ماضی کے دھرنوں اور آزادی مارچ میں فرق سمجھیں

کیا موجودہ حکومت لاشیں گرانے کی متحمل ہو سکتی ہے؟


مزمل سہروردی October 23, 2019
[email protected]

مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ دن بدن کامیابی کی طرف گامزن ہے۔ حکومت کی بوکھلاہٹ مولانا کی کامیابی کو یقینی بنا رہی ہے۔ کامیابی سے میری مراد یہ نہیں ہے کہ حکومت جا رہی ہے لیکن مولانا حکومت کو بوکھلانے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور حکومت کے پاؤں اکھڑ گئے ہیں۔

کنٹینر دینے کا دعویٰ کرنے والوں کے رنگ بدل گئے ہیں۔ سڑکوں پر کنٹینر پہنچ گئے ہیں۔ راستے روکے جا رہے ہیں۔ گرفتاریوں کے لیے لسٹیں بن گئی ہیں۔ حکومت مارچ کو سیاست سے روکنے میں ناکامی کے بعد اب طاقت سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسکو مولانا کی کامیابی اور حکومت کی ناکامی ہی کہا جا سکتا ہے۔ کسی کو امید نہیں تھی کہ مولانا اتنی جلدی اس قدر تیز رنگ جمانے میں کامیاب ہو جائینگے۔

انھوں نے نہ صرف حکومت کو بلکہ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کو بھی چت کر دیا ہے۔ انھوں نے ایک ماحول بنا دیا ہے جس میں سب نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے پیچھے چلنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یہ کامیابی نہیں تو اور کیا ہے۔

مولانا کے مارچ کے اعلان نے جعلی اور اصلی میں فرق بھی واضح کر دیا ہے بالخصوص طاہر القادری اور عمران خان کے دھرنوں کا پول کھل کر سامنے آگیا ہے۔ طاہر القادری اور عمران خان کے دھرنوں کو طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل تھی۔ مولانا کی مدد تو دور کی بات ہے ان کے لیے تو راستے بند کیے جا رہے ہیں۔ وہ دھرنے 126دن میں بھی ہدف حاصل نہیں کر سکے تھے۔ یہاں خوف کے سائے اور بادل بن کر چھا رہے ہیں۔

طاہر القادری کو پاکستانی سیاست کے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی حیثیت حا صل رہی ہے۔ عمران خان احتجاجی سیاست کی اے بی سی سے بھی نابلد تھے۔ عمران خان اور طاہر القادری اسی لیے 126 دن میں ناکام رہے۔ دونوں ملکی سیاسی منظر نامہ میں کل بھی تنہا تھے اور آج بھی تنہا ہیں۔دونوں اپنے انداز سیاست سے کھلے دروازے بھی بند کر لیتے ہیں۔ جب کہ مولانا ایک جید سیاسی رہنما ہیں۔ ان کی جماعت کی احتجاجی سیاست نئی نہیں ہے۔ طاہر القادری اور عمران خان دیگر سیاسی قوتوں کو اپنے ساتھ ملانے سے قاصر رہے جب کہ مولانا اپنی متحارب سیاسی قوتوں کو اپنے ساتھ ملانے کا فن جانتے ہیں۔

عمران خا ن اور طاہر القادری کے علاوہ تحریک لبیک نے بھی دھرنے دیے ہیں۔ لیکن وہ بھی ٹیسٹ ٹیوب دھرنے تھے۔ عمران خان اور طاہر القادری اسلام آباد مطلوبہ تعداد لانے میں ناکام رہے، اسی طرح تحریک لبیک کے دھرنے اور احتجاج بھی تعداد میں کبھی بڑے نہیں رہے ہیں۔ تحریک لبیک بھی ختم ہو گئی۔ طاہر القادری بھی ختم ہو گیا۔ البتہ عمران خان کو اقتدار ملا ہے۔ وہ اقتدار میں کیا کررہے ہیں۔ اس پر بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں کو سیاسی حکومتوں نے شکست دی۔ طاہر القادری کے پہلے دھرنے کو پیپلزپارٹی نے ایک سیاسی معاہدہ سے شکست دی تھی۔ اس موقعے پر بھی طاہر القادری کوئی بہت بڑی تعداد اسلام آباد لانے میں ناکام رہے تھے۔ چند ہزار سے نظام کو لپیٹنا ممکن نہیں تھا جب کہ دوسری دفعہ عمران خان اور طاہر القادری کی جوڑی بنائی گئی۔

کنٹینر الگ الگ تھے لیکن ہدف ایک تھا لیکن یہ جوڑی بھی بہت بڑی تعداد اسلام آباد لانے میں ناکام رہی۔ اس جوڑی کے دھرنوں کو بھی ن لیگ کی حکومت نے سیاسی حکمت عملی سے شکست دی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے دھرنوں کو سیاسی تنہائی کا شکار کر دیا۔ آج عمران خان مولانا کے مارچ کو پارلیمنٹ سے شکست دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

اس مارچ کا سیاسی مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کے پاس کوئی سیاسی حکمت عملی نہیں ہے۔ نواز شریف نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اور دیگر اپوزیشن کو دھرنوں کو ناکام بنانے کے لیے استعمال کیا۔ جب کہ عمران خان اس خوف سے پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں بلا رہے کہ اس سے مارچ کے غبارے میں مزید ہوا بھر جائے گی۔ پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں ہوتا اس کا بھی مولانا کو فائدہ ہوگا اور اگر ہوتا ہے اور اس میں اس مارچ کے حق میں تقاریر ہوتی ہیں تو بھی مولانا کو فائدہ ہوگا۔ اس لیے ابھی تک عمران خان کی حکومت اور ان کے دوستوں کے پاس طاقت کے استعمال کے سواکوئی آپشن نہیں ہے جو اپنی جگہ خطرناک ہے۔

کیا مولانا کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ میری رائے میں یہ بہت مشکل ہوگا۔ ن لیگ کے چند رہنماؤں کو تو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ جیسے کیپٹن صفدر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ لیکن بڑی قیادت کی گرفتاریاں ممکن نظر نہیں آتی ہیں۔ کیا راستے بلاک کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ سندھ کا ہے۔ اگر مارچ کو سندھ میں پی پی پی فری ہینڈ دیتی ہے۔

جیسے بلاول نے اعلان کیا ہے تو پنجاب میں اس کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔ کے پی کے لیے روکنا بھی آسان نہیں ہوگا۔ حکومت بہت مشکل میں نظر آرہی ہے جہاں فری ہینڈ اور کھلے راستے زہر قاتل لگ رہے ہیں، وہاں روکنا بھی کم خطرناک نہیں لگ رہا۔ یہ درست ہے کہ ن لیگ نے بھی دھرنوں کو ناکام بنانے کے لیے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بندے مارے تھے۔

یہ الگ بات ہے کہ اس کا فائدہ ہوا تھا کہ نہیں لیکن کیا موجودہ حکومت لاشیں گرانے کی متحمل ہو سکتی ہے؟ کیا گرفتاریوں کی متحمل ہوسکتی ہے کیا گرفتاریاں لوگوں کو شرکت سے روک سکتی ہیں؟ طاہر القادری نے تو سانحہ ماڈل ٹاؤن ضایع کر دیا۔ وہ سیاسی اور قانونی دونوں محاذوں پر شکست کھا گئے لیکن عمران خان کو مولانا سے ایسی توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ کسی بھی غلطی کو ضایع جانے دیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں