ہپناٹزم اور شعبدہ بازی

اگر ہم کہیں کہ گزشتہ صدی کی ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پیدا ہونے والے اپنے سنہری دور کے ناسٹلجیا میں جی رہے ہیں...

waqar.ahmed@express.com.pk

اگر ہم کہیں کہ گزشتہ صدی کی ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پیدا ہونے والے اپنے سنہری دور کے ناسٹلجیا میں جی رہے ہیں تو شاید غلط نہ ہوگا کہ اس دور کی نہ صرف روایات اب اپنا نشاں کھو چکی ہیں بلکہ اس دور کے معاشرے کے کئی کردار بھی عنقا ہوچکے ہیں۔ ہمارا شمار 80 کی دہائی میں پیدا ہونے والی اس نسل سے ہے جس نے ان روایات کے آخری ایام کا بھرپور ساتھ دیا اور نئی صدی کی تمام خرابیوں کو بھی اپنی آنکھوں سے پنپتا ہوا دیکھا۔ قلم تو کسی اور موضوع کی خاطر اٹھایا تھا لیکن چونکہ انسانی نفسیات بھی معاشرت سے جڑی ہے اس لیے اس کا تذکرہ کیے بنا کیسے رہا جا سکتا ہے۔ بہرحال اس موضوع پر گفتگو پھر کسی وقت کہ آج کا عنوان ہپناٹزم اور شعبدہ بازی سے متعلق ہے۔

بچپن میں والد کے ساتھ جب بازار جاتے اور وہاں بھرے مجمع کے بیچ ایک شخص کو محیرالعقل کمالات دکھاتے دیکھتے تو حیران ہوتے کہ یہ سب کیسے ہوتا ہے؟ لیکن جب کچھ بڑے ہوئے اور علم حاصل کیا تو جانا کہ حقیقی علم اور شعبدہ بازی میں کیا فرق ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک شعبدہ گری کی چیستان رئیس امروہوی کی کتاب سے پڑھنے سے حل ہوئی، جس کا تذکرہ آج اپنے کالم میں کریں گے۔ ان لوگوں سے پیشگی معذرت جو رئیس امروہوی کی تحریر کے اقتباس پر اعتراض کرتے ہیں لیکن ہمارا مطمع نظر علم پھیلانا ہے، غلط تو تب ہو جب ہم رئیس مرحوم کی تحریر کو اپنا بنا کر پیش کریں۔ ہمارے جس کالم میں اقتباسات شامل ہوتے ہیں اس میں رئیس مرحوم یا دیگر کا حوالہ ضرور دیتے ہیں۔

چونکہ صدیوں سے ہم لوگ علم و تحقیق سے بے بہرہ ہیں اور ''نفس انسانی'' کے عجائبات کا مطالعہ صرف اوہام کے نقطہ نظر سے کرتے ہیں، بناء بریں پاکستان میں اب تک تنویم کاری کو جادوگری کا ایک شعبہ اور شعبدہ بازی کا ایک شاخسانہ سمجھا جاتا ہے۔ یقیناً امریکا اور یورپ میں بھی اناڑی ہپناٹسٹ اور شعبدہ باز تنویم کار ہیں لیکن مشرقی ممالک میں تو ہپناٹزم کا تصور سحر کاری اور نظربندی کے بغیر کیا ہی نہیں جاسکتا۔ میں نے خود کراچی کی سڑکوں پر بہت سے شعبدہ گروں کو دیکھا ہے جو ہپناٹزم کے نام پر عجیب عجیب فراڈ اور فریب کرتے ہیں۔ ان کا تنویم کاری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، وہ محض چار سو بیسی اور عیاری ہوتی ہے۔

مختلف علاقوں میں ایسے لوگوں کے منظم گروہ موجود ہیں جو سڑکوں، ریل کی پٹریوں یا جلسوں اور دوسری تقریبات میں اپنی جادو بیانی (بلکہ چرب زبانی کہنا زیادہ مناسب ہوگا) کے ذریعے راہ چلتے لوگوں کو اکٹھا کرلیتے ہیں اور ایک لڑکے کو زمین پر لٹا کر اور اس پر کپڑا ڈال کر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ لڑکے کو مسمریزم یا ہپناٹزم کے ذریعے بے ہوش کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد خود کو عامل اور لڑکے کو معمول قرار دے کر اس سے سوالات دریافت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ دیکھنے والوں کو بتایا جاتا ہے کہ معمول مسمریزم کی کیفیت میں جواب دے رہا ہے، اس طرح وہ نہ صرف شائقین سے سوالات کی فیس بٹور کر ''آمدن'' بناتے ہیں بلکہ ان پر نفسیاتی اور اپنی ساحرانہ علمیت کا رعب ڈال کر اپنی بوگس ادویہ بھی فروخت کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

