امریکی عدالت کا مردہ قرار دیئے گئے شخص کو دوبارہ زندہ ماننے سے انکار
اگر کسی شخص کو مردہ قرار دیا جائے تو اس فیصلے کو 3 سال گزرنے کے بعد واپس نہیں لیا جا سکتا، امریکی عدالت
امریکی عدالت نے 30 سال قبل لاپتہ ہونے کے بعد مردہ قرار دیئے جانے والے شخص کو دوبارہ زندہ ماننے سے انکار کردیا۔
امریکی عدالت کے جج ایلن ڈیوس کا کہنا ہے کہ ایک ایسا شخص جسے 3 دہائی قبل لاپتہ ہونے کے بعد مردہ قرار دیا گیا تھا،چاہے وہ زندہ ہو لیکن قانونی طور پر اب اسے زندہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی ریاست اوہائیو سے تعلق رکھنے والا 61 سالہ ڈونلڈ ملر نامی شخص 1986 میں بے روزگاری کے باعث اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر فرار ہوگیا تھا، اس وقت ان پر ایک بڑا قرض واجب الادا تھا تاہم 8 سال تک گمشدہ رہنے کے بعد انہیں 1994 میں قانونی طور پر مردہ قرار دیا گیا لیکن وہ 2005 میں دوبارہ منظر عام پر آگئے۔
جج ایلن ڈیوس کا کہنا تھا کہ سرکاری طور پر اگر کسی کو مردہ قرار دیا جائے تو اس فیصلے کو 3 سال گزرنے کے بعد واپس نہیں لیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ سب کچھ ہمارے سامنے واضح ہے کہ عدالت کے کمرے میں ایک شخص بیٹھا ہوا ہے جو بظاہر صحت مند بھی ہے لیکن ریاستی قانون اس آدمی کو زندہ قرار دینے کی اجازت نہیں دیتا۔
امریکی عدالت کے جج ایلن ڈیوس کا کہنا ہے کہ ایک ایسا شخص جسے 3 دہائی قبل لاپتہ ہونے کے بعد مردہ قرار دیا گیا تھا،چاہے وہ زندہ ہو لیکن قانونی طور پر اب اسے زندہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی ریاست اوہائیو سے تعلق رکھنے والا 61 سالہ ڈونلڈ ملر نامی شخص 1986 میں بے روزگاری کے باعث اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر فرار ہوگیا تھا، اس وقت ان پر ایک بڑا قرض واجب الادا تھا تاہم 8 سال تک گمشدہ رہنے کے بعد انہیں 1994 میں قانونی طور پر مردہ قرار دیا گیا لیکن وہ 2005 میں دوبارہ منظر عام پر آگئے۔
جج ایلن ڈیوس کا کہنا تھا کہ سرکاری طور پر اگر کسی کو مردہ قرار دیا جائے تو اس فیصلے کو 3 سال گزرنے کے بعد واپس نہیں لیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ سب کچھ ہمارے سامنے واضح ہے کہ عدالت کے کمرے میں ایک شخص بیٹھا ہوا ہے جو بظاہر صحت مند بھی ہے لیکن ریاستی قانون اس آدمی کو زندہ قرار دینے کی اجازت نہیں دیتا۔