کاروبار اجل
ایک وقت تھا جب ہیوی ٹریفک مقررہ اوقات میں شاہراہوں سے گزرتا تھا۔ رات 12 بجے کے بعد یا صبح فجر سے پہلے...
ایک وقت تھا جب ہیوی ٹریفک مقررہ اوقات میں شاہراہوں سے گزرتا تھا۔ رات 12 بجے کے بعد یا صبح فجر سے پہلے کا غالباً ٹائم مقرر تھا اس طرح شہری مشکلات کا سامنا کرنے سے بچ جاتے تھے لیکن سال دو سال سے یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ ٹرک، ٹرالر، ٹینکر، چھوٹی سواریوں کے ساتھ پتلی پتلی سڑکوں پر محو سفر ہوتے ہیں جب کہ آئے دن حادثات بھی منظر عام پر آتے ہیں۔ پچھلے دنوں پے درپے کئی حادثات ٹرالرکی وجہ سے ہوئے اور پورے پورے خاندان موت کے منہ میں چلے گئے کبھی تیز رفتاری کے باعث،کبھی نشے میں دھت ڈرائیوروں کی مدہوشی لوگوں کی ہلاکت کا سبب بنتی ہے۔ یہ ٹرالر ڈرائیور کی عجلت و لاپرواہی کی بناء پر گاڑیوں کو روندتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ کبھی کاروں کے اوپر جاگرتے ہیں، توازن برقرار نہ ہونے کی وجہ سے آئے دن ایسے دردناک واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
بدقسمت لوگوں کی لاشوں کو گاڑی کاٹ کر نکالنا پڑتا ہے، لاشیں اس قدر مسخ ہوجاتی ہیں کہ پہچاننے میں نہیں آتیں۔ اس قسم کے ٹریفک حادثات سے انتظامیہ اور ٹریفک پولیس کے ڈپارٹمنٹ کو عقل آنی چاہیے اور وہ بڑی گاڑیوں کو دن میں اور ایسے راستوں پر سفر کرنے کی ہرگز اجازت نہ دیں جہاں بے پناہ رش ہوتا ہے اور جن سڑکوں پر کار، موٹرسائیکل اور بسیں سفر کرتی ہیں۔ ٹرالر،ٹینکر یا ٹرک کی وجہ سے سڑکیں بلاک ہوجاتی ہیں اس کی وجہ قوانین توڑنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ ساتھ میں رشوت لینے والے ٹریفک پولیس بھی جگہ جگہ کھڑے نظرآتے ہیں۔گاڑیوں کی چیکنگ کے دوران اگر کسی کے پاس لائسنس اور دوسرے ضروری کاغذات نہ ہوں یا پھر کسی من جلے نے ٹریفک سگنل کی پابندی نہیں کی، تب یہ روک کر قانون توڑنے والے کی کلاس لینا شروع کرتے ہیں کہ اس دوران گاڑی یا موٹرسائیکل سوار سرخ نوٹ لہرا دیتا ہے۔
یہ سرخ نوٹ، سبز جھنڈی یا ہری بتی کی طرح ثابت ہوتا ہے، ان کی جیب گرم ہوگئی اور مسافروں کی جان چھوٹ گئی، بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ٹریفک پولیس افسران کو جب مہنگائی بہت ستاتی ہے اور جیب کچھ تقاضہ کرتی ہے، تب یہ چوراہے پر آکر کھڑے ہوجاتے ہیں مطلوبہ شکار کی تلاش میں، شکار ڈھونڈنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں، ٹریفک پولیس کے افسران اعلیٰ نے شہریوں کے لیے حالات ایسے پیدا کردیے ہیں کہ ہر شخص اس بات سے اچھی طرح واقف ہوگیا ہے کہ یہ اجلے لباس والے حضرات ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، بعض اوقات 20-10 سے ہی کام چل جاتا ہے اور یا پھر دو چار سو روپے کی رقم قانون شکنی پر پردہ ڈال دیتی ہے۔
فی زمانہ حالات ایسے ہیں کہ تھوڑے سے پیسوں کے عوض لوگوں کی جان لے لی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر انصاف کا جنازہ سر راہ نہ نکالا جاتا تو آج دہشت گردوں کے حوصلے ہرگز بلند نہ ہوتے، بھتہ خوروں اور تخریب کاروں سے عام آدمی ہی نہیں ڈرتا ہے بلکہ قانون کے محافظ بھی خوفزدہ ہیں کیا کریں وہ بھی انسان ہیں جان سب کو پیاری، لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ پولیس ہمت و جواں مردی کے ساتھ وطن کے غداروں سے مقابلہ کر رہی ہے اور اس مقابلے میں دہشت گرد ہی نہیں مارے جاتے ہیں بلکہ پولیس افسران بھی آئے دن شہید ہوتے ہیں۔ بچپن میں ہم نے کہانیاں پڑھی تھیں ان کہانیوں میں مائیں اپنے بچوں کو ڈرایا کرتی ہیں۔ باہر نہ جانا، بھیڑیا اٹھا کر لے جائے گا، رونا نہیں، تنگ نہ کرنا نہیں تو بھیڑیا لے جائے گا، سینہ بہ سینہ اس قسم کے واقعات منتقل ہوتے ہیں بزرگوں سے سنا ہے کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب درندے رات کی تاریکی میں شہر و دیہات میں داخل ہوتے اور انسانوں کو خصوصاً بچوں کو منہ میں دبا کر لے جاتے کسی دوشیزہ کو بنا سنورا، سرخ لباس میں ملبوس دیکھتے تب ان پر بھی حملہ آور ہوتے۔ یہ تو قصے کہانیوں کی باتیں ہیں، اب انسان خود درندہ بن چکا ہے۔
ان دنوں ''لیاری'' میں حالات اس قدر ابتر ہیں کہ رینجرز کے جوان بھی ان سے جان بچانے پر مجبور ہوگئے ان کے پاس جدید اسلحہ ہے اور پاکستان کے دشمنوں کا ان کے سروں پر ہاتھ۔لیاری گینگ نے رینجرز پر ایم ایل جی سے فائرنگ کی۔ لیاری میں گینگ وار ملزمان کی لائٹ مشین گن سمیت دیگر آتشیں اسلحے سے فائرنگ کے باعث رینجرز کو پسپا ہونا پڑا۔ ملزمان کی فائرنگ سے پورا علاقہ گونج اٹھا۔ رینجرز اہلکار کو سنبھلنے کا موقع تک نہ مل سکا۔ وہ فائرنگ کرتے ہوئے پیچھے ہٹتے گئے اور بمشکل جان بچا کر نکل سکے۔ حالات سے تو یہ اندازہ ہورہا ہے کہ جتنا اسلحہ فورسز کے پاس نہیں ہے اس سے کہیں زیادہ شہر میں موجود مختلف تنظیموں کے دہشت گردوں کے پاس موجود ہے اور وہ بھی غیر ملکی ساخت کا، کہاں سے لیا، کس نے دیا؟ دہشت گردی و تخریب کاری کے لیے کون سے عوامل کارفرما ہیں۔ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟ حکمران اور اعلیٰ شخصیات اب تک آنکھیں کیوں بند کیے بیٹھے تھے، یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات سے سیاستدانوں اور دانشور ضرور واقف ہوں گے۔
ملک کو یرغمال بنالیا گیا ہے۔ فورسز اندرونی خلفشار کے خاتمے اور دہشت گردوں کی پکڑ دھکڑ میں مصروف ہے، بعض اوقات تو آپریشن زدہ علاقوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کہ یہ ہمارا ملک نہیں ہے اور یہ جنگ بھی ہماری نہیں ہے۔ جب ملک ہمارا نہیں، جنگ ہماری نہیں تو یہ دہشت گرد بھی ہمارے کس طرح ہوسکتے ہیں؟ کہ جو اپنوں کا ہی خون بہا رہے ہیں، معصوم اور بے قصور لوگوں کو مارا جارہا ہے، نہ مساجد محفوظ ہیں اور نہ دوسری عبادت گاہیں، ہر روز خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے۔ اس کھیل میں ہارنے اور جیتنے والے اسی ملک کے باسی ہیں جنھیں دوسرے لوگ استعمال کر رہے ہیں۔(اور یہی بات دل کو غمزدہ کرتی ہے)۔
مفاد پرستوں اور ملک دشمنوں نے ہر طرح سے پاکستان اور پاکستانی عوام کو برباد کرنے کی کوشش کی ہے، اگر اس ملک کے حکمران اپنے وطن سے مخلص ہوتے تو کسی صورت میں غیرملکی ایجنٹوں کو بغیر ویزہ و پاسپورٹ داخل ہونے کی اجازت نہ دیتے۔ اتحادی نہ بنتے اور ڈرون حملوں کی مخالفت کو لازمی قرار دیتے، لیکن ایسا نہیں ہوا اور نہ اب ہوتا نظر آتا ہے البتہ کوشش اور بیانات دیے جارہے ہیں۔ حکومت کا نظم و نسق آج سے نہیں بلکہ سالہا سال سے خراب ہے اس ملک کے شہریوں کو طرح طرح سے موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے۔ خودکش و ڈرون حملے اپنی جگہ اور ٹارگٹ کلنگ اپنی جگہ پابندی سے ہورہی ہے شہر میں ٹریفک کا نظام الگ درہم برہم، کوئی پوچھنے والا نہیں، کس نے سگنل توڑا اور کس نے موت کے گھاٹ اتارا؟ قاتل کو کھلی چھٹی ہے۔ لگتا ہے کہ قاتلوں کومارنا بھی گناہ کبیرہ سے کم نہیں اسی لیے بڑی حفاظت سے رکھتے ہیں اور تھوڑے عرصے بعد رہا کردیتے ہیں کہ ان کے ہی دم سے کاروبار اجل سلامت ہے۔