وزیراعظم صاحب روم جل رہا ہے
وزیرِاعظم پاکستان کے خستہ حال نظریات، ذہنی انتشار اور ناقص ترجیحات کی قیمت پاکستان انتہائی نقصان اٹھا کر ادا کر رہا ہے
قیامِ پاکستان کے وقت سے سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کے مابین جاری اقتدار کے کھیل میں عمران خان سے زیادہ نظریاتی، ذہنی اور شخصی مخمصے کا شکار کردار شاید ہی کبھی سامنے آیا ہو۔ وہ اس قدر ژولیدہ سوچ حکمران ثابت ہورہے ہیں جن کے بارے میں پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنی ادھیڑبن کا شکار شخص ریاستی امور کا نگہبان ٹھہرا ہے۔
عوام سے خطاب کریں تو ریاست کی نظریاتی اساس کی بات کرتے ہوئے ریاستِ مدینہ کے قیام کی نوید سناتے ہیں اور کسی جدید مسلمان خلیفہ کی طور پر اپنا آپ پیش کرتے ہیں، تب ایک وجیہ سیاسی شخص کی زبان سے جنرل ضیاء مکالمہ کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ چین کے دورے پر جائیں تو کسی چینی حاکمِ مطلق کی طرح اپنے عہدے کےلیے اختیارات کے مکمل ارتکاز کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں اور مخالفین کو کرپشن کی بنیاد پر جیل میں ڈال کر چکیاں نہ پسوا سکنے پر افسوس فرماتے ہیں، تب وہ فسطائی نظریات کے علم بردار اور آمرانہ روایات کے امین معلوم پڑتے ہیں۔ مہاتیر محمد صاحب سے ملاقات ہوجائے تو ریاستِ پاکستان کےلیے ملائیشیا کا معاشی خاکہ تجویز فرما دیتے ہیں، لیکن اختتام بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے آگے سب کچھ ہار جانے پر ہوتا ہے۔ قائداعظم کا نام لے لے کر ایک طرف اپنے آپ کو جمہوری سیاست دان کہتے ہیں تو دوسری طرف جلسوں میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے امریکی دورے کی فلمیں چلا چلا کر اسے پاکستان کا سنہرا ترین دور ثابت کرتی اشتہاری مہم بھی چلائے جاتے ہیں۔
اپنے آپ کو جمہوری پارلیمانی نظام کا سرخیل بھی سمجھتے ہیں اور غیر جمہوری قوتوں کا استعارہ بھی بنے بیٹھے ہیں۔ تمام حقائق اور عوامی مسائل سے شناسائی کا دعویٰ بھی اور لاعلمی و خودفریبی ایسی کہ قومی معاملات سے بے خبر امہ کی امامت کا مغالطہ بھی پال بیٹھے ہیں۔ نظام اور اداروں کی مضبوطی کا مدعا بھی اٹھاتے ہیں اور نرگسیت کا عالم ایسا ہے کہ جس طرح چلتی بس میں چورن فروش تمام مسافروں کی ہر دائمی بیماری کا علاج تھیلے سے مختلف رنگت کی، ایک ہی قسم کے چورن سے بھری، ڈبیاں نکال نکال کر تسلی بخش علاج کے طور پر بیچ دیتا ہے ٹھیک اسی طرح وزیرِاعظم اپنی شخصیت کو رنگ برنگے لبادے اوڑھا کر تمام مسائل کے شافی حل کے طور پیش کردیتے ہیں۔ ان شخصی تضادات اور مخمصوں کی فہرست اس قدر طویل ہے کہ صفحات کے صفحات رنگین کیے جاسکتے ہیں۔
