ترکی کا شامی سرحد کے ساتھ محفوظ زون بنانے کا منصوبہ
کرد نوجوان امریکیوں کے خلاف جلوس بھی نکال رہے تھے انہیں احساس ہو رہا ہے کہ ان کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے
ترکی نے شام کی سرحد پر 120 کلو میٹر کی پٹی تشکیل کرنے کے منصوبے پر عمل شروع کر دیا تاکہ وہاں شامی مہاجرین کو بسایا جا سکے جب کہ ترک صدر رجب طیب اردوان نے مغربی ممالک پر الزام لگایا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ترکی اپنی اور شام کے سرحدی علاقے کو کردوں سے خالی کرانا چاہتا ہے جن پر ترکی دہشتگردی کا الزام عائد کرتا ہے۔ ترکی کے عسکری ذرایع نے بتایا ہے کہ کرد جنگجو ابتدائی طور پر ابی عاد کے علاقے سے نکل جائیں گے کیونکہ اس علاقے پر ترک فوج نے قبضہ کر لیا ہے۔ امریکا نے ترک فوجی آپریشن کے آغاز پر راس العین کو اپنے دباؤ سے ترکی کے قبضہ سے آزاد کرا لیا تھا۔
ترک صدر نے بار بار کہا ہے کہ وہ اپنی سرحد کے پار 444 کلو میٹر کا علاقہ خالی کرانا چاہتا ہے تاکہ محفوظ زون قائم کی جا سکے لیکن پہلے مرحلے تک ایک چوتھائی علاقہ بھی خالی نہیں کرایا جا سکا۔ ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ ابتدائی طور پر 120 کلو میٹر کی محفوظ پٹی بنائی جائے گی۔ تاہم بعد ازاں محفوظ زون کو 444 کلو میٹر تک توسیع دیدی جائے گی۔
اس مقصد کے لیے علامتی سرحدی علاقہ بھی استعمال کیا جائے گا۔ ترکی نے شام کے ساتھ ملنے والی اپنی سرحد پر 9 اکتوبر کو فوجی کارروائی شروع کی تھی تاکہ کرد باغیوں کو وہاں سے بے دخل کیا جاسکے۔ تاہم ترک صدر نے الزام عائد کیا کہ مغربی ممالک ترکی کے اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کا کر رہے ہیں۔ ترک صدر نے کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ نیٹو کے رکن مغربی ممالک بھی ترکی کی مخالفت میں کھڑے ہو گئے تھے حالانکہ ترکی خود بھی نیٹو کا رکن ہے جب کہ ترکی نے اعلان کیا ہے کہ وہ ڈیڈ لائن کے اختتام تک تمام جنگجوؤں کو علاقے سے نکال دے گا۔
ادھر شام کے جن علاقوں میں کردوں کی اکثریت ہے وہ امریکا کے انخلاء پر بہت غصے میں ہیں۔ انھوں نے امریکی فوجی گاڑیوں پر ٹماٹروں اور آلوؤں سے حملہ کیا ہے۔ کردش ٹی وی پر امریکی فوجیوں کی فوٹیج دکھائی گئی ہے۔ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ لوگ امریکی بکتر بند فوجی گاڑیوں پر آلو ٹماٹر پھینک رہے ہیں۔
کرد نوجوان امریکیوں کے خلاف جلوس بھی نکال رہے تھے۔ کردوں کو احساس ہو رہا ہے کہ ان کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے جس میں سراسر خسارہ کردوں کا ہوا۔ دو ہفتے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ امریکا اس علاقے سے اپنی فوجیں نکال رہا ہے تو کردوں نے اس اعلان کو اپنے خلاف خطرناک سازش سے تعبیر کیا تھا ۔
ترکی اپنی اور شام کے سرحدی علاقے کو کردوں سے خالی کرانا چاہتا ہے جن پر ترکی دہشتگردی کا الزام عائد کرتا ہے۔ ترکی کے عسکری ذرایع نے بتایا ہے کہ کرد جنگجو ابتدائی طور پر ابی عاد کے علاقے سے نکل جائیں گے کیونکہ اس علاقے پر ترک فوج نے قبضہ کر لیا ہے۔ امریکا نے ترک فوجی آپریشن کے آغاز پر راس العین کو اپنے دباؤ سے ترکی کے قبضہ سے آزاد کرا لیا تھا۔
ترک صدر نے بار بار کہا ہے کہ وہ اپنی سرحد کے پار 444 کلو میٹر کا علاقہ خالی کرانا چاہتا ہے تاکہ محفوظ زون قائم کی جا سکے لیکن پہلے مرحلے تک ایک چوتھائی علاقہ بھی خالی نہیں کرایا جا سکا۔ ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ ابتدائی طور پر 120 کلو میٹر کی محفوظ پٹی بنائی جائے گی۔ تاہم بعد ازاں محفوظ زون کو 444 کلو میٹر تک توسیع دیدی جائے گی۔
اس مقصد کے لیے علامتی سرحدی علاقہ بھی استعمال کیا جائے گا۔ ترکی نے شام کے ساتھ ملنے والی اپنی سرحد پر 9 اکتوبر کو فوجی کارروائی شروع کی تھی تاکہ کرد باغیوں کو وہاں سے بے دخل کیا جاسکے۔ تاہم ترک صدر نے الزام عائد کیا کہ مغربی ممالک ترکی کے اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کا کر رہے ہیں۔ ترک صدر نے کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ نیٹو کے رکن مغربی ممالک بھی ترکی کی مخالفت میں کھڑے ہو گئے تھے حالانکہ ترکی خود بھی نیٹو کا رکن ہے جب کہ ترکی نے اعلان کیا ہے کہ وہ ڈیڈ لائن کے اختتام تک تمام جنگجوؤں کو علاقے سے نکال دے گا۔
ادھر شام کے جن علاقوں میں کردوں کی اکثریت ہے وہ امریکا کے انخلاء پر بہت غصے میں ہیں۔ انھوں نے امریکی فوجی گاڑیوں پر ٹماٹروں اور آلوؤں سے حملہ کیا ہے۔ کردش ٹی وی پر امریکی فوجیوں کی فوٹیج دکھائی گئی ہے۔ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ لوگ امریکی بکتر بند فوجی گاڑیوں پر آلو ٹماٹر پھینک رہے ہیں۔
کرد نوجوان امریکیوں کے خلاف جلوس بھی نکال رہے تھے۔ کردوں کو احساس ہو رہا ہے کہ ان کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے جس میں سراسر خسارہ کردوں کا ہوا۔ دو ہفتے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ امریکا اس علاقے سے اپنی فوجیں نکال رہا ہے تو کردوں نے اس اعلان کو اپنے خلاف خطرناک سازش سے تعبیر کیا تھا ۔