دی ڈکٹیٹر

جب ڈکٹیٹر ہر جگہ پائے جاتے ہیں تو پھر پاکستان کرکٹ بھلا کیسے اس عظیم ’نعمت‘ سے محروم ہوسکتی ہے


Husnain Anwer October 21, 2019
ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ ہمیں جمہوریت میں بھی ڈکٹیٹر ہی نصیب ہوئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ اس کا زیادہ تر واسطہ ڈکٹیٹرز سے پڑا۔ جو نامی گرامی اور تسلیم شدہ ڈکٹیٹرز تھے ان کے بارے میں سب جانتے ہیں مگر ہماری بدقسمتی تو یہ رہی کہ ہمیں جمہوریت میں بھی ڈکٹیٹر ہی نصیب ہوئے اور صرف جمہوریت یا سیاست کا ہی کیا رونا، یہاں پر تو کسی کو ذرا برابر بھی اختیار مل جاتا ہے تو وہ اپنی ذات میں سب سے بڑا ڈکٹیٹر بن جاتا ہے۔

ڈکٹیٹر کے لفظی معنی بھلے جو بھی ہوں مگر صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ ڈکٹیٹر وہ ہوتا ہے جو ہر چیز میں من مانی کرتا ہے، خود کو دوسروں سے عظیم سمجھتا ہے، خود عقل کل اور باقی اسے بیوقوف دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمیں معاشرے میں جگہ جگہ دکھائی دیتے ہیں اور جب ایسے ڈکٹیٹر ہر جگہ پائے جاتے ہیں تو پھر پاکستان کرکٹ بھلا کیسے اس عظیم 'نعمت' سے محروم ہوسکتی ہے۔

ماضی کو کھنگالنے کے بجائے ہم سیدھا آج کی بات کرتے ہیں۔ ہم پاکستان کرکٹ کے نئے 'آل ان آل' کی بات کرتے ہیں، مصباح الحق گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان کرکٹ کا جانا پہچانا نام ہیں۔ انھوں نے کئی حوالوں سے شہرت پائی اور ساتھ میں خوب دولت بھی۔ اور یہ سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوچکا ہے۔

مصباح الحق کے بارے میں ہوائی فائرنگ کے بجائے ہم کچھ سیدھے سادھے حقائق شیئر کرنا چاہتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک بہترین کرکٹر تھے، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انضمام الحق، محمد یوسف اور یونس خان کی مڈل آرڈر میں موجودگی کی وجہ سے ان کے کیریئر کے کئی بہترین سال ضائع ہوگئے۔ یہ بات بھی سب کو معلوم ہوگی کہ انھیں گھر سے بلاکر اس وقت کپتان بنایا گیا تھا جب اس وقت کے پی سی بی 'ڈکٹیٹر' کا دستیاب آپشنز سے دل بھر گیا تھا۔
مصباح کو اگرچہ تمام فارمیٹس میں آزمایا گیا مگر اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ ان کی قائدانہ صلاحیتیں صرف ان کے کھیل سے میل کھانے والے ٹیسٹ فارمیٹ میں جادو جگاسکیں۔

اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ مصباح الحق کو پاکستان کا سب سے کامیاب کپتان ہونے کا اعزاز حاصل ہے، مگر کیا کریں کہ یہاں پر جس کو دوسرے کو نیچا دکھانا مقصود ہو اسے ویرات کوہلی کی مثالیں دینا شروع کردیتے ہیں۔ اسی 'روایت' پر عمل کرتے ہوئے ہم ایک چھوٹا سا موازنہ پیش کرتے ہیں۔ مصباح الحق نے 56 ٹیسٹ میچز میں بطور کپتان پاکستان ٹیم کو 26 میچز جتوائے، 19 میں شکست ہوئی۔ ویرات کوہلی اب تک 51 ٹیسٹ میچز میں 30 میں ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کرچکے اور صرف 10 میں ناکامی ہوئی۔ ویرات نے بھارتی ٹیم پر سے گھر کے شیر ہونے کا لیبل بھی اتار پھینکا۔ جب سے انھوں نے طویل فارمیٹ میں ٹیم کی قیادت سنبھالی ہے وہ مسلسل نمبر ون پوزیشن پر فائز ہے اور ہاں ان کی قیادت میں بھارت آسٹریلیا کو اس کے میدانوں پر ٹیسٹ سیریز ہرانے والا پہلا ایشیائی ملک بھی بنا۔

ورلڈ کپ 2011 تو تقریباً سب کو ہی یاد ہوگا، اس کے گروپ مرحلے میں گرین شرٹس کی کارکردگی انتہائی شاندار رہی مگر موہالی میں بھارت کے ہاتھوں سیمی فائنل میں شکست کے 2 بڑے ذمے دار کون تھے؟ بھول گئے ہیں تو اس میچ کی ویڈیو دیکھ لیجئے یا پھر اسکور کارڈ پر نظر ڈالیے، سب معلوم ہوجائے گا۔

2015 کے ورلڈ کپ میں کپتان مصباح الحق اور کوچ وقار یونس نے جو سرفراز احمد کے ساتھ تماشا لگائے رکھا وہ سب ریکارڈ کا حصہ اور آخر میں جنوبی افریقہ کے خلاف وکٹ کیپر بیٹسمین کو 'گڑوانے' کے لیے کھلانا اور ان کا اس 'ٹریپ' سے بچ نکلنا بھی سب کے سامنے ہے۔ اپنی یادیں مزید تازہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اسی ورلڈ کپ کے بعد مصباح الحق جب ایک روزہ کرکٹ سے ریٹائر ہوئے تو انھوں نے کرکٹ بورڈ کو اپنے 'شاگرد خاص' اظہر علی کو ون ڈے کپتان مقرر کرنے کی سفارش کی۔ اس وقت سب نے اس فیصلے کو غلط قرار دیا مگر بورڈ اس پر ڈٹ گیا اور 2 برس میں اظہر نے ایک روزہ کرکٹ میں پاکستان ٹیم کو 'پتھر کے زمانے' میں پہنچادیا۔

سرفراز کو حالیہ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں ٹیم کو رسائی نہ دلا پانے کا الزام دینے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ مصباح کے اسی شاگرد خاص نے تو ٹیم کو ورلڈ کپ کا کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنے کی رسوائی سے تقریباً دوچار کردیا تھا مگر سب کچھ لٹنے سے پہلے بورڈ کو ہوش آیا اور انھوں نے سرفراز احمد کو ون ڈے ٹیم کی قیادت سونپی، جنھوں نے ٹیم کو ٹاپ 8 میں نہ صرف برقرار رکھا بلکہ فوری طور پر قوم کو چیمپئنز ٹرافی کا تحفہ بھی دیا۔ آپ کو تو انھیں کریڈٹ دینا چاہیے کہ انھوں نے ٹیم کو پہلے ورلڈ کپ تک پہنچایا اور پھر میگا ایونٹ میں بھی ان کی قیادت میں ٹیم پانچویں نمبر پر تو رہی۔

اب کرکٹ بورڈ نے ایک بار پھر 'مصباح اور وقار' کی پرانی جوڑی کو یکجا کردیا ہے۔ انھوں نے آتے ہی سب سے پہلے پرانے 'ناخلف' سرفراز کا پتا صاف کیا اور پھر اپنے پرانے 'شاگرد خاص' اظہر علی کے سر پر ٹیسٹ ٹیم کا تاج بھی سجا دیا۔

بہت سے لوگوں کے نزدیک اظہر علی ایک بہترین بیٹسمین ہوں گے اور ہمیں بھی اس میں شک نہیں، مگر بڑا کھلاڑی صرف بڑے اسکور سے نہیں بنتا بلکہ اپنے اسکور کو جب میچ کی فتح کا باعث بناتا ہے تو تبھی وہ ایک بڑا کھلاڑی بنتا ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ کوالٹی اظہر علی میں نہیں ہے۔ کئی مرتبہ یہ بات نوٹ کی گئی کہ آخر میں وہ خود ذمے داری لینے کے بجائے ٹیل اینڈرز کو اسٹرائیک پر دھکیلتے اور خود اپنا دامن بچاتے ہوئے دکھائی دیے ہیں اور کرکٹ میں تو ویسے بھی 'جو ڈر گیا سمجھو مرگیا'۔

2016 کے ورلڈ ٹوئنٹی 20 میں ایک ٹوٹی پھوٹی ٹیم کو دنیا کی مختصر ترین فارمیٹ میں نمبر ون ٹیم بنانے کا کریڈٹ مکمل طور پر سرفراز کو جاتا ہے، جوکہ ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ مصباح الحق نے جس انداز میں لاہور میں سری لنکا کی بی ٹیم سے دنیا کی نمبر ون سائیڈ کو شکست دلوائی، اس سے اسی پرانی پاکستانی کرکٹ سیاست کی یاد تازہ ہوگئی جب اپنے ذاتی فائدہ کےلیے جیتے ہوئے میچز حریف سائیڈ کی جھولی میں ڈال دیے جاتے تھے۔

اور آخر میں، کسی نے ویسٹ انڈیز کو ٹی 20 چیمپئن بنوانے والے ڈیرن سیمی سے پوچھا کہ 'آپ اسپیشلسٹ بیٹسمین ہیں یا اسپیشلسٹ بولر' تو انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ 'میں اسپیشلسٹ کپتان ہوں'۔ اگر ٹیسٹ میں آپ سرفراز کو وقت دینے کو تیار نہیں تھے تو جن 2 فارمیٹس میں انھوں نے پاکستان ٹیم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا کم سے کم اس میں تو انھیں بطور 'اسپیشلسٹ کپتان' رہنے دیتے۔ اعتماد ملتا تو فارم کا جاگنا کون سا مشکل تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں