئے اور مسعود رانا ان سبھی گیتوں میں فن کی تمام تر بلندیوں کو چھوتے ہوئے نظر آئے۔ مسعود رانا 9جون 1938ء کو میر پور خاص میں پیدا ہوئے ۔انھوں نے گائیکی کا آغاز ریڈیو سے کیا اور 1955ء میں کراچی میں ایک میوزک گروپ قائم کیا جس میں گلوکار اخلاق احمد اور ندیم بیگ جیسے بڑے نام شامل تھے ۔ فلم انڈسٹری میں انھیں اداکار ساقی نے پروڈیوسر وڈائریکٹر شہزاد اقبال سے متعارف کروایا اور انھوں نے پہلا فلمی گیت فلم''انقلاب'' کے لیے گیا تھا مگر انھیں اصل شہرت فلم''بنجارن '' سے ملی تھی ۔
ہمایوں مرزا کی مشہور فلم ''آگ کا دریا'' میں شاعر انقلاب حضرت جوش ملیح آبادی کے نغمے '' اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں'' کو جس عمدگی سے مسعود رانا نے گایا وہ ان کی فنی صلاحیتوں کی ایک روشن مثال ہے۔ شکل و وصورت میں بھی ماشاء اللہ کسی روایتی فلمی ہیرو سے کم نہ تھے بلکہ دو فلموں میں باقاعدہ طور پر ہیرو کا کردار بھی ادا کیا ۔ ان میں سے ایک تو شاہی فقیر نامی اردو فلم تھی دوسری ایک پنجابی فلم ''دومٹیاراں'' میاں بشیر احمد کا معروف ملی نغمہ '' ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح'' بھی مسعود کی فنکارانہ عظمتوں کا مظہر ہے۔ مسعود رانا کی تمام فلموں کا احاطہ تو سردست ممکن نہیں البتہ ان کے معروف و مقبول ترین نغمات ''جھوم اے دل میرا جان بہار آیا ہے'' ، '' رکھ دیا قدموں پہ دل نذرانہ'' ، ''یہ وعدہ کرو کہ محبت کرینگے '' ، '' عاشقاں توں سوہنا مکھڑا چھپان لئی'' ، ''بڑی مہربانی بڑی ہی عنایت'' ، ''بھیگی بھیگی ٹھنڈی ہوا'' ،''بھل جاندے نیں سب غم دنیادے'' جیسے گانے ان کے کریڈٹ پر ہیں۔
ہدایتکار ایم صادق کی پاکستان میں پہلی اور آخری فلم '' بہارو پھول برسائو'' میں مسعود رانا کا یہ گانا ''میرے دل کی ہے آواز کہ بچھڑا یاد ملے گا'' بہت مقبول ہوا۔ الف لیلی ، بنجارن، بدنام ، آرزو، ہمراہی ، نازنین، مترئی ماں، ذیلدار، مورچہ، گبھرو پت پنجاب دے ، لنگوٹیا ، مکھڑا چن ورگا، شیراں دی جوڑی، جوانی مستانی، روٹی اور بے شمار فلموں میں مسعود رانا نے گیت گائے ۔ مسعود رانا میں قناعت پسندی بہت تھی وہ ایک درویش صفت انسان تھے۔ اتنے بھرپور فلمی کیرئیر اور ایک مقبول ومصروف ترین گلوکار ہوتے ہوئے لاہور میں اپنا ذاتی مکان تک نہیں بنا سکے۔ ان میں دید لحاظ بھی ضرورت سے زیادہ تھا ایسے درویش اور نیک سیرت انسان کو عزت واحترام زیادہ دینے کی بجائے اہل زمانہ سیدھا اور کم عقل کہتے ہیں ۔ یہ معروف گلوکار چار اکتوبر 1995ء کو خالق حقیقی سے جا ملا۔