وزیرِاعظم پاکستان کے خستہ حال نظریات، ذہنی انتشار، ناقص ترجیحات اور مخمصے کی قیمت پاکستان انتہائی نقصان اٹھا کر ادا کر رہا ہے۔ ملک کی معاشی صورتحال انہدام پذیر ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری عوام کےلیے ناقابلِ برداشت ہوتی چلی جارہی ہے۔ انتہائی حد کے پروپیگنڈے کا ہتھیارعمران خان نے حکومت میں آنے کےلیے بے دریغ استعمال کیا تھا، جس کے باعث پیدا کی گئیں غیر حقیقی توقعات اب بدترین کارکردگی اور تلخ معاشی حقائق کے بوجھ تلے دبتی جارہی ہیں، حالانکہ پروپیگنڈا کے سر پر سوار کسی بھی مقبول حکومت کےلیے توقعات پر مناسب حد تک بھی پورا نہ اترنا کوئی انتخاب ہوہی نہیں سکتا۔ توقعات کی تکمیل میں ناکامی کا خلا اچھے مستقبل سے متعلق مزید آس دلا کر، اصل حل طلب مسائل کو پس منظر میں ڈال کر اور غیرضروری معاملات کو انتہائی اہم قومی امور بنا کر پیش کرنا نہ صرف یہ کہ حکومت کی سنجیدگی اور اہلیت پر سوالات کھڑا کرتا ہے بلکہ اس کی ساکھ تباہ کرنے کا باعث بھی بن رہا ہے۔ ستم لیکن یہ ہے کہ حکومتی اراکین، وزرا اور وزیراعظم ان زمینی حقائق کا ادراک تک کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
نرگسیت، خودفریبی، ترجیحات اور لاعلمی کا یہ عالم ہے کہ حالیہ دنوں میں وزیرِاعظم سنجیدہ نوعیت کے عوامی مسائل سے قطع تعلق ہوئے دو عدد روایتی فریق مسلم ممالک کے درمیان خودساختہ ثالث کا کردار ادا کرنے میں بری طرح مگن رہے۔ یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ وزیرِاعظم صاحب 14 ماہ کی حکومت کے بعد اب ملک کی ابتر معاشی صورتحال اور غیر تسلی بخش کارکردگی کے چبھتے ہوئے سوالات کے بدلے میں نئی ڈبیا میں پرانا چورن بیچتے ہوئے قوم کے سامنے اپنا تشخص امہ کے نئے امام کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو خطے میں امن کا خواہاں ہے، انتہائی زیرک ہے اور خوب اثر و رسوخ بھی رکھتا ہے۔ پروپیگنڈا اور دکھاوے پر مبنی یہ لائحہ عمل کسی صورت عوام کی معاشی مشکلات میں کمی لانے کا سبب نہیں بن سکتا، البتہ حکومت کی جانب سے عوامی مشکلات کو مسلسل نظرانداز کیا جانا عوامی اضطراب میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ضرور کرتا چلا جا رہا ہے۔
تمام بین الاقوامی مالیاتی ادارے مشیر خزانہ اور حکومت کی جانب سے معیشت میں بہتری اور 'بس یہ دوسری گلی کے موڑ پر کھڑی' مضبوط خودکفیل معیشت کے دعووں کے برعکس کم از کم آئندہ دو برسوں کےلیے پاکستانی معیشت کی بہت اچھی منظرکشی نہیں کررہے، لہٰذا حکومت کی جانب سے اچھے دنوں کی آس میں عوام کو مزید برداشت کی تلقین کرنا دانشمندانہ نصیحت ثابت نہیں ہوسکتی، کیونکہ عوام کو میسر سہولیات اور معاشی حالات موجودہ دورِ حکومت میں بہتر سے خراب ہوکر بدترین ہوچکے ہیں۔ وزیرِاعظم کو نظریاتی انتشار، غیر سنجیدہ مفروضات، خود فریبی، دکھاوے، نرگسیت، مسیحائی، نسخوں، ٹوٹکوں، فسطائی طرزِ عمل اور مخمصے سے جان چھڑا کر سنجیدگی سے پاکستان کے سنگین ہوتے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
عمران خان صاحب پچھلے 14 ماہ میں پیدا ہوئیں معاشی مشکلات، عوامی رائے، بنیادی ضروریات، جذبات اور ٹماٹر، پیاز کی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوچکی قیمتوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے، کیونکہ بہرحال وہ جتنے بھی وجیہ ہوں، سوراخوں والے کپڑے پہنیں، رنگ برنگی ڈبیاں نکال نکال کر بانٹیں، طویل مدتی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ معاشی کارکردگی کی بنیاد پر ہونا ہے۔
فی الوقت منظر یہ ہے کہ روم جل رہا ہے اور مخمصے کا شکار نیرو بانسری بجانے میں مشغول ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
عوام سے خطاب کریں تو ریاست کی نظریاتی اساس کی بات کرتے ہوئے ریاستِ مدینہ کے قیام کی نوید سناتے ہیں اور کسی جدید مسلمان خلیفہ کی طور پر اپنا آپ پیش کرتے ہیں، تب ایک وجیہ سیاسی شخص کی زبان سے جنرل ضیاء مکالمہ کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ چین کے دورے پر جائیں تو کسی چینی حاکمِ مطلق کی طرح اپنے عہدے کےلیے اختیارات کے مکمل ارتکاز کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں اور مخالفین کو کرپشن کی بنیاد پر جیل میں ڈال کر چکیاں نہ پسوا سکنے پر افسوس فرماتے ہیں، تب وہ فسطائی نظریات کے علم بردار اور آمرانہ روایات کے امین معلوم پڑتے ہیں۔ مہاتیر محمد صاحب سے ملاقات ہوجائے تو ریاستِ پاکستان کےلیے ملائیشیا کا معاشی خاکہ تجویز فرما دیتے ہیں، لیکن اختتام بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے آگے سب کچھ ہار جانے پر ہوتا ہے۔ قائداعظم کا نام لے لے کر ایک طرف اپنے آپ کو جمہوری سیاست دان کہتے ہیں تو دوسری طرف جلسوں میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے امریکی دورے کی فلمیں چلا چلا کر اسے پاکستان کا سنہرا ترین دور ثابت کرتی اشتہاری مہم بھی چلائے جاتے ہیں۔
اپنے آپ کو جمہوری پارلیمانی نظام کا سرخیل بھی سمجھتے ہیں اور غیر جمہوری قوتوں کا استعارہ بھی بنے بیٹھے ہیں۔ تمام حقائق اور عوامی مسائل سے شناسائی کا دعویٰ بھی اور لاعلمی و خودفریبی ایسی کہ قومی معاملات سے بے خبر امہ کی امامت کا مغالطہ بھی پال بیٹھے ہیں۔ نظام اور اداروں کی مضبوطی کا مدعا بھی اٹھاتے ہیں اور نرگسیت کا عالم ایسا ہے کہ جس طرح چلتی بس میں چورن فروش تمام مسافروں کی ہر دائمی بیماری کا علاج تھیلے سے مختلف رنگت کی، ایک ہی قسم کے چورن سے بھری، ڈبیاں نکال نکال کر تسلی بخش علاج کے طور پر بیچ دیتا ہے ٹھیک اسی طرح وزیرِاعظم اپنی شخصیت کو رنگ برنگے لبادے اوڑھا کر تمام مسائل کے شافی حل کے طور پیش کردیتے ہیں۔ ان شخصی تضادات اور مخمصوں کی فہرست اس قدر طویل ہے کہ صفحات کے صفحات رنگین کیے جاسکتے ہیں۔
وزیرِاعظم پاکستان کے خستہ حال نظریات، ذہنی انتشار، ناقص ترجیحات اور مخمصے کی قیمت پاکستان انتہائی نقصان اٹھا کر ادا کر رہا ہے۔ ملک کی معاشی صورتحال انہدام پذیر ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری عوام کےلیے ناقابلِ برداشت ہوتی چلی جارہی ہے۔ انتہائی حد کے پروپیگنڈے کا ہتھیارعمران خان نے حکومت میں آنے کےلیے بے دریغ استعمال کیا تھا، جس کے باعث پیدا کی گئیں غیر حقیقی توقعات اب بدترین کارکردگی اور تلخ معاشی حقائق کے بوجھ تلے دبتی جارہی ہیں، حالانکہ پروپیگنڈا کے سر پر سوار کسی بھی مقبول حکومت کےلیے توقعات پر مناسب حد تک بھی پورا نہ اترنا کوئی انتخاب ہوہی نہیں سکتا۔ توقعات کی تکمیل میں ناکامی کا خلا اچھے مستقبل سے متعلق مزید آس دلا کر، اصل حل طلب مسائل کو پس منظر میں ڈال کر اور غیرضروری معاملات کو انتہائی اہم قومی امور بنا کر پیش کرنا نہ صرف یہ کہ حکومت کی سنجیدگی اور اہلیت پر سوالات کھڑا کرتا ہے بلکہ اس کی ساکھ تباہ کرنے کا باعث بھی بن رہا ہے۔ ستم لیکن یہ ہے کہ حکومتی اراکین، وزرا اور وزیراعظم ان زمینی حقائق کا ادراک تک کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
نرگسیت، خودفریبی، ترجیحات اور لاعلمی کا یہ عالم ہے کہ حالیہ دنوں میں وزیرِاعظم سنجیدہ نوعیت کے عوامی مسائل سے قطع تعلق ہوئے دو عدد روایتی فریق مسلم ممالک کے درمیان خودساختہ ثالث کا کردار ادا کرنے میں بری طرح مگن رہے۔ یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ وزیرِاعظم صاحب 14 ماہ کی حکومت کے بعد اب ملک کی ابتر معاشی صورتحال اور غیر تسلی بخش کارکردگی کے چبھتے ہوئے سوالات کے بدلے میں نئی ڈبیا میں پرانا چورن بیچتے ہوئے قوم کے سامنے اپنا تشخص امہ کے نئے امام کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو خطے میں امن کا خواہاں ہے، انتہائی زیرک ہے اور خوب اثر و رسوخ بھی رکھتا ہے۔ پروپیگنڈا اور دکھاوے پر مبنی یہ لائحہ عمل کسی صورت عوام کی معاشی مشکلات میں کمی لانے کا سبب نہیں بن سکتا، البتہ حکومت کی جانب سے عوامی مشکلات کو مسلسل نظرانداز کیا جانا عوامی اضطراب میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ضرور کرتا چلا جا رہا ہے۔
تمام بین الاقوامی مالیاتی ادارے مشیر خزانہ اور حکومت کی جانب سے معیشت میں بہتری اور 'بس یہ دوسری گلی کے موڑ پر کھڑی' مضبوط خودکفیل معیشت کے دعووں کے برعکس کم از کم آئندہ دو برسوں کےلیے پاکستانی معیشت کی بہت اچھی منظرکشی نہیں کررہے، لہٰذا حکومت کی جانب سے اچھے دنوں کی آس میں عوام کو مزید برداشت کی تلقین کرنا دانشمندانہ نصیحت ثابت نہیں ہوسکتی، کیونکہ عوام کو میسر سہولیات اور معاشی حالات موجودہ دورِ حکومت میں بہتر سے خراب ہوکر بدترین ہوچکے ہیں۔ وزیرِاعظم کو نظریاتی انتشار، غیر سنجیدہ مفروضات، خود فریبی، دکھاوے، نرگسیت، مسیحائی، نسخوں، ٹوٹکوں، فسطائی طرزِ عمل اور مخمصے سے جان چھڑا کر سنجیدگی سے پاکستان کے سنگین ہوتے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
عمران خان صاحب پچھلے 14 ماہ میں پیدا ہوئیں معاشی مشکلات، عوامی رائے، بنیادی ضروریات، جذبات اور ٹماٹر، پیاز کی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوچکی قیمتوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے، کیونکہ بہرحال وہ جتنے بھی وجیہ ہوں، سوراخوں والے کپڑے پہنیں، رنگ برنگی ڈبیاں نکال نکال کر بانٹیں، طویل مدتی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ معاشی کارکردگی کی بنیاد پر ہونا ہے۔
فی الوقت منظر یہ ہے کہ روم جل رہا ہے اور مخمصے کا شکار نیرو بانسری بجانے میں مشغول ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