میں ان لوگوں کے ہتھکنڈوں کا انکشاف کرکے عوام کو ان کی لوٹ سے بچنے کا مشورہ دے رہا ہوں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ مسمریزم اور ہپناٹزم محض دھوکا اور الفاظ و اعداد کا چکر ہے، دوسرے معنی میں مکمل چار سو بیسی۔ ''دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا''۔ یاد رکھیں کہ اگر عامل آپ کے نوٹ کا نمبر دیکھ لے گا تو معمول بھی یہ نمبر بتا دے گا، اگر آپ چپکے سے اپنا نام عامل تنویم کو بتادیں گے تو معمول بھی یہ نام بتادے گا اور آپ جو کچھ عامل سے پوشیدہ رکھیں گے وہ معمول سے بھی پوشیدہ رہے گا۔ اس لیے یہ سب فریب کاری ہے، کوئی جادو وغیرہ نہیں ہے۔ مخفی حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کی ایک خفیہ زبان (کوڈ ورڈز) ہے۔ عامل اور معمول دونوں اس زبان یعنی خفیہ اشارات سے واقف ہوتے ہیں۔ عامل معمول سے سوال کرتا ہے اور اسی سوال میں خود جواب بھی نتھی ہوتا ہے۔ سادہ لوح ان کو ماہر روحانیات سمجھ کر ان کے دام میں آجاتے ہیں اور دن دہاڑے لٹ جاتے ہیں۔


کرنسی نوٹ کے نمبر بتانے کے لیے عامل متذکرہ بالا خفیہ زبان میں گفتگو کرتا ہے اور گفتگو کے دوران بعض مخصوص الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ معمول کو ان الفاظ کا مطلب پہلے ہی سے معلوم ہوتا ہے۔ اصل میں ان کے یہاں نوٹوں کے نمبر اور سکوں کے سن بتانے کے لیے الگ الگ الفاظ مقرر ہیں مثلاً پوچھو سے مراد ہے ایک، صاف سے مراد ہے دو، بیٹا سے مراد ہے تین، بھیا سے مراد ہے چار، سو کے پانچ، لڑکے کے چھ، نیچے سات، اوپر آٹھ، مٹھی کے نو نمبر، فوراً دس، پھر سے مراد صفر، اسی طرح لفظ مہربان سے مراد ہے بیس، غور سے تیس، جلدی سے مراد ہے چالیس، فٹافٹ پچاس، بولو سے ساٹھ، بولو بولو سے ستر، رکو مت سے اسی، گھبرانا نہیں سے نوے اور بولو صاحب سے ایک سو۔ اب اس کی مثال ملاحظہ ہو۔ عامل نے آپ کے نوٹ کا نمبر دیکھا، نمبر ہے تین سو چالیس، تو عامل معمول سے کہے گا ''بیٹا، بھیا، پھر بتائو کہ ان صاحب کے نوٹ کا نمبر کیا ہے؟'' معمول فوراً سمجھ لے گا کہ بیٹا کا مطلب ہے تین، بھیا چار، پھر سے مراد صفر، وہ جھٹ جواب دے گا کہ ان صاحب کے نوٹ کا نمبر ہے تین سو چالیس۔ لوگ یہ جواب سن کر حیران رہ جائیں گے اور بعض دل ہی دل میں عامل کی روحانیت کے قائل ہوجائیں گے۔

اب دوسری مثال لیں۔ فرض کریں آپ کے نوٹ کا نمبر ہے پچھتر لاکھ تینتالیس ہزار چار سو اکسٹھ۔ تو عامل نام نہاد معمول اور خود آپ سے اس طرح باتیں کرے گا۔''نیچے اس نوٹ کا نمبر پڑھو، یار نیچے بیٹھ جائو۔'' اس کے بعد کہے گا ''سوچ کے بھیا اس نوٹ کا نمبر معلوم کرو، بیٹا اس نوٹ کا نمبر معلوم کرو۔'' معمول خاموش رہے گا کیونکہ ابھی تک نیچے، سوچ کے بھیا اور بیٹا، ان چار لفظوں سے اسے صرف 7543 نمبر معلوم ہوئے ہیں۔ اس کے بعد عامل کہے گا بھیا پوچھتا ہوں نمبر معلوم کرو۔ معمول سمجھ گیا بھیا سے مراد چار کا عدد ہے چنانچہ اس نے اب اپنے ذہن میں 75434 قائم کرلیے۔ بعد ازاں عامل کہے گا لڑکے پوچھتا ہوں، معمول چھ کے عدد کا اضافہ کردے گا، پھر عامل کہے گا، پوچھ۔ پوچھ سے ایک کا عدد مراد ہے۔ معمول فوراً کہہ دے گا کہ ان کے نوٹ کا نمبر ہے 7543461۔ اب آپ کی آتش شوق کو تیز کرنے کے لیے وہ معمول سے یہ بھی پوچھے گا کہ بتائو یہ کرنسی نوٹ کتنے کا ہے، اگر دس کا ہے تو یہ سوال ہوگا ''فوراً بتائو'' فوراً کا مطلب دس، معمول جھٹ کہہ دے گا کہ دس روپے کا اور اگر عامل کہے کہ ذرا سوچ کر بتائو، تو جواب ملے گا پانچ روپے کا، کیونکہ سوچ کا مطلب پانچ ہے۔

اس قسم کے شعبدہ بازوں نے درحقیقت ہپناٹزم کو بدنام کردیا ہے، حالانکہ آج کل یہ ''میڈیکل سائنس'' یعنی طبی تعلیم کا ایک مسلمہ اور تصدیق شدہ شعبہ ہے اور ترقی یافتہ ملکوں میں مریض پر تنویمی نیند طاری کرکے سنگین سے سنگین جسمانی آپریشن بھی کیے جاتے ہیں اور تنویمی ترغیبات کے ذریعے عام جسمانی اعصابی اور ذہنی امراض کا علاج تو ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔

(نوٹ:گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں

(www.facebook.com/shayan.tamseel
Load Next Story