مہذب قوم ہونے کا ثبوت دیں
ذی الحجہ کا چاند نظر آتے ہی ملک بھر میں چہل پہل شروع ہوگئی، جانور خرید کر گلی محلوں میں لائے جانے لگے۔
ذی الحجہ کا چاند نظر آتے ہی ملک بھر میں چہل پہل شروع ہوگئی، جانور خرید کر گلی محلوں میں لائے جانے لگے۔ اسی مہینے حج بھی ہوتا ہے چنانچہ اس حوالے سے حال ہی میں سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز الشیخ نے فتویٰ دے دیا کہ صاحب حیثیت افراد ایک سے زائد مرتبہ حج نہ کریں بلکہ اس رقم سے غریب و نادار افراد کی مدد کریں۔ اس فتویٰ کا خیر مقدم پروفیسر ڈاکٹر محمد شکیل اوج اور دیگر لوگوں نے بھی کیا ہے تاہم اس کے مدمقابل نقطہ نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ جن صاحب حیثیت افراد کو غربا کی مدد کرنا ہوگی وہ تو حج کرنے کے باوجود بھی کریں گے اور جو نہیں کرنا چاہتے وہ حج پر نہ جانے کے باوجود بھی مدد نہیں کریں گے، البتہ حج کرنے سے اﷲ تعالیٰ کسی کے دل کو بدل سکتا ہے، کسی کا ذہن وہاں کے روحانی ماحول سے بدل بھی سکتا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یقیناً حج کے بعد وہ اپنے مال و دولت سے پہلے سے کہیں زیادہ غربا کی مدد کرنے کو تیار ہوگا۔
یہ ایک طویل بحث ہے، بہرکیف بات ہورہی تھی عید قرباں کے جانوروں کو خریدنے کی، ان کی خدمت کرنے کی۔ بلاشبہ یہ ایک مذہبی فریضہ ہے اور قربانی کے عمل کا ایک حصہ بھی ہے لیکن ایک قابل غور بات یہ ہے کہ اس عمل سے ایسے مسائل پیدا نہ ہونے دیے جائیں جو اسلامی روح اور تعلیمات کے منافی ہوں۔ ان مسائل میں سب سے پہلا مرحلہ صفائی کا ہے، عموماً لوگ جانور خرید کر اس طرح رکھتے ہیں کہ اس سے گلی محلوں میں گندگی پھیل جاتی ہے۔ بعض لوگ فلیٹوں میں بکرا لاکر باندھتے ہیں جس کی مینگنی اور پیشاب سے جگہ اور فضا دونوں ہی انتہائی گندی ہوجاتی ہے جو پڑوسیوں کے لیے انتہائی ناقابل برداشت ہوتا ہے کیونکہ فلیٹوں میں پہلے ہی صفائی کا کوئی خاص انتظام نہیں ہوتا، پھر دھوپ اور ہوا کا گزر بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، ایسے میں بدبو کا طوفان فلیٹ کے مکینوں کے لیے انتہائی تکلیف کا باعث بن جاتا ہے۔اسی طرح ایسی مضافاتی بستیاں جہاں 60 اور 80 گز کے چھوٹے مکانات اور تنگ گلیاں ہوتی ہیں وہاں بھی کچھ ایسا ہی مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔ ایک بکرا یا گائے لاکر دروازے میں اس طرح باندھ دی جاتی ہے کہ پوری گلی کا راستہ بند ہوجاتا ہے اور جانور کے چارے و پانی کے گرنے سے اس قدر گند اور کیچڑ ہوتا ہے کہ نمازی افراد کا وہاں سے کپڑے بچا کر گزرنا دشوار ہوجاتا ہے۔ بعض افراد تو اس پر بھی بس نہیں کرتے اور محض ایک گائے گلی میں باندھ کر راستہ بھی بند کردیتے ہیں اور یہ سلسلہ پورے ہفتے رہتا ہے جب تک کہ جانور کی قربانی نہ ہوجائے۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ ''صفائی نصف ایمان'' کی بات جاننے کے باوجود علاقے اور شہر کو گندا کرنے کا یہ عمل جانور قربان ہونے کے بعد ختم نہیں ہوتا بلکہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ قربانی کے جانور کا خون محترم بھی ہوتا ہے مگر نہ جانے کیوں ہر دوسری گلی میں جانوروں کو اس طرح ذبح کیا جاتا ہے کہ خون پوری گلی میں برسات کے پانی کی طرح سے پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ گو کہ قربانی کے جانوروں کی آلائشیں سرکاری محکمے والے اٹھالے جاتے ہیں مگر اس کا گند بھی گلی کوچے میں ماحول کو آلودہ کر رہا ہوتا ہے۔ یہ عمل تو کچھ لوگ ہی کرتے ہیں مگر اس سے ہونے والی گندگی سے تمام گھروں کے افراد متاثر ہوتے ہیں اور قربانی کے بعد ہفتوں تک گندگی اور بو ماحول کو پراگندہ بنائے رکھتی ہے اور اگر بارش ہوجائے تو پھر ناقابل بیان تعفن پیدا ہوجاتا ہے۔ایک وقت تھا کہ لوگ قربانی کا جانور ذبح کرنے کے لیے اپنے گھر کا دروازہ نہیں بلکہ کھلی جگہ کا انتخاب کرتے تھے اور وہاں خون پھیلنے سے روکنے کے لیے گڑھا بھی بناتے تھے تاکہ خون کی بے حرمتی بھی نہ ہو اور گندگی بھی نہ پھیلے۔
سوال یہ ہے کہ کیا آج ہم ان باتوں کا خیال نہیں رکھ سکتے؟ جب ہم اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے تو پھر عید قرباں پہ صفائی کا اہتمام کیوں نہیں کرتے؟ جب جانوروں کی خریداری کے لیے لاکھوں روپے خرچ کردیتے ہیں تو تھوڑے سے پیسے صفائی کے اہتمام کے لیے کیوں نہیں رکھ سکتے؟
ہم قربانی کا گوشت عزیز و اقارب اور غربا میں کیوں تقسیم کرتے ہیں؟ اس لیے کہ انھیں بھی خوشیوں میں شریک کریں، ان کی مدد بھی ہوجائے اور باہمی محبت و بھائی چارہ بھی قائم ہو مگر غور کیجیے گلی میں گند پھیلا کر، راستے بند کرکے پڑوسیوں کو جو تکلیف دیتے ہیں کیا اس سے ان کو تکلیف نہیں پہنچتی؟ ان کی دل آزاری نہیں ہوتی؟ یہ کیسا عمل ہے کہ پہلے تکلیف بھی دو پھر گوشت کا کچھ حصہ دے کر ان سے ہمدردی کا ثبوت دو!
ایک عمل چارہ خریدنے کا ہے، آج شہر میں جگہ جگہ ٹریفک جام نظر آتا ہے، معلوم کریں تو اکثر کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ چارہ فروخت ہورہا ہے اور خریدار لب سڑک تو کیا، سڑک کے درمیان ہی گاڑی کھڑی کرکے چارہ خرید رہے ہیں۔ اب کسی کو کوئی بھی ایمرجنسی ہو، اسپتال ہی کیوں نہ پہنچنا ہو، مگر راستہ نہیں ملے گا، کیوں بھئی؟ چارہ جو خریدا جارہا ہے۔
راقم نے یہ کالم انتہائی دل و جان کی گہرائیوں سے لکھا ہے جس کا مقصد اہم مسئلے کی طرف توجہ دلانا ہے، لہٰذا تمام قارئین سے گزارش ہے کہ اس طرف غور کریں اور خود بھی عمل کریں اور اپنے دوستوں، عزیز و اقارب کو بھی متوجہ کریں اور ایک مہذب مسلم قوم ہونے کا ثبوت دیں۔
یہ ایک طویل بحث ہے، بہرکیف بات ہورہی تھی عید قرباں کے جانوروں کو خریدنے کی، ان کی خدمت کرنے کی۔ بلاشبہ یہ ایک مذہبی فریضہ ہے اور قربانی کے عمل کا ایک حصہ بھی ہے لیکن ایک قابل غور بات یہ ہے کہ اس عمل سے ایسے مسائل پیدا نہ ہونے دیے جائیں جو اسلامی روح اور تعلیمات کے منافی ہوں۔ ان مسائل میں سب سے پہلا مرحلہ صفائی کا ہے، عموماً لوگ جانور خرید کر اس طرح رکھتے ہیں کہ اس سے گلی محلوں میں گندگی پھیل جاتی ہے۔ بعض لوگ فلیٹوں میں بکرا لاکر باندھتے ہیں جس کی مینگنی اور پیشاب سے جگہ اور فضا دونوں ہی انتہائی گندی ہوجاتی ہے جو پڑوسیوں کے لیے انتہائی ناقابل برداشت ہوتا ہے کیونکہ فلیٹوں میں پہلے ہی صفائی کا کوئی خاص انتظام نہیں ہوتا، پھر دھوپ اور ہوا کا گزر بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، ایسے میں بدبو کا طوفان فلیٹ کے مکینوں کے لیے انتہائی تکلیف کا باعث بن جاتا ہے۔اسی طرح ایسی مضافاتی بستیاں جہاں 60 اور 80 گز کے چھوٹے مکانات اور تنگ گلیاں ہوتی ہیں وہاں بھی کچھ ایسا ہی مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔ ایک بکرا یا گائے لاکر دروازے میں اس طرح باندھ دی جاتی ہے کہ پوری گلی کا راستہ بند ہوجاتا ہے اور جانور کے چارے و پانی کے گرنے سے اس قدر گند اور کیچڑ ہوتا ہے کہ نمازی افراد کا وہاں سے کپڑے بچا کر گزرنا دشوار ہوجاتا ہے۔ بعض افراد تو اس پر بھی بس نہیں کرتے اور محض ایک گائے گلی میں باندھ کر راستہ بھی بند کردیتے ہیں اور یہ سلسلہ پورے ہفتے رہتا ہے جب تک کہ جانور کی قربانی نہ ہوجائے۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ ''صفائی نصف ایمان'' کی بات جاننے کے باوجود علاقے اور شہر کو گندا کرنے کا یہ عمل جانور قربان ہونے کے بعد ختم نہیں ہوتا بلکہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ قربانی کے جانور کا خون محترم بھی ہوتا ہے مگر نہ جانے کیوں ہر دوسری گلی میں جانوروں کو اس طرح ذبح کیا جاتا ہے کہ خون پوری گلی میں برسات کے پانی کی طرح سے پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ گو کہ قربانی کے جانوروں کی آلائشیں سرکاری محکمے والے اٹھالے جاتے ہیں مگر اس کا گند بھی گلی کوچے میں ماحول کو آلودہ کر رہا ہوتا ہے۔ یہ عمل تو کچھ لوگ ہی کرتے ہیں مگر اس سے ہونے والی گندگی سے تمام گھروں کے افراد متاثر ہوتے ہیں اور قربانی کے بعد ہفتوں تک گندگی اور بو ماحول کو پراگندہ بنائے رکھتی ہے اور اگر بارش ہوجائے تو پھر ناقابل بیان تعفن پیدا ہوجاتا ہے۔ایک وقت تھا کہ لوگ قربانی کا جانور ذبح کرنے کے لیے اپنے گھر کا دروازہ نہیں بلکہ کھلی جگہ کا انتخاب کرتے تھے اور وہاں خون پھیلنے سے روکنے کے لیے گڑھا بھی بناتے تھے تاکہ خون کی بے حرمتی بھی نہ ہو اور گندگی بھی نہ پھیلے۔
سوال یہ ہے کہ کیا آج ہم ان باتوں کا خیال نہیں رکھ سکتے؟ جب ہم اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے تو پھر عید قرباں پہ صفائی کا اہتمام کیوں نہیں کرتے؟ جب جانوروں کی خریداری کے لیے لاکھوں روپے خرچ کردیتے ہیں تو تھوڑے سے پیسے صفائی کے اہتمام کے لیے کیوں نہیں رکھ سکتے؟
ہم قربانی کا گوشت عزیز و اقارب اور غربا میں کیوں تقسیم کرتے ہیں؟ اس لیے کہ انھیں بھی خوشیوں میں شریک کریں، ان کی مدد بھی ہوجائے اور باہمی محبت و بھائی چارہ بھی قائم ہو مگر غور کیجیے گلی میں گند پھیلا کر، راستے بند کرکے پڑوسیوں کو جو تکلیف دیتے ہیں کیا اس سے ان کو تکلیف نہیں پہنچتی؟ ان کی دل آزاری نہیں ہوتی؟ یہ کیسا عمل ہے کہ پہلے تکلیف بھی دو پھر گوشت کا کچھ حصہ دے کر ان سے ہمدردی کا ثبوت دو!
ایک عمل چارہ خریدنے کا ہے، آج شہر میں جگہ جگہ ٹریفک جام نظر آتا ہے، معلوم کریں تو اکثر کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ چارہ فروخت ہورہا ہے اور خریدار لب سڑک تو کیا، سڑک کے درمیان ہی گاڑی کھڑی کرکے چارہ خرید رہے ہیں۔ اب کسی کو کوئی بھی ایمرجنسی ہو، اسپتال ہی کیوں نہ پہنچنا ہو، مگر راستہ نہیں ملے گا، کیوں بھئی؟ چارہ جو خریدا جارہا ہے۔
راقم نے یہ کالم انتہائی دل و جان کی گہرائیوں سے لکھا ہے جس کا مقصد اہم مسئلے کی طرف توجہ دلانا ہے، لہٰذا تمام قارئین سے گزارش ہے کہ اس طرف غور کریں اور خود بھی عمل کریں اور اپنے دوستوں، عزیز و اقارب کو بھی متوجہ کریں اور ایک مہذب مسلم قوم ہونے کا ثبوت دیں۔