ہیش ٹیگ شکریہ مولانا

مولانا فضل الرحمن نے خان صاحب کو سیاسی ارتقاء کی ایک اور منزل طے کرنے کا موقع فراہم کیا ہے


سلمان نثار شیخ October 23, 2019
تحریک انصاف کے ٹائیگرز کو چاہیے کہ ’’شکریہ مولانا‘‘ کا ہیش ٹیگ چلائیں۔ (فوٹو: فائل)

غلامانِ عقل کی اکثریت جو کچھ سیکھتی ہے، اپنے تجربات ہی سے سیکھتی ہے۔ عمران خان فاسٹ بولنگ کیا کرتے تھے، بیٹنگ بہت بری کرتے تھے۔ گھٹنا خراب ہوگیا، تیز بھاگنا ممکن نہ رہا۔ جانتے تھے کہ بغیر بھاگے سلو بولنگ کرائی تو کارکردگی زیادہ اچھی نہ رہنے کی وجہ سے بے عزتی بھی ہوگی اور گھر بھی جانا پڑسکتا ہے۔ چنانچہ بیٹنگ پریکٹس پر پورا زور لگادیا۔ آج دنیا مانتی ہے کہ پاکستان کو بانوے کے عالمی کپ کا فائنل جتانے میں عمران خان کی بیٹنگ نے اہم کردار ادا کیا۔

عمران خان کی والدہ کو کینسر ہوگیا۔ وہ علاج کرانے نکلے تو معلوم ہوا کہ پاکستان میں اس موزی مرض کے علاج کا کوئی موزوں اسپتال موجود ہی نہیں تھا۔ ان کی والدہ تو نہ رہیں مگر آج وہ ان کے نام پر تیسرا کینسر اسپتال بنارہے ہیں۔

خان صاحب اعلیٰ تعلیم کے حصول کےلیے آکسفورڈ گئے تو انہیں معلوم ہوا کہ پاکستان کی درسگاہوں اور وہاں کی درسگاہوں میں کوئی مقابلہ ہی نہیں، بالخصوص جو تعلیم ہمارے غریب اور پسماندہ علاقوں کے طلبا کو مل رہی ہے، اس میں اور عالمی معیار کی تعلیم میں تو صدیوں کا فاصلہ ہے۔ چنانچہ جب اللہ نے انہیں توفیق دی تو انہوں نے اپنے دوردراز اور پسماندہ آبائی علاقے میں جدید اور بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی بھی بنا ڈالی۔

کرکٹ نے خان صاحب کو ملک کی حکمران اشرافیہ کو قریب سے دیکھنے اور ان کے کرتوتوں کو گہرائی میں جاننے کا موقع فراہم کیا۔ جب وہ ملک کے ہر سیاستدان سے مایوس ہوگئے تو انہوں نے اپنی جماعت بنائی۔ اول اول اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور اصولی سیاست کے نعرے لگاتے رہے۔ سمجھتے تھے کہ میں تو اسٹار ہوں، ایک آواز دوں گا تو پورا ملک میرے گرد جمع ہوجائے گا، مگر چند ہی سال میں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوگیا اور چپ چاپ مشرف سے اتحاد کرلیا۔ لیکن پھر چند ہی ماہ میں جان گئے کہ جو مدد دیتا ہے، حکم بھی اسی کا چلتا ہے، چنانچہ مشرف کو الوداع کہہ کر تنہا سفر پر نکل کھڑے ہوئے۔

پھر سیاستدانوں سے دوستیاں بنائیں۔ سیاسی اتحادوں میں شامل ہوئے۔ وکلاء تحریک میں نواز شریف کے ساتھ ملے۔ بی بی کی شہادت پر بھی ان کے ساتھ مل کر الیکشن کا بائیکاٹ کیا، لیکن پھر نواز زرداری کے کہنے پر الیکشن لڑنے پر راضی ہو گئے اور جب ججوں کی بحالی کےلیے لانگ مارچ کا وقت آیا تو بھی عمران خان سے یہ تک نہ پوچھا کہ میاں تمہارے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ چنانچہ سیاستدانوں اور سیاسی اتحادوں سے بری طرح بدظن ہوگئے اور جان گئے کہ کسی ایک پر تکیہ کافی نہیں۔ جوڑ توڑ، الیکٹ ایبلز کی جانب رجوع، اسٹیبلشمنٹ کی مدد، سرمایہ داروں کے تعاون اور طاقت کے مظاہرے سمیت ملکی سیاست میں رائج تمام برائیوں کے بحرِ ظلمات میں اترے بغیر کچھ ہاتھ نہیں آںے والا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا اور 2013 کے الیکشن میں ایک صوبے میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔

پھر انتخابات میں دھاندلی کا غم ستانے لگا۔ الیکشن آڈٹ، انتخابی اصلاحات اور چند حلقے کھولنے جیسے مطالبات کیے۔ میاں صاحب نہ مانے تو لانگ مارچ کیا، دھرنا دیا لیکن عوامی طاقت کے کسی بہت بڑے مظاہرے میں ناکام رہے۔ چنانچہ اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت لینے میں بھی ناکام ہوگئے۔

پاکستان کی ہمہ مقتدر قوتیں بڑی گھاگ ہیں۔ اچھی طرح جانتی ہیں کہ بڑی طاقت کو چھوٹی یا ٹکر کی قوت سے لڑا کر جتانے سے بغیر بدنام ہوئے صفائی سے کام ہوسکتا ہے، لیکن کمزور کو طاقتور سے لڑا کر جتوا دیا جائے تو انگلیاں اٹھتی ہیں، کیچڑ اچھلتا ہے اور سارے اجلے لباس میلے ہوجاتے ہیں۔
چنانچہ وہ کمزور کو طاقت کے انجیکشن لگا کر طاقتور کے سامنے تو لاکھڑا کرتی ہیں لیکن اگر وہ اس کے سامنے پہنچ کر شرِنک ہوجائے یا دُبک جائے یا بکری بن جائے یا ٹکر کا گبھرو نظر نہ آئے تو پھر اسے اوپر چڑھا کر نیچے سے سیڑھی کھینچ لیتی ہیں (مثلاً محمد خاں جونیجو، میر ظفراللہ جمالی، چوہدری برادران، پی ایس پی وغیرہ) چنانچہ دھرنا بھی ناکام رہا اور خان صاحب سمجھ گئے کہ جب تک اصل مقتدر قوتوں کی مکمل آشیرباد نہ ملی اور اپنی طاقت میں مزید اضافہ نہ ہوا، تب تک نہ حکومت ملے گی اور نہ کوئی دھاندلی شاندلی کا واویلا سنے گا۔ چنانچہ وہ پہاڑوں پر چڑھ گئے اور وہاں جاکر لانڈری کھول لی۔ الیکٹ ایبلز اپنے داغدار ماضی کے ساتھ ان کے پاس آتے گئے اور وہ انہیں نہلا دھلا کر اپنی کلین جماعت کا اُجلا لبادہ فراہم کرکے اُن کے پچھلے گناہ دھوتے گئے۔

یوں ایک طرف انہوں نے ملک بھر سے طاقتور انتخابی گھوڑوں کی فوج ظفر موج جمع کرلی اور دوسری طرف نواز شریف نے حسبِ روایت اور حسب سابق ہمہ مقتدر قوتوں سے بات بات پر الجھ کر خود کو لہولہان کرلیا۔ خان صاحب تو پہلے ہی موقع کی تلاش میں تھے اور اب اسٹیبلشمنٹ نے متبادل کی تلاش شروع کردی اور جلد ہی صحرا سمٹ گیا اور لیلیٰ اور مجنوں نے ایک دوسرے کو جا لیا۔ یوں خان صاحب 2018 کا الیکشن جیت گئے۔

اپوزیشن کی سیاست کے زمانے میں خان صاحب چوکوں اور چوراہوں سے عدالتوں تک ہر جگہ لاپتہ افراد کا مقدمہ لڑنے والوں کا ساتھ دیا کرتے تھے۔ حکومت میں آئے تو سمجھا دیا گیا کہ یہ شجرِ ممنوعہ ہے، چُپ ہوگئے۔ اب نام بھی نہیں لیتے۔

اقتدار ملنے سے پہلے وہ پولیس مقابلوں، ایجنسیوں کے تشدد، ماورائے عدالت ہلاکتوں، پروٹوکول، پولیس حکام کی مقتدر لوگوں سے وفاداریوں کے خلاف بھی بولا کرتے تھے۔ حکومت میں آئے تو ان کے الیکٹ ایبل دوستوں اور دیگر اربابِ حل و عقد نے سمجھا دیا کہ یہ سب ہماری ضرورت ہے۔ چپ ہوگئے۔ اب نام بھی نہیں لیتے۔

غیرملکی امداد کے خلاف لیکچر دیا کرتے تھے۔ حکومت میں آئے تو یارانِ نکتہ دان نے سمجھا دیا کہ اس کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔ سمجھ گئے۔ چپ ہوگئے۔ الٹا ٹی وی پر آکر تقریر کی اور کہنے لگے، قوم کو مبارک ہو، ہمیں قرض مل گیا۔ اسد عمر اس سب سے خوش نہ تھے۔ انہیں بھی چلتا کردیا مگر قرض لینے سے باز نہ آئے۔

ایک زمانے میں طالبان خان کہلاتے تھے۔ طالبان کے خلاف آپریشن نہیں چاہتے تھے۔ سانحہ اے پی ایس ہوا تو سب نے سمجھایا اور کوئی حل نہیں۔ مان گئے اور آپریشن کو سپورٹ کرنے لگے۔ حکومت میں آئے تو ٹرمپ نے ان سے کہا کہ وہ طالبان سے لڑتے لڑتے تھک گئے ہیں، مزید لڑنا نہیں چاہتے، صلح کرا دیں۔ پاکستان کی مقتدر قوتوں نے بھی سمجھایا کہ ہمیں بھی پرامن افغانستان چاہیے۔ پھر مان گئے۔ آج کل ٹرمپ طالبان سے دوبارہ نالاں ہیں مگر خان صاحب صلح کرانے کے مشن پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

غیرملکی زعما سے ملنے جلنے لگے تو پتہ چلا ایران، سعودی اور ایران، امریکا تنازعات کافی شدت اختیار کرچکے ہیں اور ان سے خطے کے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ نہ اپنا سائز دیکھا اور نہ دیگر قوتوں کا قد کاٹھ، کود پڑے میدان میں۔ بولے میں ثالثی کراؤں گا۔ کم از کم ابھی تک تو بظاہر تمام متحارب قوتیں ان کی کوششوں کا خیرمقدم کر رہی ہیں۔

اپوزیشن کے زمانے میں نواز مودی ملاقاتوں کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔ نواز شریف کو مودی کا یار اور غدار تک کہہ دیا کرتے تھے۔ حکومت میں آئے تو پتہ چلا کہ ہمارے پاس مذاکرات کے سوا اور کوئی آپشن نہیں۔ جھٹ مودی کو مذاکرات کی دعوت دے ڈالی۔ سدھو کو پاکستان بلا لیا۔ کرتارپور بارڈر کھولنے کا اعلان کردیا۔ وہاں تعمیراتی کام شروع کروا دیا جو اب نہ صرف یہ کہ مکمل ہونے کو ہے بلکہ بارڈر بھی آج کل میں کھلا ہی چاہتا ہے۔

لیکن پھر مودی نے بھارتی آئین میں ترمیم کروا کر مقبوضہ کشمیر کی امتیازی حیثیت ختم کروادی۔ وہاں کرفیو لگادیا اور مظالم کی انتہا کردی۔ خان صاحب اسلام آباد سے لے کر نیویارک تک مودی کے خلاف اتنا گرجے، اتنا گرجے کہ مخالف بھی تعریف پر مجبور ہوگئے۔ انسانی حقوق کی تمام تنظیمیں اور دنیا کے سب باضمیر افراد نے مودی کی مذمت اور پاکستان کے مؤقف کی تائید کی۔ سلامتی کونسل نے ایک بار پھر کئی دہائیوں کے بعد کشمیریوں کے حق میں قرارداد پاس کی۔ اپنے تمام تر معاشی اور تذویراتی مفادات کے باوجود ایران سے لے کر امریکا تک سب بھارت سے کشمیریوں پر مظالم بند کرنے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کرانے کی پیشکش کرنے لگے۔

خان صاحب مدت دراز سے مولانا صاحب کو ڈیزل، اور وہ انہیں یہودی ایجنٹ کہتے چلے آئے ہیں۔ 2013 میں خان صاحب نے مولانا صاحب سے ان کی طاقت کا گڑھ یعنی خیبرپختونخوا چھین لیا اور 2018 میں ان کو اپنی آبائی سیٹ تک سے محروم کردیا۔ پھر ان سے برسوں پرانی کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ بھی چلی گئی۔ ان کا غصہ دیدنی ہے۔ وہ جتنا آج خان صاحب کے خلاف بول رہے ہیں، پہلے کبھی نہیں بولے۔ وہ جتنی آج خان صاحب کے خلاف تحریک چلانے کے لیے محنت کر رہے ہیں، انہوں نے اپنی پوری سیاسی زندگی میں اتنی محنت نہیں کی۔ وہ جس طرح آج اپنے ہر دوست دشمن کے دروازے پر دستک دے کر خان صاحب کے خلاف تحریک کےلیے مدد مانگ رہے ہیں، انہوں نے آج سے پہلے ایسا کبھی نہیں کیا۔
انہوں نے ساری زندگی اسٹیبلشمنٹ سے دوستی پالی مگر آج انہوں نے اپنے پرانے دوستوں کی درخواست پر بھی خان صاحب کے خلاف تحریک چلانے سے گریز کرنے سے انکار کردیا ہے۔ لیکن اب خان صاحب ایک بار پھر یارانِ نکتہ داں کے سمجھانے پر مولانا سے مذاکرات پر آمادہ ہوچکے ہیں۔

اب آپ انہیں یوٹرن خان کہیں یا کچھ اور۔ وہ نواز شریف کی طرح ضدی نہیں ہیں۔ جہاز کو آئس برگ سے ٹکرانے کے قائل نہیں ہیں۔ خود کو حالات کے مطابق ڈھالنا، ان کا اصولی طریقہ ہے۔ چنانچہ قوی امکان ہے کہ جیسے جیسے خان صاحب بڑے ہوں گے، ویسے ویسے وہ آصف زرداری بنتے چلے جائیں گے۔ یعنی لچک اور مفاہمت ان کی پالیسی بنتی چلی جائے گی۔ مولانا مانیں گے یا نہیں اور ان کی تحریک تصادم، انتشار اور بڑے نتائج کی حامل ہوگی یا نہیں، اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا۔ لیکن ایک بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر آج خان صاحب تھوڑے سے پریشر پر مولانا سے مذاکرات پر راضی ہوسکتے ہیں تو پھر وہ تھوڑے مزید پریشر پر نواز شریف اور آصف زرداری سے بھی مذاکرات کریں گے اور کم از کم ان کی زندگی کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ رجوع انہیں راس آتا ہے۔

چنانچہ تحریک انصاف کے ٹائیگرز سے گزارش ہے کہ مولانا کے خلاف بڑھکوں سے اجتناب کریں بلکہ ان کا شکریہ ادا کریں کہ انہوں نے خان صاحب کو سیاسی ارتقاء کی ایک اور منزل طے کرنے کا موقع فراہم کیا، بلکہ انہیں تو چاہیے کہ ''شکریہ مولانا'' کا ہیش ٹیگ چلائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں